❤اگر تم ساتھ ہو❤
از "ایشاءگل"
پارٹ 3
چلیں زارون بھائی جلدی سے پیسے نکالیں۔
معارج سجل اور انعم دودھ پلائی کی رسم کے بعد زارون سے
پیسے مانگنے لگیں۔
دے بھی دیں اب کیا دل نہیں کر رہا آپ کا پیسے نکالنے کو
لیکن آپ اس بھول میں مت رہیے گا کہ ہم اپنی بات سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔
تیس ہزار کا مطلب تیس ہزار۔۔۔
چلیں اب دیں۔
سجل اب باقاعدہ اسٹیج پر زارون کے پاس بیٹھ گئی۔زارون
اس حسن کے پیکر کو دیکھے گیا۔
سجل کو جی بھر کر دیکھنے کے بعد اس نے ثانیہ کی طرف دیکھا۔
جو تیار شیار ہوئی دلہن بننے کے باوجود بھی سادہ سی سجل
سے زیادہ حسین نہیں لگ رہی تھی۔ زارون بھائی اب بس
بھی کر دیں اپنی سالی صاحبہ کو تکنا ورنہ یہ آپ کے دیر کرنے پر تیس ہزار کی بجاۓ
ساٹھ ہزار نکلوا لے گی۔
موحد نے اسے سچی بات بتائی تو آخر کار زارون نے جیب کی
طرف ہاتھ بڑھایا۔
اور سجل کے لئے تیس ہزار کی بجاۓ
واقعی میں ساٹھ ہزار نکل کر اسے تھما دیے تو اس کے ساتھ ساتھ باقی سب بھی حیران رہ
گئے۔
جبکہ ثانیہ دل ہی دل میں غصہ کھا کر رہ گئی کہ اتنے
سارے پیسے کتنے آرام سے نکال کر تھما دیے فضول کے آئے ہیں کیا۔
اس کے دل کو تو ابھی سے کچھ ہونے لگا۔سجل نے جلدی سے
پیسے پکڑ لئے اور بولی۔
ارے واہ زارون بھائی میں نے تو تیس ہزار بولا تھا آپ نے
تو ڈبل دے دیے۔
یہ تو صرف ساٹھ ہزار ہیں اگر تم دو لکھ بھی مانگتی تو
وہ بھی دے دیتا۔
زارون نے اس کے چہرے پر نظریں ٹکائے کہا۔جبکہ روحاب کو
زارون کی آنکھوں میں اک عجیب سی چمک نظر آئی وہی چمک جو مہندی کی رات کو جب زارون
سجل کو بازوؤں سے تھامے کھڑا تھا تب اس کی آنکھوں میں تھی۔
مگر وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ ایسا واقعی میں ہے یا
صرف اسے ہی ایسا لگ رہا ہے۔
سجل تیس ہزار معارج اور انعم کو دے کر بولی اب تم لوگ
اپنے پیسے ادھے ادھے کر لو کیوں کے یہ باقی کے تو میرے ہوئے۔
ارے ایسے کیسے تمہارے ہیں مجھے بھی تو میرا حصہ دو۔موحد
بیچ میں کود پڑا۔
تمہارا حصہ کونسا؟
دیکھو سجل میں بھی تو زارون بھائی کا سالا ہوں اور ہاں
ساٹھ ہزار والی بات میں نے ہی کی تھی تو انھیں ساٹھ ہزار دینے کا خیال آیا۔چلو اب
جلدی سے نکالو میرا حصہ۔ویسے موحد دودھ پلائی کی رسم لڑکیاں کرتی ہیں نا کے لڑکے
اس لئے پیسے بھی انہی کے بنتے ہے مگر پھر بھی یہ لو پکڑو کیا یاد کرو گے تم۔
سجل نے جیسے احسان کرتے ہے ایک ہزار کا نوٹ اس کی
ہتھیلی پر رکھ دیا۔
ارے یہ کیا ہے۔
اس سے بہتر ہے کہ تم دو ہی ناں یہ لو پکڑو رکھو اپنے
پاس ہی۔موحد اسے ہزار واپس پکڑتا وہاں سے جانے لگا جب سجل جلدی سے بولی۔
کیا تکلیف ہے یہ لو پکڑو۔اس نے موحد کو پانچ ہزار کا
نوٹ تھمایا۔
یہ ہوئی ناں بات اب لگ رہی ہو ناں تم میری کزن۔موحد خوش
ہوتا ہوا بولا۔جبکہ سجل بھی اسے دیکھ کر مسکرا دی۔
۔"************************
ثانیہ کی شادی ختم ہوئی تو سب نے سکون کا سانس لیا۔
اور جی بھر کر اپنی تھکاوٹ اتاری۔
سجل نے ثانیہ کی شادی کے اگلے دن ہی اسکے کمرے پر قبضہ
کر لیا اور پھر وہیں ڈیرہ ڈال لیا۔
ثانیہ ویسے تو اپنا جھوٹا بھی کسی کو نا دیتی مگر یہ
سوچ کر کہ وہاں انگلینڈ میں تو میں محلوں جیسے گھر کے بڑے بڑے کمروں میں رہوں گی
پھر بھلا مجھے اس چھوٹے سے کمرے کی کیا ضرورت ہے۔
یہ کمرا سجل کو دے دیا۔
دو مہینے بعد سجل کے پیپرز تھے۔پورا سال تو اس نے مستی
میں گزار دیا۔
مگر اب جبکہ وہ علیحدہ کمرے میں رہتی تھی تو رات گئے تک
پڑھتی رہتی۔
سجل پڑھائی میں اچھی تھی مگر لاپروائی بہت کرتی تھی۔
جب اسے کچھ سمجھ نا آتا تو وہ انعم سے پوچھنے چلی جاتی
اور کہتی کہ تمہارے پڑھاکو ہونے کا یہ تو فائدہ ہے کہ تم سے ہر چیز کا نالج مل
جاتا ہے۔
چلو اب شاباش جلدی سے یہ تھیوڑی سمجھا دو۔سجل کے بار
بار اس کے پاس آنے اور سمجھنے پر انعم اپنی بکس لئے اسی کے پاس آجاتی تا کہ سجل کو
بار بار اٹھ کر آنے کی ضرورت نا پڑے۔
جبکہ ان دونوں کی غیر موجودگی میں معارج رات گئے تک کسی
سے باتیں کرتی رہتی اور انعم کے آنے پر سوتی بن جاتی۔
***************************
باہر موسم بہت خراب تھا تیز ہوا کے ساتھ ساتھ بارش بھی
بہت ہو رہی تھی۔
روحاب جب گھر آیا تو بارہ بج رہے تھے۔
سجل کو رات دیر تک جاگنے پر دوبارہ بھوک لگ جاتی تھی۔اس
لئے وہ کچن میں کھانے کے لئے کچھ ہلکا پھلکا لینے آئی۔
جب وہ کچن سے باہر نکلی تو روحاب سیڑھیاں چڑھتا اوپر جا
رہا تھا۔
روحاب بھائی آپ ابھی آئے ہیں کیا۔۔۔سجل نے پوچھا۔
نہیں دو گھنٹے ہو چکے ہیں بس دروازے پر کھڑا یہی سوچ
رہا تھا کہ اندر جاؤں یا نہیں۔
روحاب کو اس سے اسی جواب کی توقع تھی جبکہ سجل کو بھی
اس سے اسی جواب کی توقع تھی۔ روحاب بھائی کھانا
لاؤں آپ کے لئے۔
نہیں کوئی ضرورت نہیں مجھے بھوک نہیں۔روحاب جواب دیتا
ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
جبکہ سجل اس کے منع کرنے کے باوجود بھی کھانا لے کر اس
کے کمرے میں آگئی۔
سائیڈ ٹیبل پر کھانے کی ٹرے رکھ کر وہ واپس مڑنے لگی جب
روحاب واش روم سے نکلا اور بولا۔
تمہیں منع کر چکا تھا ناں کھانے کے لئے پھر بھی کیوں لے
آئی۔
کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ آپ نے منع مجھے کیا ہے کوئی
اور پوچھتا تو آپ کبھی منع نہیں کرتے۔ مگر غصہ تو آپکو
ہمیشہ مجھ پر آتا ہے ناں تو اس لئے کھانے کو تو منع ناں کریں۔
کھانا کھا لیں روحاب بھائی کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ
اپنے صرف صبح کے ناشتے کے علاوہ کچھ نہیں کھایا۔
روحاب کچھ نا بولا۔
سجل واپس جانے لگی جب اسکا ہاتھ لگنے سے سائیڈ ٹیبل پر
پڑا لیمپ گرنے لگا۔
سجل نے اسکے گرنے سے پہلے ہی اسے سیدھا کر دیا۔تب ہی اس
کی نظر لیمپ کے پاس پڑی سرخ رنگ کی کھلی ڈائری پر پڑی جس پر سکیچ بنا ہوا تھا۔
اس نے ڈائری ہاتھ میں لی اور سکیچ کو غور دیکھنے لگی۔
کیوں کہ یہ سکیچ ثانیہ کا بنایا گیا تھا۔
بلکل اتنے ہی بال تیکھی ناک گال پر بڑا سا تل گلے میں
لاکٹ جو وہ ہر وقت پہنے رکھتی تھی۔اور ساتھ ہی شعر لکھا گیا تھا۔
روحاب نے آگے بڑھ کر جلدی سے اس کے ہاتھ سے ڈائری کھینچ
لی اور بولا۔
تمہیں ذرا بھی مینرز نہیں کہ کسی کی چیز کو اس سے پوچھے
بغیر ہاتھ نہیں لگاتے۔پر تمہیں کیسے معلوم ہوگا عقل ہوگی تو تب ناں۔کیا دیکھ رہی
تھی تم کہ کس کا سکیچ ہے یہ
دیکھ لیا ناں پتا لگ گیا ناں اب جاؤ یہاں سے۔
روحاب کو اسکا اپنی ڈائری کو ہاتھ لگانا بہت ناگوار
گزرا۔
آپ بہت محبت کرتے ہیں ناں ثانی آپی سے مگر اب تو انکی
شادی ہو چکی ہے زارون بھائی سے آپکو انھیں بھول جانا چاہیے۔
سجل نے یہ سوچے بغیر کہ اسکی اس بات سے روحاب کو کتنا
غصہ آسکتا ہے پھر بھی کہہ دی۔
تمہیں مجھے سمجھانے یا بتانے کی ضرورت نہیں کہ مجھے کسے
یاد رکھنا چاہیے اور کسے بھول جانا چاہیے۔میں کسی کو بھی یاد رکھوں یہ تمہارا مسلہ
نہیں ہے اور نا ہی تمہیں اس سے کوئی مطلب ہونا چاہیے۔
مطلب ہے روحاب بھائی وہ میری آپی ہیں اور شادی شدہ ہیں۔
آپ کا کوئی حق نہیں بنتا انھیں دن رات یاد رکھنے کا
انھیں ہر وقت سوچنے کا۔
سجل یہ بھول گئی تھی کہ پہلے جن باتوں کے کرنے کی وجہ
سے وہ روحاب کی ناپسندیدگی مول لے چکی ہے اب بھی وہی کرنے جا رہی ہے۔
میرا دماغ میری سوچیں میں جسے مرضی یاد کروں تمہیں مجھ
سے سوال جواب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔اور جب تک تم یہاں کھڑی رہو گی میرے غصہ میں
اور بھی اضافہ کرتی رہو گی اس لئے بہتر ہے کہ اور کوئی بھی بات کیے بغیر یہاں سے
چلی جاؤ۔
میں نہیں جاؤں گی روحاب بھائی اور تب تک نہیں جاؤں گی
جب تک میں جان نا لوں کہ آخر آپ مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں۔آخر میں آپکو زہر
سے بھی بری کیوں لگتی ہوں۔لوگ تو اپنی زندگی سے تنگ آکر زہر تک کھا لیتے ہیں۔مگر
آپ تو چاہے جتنا مرضی تنگ آجائیں کبھی میری شکل دیکھنا تک پسند نہیں کریں گے۔
آخر کیوں روحاب بھائی آج بتا ہی دیں۔
کیوں کہ تم بھی بلکل اپنی بہن جیسی ہو تم دونوں محبت
کرنے والوں کو سمجھ ہی نہیں سکتیں۔
بلکہ اگر کچھ جانتی بھی ہو تو محبت کرنے والوں کو
ٹھکرانا۔
غلط کرتی ہو تم دونوں اور پھر غلط کا بھرپور ساتھ بھی
دیتی ہو۔
تمہیں بھی اپنی بہن کی طرح دولت عیش و عشرت پسند ہے اسی
کی طرح بڑے بڑے خواب دیکھنا خود غرض مطلبی اسی کی طرح ہو تم۔
کیوں کہ ہر معاملے میں تم اس کا ساتھ دیتی ہو چاہے وہ
غلط ہی کیوں نا ہو۔بے قدری سے ہر کسی کا دل توڑ دینے والی سامنے والے کی تذلیل کر
کے رکھ دینے والی تم اسی کی طرح ہو اسکا غلط بھی تمہاری نظر میں ٹھیک ہے۔تم سجل
نہیں بلکہ ثانیہ ہو۔
اور رہی بات محبت کی تو وہ مجھے اس سے ہے نہیں بلکہ تھی
اب میرے دل میں اس کے لئے صرف اور صرف زہر اور تلخیاں کیوں کے وہ اپنا مقام میری
نظروں میں کھو چکی ہے۔
تم لوگوں کو ظاہر سے میں محبت سخت اور مضبوط نظر آتا
ہوں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ تم دونوں کی زہرآلودہ باتوں نے مجھے اندر سے ختم کر
دیا ہے جلا کر رکھ دیا ہے میرے وجود کو۔
روحاب اسے اس کی بات کا جواب دینے کے بعد خاموش ہوگیا۔
اور پھر ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا تک نہیں جو کہ
آنکھوں میں آنسو لئے اسے حیرانی سے تکے جا رہی تھی۔
آپ ایسا سمجھتے ہیں مجھے۔۔۔
مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میں نے جو باتیں دل سے
نہیں بلکہ صرف اپنی بہن کی حمایت میں کہیں تھیں انکی وجہ سے میں آپکی نظر میں اتنا
گر چکی ہوں کہ آپ نے مجھ پر خود غرض مطلبی اور عیش پرست جیسے الزامات لگا ڈالے۔
مگر خیر آپ کہہ رہے ہیں تو سچ ہی ہوگا کیوں کہ آپ تو
ماہان ہیں ناں آپ نے تو کبھی کچھ غلط کہنا تو دور کی بات کبھی ایسا سوچا تک نہیں
ہینا۔
اب آیندہ سے کوشش ہی کروں گی کہ آپکے سامنے نا ہی آؤں۔
کیوں کہ میں بھی اب مزید اپنی بےعزتی برداشت نہیں کر
سکتی اور نا ہی آپ کے سامنے آکر خود کو مزید گرا ہوا ثابت کرنا چاہتی ہوں۔
سجل دکھ سے بولتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
جبکہ روحاب کو اسکی باتوں سے احساس ہوا کہ وہ شائد کچھ
زیادہ ہی غلط بول گیا ہے وہ سب کہہ گیا ہے جو اسے نہیں کہنا چاہیے تھا۔
*************************
روحاب ٹیرس پر کھڑا کچھ دیر پہلے اس کے اور سجل کے
درمیان ہونے والی باتیں سوچ رہا تھا۔
جب اس کی نظر لان میں پڑی کرسی پر بیٹھے وجود پر پڑی۔وہ
یقیناً سجل تھی جو کہ اس تیز برستی بارش سے بےپرواہ وہاں بیٹھی ہوئی تھی۔
روحاب ٹیرس کا دروازہ بند کرتا نیچے لان میں آگیا۔جب وہ
سجل کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ چہرہ گھٹنوں پر رکھے ہچکیاں لے لے کر رو رہی
تھی۔روحاب کے دل کو ایک دم کچھ ہوا۔
اس نے بلکل نا سوچا تھا کہ اس کی باتوں سے سجل کو کتنی
تکلیف پہنچے گی اور وہ اس طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ جائے گی۔
سجل تم اس طرح بارش میں کیوں بھیگ رہی ہو۔
روحاب نے اسے آواز دی سجل نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے
وہ ظالم کھڑا تھا جس نے ہر بار اسے چوٹ پہنچائی تھی۔
وہ کھڑی ہوئی اور بولی۔
اب کیوں آئے ہیں آپ کیا اب بھی کچھ کہنا باقی رہ گیا
ہے۔
اچھا تو اب یہ کہنے آئے ہوں گے کہ اپنی بہن کی طرح تم
بےشرم اور بےحیا بھی ہو۔
سجل میں ایسا کچھ بھی کہنے نہیں آیا۔روحاب نے اس کی سرخ
ہوتی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ہاں تو پھر کیوں آئے ہیں آپ میں تو ایک بری لڑکی ہوں
میرے سینے میں تو دل ہی نہیں ہے بے حس ہوں میں آپکے مقام سے گر چکی ہوں ناں میں۔تو
پھر ایسی لڑکی سے بات کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے آپکو۔جایے یہاں سے۔سجل تلخ لہجے میں
بولی۔
روحاب نے دیکھا کہ یہ وہی لڑکی تھی جو کبھی اس کے سامنے
نظریں اٹھا کر بات نہیں کرتی تھی۔
بلکہ اس کے سامنے آجانے پر گھبرا جاتی تھی اور اب بے
خوف و بے ڈر اس کے سامنے کھڑی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بول نہیں رہی تھی بلکہ چلا
رہی تھی۔
سجل اندر چلو بارش میں بھیگ کر بیمار ہو جاؤ گی۔روحاب
پہلی دفعہ اس کے ساتھ آرام سے بولا۔
کیوں کہ آخری دفعہ کب بولا تھا یہ تو سجل کو یاد نا
تھا۔
آپکو کب سے فکر ہونے لگی میری بیماری کی۔میں چاہے بیمار
ہوں یا مر جاؤں آپکو میری جھوٹی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔وہ طنزیہ لہجے میں بولی۔
سجل فضول بات مت کرو اور اندر چلو۔روحاب کو اس کی مرنے
والی بات اور غصہ آگیا۔
میں نہیں جاؤں گی تو مطلب نہیں جاؤں گی۔سجل غصے سے منہ
پھیرتی ضد پر اڑ گئی۔
میں آخری دفعہ پوچھ رہا ہوں تم سے. اندر چل رہی ہو یا نہیں۔روحاب نے دو ٹوک انداز میں پوچھا۔
"نہیں"۔۔۔سجل نے بھی دو ٹوک انداز
میں جواب دیا۔
لگتا ہے تم ایسے نہیں مانو گی۔
یہ کیا کر رہے ہیں آپ چھوڑیں میرا ہاتھ۔روحاب اسکا ہاتھ
پکڑ کر اندر لے آیا تو وہ بولی۔
میں نے کہا میرا ہاتھ چھوڑیں۔
لو چھوڑ دیا۔روحاب نے ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑا تو
وہ اپنا ہاتھ مسلنے لگی۔
بہت برے ہیں آپ بہت ہی برے۔سجل یہ کہتے ہوئے پھر سے
رونے لگی۔
تم مجھے برا سمجھو یا اچھا مگر میری ایک بات کان کھول
کر سن لو اگر دوبارہ تم مجھے لان میں بھٹکتی ہوئی نظر آئی اب تو میں نے کچھ نہیں
کہا مگر تب ضرور برا بن کر دکھاؤں گا۔اور نا ہی مجھے تمہارے یہ بھیگے ہوئے کپڑے
نظر آئیں جا کر چینج کرو انہیں۔
روحاب کو معلوم تھا کہ سجل پر ہمیشہ سے اسکا غصہ ہی کام
آیا ہے اس لئے اسے وارن کرتا ہوا اپنے کمرے میں آگیا۔
۔************************
میں نے خوامخوا ہی سجل پر اتنا غصہ کر دیا کچھ زیادہ ہی
غلط باتیں سنا دیں اسے جبکہ اسکا کوئی قصور ہی نہیں۔
اس نے جو بھی باتیں کی تھیں صرف اور صرف ثانیہ کی حمایت
میں کی صرف اس کی محبت میں اور تو اور اس پر دل توڑنے کا الزام بھی لگا دیا۔
جبکہ سب کو معلوم ہے کہ وہ جتنی بھی شرارتی کیوں ناں
سہی مگر کبھی اپنی شرارت سے یا ویسے بھی کسی کا دل نہیں توڑا۔
جبکہ میں نے جب جب وہ میرے سامنے آئی ہے تب تب کچھ نا
کچھ کہہ کر اسکا دل توڑا ہے مگر اس نے پھر بھی کبھی میری کوئی بات دل میں رکھ کر
اسکا برا نہیں جانا اسے ہمیشہ بھلا دیا۔
اور ایک میں ہوں کہ اب تک انہی باتوں کو دل میں لئے
بیٹھا ہوں۔
اس نے کہا تھا کہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں آپی۔
یعنی جو کچھ بھی اس نے کہا صرف اپنی آپی کی نظر میں
ٹھیک ہونے پر کہا۔
میں جانتا ہوں کہ سجل کا کوئی قصور نہیں ہے کیوں کہ وہ
جو کچھ بھی کہتی ہے ثانیہ کی حمایت میں کہتی ہے۔
وہ جو کچھ بھی کرتی ہے صرف اس کی محبت میں۔مگر سجل بھی
تو سمجھے کہ وہ جس کی محبت میں کسی کی نظر میں بری بنتی ہے اسکو اسکی رتی بھر بھی
پرواہ نہیں۔
وہ ثانیہ کی محبت میں چاہے کچھ بھی کر لے مگر وہ خوش
نہیں ہو سکتی۔
روحاب یہی سب سوچتا بیڈ سے اٹھا اور اپنے کمرے سے نکلتا
ہوا ثانیہ کے کمرے کی طرف آیا جو کہ اب سجل کا تھا۔
اس نے کمرے میں دیکھا تو سجل کہیں بھی نہیں تھی وہ
سمجھا شاید ٹیرس پر ہوگی اس لئے آگے بڑھا۔
مگر سجل بیڈ کی دوسری سائیڈ سے ٹیک لگاۓ
زمین پر بیٹھی تھی۔
روحاب اس کے پاس آیا۔اور اس کے ساتھ ہی زمین پر بیٹھ
گیا۔
اس سے پہلے وہ کبھی بھی خود سے سجل کے پاس نہیں آیا
تھا۔سجل نے ابھی تک کپڑے نہیں بدلے تھے وہ ابھی بھی انہی بھیگے کپڑوں میں بیٹھی
نجانے کن سوچوں میں گم تھی۔
آنکھوں سے آنسوؤں کی لکیر ابھی بھی بہہ رہی تھی۔
سجل تم نے ابھی تک کپڑے چینج کیوں نہیں کیے۔
سجل نے چونک کر دیکھا تو روحاب اس کے بلکل پاس بیٹھا
ہوا تھا۔
اس نے بغیر کوئی جواب دیے اٹھنا چاہا تو روحاب نے اس کا
ہاتھ پکڑ کر دوبارہ واپس بیٹھا دیا اور بولا۔
دیکھو سجل میں باہر سے تمہیں جتنا سخت اور اکڑو نظر آتا
ہوں اتنا ہوں نہیں۔
ہاں اگر ہوں بھی تو صرف برے لوگوں کے لئے۔مجھے اپنی غلط
باتوں کا احساس ہے۔
میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ میں تم سے نفرت بلکل بھی
نہیں کرتا۔
ہاں مگر میرے دل میں تمہارے لئے ناپسندیدگی ضرور پیدا
ہو گئی تھی ان باتوں کی وجہ سے جو کہ تم نے صرف ثانیہ کی حمایت میں کی تھیں نا کہ
اپنے دل سے۔
میں تم پر غصہ کرتا ہوں کیوں کہ تم میرا غصہ اور میری
ڈانٹ چپ چاپ سن لیتی ہو برداشت کر لیتی ہو۔
اگر تم وہ سب برداشت نا کرتی اور آگے سے بولتی تو شاید
میں تمہیں دوبارہ ڈانٹتا بھی نہیں۔
مگر خیر میری ڈانٹ اتنی غلط بھی نہیں ہوتی کیوں کہ
تمہاری شرارتیں ہی ایسی ہوتی ہیں۔
مگر آج کی باتوں کے لئے میں یعنی اکڑو خان تم سے معافی
مانگتا ہوں۔
"ایم ریلی سوری سجل"
میں نے جو بھی کہا اس کے لئے کیوں کہ تم ویسی بلکل بھی
نہیں ہو جیسا میں سوچتا آیا ہوں۔
میں تو ہمیشہ تمہیں غلط ہی سمجھتا رہا کبھی ان باتوں کو
سائیڈ پر رکھ کر تمہیں دیکھا ہی نہیں۔
لیکن آج تم نے اور تمہاری باتوں نے مجھے یہ سوچنے پر
مجبور کر دیا کہ میں غلط تھا۔
ایک گھر میں رہنے کے باوجود میں نے یہ جانا ہی نہیں کہ
تم کتنی اچھی ہو۔
روحاب کی اس آخری بات پر سجل نے اپنے بازو پر چٹکی کاٹی
کہ کہیں وہ خواب تو نہیں دیکھ رہی۔
مگر چٹکی کاٹنے پر اس کے منہ سے سی کی آواز نکلی۔تب اسے
یقین آیا کہ یہ خواب نہیں ہے۔
روحاب جو ایک دو لا ئینوں سے زیادہ بات نہیں کرتا تھا
آج اتنا کچھ بولنے کے بعد معافی بھی مانگ رہا تھا۔
"حیرت ہے یہ تو معجزہ ہوگیا"
روحاب بھائی معافی مانگ رہے ہیں اور وہ بھی مجھ سے یعنی
آج معلوم ہوا کہ احساس نام کی چیز ان میں بھی موجود ہے۔
سجل میں تم سے بات کر رہا ہوں روحاب نے اس کی ساکت
آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہراتے ہوئے اس اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا۔
کیا کہہ رہے تھے آپ۔سجل نے دوبارہ اپنی تسلی کے لئے
پوچھا۔
میں نے کہا کہ تم ویسی بلکل بھی نہیں ہو جیسا میں نے
سمجھا۔ایم سوری ان سب باتوں کے لئے جنہوں نے تمہیں ہرٹ کیا۔
سجل کو آج روحاب کا الگ ہی روپ دکھائی دیا۔
سوری تو مجھے کہنا چاہیے روحاب بھائی۔
میں اکثر سوچتی تھی کہ اپنی ان سب باتوں کے لئے آپ سے
معافی مانگ لوں۔
مگر اس بات سے ڈرتی تھی کہ آپ تو اس بارے میں ذکر ہی
نہیں کرنا چاہتے ہوں گےکہیں میرے سوری کہنے پر آپکو اور غصہ ہی نا آجائے۔
تم ایک دفعہ ہمت کر کے آتی تو سہی شاید میرا غصہ تب ہی
ختم ہو جاتا جو تب سے لے کر اب تک تھا۔
یعنی روحاب نے یہ بات کہہ کر یہ بتا دیا تھا کہ اسکا
غصہ تب سے لے کر اب تک ہی تھا آج کے بعد نہیں۔روحاب مسکرا رہا تھا جبکہ سجل اسے
آنکھوں میں حیرت لئے دیکھے گئی۔
روحاب بھائی مجھے دیکھ کر مسکرا رہے ہیں حیرت سے کہیں
میں بیہوش ہی نا ہو جاؤں۔
سجل یہی سوچ رہی تھی کہ اچانک لائٹ چلی گئی۔باہر موسم
بہت خراب تھا کمرے کی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں اور پردے ہوا کی وجہ سے بار بار اڑ
رہے تھے۔
سجل کو اندھیرے سے بہت ڈر لگتا تھا وہ تھوڑے بہت
اندھیرے میں تو رہ لیتی تھی مگر جب مکمل اندھیرا ہوتا تو اسکی سانس رکنے لگتی۔
لائٹ بند ہونے کی وجہ سے ایک تو وہ پہلے ہی ڈر گئی تھی
اوپر سے بادل گرجنا شروع ہو گئے۔
سجل ڈر کے مارے بے اختیار روحاب کے سینے سے جا لگی۔
ایسے موسم میں ہمیشہ معارج اور انعم اس کے ساتھ ہوتی
تھیں تو وہ انہیں گلے لگا لیتی تھی اور شاید ابھی بھی وہ اسی بھول میں تھی۔
مگر جب اسے احساس ہوا تو جلدی سے بولی۔
روحاب بھائی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔
روحاب کے دل میں ایک دم کوئی خیال آیا۔
تین سال پہلے کچھ ایسا ہی منظر تھا جب ثانیہ ڈر کے مارے
اس کے گلے لگ گئی تھی اور کہنے لگی .
مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے روحاب۔
اور وہی وہ لمحہ تھا جب روحاب کے دل میں ثانیہ کی محبت
کا پودا لگ گیا اور پھر آہستہ آہستہ وہ بڑا ہوتا گیا۔
مگر جس کی محبت کا پودا وہ دل میں لگاۓ
بیٹھا تھا اسی نے وہ پودا جڑوں سمیٹ اکھاڑ کر پھینک دیا۔
اور اب سجل اس کے سینے سے لگی وہی کہہ رہی تھی۔
روحاب نے دھیرے سے اسے خود سے الگ کیا اور بولا۔
ویسے تو کبھی لائٹ نہیں جاتی مجھے تو لگتا ہے کہ مین
سوئچ میں کوئی پرابلم ہو گئی ہے میں دیکھتا ہوں۔
میں بھی چلوں گی آپ کے ساتھ میں اکیلی یہاں نہیں رک
سکتی اور وہ بھی اندھیرے میں۔
روحاب اٹھنے لگا جب سجل نے بھی اٹھنا چاہا۔
ہاں آجاؤ۔
روحاب نے موبائل کی ٹارچ لائٹ آن کی اور اسے اپنے ساتھ
آنے کا بولا۔
وہ دونوں سیڑھیوں کے نیچے لگے مین سوئچ کے پاس آئے۔
روحاب نے اسے موبائل پکڑا کر روشنی مین سوئچ کی طرف
رکھنے کو کہا۔
جبکہ سجل روشنی اس کی طرف کیے اسے دیکھنے لگی اور سوچنے
لگی۔
روحاب بھائی دل کے کتنے اچھے ہیں ناں بس میری وجہ سے ہی
مجھ سے اتنے تلخ رہتے تھے۔
سجل بہتر ہوگا اگر تم لائٹ میرے چہرے پر مارنے کی بجاۓ
مین سوئچ کی طرف رکھو۔
روحاب نے اسکو ابھی تک لائٹ ایک ہی پوزیشن میں اس کے
چہرے کی طرف رکھے دیکھا تو بولا۔
جی روحاب بھائی۔
سجل نے لائٹ فوراً مین سوئچ کی طرف کر دی۔
اف کیا مصیبت ہے۔روحاب اپنا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔
کیا ہوا روحاب بھائی کرنٹ لگ گئی کیا جلدی سے پیچھے
ہٹیں یہاں سے۔
اوهو سجل تم تو چپ کرو کوئی کرنٹ ورنٹ نہیں لگی مجھے
دروازہ اکھرا ہوا ہے اسکا تھوڑا سا وہی لگا ہے۔کہہ بھی رہا تھا تم سے کہ لائٹ اس
طرف رکھو مگر تم تو کان بند کیے کھڑی ہو۔
اب صبح ٹھیک کرنا ہے اس دروازے کو یاد کروا دینا مجھے
اور اگر میں نا ہوا تو موحد سے یہ کام کرنے کے لئے کہہ دینا سمجھ آئی۔
جی روحاب بھائی۔سجل نے کسی فرمابردار بچے کی طرح سر ہلا
دیا۔
روحاب نے مین سوئچ چیک کرنے کے بعد اسکا مین بٹن جو کہ
اس نے بند کیا تھا اب آن کر دیا صحن کا زیرو بلب جگمگا اٹھا۔
"اچھو"سجل نے چھینک ماری اور پھر
ایک نہیں دو نہیں اکٹھی چار۔
اس کی چھینکوں کی آواز پورے گھر میں گھونج اٹھی۔
تم اوپر والوں کو نا سہی مگر لگتا ہے نیچے والوں کو
ضرور اٹھا کر چھوڑو گی۔
اور اس سے پہلے کہ وہ تمہاری مزید چھینکوں سے اٹھیں
اپنے کمرے میں چلو اور سونے کی تیاری کرو دو بج چکے ہیں۔
روحاب نے ٹائم دیکھا اور اسکو کہتا ہوا خود بھی اوپر
آگیا۔
سجل کے ہاتھ سے موبائل لے کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ
گیا۔
جبکہ سجل اسکی پشت کو دیکھنے لگی اور دروازے کے ساتھ
ٹیک لگا کر کھڑا ہونے لگی۔
مگر دھرم سے نیچے گری۔
"آہ"
اپنے کمرے کی طرف جاتا روحاب اسکی آواز پر واپس مرا اور
پوچھنے لگا۔
کیا ہوا سجل۔
کچھ نہیں روحاب بھائی وہ بس جوتا گیلا ہونے کی وجہ سے
پاؤں پھسل گیا۔
اس لئے کب سے کہہ رہا تھا کہ اپنا حلیہ درست کرو۔
سجل جلدی سے اٹھی دروازہ بند کر کے واش روم میں گس گئی۔
اب اس سے کیا کہتی کہ آپکو دیکھنے کے چکر میں کھلے
دروازے کا پتا ہی نہیں چلا۔
*************************
یہ ایک کھنڈر نما جگہ تھی جہاں جھاڑیاں ہی جھاڑیاں
تھیں۔
سجل وہاں لگے درخت کے پاس کھڑی تھی۔ارد گرد آگ ہی آگ
لگی ہوئی تھی۔ڈر کے مارے سجل کانپ رہی تھی۔وہ آگ آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہی
تھی۔
ارد گرد سے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھیں۔سجل میں اتنی ہمت
نہیں تھی کہ ادھر سے ادھر ہل کر خود کو آگ سے بچا سکے۔
جب آگ بلکل اس کے قریب پہنچ گئی تو کسی مہربان ہاتھ نے
اسے جلدی سے اپنی طرف کھینچ لیا۔
سجل آپی کیا ہوا کیوں چیخیں مار رہی ہیں۔انعم اس کی چیخ
سن کر اٹھ بیٹھی تھی۔
سجل نے ارد گرد دیکھا تو وہ اس کا کمرہ تھا۔انعم آج
پڑھتے پڑھتے اسی کے ساتھ سو گئی تھی۔
انعم میں نے خواب دیکھا اور وہ بھی بہت برا اور ڈراؤنا۔
آپی آپ آج سارا دن خوفناک ناول پڑھتی رہی ہیں ناں شاید
اسی لئے آپکو ایسا خواب آیا ہے آپ یہ پانی پییں اور سو جائیں۔
سجل نے چپ چاپ پانی پیا اور لیٹ گئی۔
یہ خواب آج سارا دن خوفناک ناول پڑھنے کی وجہ سے نہیں
آیا تھا۔یہ خواب تو اسے کئی دنوں سے مسلسل آرہا تھا۔
اور وہ روز چیخ مار کر اٹھ جاتی تھی۔اور پھر اس کے لئے
دوبارہ سونا مشکل ہو جاتا تھا۔
مگر آج انعم اس کے ساتھ تھی اس نے انعم کے گرد بازو
حائل کر دیا اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔انعم نے اس کے ساتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا
جو کہ ٹھنڈا ہو رہا تھا۔
انعم جانتی تھی کہ اب اس کو مشکل سے ہی نیند آئے گی اس
لئے اسے تھپکی دینے لگی تا کہ وہ جلدی ہی سو جائے۔
**************************
سجل باجی جی موحد جی کہاں ہیں۔حسینہ نے موحد کو گھر نا
پا کر سجل سے پوچھا۔
حسینہ ان کے سامنے والے گھر میں کام کرتی تھی وہ بچپن
سے وہیں رہتی تھی۔
اسکا دماغی توازن کچھ ٹھیک نہیں تھا۔
جب بھی کام سے فارغ ہوتی تو یہاں چلی آتی یا جب بھی اسے
معلوم ہوتا کہ موحد اس وقت گھر پر ہے تو کام پورا کرنے کی بجاۓ
اسے ادھورا چھوڑ کر ہی چلی آتی۔
اور ابھی بھی وہ ایسے ہی آئی تھی۔
موحد بعض دفعہ تو اس سے بات کر لیتا مگر کبھی کبھی اسے
دیکھتے ہی گھر سے بھاگ نکلتا اور جب تک وہ چلی نا جاتی واپس نا آتا۔
ابھی بھی وہ بلی کی طرح دھیمے قدم اٹھاتا باہر کی طرف
نکل رہا تھا جب سجل بولی۔
ارے موحد تو وہ رہا سجل نے باہر نکلتے ہوئے موحد کی طرف
اشارہ کیا۔
حسینہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں موحد ایک قدم زمین پر
اور دوسرا ہوا میں لٹکائے اسٹیچو بنا کھڑا تھا۔
موحد نے نظریں گھما کر سجل کو ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا
ہو
"کوئی نہیں بیٹا تمہیں تو میں دیکھ ہی
لوں گا موقع پر ہی بدلہ لیتی ہو تم"
جبکہ سجل اس کے چہرے پر آئے تاثرات کے مزے لینے لگی۔
حسینہ موحد کی طرف جانے لگی تو موحد نے وہی سے کہا۔
ارے حسینہ کماری تم کیوں زحمت کر رہی ہو قدم اٹھانے کی
میں آجاتا ہوں نا تمہارے پاس۔
ہائے موحد جی کتنے اچھے ہیں ناں آپ سچ میں۔حسینہ خوشی
سے بولی۔
کیسی ہو تم حسینہ۔موحد نے اس کے نام پر زور دیتے ہوئے
پوچھا۔
کیوں کہ نام تو اسکا حسینہ تھا مگر اپنے نام کی طرح وہ
حسین بلکل بھی نہیں تھی۔مگر شمار وہ خود کو دنیا کی حسین ترین لڑکیوں میں کرتی
تھی۔
میں تو جی بلکل بھی ٹھیک نہیں کام کر کر کے بور ہو جاتی
ہوں مگر جب آپکو دیکھتی ہوں ناں تو بلکل ٹھیک ہو جاتی ہوں ساری بوریت ختم ہو جاتی
ہے۔موحد جی"آئی لو یو سو مچ"
آپ مجھ سے شادی کر لیں ناں اور مجھے اس گھر میں لے آئیں
کیوں کہ بیگم صاحبہ کے ہاں میرے بلکل دل نہیں لگتا اداس ہو جاتی ہوں ناں آپ کے
بغیر۔حسینہ نے بڑے مزے سے یہ بات کہہ تو دی مگر اس کے پرپوزل سے موحد کا دل کیا
پاس پڑا گلدان اپنے سر پر دے مارے کہ اس نے حال ہی کیوں پوچھا اس حسینہ کا۔
تم اتنا پیار کرتی ہو مجھ سے حسینہ ہائے قسم سے میں تو
خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا ہوں۔
معارج ہاتھ میں پانی کا گلاس لئے ابھی لاؤنج میں آئی
تھی مگر موحد کی اس بات سے پانی پیتی معارج کے منہ سے پانی کا فوارہ چھوٹا اور
ساتھ ہی ساتھ ہنسی کا بھی۔
موحد حسینہ کی جھوٹی تعریفیں کرتا جا رہا تھا جبکہ
حسینہ شرماہت کے مارے اپنا آدھا دوپٹہ تک کھا گئی۔
ویسے حسینہ تم کتنی حسین ہو ناں تمہارے حسن پر ایک گانا
تو بنتا ہے۔موحد نے اس کی روکھی اور سیاہ رنگت کو دیکھتے ہوئے گانا شروع کیا.
"میں اگر کہوں تم سا حسین کائنات میں
نہیں ہے کہیں تعریف یہ بھی تو سچ ہے کچھ بھی نہیں۔۔۔
کسی زبان میں وہ لفظ ہی نہیں کہ جن میں تم ہو کیا تمہیں
بتا سکوں۔
(واقعی
میں کسی بھی زبان میں وہ ہی نہیں جن سے تمہاری تعریف کی جا سکے موحد نے دل میں
جلتے ہوئے کہا)
موحد گانا گا کر چپ ہوا تو پورے لاؤنج میں قہقوں کی
آواز گھونجنے لگی جن میں انعم کی آواز بھی شامل تھی۔
جبکہ حسینہ خوشی سے پاگل ہوتی ہوئی دونوں ہاتھوں میں
منہ چھپا کر دروازے کی طرف بھاگ گئی۔جس پر موحد نے دونوں ہاتھ اٹھا کر شکر ادا کیا
اور پھر سجل کی طرف ایسے دیکھتا ہوا کہ اب بچو تم اس کی طرف آیا۔
سجل اس کی نظریں پڑھتی بڑے ابا کے کمرے کی طرف بھاگ
گئی۔
**************************
معارج اور سجل یونیورسٹی سے باہر نکل آئیں موحد ابھی
بھی اندر ہی تھا۔
ایک تو یہ موحد بھی ناں یونیورسٹی کے پورے وقت دوستوں
کے ساتھ ہی ہوتا ہے مگر پھر بھی چھٹی کے وقت اسکا گھر جانے کو دل نہیں کرتا۔
ہاں اور نہیں تو کیا۔سجل نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی
اور پھر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
تب ہی اس کی نظر فٹ پاتھ پر بیٹھے با با جی پر پڑی۔
اس نے دیکھا تھا کہ اکثر ان کے پاس کئی لوگ موجود ہوتے
تھے۔
یونیورسٹی کی کچھ لڑکیاں اور لڑکے بھی چھٹی کے بعد اکثر
ان کے پاس جمع ہو جاتے تھے۔
معارج یہ ان با با جی کے پاس ہر وقت لوگ کیوں جمع رہتے
ہیں۔
سجل نے معارج سے پوچھا تو معارج نے اسے بتایا کہ اصل
میں یہ جو با با جی ہیں ناں یہ خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں۔اس لئے دور دور سے لوگ
ان سے اپنے خوابوں کی تعبیر جاننے آتے ہیں۔
اچھا یعنی اس کا مطلب ہے کہ مجھے بھی اپنے خواب کی
تعبیر ان سے جاننے کو مل سکتی ہے۔چلو آؤ چلیں ان کے پاس۔
سجل اسے اپنے ساتھ آنے کا کہتی ہوئی فٹ پاتھ پر بیٹھے
ہوئے با با جی کے پاس آگئی۔
بابا جی میں نے سنا ہے کہ آپ خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں
مجھے بھی میرے خواب کی تعبیر جاننی ہے۔
"خواب بتاؤ بچے"
بابا جی مجھے کچھ دنوں سے یہ خواب مسلسل آرہا ہے کہ میں
ایک کھنڈر نما سے گھر میں موجود ہوں جہاں جھاڑیاں ہی جھاڑیاں ہیں۔مجھے ایک درخت کے
ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور پھر میرے ارد گرد آگ لگا دی جاتی ہے۔میں چیختی چلاتی
ہوں مگر کوئی نہیں سنتا۔جبکہ ارد گرد قہقے گھونج رہے ہوتے ہیں۔آگ آہستہ آہستہ میرے
قریب آتی ہے۔جب وہ بلکل میرے پاس آ جاتی ہے تو کوئی جلدی سے مجھے اس درخت کی گرفت
سے آزاد کرا کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔اور تب ہی میری آنکھ کھل جاتی ہے اور میں
دیکھ نہیں پاتی کہ وہ کون ہے۔
با با جی نے اسکا خواب سننے کے بعد آنکھیں بند کیں اور
"ہوں" کہتے ہوئے سر ہلایا۔
سجل نے دیکھا کہ جیسے وہ کسی گہری سوچ میں گم ہیں۔
کچھ دیر بعد با با جی نے آنکھیں کھولیں اور بولے۔
"خطرہ"۔۔۔۔۔
یہ خطرہ ٹلے گا نہیں اسکا سامنا تجھے کرنا ہی پڑے گا
ہاں مگر اس خطرے سے تجھے نقصان نہیں پہنچے گا۔
وہ آگ تیرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی جب تک وہ تیرے ساتھ
ہے۔
کون با با جی۔
وہی جو تیرے لئے بنا ہے وہی جو تجھے ہر مشکل سے نکالے
گا۔ہر خطرے کو تیرے سامنے آنے سے پہلے اسکا سامنا کرنا پڑے گا۔اور اسکا سامنا کرنے
کے بعد کوئی خطرہ تیری طرف کا رخ ہی نہیں کر سکے گا۔
ایسا کون ہے جو میرے لئے خود کو خطرے میں ڈالے گا۔سجل
جان نا پائی کے آخر ایسا کون ہو سکتا ہے اس لئے دوبارہ پوچھنے لگی۔
وہی جس کا کام ہی خطروں سے کھیلنا ہے وہ ان کا سامنا
کرتا آیا ہے اور آگے بھی کرتا آئے گا۔اور تجھے جلد ہی یہ معلوم ہو جاۓ
گا کہ وہ کون ہے مگر ہے تیرے آس پاس ہی۔بابا جی اتنا کہہ کر چپ ہو گئے۔
او بی بی سائیڈ پر ہو بھی جاؤ ہمیں بھی کچھ پوچھنا ہے
با با جی سے۔سجل کے پیچھے کھڑی عورت نے اسے سائیڈ پر ہونے کا کہا تو وہ سائیڈ پر
ہونے کی بجاۓ
وہاں سے واپس ہی آگئی۔
موحد گاڑی کے پاس کھڑا ان کا انتظار کر رہا تھا۔
کہاں چلی گئیں تھیں تم دونوں کچھ معلوم بھی ہے کب سے
یہاں کھڑا انتظار کر رہا ہوں۔موحد انہیں دیکھتے ہی شروع ہوگیا۔
اچھا بس اب زیادہ جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں دو منٹ ہوئے
نہیں تمہیں انتظار کرتے اور بول ایسے رہے ہو جیسے دو گھنٹے ہو گئے ہوں۔اور ہم جو
روز اتنی اتنی دیر تک کھڑے ہو کر تمہارا انتظار کرتے ہیں وہ کس کھاتے میں جاتا ہے
ہم نے تو کبھی کچھ نہیں کہا بتاؤ ذرا۔
سجل کی بات پر موحد بغیر کوئی جواب دیے گاڑی میں بیٹھ
گیا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔
اسکا مطلب یہ کہ وہ جلد از جلد گھر جانا چاہتا تھا۔سجل
اور معارج بھی ایک منٹ کی دیر کیے بغیر گاڑی میں بیٹھ گئیں۔
******************************
اسلام و علیکم زارون بھائی کیسے ہیں آپ۔سجل نے لاؤنج
میں داخل ہوتے ہوئے اونچی آواز میں سلام کیا۔
وعلیکم اسلام میں بلکل ٹھیک ہوں تم یہ بتاؤ کے آج چاند
کہاں سے نکل آیا۔
ارے زارون بھائی آپکو اتنا بھی نہیں پتا ظاہر ہے جہاں
سے روز نکلتا ہے آج بھی وہی سے نکلا ہوگا بلکہ ابھی تو آرام فرما رہا ہوگا رات میں
نکلے گا۔سجل نے نا سمجھی سے جواب دیا۔
اوفو میرا مطلب ہے کہ آج اتنے دنوں بعد تمہیں اپنی صورت
دکھانے کا خیال کیسے آیا۔
مجھے معلوم ہوا کہ ابیہا آپی آئی ہوئی ہیں تو میں چلی
آئی کہاں ہیں وہ۔سجل اس کے پاس ہی صوفے اور بیٹھ گئی۔
وہ شاید نہا رہی ہے۔تم یہ بتاؤ کہ صرف ابیہا سے ہی ملنے
آئی ہو کسی اور سے نہیں۔زارون نے کہا۔
مگر سجل رہی بیوقوف فوراً بولی۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے سب سے ملنے آئی ہوں اور مل کے ہی
جاؤں گی۔
تو پھر ملو ناں زارون نے دھیرے سے کہا۔
مگر سجل اسکی ہلکی سی آواز سن نا پائی اور بولی۔
جی زارون بھائی کیا کہا آپ نے۔
کچھ نہیں تم یہ بتاؤ کہ یہ تمہارے ہاتھ پر کیا
ہوا۔زارون نے زخم کے بہانے اس کا ہاتھ تھام لیا اور پوچھنے لگا۔
جل گیا تھا کپڑے پریس کر رہی تھی تو استری لگ گئی۔
تمہارا دھیان کہاں ہوتا ہے سجل دوائی لگائی اس پر یا
نہیں۔زارون اب اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے سہلانے لگا۔
"نہیں لگائی"
ارے زارون بھائی کدھر گم ہیں آپ. کب سے آپکو فون کالز کر رہا ہوں مگر آپکی طرف سے کوئی رسپونس ہی
نہیں۔موحد لاؤنج میں آتے ہوئے بولا۔
زارون کا سجل کا ہاتھ پکڑنا اسے پیار بھری نظروں سے
دیکھنا اور پھر اسکا ہاتھ سہلانا موحد کو بلکل اچھا نا لگا۔اس لئے آتے ہی اونچی
آواز میں بولا۔
یار موبائل تو کمرے میں پڑا ہوگا مگر تم بتاؤ خیریت تھی
جو کالز پر کالز کر رہے تھے۔زارون نے اسے دیکھتے ہی سجل کا ہاتھ چھوڑ دیا
"ایک تو جب بھی سجل میرے پاس ہوتی ہے
کوئی ناں کوئی آجاتا ہے"اس نے دل میں سوچا۔
اور پھر موحد سے پوچھنے لگا۔
کمال ہے بھول گئے آپ کل خود ہی تو کہا تھا کہ فلم
دیکھنے چلیں گے میں تو ٹکٹز بھی لے آیا ہوں۔
موحد نے اسے یاد دلایا۔
ہاں میں تو واقعی میں بھول گیا تھا چلو چلتے ہیں کچھ
دیر تک۔
سجل انہیں باتوں میں لگا دیکھ کر اٹھی اور سامنے کھڑی
ثانیہ سے بولی۔
ابیہا آپی تو نہا رہی ہیں میں چلتی ہوں پھر کبھی آؤں
گی۔
پھر کبھی کبھی ہی آؤ تو اچھا ہے سجل۔ثانیہ زارون کا سجل
کی طرف جھکاؤ دیکھ چکی تھی اس لئے بولی۔
سجل کا حیران ہونے کے ساتھ ساتھ منہ بھی بن گیا یقیناً
اسے برا لگا تھا۔
ارے بہو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے نہیں تمہیں اس گھر
میں بیاہ کر آئے اور تم میری بچی کو اس کے اپنے ہی گھر میں آنے سے روکنے لگی۔
کچن سے نکلتی ہوئی پھپھو زرمین اس کی بات سن چکی تھیں۔
ارے نہیں پھپھو آپی تو اس لئے کہہ رہی ہیں کہ دو مہینے
ہی تو رہ گئے ہیں میرے پیپرز میں انکی تیاری کروں میں۔سجل کو ثانیہ کی بات بری تو
لگی تھی مگر پھر بھی اس نے ثانیہ کی سائیڈ لی۔
پھپھو کی خواہش تھی کہ وہ سجل کو اپنی بہو بنا کر لائیں
مگر زارون کی خواہش کے آگے وہ اپنی خواہش دبا گئیں۔
ثانیہ مزاج کی کیسی تھی یہ پورے خاندان کو معلوم تھا اس
لئے تو سوائے زارون کے باقی خاندان میں سے کسی نے بھی اسکا رشتہ نا مانگا۔
سجل تم کب آئی۔ابیہا کمرے سے نکلی تو سجل کو دیکھ کر
پوچھنے لگی۔
بس ابھی ابھی آئی ہوں آپ سے ملنے۔
اچھا پھر ایسا کرو میرے کمرے میں آجاؤ مجھے بھی تم سے
ڈھیروں باتیں کرنی ہیں۔ابیہا اسے کمرے میں آنے کا کہتی ہوئی خود بھی کمرے میں واپس
چلی گئی۔
سجل ابیہا کو بابا جی کی اس کے خواب کے مطلق بتائی گئی
تعبیر بتانے آئی تھی اس لئے ثانیہ کی گھوڑیوں کو نظر انداز کرتی ہوئی کمرے میں چلی
گئی۔
****************************
سجل آپی ویسے ثانی آپی کتنی سنگ دل ہیں ناں اپنی خوشی
کے سامنے کسی اور کی خوشی تو جیسے دیکھتی ہی نہیں۔
کیوں اب کیا ہوا۔سجل نے انعم سے پوچھا۔
اس دن میں گئی تھی پھپھو کی طرف تو ابیہا آپی سے پوچھ
رہی تھیں کہ سفیان نے تمہیں منہ دکھائی میں کیا دیا۔
انہوں نے ہاتھ میں پہنی ہوئی انگوٹھی دکھائی وہ انگوٹھی
بہت پیاری تھی سچ مجھے تو بہت پسند آئی۔
مگر ثانی آپی نے اسے دیکھ کر پہلے ایسا منہ بنایا جیسے
کڑوا کریلا نگل لیا ہو اور پھر اپنی الماری میں سے گولڈ کا سیٹ نکال کر انہیں
دکھایا۔
یہ دیکھو زارون نے مجھے پورے کا پورا سیٹ دیا ہے اور تم
ہو کہ ایک چھوٹی سی انگوٹھی پر ہی خوش ہوئے جا رہی ہو جو کہ صرف دس ہزار سے زیادہ
کی نہیں لگ رہی۔
اس انگوٹھی کی قیمت چاہے زیادہ ہو یا کم میرے لئے یہ
میٹر نہیں کرتا سفیان نے مجھے بہت پیار سے دی ہے اس لئے میرے لئے یہ تمام خزانوں
سے بڑھ کر ہے۔
ابیہا آپی بلکل ٹھیک کہہ رہی تھیں مگر ثانی آپی سمجھتی
تب ناں۔
تم ٹھیک کہہ رہی ہو انعم کل میں بھی گئی تو مجھے کہنے
لگیں کہ تم کبھی کبھی ہی آؤ تو اچھا ہے۔لو بتاؤ میری پھپھو کا گھر ہے میرا جب دل
چاہے گا جاؤں گی سچ بتاؤں تو مجھے انکا یہ کہنا بہت برا لگا تھا۔
سجل آپی آپ بھی تو ہر غلط بات میں انکی سائیڈ لینے لگ
جاتی ہیں تب ہی تو وہ آپکو کچھ سمجھتی نہیں اور بہت کچھ سنا دیتی ہیں۔پتا نہیں سجل
آپی وہ ہم جیسی کیوں نہیں ہیں۔
انعم چھوڑو ناں ان باتوں کو ساری رات اور سارا دن پڑھ
پڑھ کر میں تو تنگ آگئی ہوں۔چلو آج موحد سے کہہ کر آئسکریم کھانے چلتے ہیں۔
انعم جو کتابوں سے سر نہیں اٹھاتی تھی آج اسکا بھی دل
کر رہا تھا اس لئے سجل سے بولی۔
ہاں چلیں۔اور پھر دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔
***********************
سجل ایک بات کہوں برا مت ماننا۔موحد نے کہا۔
ہاں بولو۔
سجل تم زارون بھائی سے اتنا فری مت ہوا کرو اور نا ہی
انکے قریب جایا کرو۔
لیکن کیوں؟سجل نے پوچھا۔
تم بڑی ہوگئی ہو بچی نہیں ہو جو تمہیں ہر بات سمجھانی
پڑے۔میرے خیال سے اتنی عقل تو ہے ہی تم میں کہ یہ جان سکو کہ میں کیوں منع کر رہا
ہوں۔
سجل کچھ نا بولی اور چپ چاپ گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی۔
موحد بھائی اب آپ بھی جلدی سے آجائیں۔انعم اسے گاڑی میں
بیٹھے آوازیں دینے لگی۔
موحد جلدی سے گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
***************************
یہ تم نے آج کس طرح کی بات کہی سجل کو کہ وہ یہاں کبھی
کبھی ہی آئے تو اچھا ہے۔ثانیہ شیشے کے سامنے بیٹھی نائٹ کریم لگا رہی تھی جب زارون
نے اس سے کہا۔
کون سا کچھ غلط کہا ہے میں نے ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی۔
تمہیں کس نے یہ حق دیا کہ تم اسے میرے گھر آنے سے
روکو۔یہ اسکی پھپھو کا گھر ہے اسکا جب دل چاہے گا وہ آئے گی تمہیں اس کے آنے سے
کوئی مسلہ نہیں ہونا چاہیے اوکے۔
اگر یہ اسکی پھپھو کا گھر ہے تو پھر اپنی پھپھو سے ہی
ملے اپنی لاڈلی ابیہا کے پاس ہی جائے تمہارے پاس چپک کر بیٹھنے کی کیا ضرورت ہے۔
"یعنی اب سے ہوا میرا کھیل
شروع"۔زارون نے دل میں سوچا۔
اور بولا میرا اس وقت تم سے بحث کرنے جا کوئی موڈ نہیں
ہے۔
زارون نے لائٹ بند کی اور سونے کے لئے لائٹ گیا۔
**************************
آج یونیورسٹی کا ٹائم ایک بجے کا تھا موحد اور معارج
یونیورسٹی نہیں گئے تھے۔
معارج کی طبیت ٹھیک نہیں تھی اور موحد کے دوست کی شادی
تھی۔اس لئے وہ سجل کو یونیورسٹی چھوڑ کر شادی پر چلا گیا۔
سارا وقت سجل کا بور گزرا۔چھٹی کے بعد سجل گیٹ سے باہر
نکلی تو موحد نہیں آیا تھا۔
پانچ بج رہے تھے۔
اس نے موحد کو کال کی مگر اس نے رسیو نا کی کافی بار
ملانے کے بعد بھی جب اسنے کال رسیو نا کی تو سجل یہی سوچتی ہوئی کہ لگتا ہے ابھی
تک شادی میں ہی ہے خود ہی جانا پڑے گا موبائل بیگ میں رکھتی بس اسٹینڈ کی طرف چلنے
لگی۔
وہ بس اسٹینڈ پر پہنچی یہاں پر اس کے علاوہ دو تین لوگ
اور موجود تھے مگر شائد وہ کافی دیر سے بس کا انتظار کر رہے تھے اس لئے اب وہاں سے
آگے بڑھ گئے اور رکشہ روکنے لگے۔
سجل وہاں پڑے بینچ پر بیٹھ گئی۔
کچھ دیر بعد اس کے سامنے ایک گاڑی آکر رکی۔
اس میں سے دو لڑکے نکلے ان کے چہرے رومال سے ڈھکے ہوئے
تھے۔وہ اس کی طرف بڑھے۔
سجل کے ان کو دیکھ کر ہاتھ پیر پھولنے لگے۔
وہ آج تک پھپھو کے گھر جانے کے علاوہ کہیں اکیلی نہیں
نکلی تھی۔
سجل بھاگنے لگی مگر انہوں نے اس کا رستہ روک لیا اور
اسے پکڑ لیا۔
ارد گرد لوگ موجود نا تھے جو اس کے "بچاؤ" کی
آواز سنتے۔
وہ ہاتھ پاؤں مارتی انہیں خود سے دور کرنے لگی اس کا
بیگ وہی گر گیا۔
انہوں نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور ایک منٹ کی بھی دیر
کیے بغیر گاڑی بھگا لے گئے۔
*************************
انعم سجل گھر آگئی کیا موحد نے انعم کو کال کر کے
پوچھا۔
نہیں موحد بھائی انہیں تو آپ نے لینے جانا تھا ناں۔
ہاں جانا تو میں نے ہی تھا مگر میں لیٹ ہوگیا ہوں تو
سوچا کال کے کے پوچھ لوں کہیں وہ گھر چلی ہی نا گئی ہو اسکو کال بھی نہیں مل رہی۔
نہیں ابھی تک تو نہیں آئیں آپ لے آئیں۔
چلو ٹھیک ہے میں جاتا ہوں خدا حافظ۔موحد نے فون رکھ
دیا۔
*************************
کون ہو تم لوگ اور کیوں لائے ہو مجھے یہاں پر کھولو
مجھے گھر جانا ہے۔
یہ وہی جگہ تھی جو سجل خواب میں دیکھتی آئی تھی۔وہ ایک
درخت کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔
تجھ جیسی حسین لڑکی کو چھوڑ دیں پاگل سمجھا ہوا ہے
کیا۔ہمیں تجھ جیسی حسین لڑکیوں کی ہی تو تلاش رہتی ہے۔
کیا چاہتے ہو تم لوگ آخر مجھے یہاں لائے کیوں ہو۔سجل رو
پڑی۔
تجھ جیسی حسین لڑکی اگر طوائف بنے گی تو کتنا پیسہ ملے
گا ہمیں اور ہماری سرکار کو اسکا تجھے اندازہ بھی نہیں۔
میرا تو دل چاہ رہا ہے راجو کہ اس لڑکی کو ابھی کے ابھی
سرکار بی بی کے سامنے پیش کر دوں کتنی خوش ہونگی ناں وہ ہم سے۔
ہاں اور نہیں تو کیا بابو اس سے پہلے جتنی بھی لڑکیاں
لے کر گئے ہیں ہمیشہ بی بی سرکار نے ناک چڑھا کا ناپسندیدگی ہی ظاہر کی ہے۔مگر اب
تو مجھے بھی یقین ہے کہ وہ بہت خوش ہونے والی ہیں ہم سے اور بہت پیسہ بھی ملنے
والا ہے اب تو ہمیں۔
راجو کی تو پیسوں کو سوچ کر لی رال ٹپکنے گی۔
میں کہیں نہیں جاؤں گی تم لوگوں کے ساتھ میں اپنی زندگی
ختم کر لوں گی مگر طوائف نام کا دھبہ بھی خود پر لگنے نہیں دوں گی۔سجل کی تو طوائف
نام سن کر ہی روح کانپ اٹھی۔
ہاہا راجو یہ اپنے طریقے سے واقف نہیں ہے۔چل جلا آگ اس
کے چاروں طرف۔
تجھے تو معلوم ہی ہے اس جیسی کئی لڑکیاں جنہوں نے کچھ
ایسے ہی بول بولے تھے مگر ابھی آگ لگانے کی دیر نہیں ہوتی تھی کہ بول اٹھتی تھیں۔
"میں جاؤں گی میں جاؤں گی پر خدا کے
واسطے یہ آگ بھجا دو"۔بابو نے ان لڑکیوں کی نقل اتارتے ہوئے کہا۔
جبکہ راجو اس کی بات پر ہنستا ہوا چاروں طرف پیٹرول
چھڑکنے لگا۔
سجل کو بابا جی کی بات یاد آگئی۔
وہ آگ تیرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی جب تک وہ تیرے ساتھ
ہے۔
پتا نہیں اب بابا جی واقعی میں سچ کہہ رہے تھے اگر
واقعی میں وہ سچ کہہ رہے تھے تو وہ جہاں کہیں بھی ہے جلدی سے آجائے اور مجھے بچا
لے۔
یہ تو منہ ہی منہ میں کیا بڑبڑا رہی ہے بتا مانتی ہے یا
نہیں وہاں جا کر اپنی زبان تو نہیں کھولے گی تو لوگوں کے سامنے۔
ہاں بتاؤں گی اور سب کو بتاؤں گی کہ تم لوگ مجھے
زبردستی لے کر آئے ہو۔سجل چلائی۔
وہ لوگ ایسا اس لئے کر رہے تھے کے سجل سیدھی طرح مان
جائے کیوں کہ بی بی سرکار کا حکم تھا کہ کوئی بھی لڑکی یہاں آ کر گھر جانے کی بات
نا کرے اسے پہلے سے ہی سمجھا کر لایا جائے تا کہ وہ ہر وقت بھاگنے کے چکروں میں نا
لگی رہیں ورنہ تم لوگوں کو ایک آنا بھی
نہیں ملے گا۔
راجو لگتا ہے یہ نہیں مانے گی چل آگ لگا دے۔راجو نے
ماچس جلائی تو سجل بولی۔
لگا دو آگ یہ آگ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی کیوں کہ
وہ مجھے بچانے آئے گا۔
کون بچانے آئے گا تجھے تیرا کوئی محبوب عاشق۔بڑے ڈائلاگ
آتے ہیں تجھے۔وہ مجھے بچانے آئے گا۔بابو نے اس کی نقل اتاری اور پھر وہ دونوں
ہنسنے لگے۔
راجو نے ماچس کی تیلی پیٹرول پر پھینکی تو درخت کے
چاروں طرف آگ کا دائرہ بن گیا۔
********************************
روحاب پولیس اسٹیشن سے باہر نکلا اور پولیس موبائل میں
بیٹھنے لگا جب ایک لڑکی تیزی سے اس کے پاس آئی۔
انسپکٹر روحاب میں آپ کی بہت بڑی فین ہوں۔روز اخبار میں
آپ کے کارناموں کے بارے میں پڑھتی ہوں۔آپ تو خطروں کے کھلاڑی ہیں۔ہر مجرم کے سراغ
کا پتا لگا لیتے ہیں۔میں آپ کے ساتھ ایک سیلفی لینا چاہتی ہوں کیا میں لے سکتی
ہوں۔
روحاب نے اس پاگل لڑکی کو دیکھا اور بولا۔
ایکسکیوزمی کیا آپ سائیڈ پر ہونگی اس وقت ہمیں ایمرجنسی
کیس آن پڑا ہے اس لئے محترمہ راستہ دیں۔
مگر وہ محترمہ سن کہاں رہی تھی بس ایک سیلفی کی رٹ لگاۓ
جا رہی تھی۔
اور پھر روحاب کے غصے کی پرواہ کیے بغیر ایک کی بجاۓ
دو سیلفیاں لے ڈالیں۔
اور ٹیھنک یو سو مچ کہتی ہوئی جس تیزی سے آئی تھی اسی
تیزی سے واپس چلی گئی۔
انسپکٹر روحاب اس گروہ کے ٹھکانے کا پتا معلوم ہو گیا
ہے ہمیں اس گروہ کو پکڑنے میں دیر نہیں کرنی حولدار نے آکر بتایا۔
تو وہ گاڑی میں بیٹھ گیا اور باقی حولدار بھی پیچھے
بیٹھ گئے۔
****************************
وہ دونوں بیٹھے قہقے لگا رہے تھے اتنی خوبصورت لڑکی
لانے پر ان دونوں کی پیسے کے متعلق سوچنے پر خوشی ہی ختم نہیں ہو رہی تھی۔
ان کے ساتھ اب اور تین لڑکے بھی موجود تھے جو کسی لڑکی
کو لانے کی بجاۓ
خالی ہاتھ لوٹے تھے۔
آجاؤ نکمو تم لوگ خوبصورت تو کیا کوئی عام لڑکی بھی
اٹھا کر نہیں لائے اور ہمیں دیکھو کیسا مہتاب اٹھا کر لائے ہیں۔
وہ دونوں اپنا کارنامہ انہیں بتا رہے تھے جبکہ دوسری
طرف سجل چلا رہی تھی .
پلیز آگ کو بھجا دو۔
مگر وہ سن کہاں رہے تھے وہ تو بس اس پکار کے انتظار میں
تھے کہ ہاں میں جاؤں گی۔
تب ہی باہر سے پولیس کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا اور
ساتھ ہی ساتھ فائرنگ بھی شروع ہوگئی۔
پولیس نے تم لوگوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اس لئے
بھاگنے کی کوشش مت کرنا۔
اس سے پہلے کہ وہ واقعی میں بھاگنے کی کوشش کرتے پولیس
دروازہ توڑ کر اندر آگئی۔
سجل کو اتنا تو معلوم ہو چکا تھا پولیس آن پہنچی ہے مگر
وہ آگ کے دھویں کی وجہ سے کچھ دیکھ نا سکی۔
کوئی آگ بھجانے کے لئے پانی ڈال رہا تھا۔ایک طرف سے آگ
بھجانے پر دوسری طرف سے آگ اوپر اٹھتی۔
اس سے پہلے کہ وہ سجل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی کسی نے
اسے درخت سے کھول کر وہاں سے قدرے دور کھینچ لیا۔
سجل آگ کی وجہ سے پسینے سے بھیگ چکی تھی۔اس کا سانس
اکھر چکا تھا اور بے تحاشہ کھانسی شروع ہوگئی تھی۔
سجل تم ٹھیک ہو ناں؟۔۔۔
اس آواز پر سجل نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو اکھرا سانس
بھی رکنے لگا۔
مسلسل آتی کھانسی کو بریک لگ گئی۔
سامنے روحاب اپنی پولیس کی وردی میں کھڑا فکر مندی سے
اسے بازؤں سے تھامے کھڑا تھا۔
اس کا مطلب بابا جی جن کی بات کر رہے تھے وہ روحاب
بھائی ہیں۔سجل کا تو سر چکرانے لگا۔
حولدار دیکھ کیا رہے ہو جلدی سے ہتھکڑیاں لگاؤ انہیں
اور لے جاؤ گاڑی میں۔
روحاب نے انہیں حکم دیا جو یہ کام پہلے ہی کر چکے
تھے۔تب ہی کہیں سے گولی کی آواز آئی جو روحاب کے بازو پر آکر لگی۔
گولی سجل کو لگنے والی تھی مگر روحاب سامنے آگیا۔
پکڑو ان کو دھیان کہاں ہے تم لوگوں کا۔روحاب غصے سے
بولا۔کیوں کہ ان میں سے ایک لڑکا دیوار کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔
روحاب بھائی آپ ٹھیک تو ہیں ناں۔اب تو سجل کو واقعی میں
یقین ہوگیا تھا کہ بابا جی ٹھیک کہہ رہے تھے۔
میں ٹھیک ہوں گاڑی میں چلو۔
روحاب نے اسے اپنے ساتھ لئے گاڑی میں بٹھایا اور موحد
کو کال کر کے پولیس اسٹیشن آنے کا کہا۔جب گاڑی پولیس سٹیشن کے سامنے رکی تو موحد
وہاں موجود تھا۔
سجل کو موحد کے ساتھ گھر بھجوا کر وہ خود اندر چلا گیا۔
*************************
سجل میری بچی تم ٹھیک تو ہو ناں۔ثمرین نے اسے بے تحاشہ
چومتے ہوئے کوئی تیسری دفعہ پوچھا۔
میں ٹھیک ہوں ماما مگر روحاب بھائی کو گولی لگی ہے اور
وہ بھی میری وجہ سے مجھے بچاتے ہوئے۔
سجل روحاب کے لئے فکر مند تھی۔
سجل بیٹا زیادہ پریشان مت ہو اور خود کو قصور وار مت
ٹھہراؤ اس بارے میں کیوں کہ پولیس والوں کا تو کام بھی ایسی سچویشن کا سامنا کرنا
ہے خطروں سے لڑنا اور دوسروں کو بچانا ہے۔اور اس دوران گولیاں بھی کھانی پڑتی ہیں
اور اس کے باوجود بھی ڈٹے رہنا ہی خود کو مضبوط کرنے اور اپنی وردی کے ساتھ مخلصی
کا ثبوت ہے۔بڑے ابا نے یہ کہہ کر سجل کی پریشانی کم کرنا چاہی۔
سجل کو یاد پڑا کہ روحاب کو اس سے پہلے بھی دو دفعہ
گولیاں لگ چکی تھیں مگر وہ ان کی پرواہ کیے بغیر ہر دفعہ اگلے دن ڈیوٹی کے لئے نکل
پڑتا۔
*************************
ابیہا اب بس بھی کر دو رونا تمہاری دعا قبول ہو چکی ہے
سجل مل گئی ہے۔سفیان نے اسکے دعا کے لئے اٹھے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے پیار سے
کہا۔
کیا واقعی میں آپ سچ کہہ رہے ہیں سفیان۔ابیہا نے پوچھا
اور پھر سفیان کے ہاں میں سر ہلانے پر دوبارہ سے ہاتھ اٹھا لئے اور شکر ادا کرنے
لگی۔
سفیان پلیز آپ مجھے لے جائیں ناں سجل کے پاس۔
ہاں کیوں نہیں چلو ابھی چلتے ہیں۔سفیان نے فوراً حامی
بھری۔
ابیہا اپنی چادر لئے سفیان کے ساتھ گاڑی میں آبیٹھی۔
***************************
موحد روحاب بھائی کو کیسے پتا چلا کہ میں کہاں ہوں۔
سجل اصل میں تمہیں جن لوگوں نے پکڑا تھا وہ ایک گروہ
تھا جو لڑکیوں کو اغوہ کر کے کوٹھے پر لے جاتا تھا۔پولیس کتنے دنوں سے اس گروہ کی
تلاش میں تھی جب میں نے انہیں تمہارے بارے میں بتایا تو انہیں گمان گزرا کہ ہونہہ
یہ ضرور اس گروہ کا کام ہے۔
اور وہ تو شکر ہے کہ انہیں آج ہی ان کے ٹھکانے کی خبر
ہو گئی اور وہ وقت پر وہاں پہنچ گئے۔
موحد تو کیا وہ اس کوٹھے پر موجود لڑکیوں کو بھی چھڑوا
لیں گے۔
ہاں اس گروہ سے کوٹھے کا پتا اگلوا کر وہاں جن لڑکیوں
کو زبردستی لے جایا گیا ہے انھیں چھڑوا لیں گے۔
اوہ تو یعنی جو لڑکیاں وہاں اپنی مرضی سے جاتی ہیں وہ
وہیں رہتی ہیں اس لئے وہ آگ لگا کر مجھے منانے کی کوشش کر رہے تھے۔
سجل نے سوچا اور پھر شکر ادا کیا کہ باقی لڑکیوں کی طرف
اسے بھی کوٹھے پر لے جایا نہیں گیا چاہے اسے بعد میں چھڑوا بھی لیا جاتا مگر اب کم
از کم وہاں نا جانے اور اس پر طوائف کا دھبہ تو نہیں لگا ناں۔
***************************
میں بہت پریشان تھی تمہارے لئے مگر اللّه کا شکر ہے کہ
تم بلکل ٹھیک ہو۔ابیہا نے اس کے کمرے میں آتے ہی کہا۔
ابیہا آپی میں نے آپکو بتایا تھا ناں کہ بابا جی نے کیا
کہا تھا۔
ہاں بتایا تھا کیوں کیا ہوا۔
آپکو پتا ہے ناں کہ روحاب بھائی نے مجھے بچایا ہے اس سے
پہلے کہ آگ مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتی اور پھر اس کے بعد میرے سامنے آکر گولی بھی
خود پر کھا لی۔
وہ منظر بلکل ویسا ہی تھا جیسا بابا جی نے بتایا
تھا۔انہوں نے پہلے مجھے ایک خطرے سے نکالا اور پھر دوسرا خطرہ بھی خود پر لے
لیا۔اب آپ ہی بتائیں میں اسے کیا سمجھوں۔
ابیہا کچھ دیر اس کی بات پر غور کرتی رہی اور پھر بولی۔
تم اسے وہی سمجھو جو بابا جی نے کہا ہے کیوں کہ مجھے
بھی ایسا ہی لگ رہا ہے .دیکھو سجل تم تو
جانتی ہو کہ میں نہیں مانتی کہ اگر کوئی کسی خواب کی تعبیر بتا دیتا ہے تو پھر
یقیناً ویسا ہی ہوتا ہے کبھی کبھی اس کے بر عکس بھی ہو جاتا ہے مگر میں ان بابا جی
کی بات سے اس لئے متفق ہوں کیوں کہ مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔
مگر آپی آپکو تو پتا ہے کہ روحاب بھائی کا رویہ میرے
ساتھ کیسا ہے۔اگر ٹھیک ہوتا تو مجھے ماننے میں آسانی ہوتی مگر اب تو میں یہ سوچنے
اور مجبور ہو گئی ہوں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔
دیکھو سجل روحاب کا رویہ تمہارے ساتھ پہلے کتنا روڈ تھا
مگر اب بہتر ہوا ناں اور دیکھنا اب آہستہ آہستہ بلکل ٹھیک ہو جائے گا۔
اور ویسے ایک بات ہے کہ اگر میں تم دونوں کو ایک ساتھ
امیجن کروں تو تم دونوں ایک ساتھ بہت اچھے لگتے ہو۔اور میں دل سے چاہتی ہوں کہ تم
دونوں کی قسمت ایک ساتھ لکھ دی جاۓ۔
ابیہا کی بات سے سجل کے دل میں ہلچل سی ہوئی۔
ابیہا آپی آپ آج رات یہیں رک جائیں ناں۔سجل نے بڑے مان
سے اسے روکنا چاہا۔
میری جان میں ضرور رک جاتی مگر تائی امی گھر پر نہیں
ہیں ناں اس لئے ہر چیز کی ذمہ داری فلحال مجھ پر ہے۔اگر وہ گھر پر ہوتیں تو سفیان
سے پوچھ کر ضرور رک جاتی مگر ابھی تو جانا ہوگا۔
سجل یہ سن کر اداس ہوگئی۔
ارے اداس کیوں ہوگئی ابھی تم ایسا کرو سو جاؤ اور جب تم
صبح اٹھو گی تو میں تمہارے پاس ہی ہونگی۔
سچ آپی سجل خوشی سے بولی۔
ہاں سفیان سے کہہ دوں گی کہ صبح آفس جاتے ہوئے مجھے
یہاں ڈراپ کر جائیں۔ابیہا نرمی سے اس کا گال چوتھے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
**************************
معارج اور انعم کتنی دیر تک اس کے پاس بیٹھ کر باتیں
کرتی رہیں۔
وہ دونوں بھی اس کے لئے بہت پریشان تھیں۔معارج تو اٹھ
کر کمرے میں چلی گئی۔
اور پھر کچھ دیر بعد انعم بھی جانے لگی تو سجل نے اسے
اپنے پاس ہی روک لیا۔
انعم تم آج میرے پاس ہی سو جاؤ مجھے ڈر لگے گا۔
انعم مسکراتی ہوئی اس کے ساتھ لیٹ گئی۔
سجل ثانیہ کے بارے میں سوچنے لگی سب اس کے مل جانے پر
بھاگتے ہوئے یہاں چلے آئے تھے سواۓ
ایک ثانیہ کے۔
اس کا کہنا تھا کہ میری طبیت ٹھیک نہیں ہے اور ویسے بھی
سجل اب جب گھر آہی گئی ہے تو پھر کسی بھی وقت جا کر مل لوں گی ابھی جانا ضروری تو
نہیں ہے۔
اس وقت سجل کی آنکھوں میں یہ سن کر آنسو آگئے تھے۔
اللّه نے اسے بڑی بہن دی بھی تو ایسی جس نے کبھی بڑی
بہن کی طرح اس پر اپنی محبت نچھاور ہی نا کی تھی بلکہ ہمیشہ روب ہی جھاڑا تھا۔
ابھی بھی یہ سوچ کر سجل کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
انعم نے اس کے آنسو صاف کیے اور بولی.
میں
جانتی ہوں کہ آپ کیا سوچ رہی ہیں مگر آپ شائد بھول گئی ہیں کیا کہ آپکی ایک اور
بہن بھی ہے جو کہ آپ سے بہت پیار کرتی ہیں یعنی کہ میں۔اس لئے اب آپ دوبارہ رونا
مت انعم نے اسے گلے لگا لیا۔
سجل کے اندر جسے ٹھنڈ سی پر گئی۔
****************************
انعم کب سے سو چکی تھی جبکہ سجل ابھی تک جاگ رہی تھی
صرف اور صرف روحاب کے انتظار میں۔
آج سے پہلے بھی روحاب کو گولیاں لگی تھیں مگر کبھی سجل
نے اتنی فکر نہیں کی مگر آج نجانے کیوں اسے بہت فکر ہو رہی تھی۔
نیچے دروازہ کھلنے کی آواز آئی یعنی روحاب آگیا
تھا۔روحاب جب کمرے میں چلا گیا تو سجل بھی بیڈ سے اٹھی کمرے سے نکلتی ہوئی اس کے
کمرے کے پاس آئی اور دروازہ ناک کرنے لگی۔
روحاب بھائی میں آجاؤں۔۔
ہاں آجاؤ۔
روحاب کو جیسے معلوم تھا کہ وہ ضرور آئے گی۔اجازت ملنے
پر سجل اندر چلی آئی۔
تم ابھی تک سوئی کیوں نہیں۔
روحاب نے اس کے ابھی تک جاگنے کی وجہ پوچھی کیوں کہ اس
وقت ایک بج رہا تھا۔
وہ میں آپ کا انتظار کر رہی تھی۔
کیوں مجھ سے کوئی کام تھا کیا۔
نہیں بس آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ آپ ٹھیک ہیں ناں پٹی تو
کروا لی ناں آپ نے۔
تو اور تمہیں کیا لگ رہا تھا تب سے ایسے ہی گھوم رہا
ہونگا ظاہر ہے پٹی تو کروانی ہی تھی۔روحاب نے اس کے عجیب سوال کا جواب دیا۔
اچھا تو کھانا کھایا آپ نے۔
کھانے کا موڈ نہیں چاۓ
پی کر آیا ہوں تم زیادہ فکر مت کرو میری جاؤ جا کر سو جاؤ۔
روحاب اسے سونے کا بولتا اپنی واچ اتارتا خود بیڈ پر
لیٹ گیا۔
روحاب بھائی آپکو پتا ہے سب مجھ سے ملنے آئے مگر ثانی
آپی نہیں آئیں۔
نجانے کیوں سجل نے یہ بات روحاب سے کہہ ڈالی۔اور حیرانی
کی بات تو یہ تھی کہ ثانیہ کے ذکر پر روحاب نے اسے ذرا بھی نا ڈانٹا۔
بلکہ الٹا یہ بولا کہ اسے اپنے علاوہ کبھی کسی اور کی
فکر بھی ہوئی ہے کیا۔
احساس لفظ اس کو سوٹ نہیں کرتا تب ہی شائد وہ اس سے دور
ہی رہتی ہے اس لئے تم اس کے بارے میں سوچ کر اپنا وقت برباد مت کرو۔
میں سونے لگا ہوں تم بھی سو جاؤ اور ہاں جاتے ہوئے لائٹ
اور دروازہ ضرور بند کر جانا۔
سجل لائٹ اور دروازہ دونوں بند کرتی ہوئی اپنے کمرے میں
آگئی۔
*******************
سجل چھت پر بیٹھی دھوپ سینکنے کے ساتھ ساتھ مالٹے بھی
کھا رہی تھی۔
دیوار کے ساتھ ٹیک لگاۓ
آنکھیں موندے وہ مالٹوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔
آہا کیا ہی مالٹے ہیں مزا آگیا۔
سجل نے پلیٹ سے ایک اور پیس اٹھانا چاہا مگر ہاتھ میں
کچھ نا آیا۔اس نے آنکھیں کھول کر پلیٹ دیکھی تو پلیٹ میں ایک بھی مالٹا نا تھا۔
نظریں گھما کر اپنے آس پاس دیکھا تو موحد رومان اور
معارج مزے سے اس کے چھیلے گئے مالٹے کھا رہے تھے۔
چور کہیں کے خود کے ہاتھ نہیں ہیں کیا جو مجھ سے چھین
کر کھا رہے ہو تم لوگ۔
سجل نے معارج سے مالٹا چھیننے کی کوشش کی تو اس نے ہاتھ
پیچھے کھسکا لیا۔
دوسروں کی پلیٹ سے مالٹے اٹھا کر کھانے کا اپنا ہی مزہ
ہے کیوں رومان ٹھیک کہا نا میں نے۔
موحد کی بات پر رومان نے بھی سر ہلا دیا۔
لو کھاؤ مرو تم لوگ۔سجل نے مالٹوں کی ٹوکری ان کی طرف
کی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
وہ ساتھ والی چھت پر دیکھنے لگی جہاں پھپھو اور زارون
بھائی بھی بیٹھے مالٹے ہی کھا رہے تھے۔
جبکہ ثانیہ ان سے قدرے دور بیٹھی نیل پالش لئے اپنے
ناخنوں کو سنوار رہی تھی۔
پھپھو میرے لئے بھی مالٹے رکھیے میں آرہی ہوں۔سجل دیوار
پر چڑھ گئی۔
ارے تم دیوار پھلانگ کر آؤ گی تو گر جاؤ گی. زارون اٹھ کر اس کے پاس چلا آیا۔
نہیں گرتی زارون بھائی کیوں کہ میں یہیں سے آتی ہوں اور
ویسے بھی اتنی سی دیوار سے گر بھی جاؤں گی تو کچھ نہیں ہوگا مجھے۔
پھر بھی تم ہاتھ دو اپنا مجھے ایسے چھلانگ مت
لگانا۔زارون نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے اس کا ہاتھ مانگا۔
سجل نے ثانیہ کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر صاف لکھا تھا.
"تمہیں اپنی چھت پر سکوں نہیں ہے کیا."
سجل نے زارون کی طرف اپنا ہاتھ بڑھانے کی بجاۓ
واپس اپنی چھت پر چھلانگ لگا دی۔
کیا ہوا اب واپس کیوں جا رہی ہو۔
زارون بھائی مجھے یاد آیا کہ ماما نے مجھے کچھ کام کہا
تھا نا کیا تو ڈانٹ پڑے گی اس لئے بعد میں آتی ہوں۔سجل سیڑھیاں اترتی نیچے آگئی۔
***************************
زارون تم مجھے کب لے کر جا رہے ہو انگلینڈ اب میں یہاں
ایک دن بھی مزید نہیں رہ سکتی۔
کریں نا تیاری چلتے ہیں۔ثانیہ نے ایسے کہا جیسے انگلینڈ
دو قدم کے ہی تو فاصلے پر ہے۔
وہ روز زارون سے یہی سوال پوچھتی۔
جبکہ زارون اس کے فضول سوالوں کی وجہ سے تنگ آچکا تھا۔
دیکھو ثانیہ روز روز ایک ہی بات کہہ کر میرا دماغ خراب
مت کیا کرو میرا ابھی کوئی ارادہ نہیں جانے کا اور نا ہی فلحال اس بارے میں بات
کرنے کا کوئی موڈ ہے اس لئے پلیز تم چپ ہی رہو تو اچھا ہے۔
کیوں کروں میں چپ روز یہی کہتے ہو تم آخر کس دن موڈ
ہوگا تمہارا یہ بتانے کا کہ ہم کب انگلینڈ جا رہے ہیں۔
تمہیں لے کر ہی جاؤں گا یہاں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا
تھوڑا صبر رکھ لو تم اب۔
تھوڑے سے صبر کا مطلب صرف تھوڑا ہی اس سے زیادہ میں
نہیں کرنے والی۔ثانیہ اسے سنا کر منہ پھیر کر لیٹ گئی۔
********************************
یہ دیکھو زارون نے میرے لئے شوپنگ کی ہے یہ سوٹ پورے
تیس ہزار کا ہے اور یہ رنگ دیکھو مجھے تو بہت پسند آئی اور زارون نے مجھے فوراً
دلوا دی۔پوچھو گی نہیں کتنے کی ہے. ثانیہ نے سجل کہا۔
آج سب کا ڈنر رفیق اور رمیز صاحب کی طرف تھا ابیہا اور
سفیان کی فیملی بھی آئی ہوئی تھی۔
ہاں بتائیں ناں کتنے کی ہے۔سجل کو بھی جاننے کا تجسس
ہوا۔
پورے پچپن ہزار کی اور یہ دیکھو بالوں کی کٹنگ کروا کر
کیا کلر کروایا ہے۔
کٹنگ پھر کلر فیشل مینیکیور پیڈیکیور ان سب میں تو میرے
انیس ہزار لگ گئے اور اب اگلے ہفتے دوبارہ جانا ہے۔
میں جس چیز پر بھی ہاتھ رکھ دوں زارون فوراً لے دیتا ہے
مجھے. سچ میں بہت پیار کرتا ہے مجھے. میری ہر بات مانتا ہے۔ایک دن میں ایک لاکھ
لگانا اس کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ثانیہ کچھ زیادہ ہی بولے جا رہی تھی۔
اچھا تو پھر تو زارون بھائی کو آپکو انگلینڈ بھی جلد ہی
لے جانا چاہیے تھا۔
موحد نے اس کی بڑھا چڑھا کر سنانے والی باتوں کو بریک
لگانے کے لئے جان بوجھ کر یہ بات کہی۔
اور واقعی میں ثانیہ کی چلتی زبان کو ایک دم بریک لگی۔
سب کو معلوم تھا کہ ثانیہ زارون کا اچھا سر کھاتی ہو گی
کہ کب لے کے جاؤ۔
کہہ رہا تھا کچھ ٹائم یہاں رہنا چاہتا ہے ایک مہینے بعد
چلیں گے۔ثانیہ نے صاف جھوٹ بولا کیوں کہ معلوم تو اسے بھی ابھی تک نا تھا کہ جانا
آخر کب ہے۔
موحد نے اس کے جھوٹ پر سر ہلا دیا۔
اور ویسے بھی ابھی تو ہم ہنی مون کے لئے ترکی جا رہے
ہیں۔یہ بھی ثانیہ نے جھوٹ بھولا۔
تم لوگ بھی کہیں جا رہے ہو ہنی مون کے لئے یا گھر کے
لان میں بیٹھ کر ہی ہنی مون مناؤ گے۔
ثانیہ نے ابیہا اور سفیان سے پوچھا۔
ہم ہنی مون کے لئے نہیں جا رہے ثانیہ بلکہ ہمارا ارادہ انشاءلله
تائی امی کے ساتھ اگلے مہینے عمرہ پر جانے کا ہے۔ابیہا نے اسے بتایا تو سب کی توجہ
اس کی طرف ہو گئی۔
سچ میں آپی یہ تو بہت اچھی بات ہے۔سب کی ملی جلی آوازیں
آنے لگیں۔
جبکہ ثانیہ یہ سوچ کر کہ کسی کو بھی اس کی باتوں میں
کوئی دلچسبی نہیں سب اسی کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں وہاں سے اٹھ گئی۔
*************************
چلو بچو اب آبھی جاؤ کھانا لگ گیا ہے۔ بڑی ماما نے ان سب کو آواز دی۔
سب باتوں میں لگے ہوئے تھے اس لئے بڑی ماما کی آواز پر
بھی نا اٹھے۔
سجل نے ان سب کو زبردستی اٹھایا کیوں کہ اسے بہت بھوک
لگی ہوئی تھی۔
سجل ابیہا کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی جبکہ زارون نے
ثانیہ کے ساتھ بیٹھنے کی بجاۓ
سجل کے ساتھ والی کرسی سنبھال لی۔
سجل مجھے وہ قورمے والا باؤل پکڑانا۔زارون نے سجل سے
کہا کیوں کہ باؤل سجل کے نزدیک تھا۔
سجل نے باؤل میز پر رکھنا چاہا مگر زارون نے ہاتھ بڑھا
کر اسے پکڑ لیا اور ساتھ ہی ساتھ سجل کے ہاتھ کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
سجل نے تیزی سے ہاتھ واپس کھینچا جس کی وجہ سے باؤل سے
کچھ سالن میز پر گر گیا۔
روحاب زارون کی یہ حرکت نوٹ کر چکا تھا صرف آج ہی نہیں
بلکہ کئی بار مگر اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ ایسا کر کیوں رہا ہے۔
***************************
سنیے جی یہ پارسل آیا ہے کسی کا چیک کر لیں میں ذرا
زرمین کے ہاں جا رہی ہوں۔
شہلا بیگم نے پارسل رفیق صاحب کو پکڑایا جو کہ اخبار
پڑھنے میں مصروف تھے اور پھر خود زرمین کی طرف چلی گئیں۔
رفیق صاحب پارسل کو الٹا سیدھا کر کے دیکھنے لگے مگر اس
کے باہر کچھ نا لکھا تھا۔
وہ اسے کھولنے لگے جب سجل ان کے پاس آئی اور پارسل ان
کے ہاتھ سے لے کر بولی۔
شکر ہے ماریا نے نوٹس پارسل کروا کر بھیج ہی دیے۔بڑے
ابا یہ میرے نوٹس ہیں آپکو تو پتا ہے ناں کہ میرا بیگ بس اسٹینڈ پر گر گیا تھا اس
لئے منگوائے ہیں اپنی دوست سے۔
چلو اچھا کیا جاؤ شاباش دل لگا کر پڑھو۔بڑے ابا یہ کہتے
ہوئے پھر سے اخبار پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔
سجل اسے لئے لان میں آگئی اور کرسی پر بیٹھ کر پارسل
کھولنے لگی۔
مگر یہ کیا اس کے اندر نوٹس نہیں بلکہ چند تصویریں
تھیں۔جو کہ روحاب کی تھیں اور وہ بھی کسی لڑکی کے ساتھ۔
ان تصویروں میں وہ لڑکی روحاب کے ساتھ چپک کر کھڑی
تھی۔اس لڑکی نے کپڑے ایسے پہن رکھے تھے جو دیکھنے لائق نہیں تھے۔جبکہ روحاب نے شرٹ
نہیں پہنی ہوئی تھی وہ دونوں کسی بیچ پر تھے۔
سجل ان تصویروں کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی آنکھیں پھٹنے
کی حد تک کھل گئیں۔
ارے دکھاؤ سجل یہ تم کس کی تصویریں دیکھ رہی ہو۔ثانیہ
شائد ابھی آئی تھی۔
کچھ نہیں آپی میری تصویریں ہیں میری یونیورسٹی فیلو کے
ساتھ انھیں ہی دیکھ رہی تھی۔سجل نے جھوٹ بولا۔
ہاں تو دکھاؤ تو سہی جس کے ساتھ بھی ہے۔ثانیہ نے سجل کے
ہاتھ پیچھے کرنے کے باوجود بھی تصویریں اس کے ہاتھ سے لے لیں۔
اس سے پہلے کہ وہ تصویریں دیکھتی ثمرین بیگم ان کے پاس
چلی آئیں۔
ارے آگئی تم ثانیہ چلو اب جلدی چلیں بازار ورنہ واپسی
پر لیٹ ہو جائیں گے۔
ہاں چلیں میں آپکو ہی لینے آئی تھی۔
یہ پکڑو بعد میں دیکھوں گی انہیں ثانیہ سجل کو تصویریں
واپس پکڑاتی ثمرین بیگم کے ساتھ باہر نکل گئی۔
سجل نے سکون کی سانس اندر اتارتے ہوئے شکر ادا کیا۔
کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اگر ثانیہ نے یہ تصویریں دیکھ
لیں تو وہ روحاب کو سب کے سامنے ذلیل کر کے رکھ دے گی۔اور دو چار الزام تو خود سے
ہی لگا ڈالے گی۔
سجل یہ تصویریں روحاب کو دکھانے کے لئے اب بے صبری سے
اس کا انتظار کرنے لگی۔
سجل کو یقین تھا کہ روحاب کبھی بھی کسی لڑکی کے ساتھ
ایسی تصویریں نہیں بنوا سکتا۔
مگر نجانے کیوں اسے اتنا یقین تھا شائد یہ بابا جی کی باتوں
کا اثر تھا۔
**************************
ثانیہ زارون کے موبائل پر ثمرین کا فون سن رہی تھی۔جب
فون بند ہوا تو ثانیہ نے موبائل سائیڈ پر رکھنا چاہا مگر پھر رکھتے رکھتے کچھ سوچ
کر رک گئی۔زارون اپنے موبائل کے ساتھ ہی لگا ہوا تھا۔
جب ثمرین کا فون آگیا زارون کو شائد لاک لگانا یاد نہیں
رہا تھا اس نے ایسے ہی موبائل ثانیہ کو پکڑا دیا اور کمرے سے نکل گیا۔
ثانیہ یہ سوچتے ہوئے کہ ہر وقت موبائل کو لاک لگاۓ
رکھتا ہے آج دیکھ ہی لوں کہ آخر اس میں ایسا ہے کیا۔۔۔
ثانیہ نے سب سے پہلے فون کالز چیک کیں اور اس کے بعد
میسجز مگر وہاں زارون کے دوستوں اور فیملی کے علاوہ کسی کی کالز اور میسج نہیں تھے
زیادہ تر میسجز موحد کے تھے۔
اس کے بعد اس نے گیلری کھولی اور تصویریں دیکھنے لگی
زیادہ تر تصویریں سجل کی تھیں۔
چند تصویریں دیکھنے کے بعد وہ ایک تصویر پر رک گئی۔
یہ تصویر ثانیہ اور سجل کی تھی ثانیہ کی تصویر پر سرخ
رنگ کا بڑا سا کروس کا نشان لگایا گیا تھا جبکہ سجل کی تصویر پر بڑا سا سرخ رنگ کا
دل بنا ہوا تھا۔ثانیہ اتنی کم عقل نہیں تھی کہ محبت اور نفرت کے ان نشانوں کو سمجھ
نا سکتی۔
اس سے پہلے کہ وہ باقی کی تصویریں دیکھتی زارون نے
موبائل اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔
کس کی اجازت سے تم میرے موبائل کی تلاشی لے رہی ہو کیا
ڈھونڈنا چاہ رہی تھی اس میں سے۔
زارون کو اس کی اس حرکت پر بے تحاشہ غصہ آیا۔
جو ڈھونڈنا چاہ رہی تھی وہ تو مجھے مل گیا۔
کیا مطلب کیا مل گیا تمہیں۔زارون کو سمجھ نا آئی۔تمہاری
محبوبہ کی تصویریں۔
تمہیں شرم تو نہیں آتی میری ہی بہن کے ساتھ چکر چلاتے
ہوئے اسے تو میں دیکھ لوں گی مگر تم بتاؤ کہ تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے جو تم
اس کے زیادہ سے زیادہ قریب رہنے کی کوشش کرتے ہو کیوں اسے چھونے کے بہانے ڈھونڈتے
ہو اور آخر کیوں تم نے صرف اسی کی تصویریں اپنے موبائل میں سنبھال کر رکھی ہوئی
ہیں بولتے نہیں آخر کیوں۔۔۔۔
"کیوں کہ میں سجل سے محبت کرتا
ہوں"
سن لیا تم نے محبت کرتا ہوں میں اس سے کیوں کہ وہ اس
قابل ہے اور نفرت کرتا ہوں تم سے کیوں کہ تم اس کے قابل ہو سمجھ میں آیا تمہارے۔
زارون ثانیہ کے اس طرح بدتمیزی سے چلانے پر ایک ایک لفظ
پر زور دیتا ہوا بولا۔
جبکہ ثانیہ نے کسی بپھری ہوئی شیرنی کی طرح اس پر حملہ
کیا اسے کالر سے پکڑ کر اپنی طرف اس طرح سے کیا کہ اس کی شرٹ کے دونوں بٹن کھل
گئے۔
اور کالر کے پھرنے پر زارون کو اپنی گردن پر جلن سی
ہونے لگی۔
اگر تمہیں سجل سے محبت تھی تو اس سے شادی کرنے کی بجاۓ
مجھ سے شادی کیوں کی مجھے دھوکے میں کیوں رکھا۔
پہلی بات تو یہ کہ مجھے سجل سے محبت تھی نہیں بلکہ ہے
اور ہمیشہ رہے گی مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ محبت کا یہ جذبہ میرے دل میں پیدا
ہی تب ہوا جب دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں زوروں پر تھیں اور دوسری بات تمہیں
دھوکا دینا ہی تو میرا مقصد تھا مائے ڈیر وائف۔
تم جس گمان میں ہو ناں کہ میں تم سے بے تحاشہ محبت کرتا
ہوں یا تم جیسا اس دنیا میں کوئی نہیں تو آج سن ہی لو مجھ سے کہ تم جیسی لالچی
لڑکی سے کوئی محبت کر ہی نہیں سکتا اور ہاں واقعی میں تم جیسا اس دنیا میں کوئی
بھی نہیں ہے۔
تم جیسی گھٹیا مکار اور لالچی لڑکی واقعی میں دنیا میں
کہیں بھی نہیں۔
تم کہنا کیا چاہتے ہو آخر۔
ثانیہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس کا منہ نوچ ڈالے۔
یاد ہے تمہیں وہ دن آج سے پانچ سال پہلے جب میں نے
تمہیں پرپوز کیا تھا اور تم نے بدلے میں کیسے مجھے ذلیل کر کے رکھ دیا تھا کس بے
دردی سے مجھے ٹھکرایا تھا وہ وقت آج بھی مجھے یاد ہے۔
اور تمہارا کہا گیا ایک ایک لفظ ہر وقت میرے دماغ میں
گردش کرتا رہتا ہے۔
یہی کہا تھا ناں تم نے کہ آخر ہے ہی کیا تمہارے پاس
کماتے ہو نہیں تم ایک بس خالی اچھی شکل ہی ہے تمہارے پاس اور اگر میں اس شکل پر ہی
مر گئی تو بعد میں روٹی کپڑے کو ہی ترستی رہوں گی۔
کیوں کہ میرے جو خواب ہیں وہ تم کسی بھی صورت پورے نہیں
کر سکتے۔
یہ عام سے کھانے کپڑے جو تم لوگوں کے لئے تو خاص ہیں
مگر میری نظر میں کچھ بھی نہیں ہیں۔
اور تم مجھے یہی دلا کر ساری زندگی احسان کرتے رہو گے۔
تم سے اچھا تو وہ روحاب ہے جو کہ انسپکٹر کے عہدے کے
لئے چن لیا گیا ہے اور اب دیکھنا کیسے ترقی کرتا ہے۔
اگر میں شادی کروں گی تو اس سے ہی کیا ہوا جو وہ مجھ سے
محبت نہیں کرتا تم دیکھنا بہت ہی جلد کرنے لگ جاۓ
گا۔
کیوں کہ میں جس چیز کو اپنی طرف لانا چاہوں اور وہ نا
آئے ایسا کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔
جس دن کچھ بن جاؤ گے ناں اس دن آنا میرے پاس ہونہہ جیب
میں ایک آنا نہیں اور آیا ہے پرپوز کرنے۔کیا تمسخر اڑایا تھا تم نے میرا آج تک وہ
باتیں میرے دل میں کسی شعلے کی طرح بھڑک رہی ہیں ان کی تپش نے جلا کر رکھ کر دیا
ہے میرے دل کو۔
مگر میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ تم نے تو مجھے اپنائے
بغیر ٹھکرایا ہے ناں میں تمہیں اپنا کر ٹھکراؤں گا۔
تمہیں وہ سب آسائشیں دوں گا جن کے تم نے خواب دیکھے اور
پھر جب تم ان پر غرور کرنے لگ جاؤ تو ایک ساتھ سب چھین لوں گا۔
جس طرح تم نے مجھے رد کیا تمھیں بھی ویسے ہی رد کروں گا
ایسی مار ماروں گا کہ اٹھنے کے قابل نہیں رہو گی۔
تم جانتی ہو ناں کہ میں نے آج تک اپنے مطلق ایک بات بھی
برداشت نہیں کی جب تک اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دے دیا میرے دل کو ٹھنڈ نہیں پڑی۔
تم ایک لالچی مکار اور بے حس لڑکی ہو میرے دل میں
تمہارے لئے عزت اور محبت رتی بھر بھی نہیں رہی۔زارون بول نہیں رہا تھا بلکہ زہر
اگل رہا تھا۔
اتنا بڑا دھوکہ دیا تم نے مجھے اتنا بڑا کھیل رچایا
میرے ساتھ تمہیں تو میں چھوڑوں گی نہیں گھٹیا انسان۔
ثانیہ پاگلوں کی طرح اس کا کالر پکڑے چلانے لگی اور پھر
سائیڈ ٹیبل پر پڑا لینپ اٹھا کر اس پر وار کرنے لگی۔
مگر زارون نے مسکراتے ہوئے لینپ اس کے ہاتھ سے لیا اور
بولا۔
اب ملا ناں مجھے سکون۔
بڑے خواب دیکھے تھے میرے ساتھ انگلینڈ جانے کے تمہاری
اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میرا انگلینڈ میں کوئی ذاتی گھر نہیں ہے بس ایک فلیٹ ہے جس
میں میں رہتا ہوں۔
ویسے مجھے خوب معلوم تھا جب میں انگلینڈ چلا جاؤں گا تو
تمہارے ارادے بدل جائیں گے تم بچھتاؤ گی مجھے ٹھکرا کر اور تمہیں تو معلوم ہی نہیں
کہ میں تمہیں پرپوز کرنے کے بعد بتانے ہی والا تھا کہ اسی مہینے میں انگلینڈ جا
رہا ہوں۔
مگر نہیں تم نے تو میری کوئی بات سنی ہی نہیں اس کے
بعد۔
مجھے معلوم تھا کہ وہاں سے واپس آنے پر تمہیں دوبارہ
پرپوز کروں گا تو تم انکار نہیں کرو گی بلکہ جھٹ سے ہاں کر دو گی اور میری سوچ
بلکل ٹھیک تھی۔
تم نے تو عیش پرستی کی خاطر روحاب کو بھی ٹھکرا دیا۔
اور اس کے رشتے سے انکار کر کے میری دولت کی چاک و
چوبند دیکھ کر میری طرف آگئی۔
ویسے کتنی کو ہوس ہے تمہیں پیسے کی مجھے تو شرم آتی ہے
تمہیں اپنی بیوی کہتے ہھے مگر ہاں ایک بات تم میری کان کھول کر سن لو میرا نام
زارون ہے اور زارون جب تک اپنی کی گئی بے عزتی کا بدلہ لے نا لے چین سے نہیں
بیٹھتا۔
تمہاری عیش کے دن اب ختم ثانیہ بی بی کیوں کہ بہت جلد
میں تمہیں طلاق دینے والا ہوں۔
کیوں کہ تم اس قابل ہی نہیں کہ میری کہلا سکو۔
پہلے تو میں نے سوچا تھا تمہیں طلاق دے دوں گا اور یہاں
سے چلا جاؤں گا مگر اب جبکہ سجل ہی سجل میرے دل و دماغ پر سوار ہے تو ایسا ہو سکتا
ہے کیا کہ تمہیں چھوڑنے کے بعد اسے اپنا نا بناؤں۔
تم ثانیہ بی بی اپنائے نہیں ٹھکرائے جانے کے قابل
ہو۔زارون نے اسے اس کی اوقات یاد دلائی۔
ہاں ہاں تو دے دو مجھے طلاق مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے
تمہارے ساتھ رہنے کا اور تم کیا مجھے طلاق دو گے میں ہی تم سے خلح لے لوں گی۔
اور یہ جو تم اس بھول میں ہو ناں کہ مجھے طلاق دے کے
سجل سے شادی کر لو گے یہ تو تم سوچنا بھی مت کیوں کہ تم جیسے گھٹیا انسان جس نے
مجھے طلاق دی اس کے ساتھ میرے ماں باپ اپنی دوسری بیٹی کا رشتہ تو بھول کر بھی
کرنے سے رہے۔
اور دوسری بات سجل کی شادی روحاب کے ساتھ طے کی جانے
والی ہے اور اس بات سے تم شائد بے خبر ہو۔۔۔
ثانیہ نے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ لئے اسے ایسے بتایا
جیسے اس کے تمام پلان پر پانی پھیرنے کی کوشش کی ہو۔
بے خبر نہیں بلکہ با خبر کہو کیوں کہ تم سے پہلے یہ بات
میں ماما سے جان چکا ہوں کہ تمہارے گھر میں روحاب کا رشتہ سجل کے لئے مانگنے کی
کھچڑی کتنے دنوں سے پک رہی ہے۔
مگر ڈیر وائف ایسا کبھی نہیں ہوگا سجل کی شادی مجھ سے
ہی ہوگی یہ دیکھ لینا تم۔
اب جبکہ تم سب کچھ جان چکی ہو اور اس گھر میں صرف چند
دن کی مہمان ہو تو ایسا کرو یہ پکڑو میرا موبائل اور باقی کی تصویریں بھی آرام سے
بیٹھ کر دیکھو۔
زارون نے اسے موبائل تھمایا تو ثانیہ نے غصے سے اسے
دیوار کے ساتھ دے مارا۔
زارون کو اس سے اسی قسم کی حرکت کی توقع تھی اس لئے
مسکراتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
************************
روحاب بھائی میں آجاؤں۔
ہاں آجاؤ۔
روحاب نے سجل کو اپنے کمرے میں آنے کی اجازت دی۔
روحاب شرٹ کے بٹن بند کر رہا تھا جب وہ اس کے پاس آئی۔
روحاب بھائی وہ۔۔۔وہ مجھے آپکو۔۔۔۔
سجل اگر کوئی ضروری بات ہے تو جلدی بولو یوں اٹک اٹک کر
اپنا اور میرا بھی وقت برباد مت کرو پلیز۔وہ مجھے آپکو یہ دینا تھا اب کی بار سجل نے
وہ پارسل اس کی طرف بڑھایا۔
اس میں کیا ہے۔
روحاب نے پارسل پکڑے بغیر پوچھا۔یہ آپ پلیز خود ہی دیکھ
لیں میں نہیں بتا سکتی۔
سجل نے اسے زبردستی پیکٹ پکڑایا۔
روحاب اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا کیا مسلہ ہے اور پھر پیکٹ
کھولنے لگا۔
مگر پیکٹ کھولنے کے بعد اسکی رنگت بھی ایسی ہوگئی جیسی صبح
سجل کی تھی۔
یہ کیا بیہودگی ہے۔وہ سجل کی طرف دیکھ کر غصے سے بولا۔
میں نہیں جانتی روحاب بھائی یہ تو پارسل آیا تھا بڑے ابا
کھول کر دیکھنے لگے تو ان سے لے لیا مجھے یہی لگا کہ ماریہ نے نوٹس بھجواۓ
ہیں۔
ان تصویروں کے بارے میں مجھے سچی میں کچھ معلوم نہیں۔
سجل آخر میں منمنائی۔
روحاب نے ان تصویروں کو غور سے دیکھا.یہ وہی لڑکی تھی جو
اس دن اس کے ساتھ سیلفی لینے آئی تھی۔
اور یہ تصویر بھی بلکل وہی تھی بس پیچھے سے بیک گراؤنڈ چینج
کر دیا گیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ان دونوں کا حلیہ بھی۔
روحاب تصویروں کو غصے سے مروڑتا ہوا بولا۔
ان تصویروں کو چاہے پھاڑو چاہے جلاؤ یا کچھ بھی کرو مگر
یہ دوبارہ مجھے یا گھر کے کسی بھی فرد کو کسی بھی صورت نظر نا آئیں۔
روحاب نے تصویریں سجل کو تھمائیں اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
مگر آپ کہاں جا رہے ہیں اس وقت روحاب بھائی سنیں تو سہی۔
سجل اس کے پیچھے دروازے تک آئی مگر وہ اس کی آوازوں کو نظر
انداز کرتا ہوا سیڑھیاں اتر چکا تھا۔
سجل بھی اس کے کہے پر عمل کرنے کے لئے ماچس لینے کچن میں
چلی گئی۔
۔*********************
ثانیہ نے گھر میں شوشہ چھوڑ دیا تھا کہ زارون اسے طلاق دے
رہا ہے۔
گھر کے بڑوں نے جب اس سے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ شادی
کو ابھی چار مہینے نہیں ہوئے اور وہ کہتا ہے کہ مجھے اولاد چاہیے۔
چار مہینے ہی تو ہوئے ہیں کوئی چار سال تو نہیں ہو گئے مگر
وہ کہتا ہے کہ اگر مجھے خوش خبری نا سنائی تو طلاق دے دوں گا۔
ثانیہ نے صفا چٹ جھوٹ ان کے سامنے بول کر سارا کا سارا الزام
زارون کے سر تھوپ دیا۔
اور ساتھ ہی ساتھ آنکھیں رگڑتے ہوئے رونے کا ناٹک بھی شروع
کے دیا۔
جب ثانیہ نے ان کو طلاق کی دھمکی کی وجہ نہیں بتائی تھی
تو سب سوچ رہے تھے کہ ہونہہ قصور ثانیہ کا ہی ہوگا جو بات طلاق تک آن پہنچی۔کیوں کہ
سب جانتے تھے کہ ثانیہ کسی رشتے کو خوش اسلوبی سے نبھا ہی نہیں سکتی۔
شہلا بیگم تو شکر ہی کرتی تھیں کہ ثانیہ ان کی بہو نہیں
بنی کیوں کہ وہ زرمین پھپھو سے اس کے آئے دن بغیر کسی بات کے جھگڑوں کا سنتی رہتی تھیں۔
سب نے ثانیہ کو چپ کرواتے اسے حوصلہ رکھنے کا کہتے ہوئے
زارون سے ساری بات کرنے کی ٹھانی۔
۔***********************
حولدار اس دن جو لڑکی پولیس اسٹیشن کے باہر ملی تھی اسکا
جلدی سے پتا لگواؤ۔
اور ہاں یاد رکھنا دو گھنٹے کے اندر اندر وہ لڑکی یا تو
یہاں موجود ہو یا اسکا پتا میرے ہاتھ میں ہو۔
روحاب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ لڑکی ابھی کے ابھی کہیں
سے بس اس کے سامنے آجائے۔
جی انسپکٹر روحاب۔حولدار اس کے حکم کی تکمیل کرنے کے لئے
باہر نکل گیا۔
۔************************
زارون بیٹا یہ کیا بچپنا ہے ابھی چار مہینے تک نہیں ہوئے
تم لوگوں کی شادی کو اور تم نے ثانیہ کو خوشخبری نا سنانے کی وجہ سے اسے طلاق کی دھمکیاں
دینا شروع کر دی ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو وہ اللّه کی مرضی ہے اس میں تم اس کو کیوں
الزام دے رہے ہو ابھی وقت ہی کتنا ہوا ہے تم لوگوں کی شادی کو۔
رمیز صاحب نے زارون کو سمجھانا چاہا جبکہ زارون ہکا بکا
انہیں دیکھنے لگا کہ یہ آخر ثانیہ نے کون سی کھچڑی بنا کر انہیں کھلائی ہے۔
زارون کو ایک دم تپ چڑھ گئی وہ یہ سوچتا ہوا کہ تمہیں تو
میں کسی حال میں نہیں چھوڑوں گا ثانیہ میڈم۔۔رمیز صاحب سے بولا۔
میں نہیں جانتا مامو کہ ثانیہ نے آپ سب سے اس کے علاوہ اور
کون کون سی باتیں کی ہیں مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اس نے جو کچھ بھی کہا ہوگا
اس میں ایک فیصد بھی سچ نہیں۔
بات تو اصل یہ ہے کہ ثانیہ نے خود مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر
میں اسے اس مہینے کے اندر اندر انگلینڈ نا لے کر گیا تو وہ مجھ سے طلاق لے لے گی۔
روز مجھ سے اسی بات پر لڑتی ہے گھر کا سکون برباد کر کے
رکھ دیا ہے اگر آپکو یہ جھوٹ لگ رہا ہے تو آپ ماما سے پوچھ لیں ہماری لڑائی کا حرف
حرف ان تک آسانی سے پہنچتا ہے۔
میں کتنی کوشش کرتا ہوں کے ہماری لڑائی کو ہمارے کمرے تک
ہی محدود رکھوں مگر وہ رکھنے ہی نہیں دیتی۔
روز شوپنگ پر جانا ہوتا ہے اسے اور میں لے کر بھی جاتا ہوں
روز رات کو دیر تک لونگ ڈرائیو کے لئے جانا ہوتا ہے اسے میں تب بھی چل پڑتا ہوں رات
کو ایک دو بجے اٹھ کر کہتی ہے کہ مجھے باہر سے آئسکریم لا کر دو جبکہ گھر میں آئسکریم
موجود ہوتی ہے مگر نہیں ہر بات میں ضد آگے ہوتی ہے۔
اسے گھومنے پھرنے سے غرض ہے شوپنگ سے غرض ہے انگلینڈ جانے
سے غرض ہے اب آپ ہی بتائیں مامو ان سب میں آخر میں کہاں ہوں میرا بھی تو اس پر کوئی
حق ہے۔
مگر اس کا کہنا ہے کہ شادی سے پہلے تو تم کہتے تھے کہ تمہیں
انگلینڈ لے کر جاؤں گا اور میں شادی کے لئے مان گئی اب آپ ہی بتائیں مامو اسکا مطلب
یہی ہوا کہ اس نے مجھ سے شادی صرف یہاں سے دور انگلینڈ جانے کے لئے کی تھی۔
اس نے جو بات آپکو بتائی ایسا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ سچ تو
یہ ہے میں خود اکثر اس سے اس بارے میں بات کرتا ہوں تو کہتی ہے کہ وہ ابھی بچوں کے
جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتی دو تین سال تک آزادی سے رہنا چاہتی ہے۔
اگر آپکو یقین نہیں تو بلائیں اسے اور پوچھیں اس سے۔
زارون نے جو بچوں والی بات کہی وہ واقعی میں سچ تھی۔زارون
کی بات سننے کے بعد رمیز صاحب کو تو چپ ہی لگ گئی۔
وہ کیا سب ہی جانتے تھے کہ ثانیہ کی فطرت شروع سے ہی مطلبی
اور خود غرض ہے۔
بچپن سے لے کر اب تک وہ ہر بات پے جھوٹ بولتی آئی تھی۔
اور صرف اور صرف اپنا مطلب ہی تلاش کرتی آئی تھی۔مگر رمیز
صاحب کو لگا تھا کہ ان کی بیٹی کم از کم شادی کے معاملے میں تو اتنا بڑا جھوٹ نہیں
بولے گی۔
رفیق صاحب زارون کی ساری بات سننے کے بعد بولے۔زارون بیٹا
میں تمہیں کسی بھی بات میں غلط نہیں مانتا۔
قصور ثانیہ کا ہے مگر چلو اس بار اس کی باتوں کو یہ سمجھ
کر نظر انداز کر دینا کہ تھوڑی کم عقل ہے نا سمجھ ہے ابھی مگر خیر تمہاری ممانی سمجھا
دیں گیں اسے۔
تم ثانیہ کو لے کر نہیں جاؤ گے تم گھر جاؤ شام کو ثانیہ
خود تمہارے پاس موجود ہوگی۔
بہتر ہے کہ اسے اسکی غلطی کا احساس کرایا جائے اور وہ خود
تمہارے پاس آئے۔
جی بہتر بڑے مامو۔زارون دل میں اپنی اس ایموشنل کارکردگی
پر خوش ہوتا ہوا کھڑا ہوگیا۔
جبکہ شہلا اور ثمرین ثانیہ کو سمجھانے کے لئے اٹھ گئیں۔
۔*********************
انسپکٹر روحاب اس لڑکی کا پتا معلوم ہو گیا ہے۔
اسکا نام مونا ہے اور وہ شوپنگ پلازہ کے پاس آسمانی بلڈنگ
کے روم نمبر سترہ میں رہتی ہے۔
حولدار نے واقعی میں پورے دو گھنٹے کے اندر آکر روحاب کو
اس لڑکی کا پتا بتایا۔
گڈ ویری گڈ۔۔۔
روحاب اسے شاباشی دیتا ہوا مسکرا دیا۔
۔*********************
روحاب سیڑھیاں چڑھتا ہوا دوسرے پورشن پر آیا۔یہ کافی پرانی
بلڈنگ تھی۔
تمام رومز کے باہر نمبرز کی سلیٹ لگی ہوئی تھی۔جو کہ مٹی
اور زنگ سے بھری ہوئی تھیں۔
نمبرز تو مشکل سے نظر آرہے تھے۔
روحاب جلدی سے روم نمبر سترہ کی طرف بڑھ گیا۔بیل شاید خراب
تھی جو چل نہیں رہی تھی اس لئے وہ ڈور ناک کرنے کے بعد اس کے کھلنے کا انتظار کرنے
لگا۔
زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا اس مونا نامی لڑکی نے جلد
ہی دروازہ کھول دیا۔
روحاب نے دیکھا کہ اسے دیکھتے ہی اس کے چہرے کی رنگت اڑ
گئی۔
ہائے میں انسپکٹر روحاب یقیناً یاد ہی ہوگا تمہیں میں۔یاد
کیسے نہیں ہونگا تم تو میری بہت بڑی فین ہو ناں۔وہ پہلے تو گھبراتی ہوئی سر ہلانے لگی
مگر پھر جلد ہی اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتی ہوئی بولی۔
جی جی آپکو کیسے بھول سکتی ہوں ابھی اس دن ہی تو آپکے ساتھ
تصویر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے بولتے بولتے زبان دانتوں تلے دبائی۔
اچھا ہوا یہ بات تم نے خود ہی کہہ دی ورنہ مجھے ہی شروع
کرنے کی زحمت کرنی پڑتی۔
سنو لڑکی میرے پاس نا ہی زیادہ وقت ہے اور ہوتا بھی تو مجھے
بلکل شوق نہیں ہے اپنا قیمتی وقت برباد کرنے کا اس لئے اب جلدی سے بتا دو کہ ان تصویروں
کا کیا چکر ہے۔
جی میں سمجھی نہیں۔وہ لڑکی شائد اتنی جلدی حقیقت اگلنے نہیں
والی تھی۔
ایک پولیس والے سے ایک مجرم سے سچ اگلوانا کوئی مشکل کام
نہیں۔
مگر تم نے اگر اسے مشکل بنانے کی کوشش کی تو یاد رکھنا تمہیں
میرے ساتھ پولیس اسٹیشن جانا پڑے گا۔
اور جانتی ہو ناں کہ پولیس اسٹیشن میں مجرم کس لئے لائے
جاتے ہیں۔
روحاب جو کہہ رہا تھا سچ ہی کہہ رہا تھا کیوں کہ اگر وہ
لڑکی سچ بولنے میں کچھ دیر اور لگاتی تو وہ واقعی میں اسے پولیس اسٹیشن لے جانے میں
دیر نا لگاتا۔میں نے کچھ نہیں کیا انسپکٹر روحاب میں سچ کہہ رہی ہوں۔وہ گھبراتے ہوئے
بولی۔
میں نے کب کہا کہ تم نے کچھ کیا ہے میں تو یہ پوچھ رہا ہوں
کہ ان تصویروں کے پیچھے اصل ہاتھ کس کا ہے۔
کون ہے آخر جسے میرے ہاتھوں مرنے کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے۔
وہ لڑکی ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ہاتھوں کی انگلیاں چٹکارنے
لگی جیسے بھاگنا کا راستہ تلاش کر رہی ہو۔روحاب اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا۔پھر
روحاب نے اچانک ہی پستول نکال لی۔
روحاب کا ارادہ گولی چلانے کا بلکل بھی نہیں تھا ہاں مگر
اسے ڈرانے کا ضرور تھا کیوں کہ وہ بتانے میں وقت بہت لگا رہی تھی اور روحاب کو اس انتظار
سے سخت کوفت ہو رہی تھی۔
روحاب کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر اس کی پوری آنکھیں کھل
گئیں اور ساتھ ہی زبان بھی۔
یہ سب میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا بلکہ ایسا کرنے کو مجھے
کسی نے بولا تھا اور اس کام کے پیسے بھی دیے تھے۔
میرا کام صرف آپکے ساتھ تصویریں بنوانا تھا ان تصویروں میں
ردوبدل میں نے نہیں بلکہ انہوں نے کی ہے۔
کون ہے وہ؟
روحاب دانت پیستا ہوا بولا۔
اس پر اس لڑکی نے اس ہستی کا نام بتا دیا جو روحاب کو سب
کی نظروں میں گرانے کے چکر میں تھی۔
جبکہ روحاب کو وہ نام سن کر اپنے کانوں پر یقین نا آیا۔
*******************
ثانیہ شام کو اپنے سسرال موجود تھی۔
اس کے چہرے سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ اسے یہاں زبردستی
بھیجا گیا ہے۔
شہلا اور ثمرین نے پہلے تو اسے پیار سے سمجھایا مگر جب وہ
نا سمجھی تو ثمرین غصے سے بولیں۔
جب تک تم کنواری تھی تب تک ہمارا تم پر زیادہ حق تھا اور
بچپن سے لے کر اب تک ہم تمہاری ضد اور من مانیوں کو مانتے آئے ہیں۔
مگر اب تم شادی شدہ ہو ہم سے زیادہ تم پر اب تمہارے شوہر
کا حق ہے وہ جو کہتا ہے اسے مانا کرو اور آئے دن کے لڑائی جھگڑوں سے اسکی اور اپنی
زندگی اجیرن مت کرو۔
سال دو سال بعد وہ یہاں آتا ہے اس لیے کہ سارا سال محنت
کرنے کے بعد وہ ایک دو مہینے اپنے گھر والوں کے ساتھ سکون سے رہ سکے مگر تم اس کے سکون
کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہو۔
خبردار جو آئندہ تم نے جھوٹی باتیں بنا کر ہمیں زارون کے
خلاف کرنے کی کوشش کی تو۔
تمہاری شادی تمہاری مرضی اور خوشی سے ہوئی ہے ہم نے کوئی
زبردستی نہیں کی تمہارے ساتھ۔
اب اٹھو اور جاؤ ورنہ میں زارون کو بولوں گی کہ آؤ اور اپنی
بیوی کو جس طرح مرضی یہاں سے لے جاؤ۔اور ہاں اب وہی تمہارا گھر ہے وہیں رہو تو بہتر
ہے۔
آئے روز یہاں مت آیا کرو ساتھ ساتھ گھر ہونے کا یہ مطلب
نہیں کہ تم سسرال سے زیادہ میکے میں نظر آؤ۔ثانیہ یہ سوچتی ہوئی کہ یعنی میرا جھوٹ
پکڑا گیا زارون اپنا کہا پورا کر کے ہی چھوڑے گا وہاں سے پاؤں پٹکتی ہوئی کھڑی ہوگئی۔
*******************
روحاب بیٹا ہمیں تم سے کچھ بات کرنی ہے یہاں بیٹھو۔
بڑے پاپا اور بڑی ماما نے روحاب کو اپنے کمرے میں بلایا
اور بیٹھنے کا کہا۔
جی پاپا کوئی خاص بات ہے۔ہاں بیٹا بات تو خاص ہی ہے۔
ہم اصل میں تمہاری شادی کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
بہت منع کر لیا تم نے مگر اب نہیں بہت دیر کر لی تم نے مگر
اب ہم تمہاری شادی کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
مگر پاپا اتنی جلدی کیا ہے۔
روحاب کو کوئی اور بہانہ نا سوجھا تو جلدی کا بہانہ کیا۔
کیا ہوگیا ہے روحاب کس جلدی کی بات کر رہے ہو تم ستائیسویں
میں لگ لگنے والے ہو تم اور ابھی بھی تم کہہ رہے ہو کہ ہم جلدی کر رہے ہیں۔اب کی بار
شہلا بیگم بولیں۔
تمہاری ماما بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں اب بتاؤ کیا کہتے ہو
تم۔
ٹھیک ہے پاپا اگر آپ لوگ پکا ارادہ کر ہی چکے ہیں تو میں
انکار نہیں کروں گا روحاب نے ان کے فیصلے پر سر جھکا دیا۔
یہ ہوئی نا بات اب بتاؤ کے کوئی لڑکی تو پسند نہیں تمہیں
رفیق صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
آپ بھی کیسی بات کر رہے ہیں پاپا اگر پسند ہوتی تو اب تک
منع کیوں کرتا۔
یعنی یہ تو اور بھی اچھی بات ہوگئی کہ اب تمہیں ہماری پسند
کی لڑکی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔رفیق صاحب کی بات پر روحاب نے چونک کر سر اٹھایا۔
کیا مطلب آپ نے کوئی لڑکی ڈھونڈ کر رکھی ہے یا ڈھونڈنے کا
ارادہ رکھتے ہیں۔
ڈھونڈنے کی ضرورت ہی کیا ہے روحاب بیٹا اپنی سجل ہے تو سہی
گھر کی بچی ہے اپنے ہاتھوں میں پلی بڑھی ہے پھر بھلا باہر جانے کی کیا ضرورت ہے۔شہلا
بیگم سجل کی بات کرتی ہوئیں محبت سے بولیں۔
جبکہ سجل کے نام پر روحاب انہیں حیرت سے دیکھنے لگ گیا۔
کیا ہوا روحاب تمہیں سجل سے شادی پر کوئی اعتراض ہے دیکھا
جاۓ تو کوئی کمی نہیں ہے اس میں
ہاں بس تھوڑی سی لاپرواہ ہے۔
نہیں ماما ایسی بات نہیں بس میں نے اسکو کبھی اس نظر سے
نہیں دیکھا۔
یہ تو ہمیں بھی معلوم ہے روحاب بیٹا سجل بہت معصوم ہے ثانیہ
کی طرح بلکل بھی نہیں ہے۔
اور شکر ہے کہ بچپن سے لے کر اب تک اس میں ثانیہ کی کوئی
بات نظر نہیں آئی۔ تم دونوں ایک دوسرے
کے لئے ہر لحاظ سے بہتر ہو۔شہلا بیگم سجل کو بہو بنانے کا ارادہ پکا ارادہ کر چکی تھیں۔
ماما میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا مجھے سوچنے کے لئے کچھ
وقت چاہیے۔
ہاں ہاں ضرور وقت لو مگر جواب صرف ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔روحاب بیٹا
جواب ہاں میں ہو یا نا میں تمہیں اپنی زندگی کے متعلق فیصلہ کرنے کا پورا حق ہے۔
شہلا کی بات منہ میں ہی رہ گئی جب رفیق صاحب نے ان کی بات
کاٹی۔
تم بہتر جانتے جو کہ تم سجل کے ساتھ خوش رہ سکتے ہو یا نہیں
اس کے ساتھ تمہارا گزارا ہو سکتا ہے یا نہیں اس لئے تم آرام سے سوچ کر ہمیں جواب دینا۔اب
جاؤ شاباش اپنے کمرے میں آرام کرو تھکے ہوئے ہوگے۔
رفیق صاحب کی بات پر روحاب سر ہلاتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
*************************
کیا روحاب بھائی؟؟؟؟سجل کو یقین نا آیا۔
ہاں اور نہیں تو کیا ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس بدتمیز موحد
کی شکایت کرنے گئی تھی پاپا سے تو انہیں روحاب بھائی سے تمہارے لئے بات کرتے سنا۔
معارج نے کچھ دیر پہلے ہونے والی گفتگو سے سجل کو آگاہ کیا۔
اچھا تو پھر روحاب بھائی نے کیا کہا۔سجل کو جاننے کی بے
چینی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا سوچ کر جواب
دوں گا۔
اس بات پر سجل کا منہ بن گیا۔
وہ سوچنے لگی اگر انہوں نے سوچنے کے بعد انکار کر دیا تو۔اور
یہی بات معارج بھی اس سے کہنے لگی تو سجل بولی۔
ہاں تو کر دیں انکار مجھے کیا۔
مگر اندر سے تو اس کی بھی خواہش تھی کہ اس رشتے کے مطلق
روحاب کا انکار نہیں بلکہ اقرار ہو۔
اور وہ سوچے بیٹھی تھی کہ اگر ماما پاپا نے اس سے بات کی
تو وہ فوراً ہاں کر دے گی۔
ویسے اب تو بس روحاب بھائی کے ہاں کرنے کی دیر ہے پھر تو
میرےتم سے تین تین رشتے بن جائیں گے۔یعنی کزن اور دوست کے ساتھ ساتھ بھابھی کا بھی۔معارج
شرارت سے بولی۔
اچھا اب بس کر دو جو ہوگا دیکھا جاۓ
گا۔سجل نے اسے چپ کروانا چاہا مگر وہ چپ نا کی۔
کیا مطلب جو بھی ہوگا۔
مطلب انکار یا اقرار۔سجل نے اسے سمجھایا۔
اچھا میں ذرا اس موحد کی شکایت لگا کر آئی پہلے تو روحاب
بھائی کمرے میں تھے اس لئے واپس آگئی مگر اب تو یہ نہیں بچنے والا۔
معارج موحد کی شکایت بڑے پاپا کو لگانے کے لئے ان کے کمرے
میں چلی گئی۔
موحد نے اس کے بیگ سے نوٹس نکال کر انہیں پھاڑ کر رومان
کے ساتھ مل کے ان کے جہاز بناۓ
تھے اور پھر پورے لان میں ادھر سے ادھر اڑائے۔
معارج کو معلوم ہوا تو ان دونوں پر برس پڑی۔
موحد نے تو اپنے دونوں کان بند کر لئے مگر رومان کو جب معلوم
ہوا کہ جن کے جہاز بنا بنا کر وہ اڑا رہا تھا وہ دراصل معارج کے نوٹس تھے تو جلدی سے
وہاں سےکھسک گیا۔
**********************
تم کیا چاہتے ہو مجھ سے۔
کمرے میں اس وقت دو نفوس موجود تھے یعنی روحاب اورزارون۔
وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔
کیا مطلب میں سمجھا نہیں۔زارون نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔
تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کس بارے میں بات کر رہا ہوں
اس لئے زیادہ انجان مت بنو۔
انجان تو بنو گا جب تک تم سیدھی طرح مجھے ساری بات نہیں
بتاؤ گے۔زارون ہونٹوں پر مسکراہٹ لئے بولا۔
سونا نامی لڑکی کو میرے ساتھ تصویریں بنوانے کے لئے بھیجنا
اور پھر ان تصویروں میں ردو بدل کر کے انکا میرے لئے غلط استعمال کرنا اس سب کے پیچھے
تمہارا کیا مقصد تھا۔روحاب نے بغیر کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ساری بات کہہ ڈالی۔
اوہو تو تمہیں معلوم ہو ہی گیا۔ویسے میں جانتا تھا کہ انسپکٹر
روحاب سے کوئی بات چھپی رہ ہی نہیں سکتی اور لگتا ہے کہ وہ تصویریں گھر کے بڑوں کے
ہاتھ نہیں لگیں نہیں تو اب تک گھر کی فضا اتنی پر سکون نا ہوتی۔
میں یہاں تم سے گھر کی فضا کے متعلق بات کرنے نہیں آیا بلکہ
میں وہ وجہ جاننے آیا ہوں جس کو مد نظر رکھتے ہوئے تم نے بغیر کسی رشتے کا لحاظ رکھے
بغیر یہ غلط کام کروایا۔آخر کیا چاہتے ہو تم مجھ سے۔
اس وقت روحاب کو اس کی مسکراہٹ زہر لگ رہی تھی۔
تمہاری طرف سے انکار۔
کیا مطلب۔روحاب کو سمجھ نا آئی۔
تمہاری طرف سے سجل کے لئے انکار۔سجل سے شادی سے منع کر دو۔کیوں
کہ سجل صرف میری ہے اور میں اس کی شادی تم سے تو کیا کسی سے بھی نہیں ہونے دونگا۔
کیا گھٹیا پن ہے یہ۔روحاب کو ایک دم غصہ آگیا۔
ڈیر کزن یہ گھٹیا پن نہیں بلکہ محبت ہے۔میں نے وہ تصویریں
اس لئے بھیجیں تا کہ گھر کے تمام افراد انھیں دیکھیں اور پھر چھوٹے مامو اور مامی تو
کیا سجل بھی تم سے شادی کے لئے ہرگز راضی نا ہو۔
مگر افسوس وہ تصویریں تمہارے ہاتھ لگ گئیں۔زارون نے افسوس
کیا۔
روحاب اس کی بات پر مسکرایا اور بولا۔
سجل مجھ سے شادی کے لئے انکار نہیں کرے گی کیوں کہ تمہاری
بے خبری کےلئے تمہیں بتاتا چلوں کہ وہ تصویریں میرےنہیں بلکہ سجل کے ہاتھ لگی تھیں
اور وہ انہیں کسی اور کے پاس لے جانے کی بجاۓ
میرے پاس لے کر آئی تھی۔
اور پھر میرے کہنے پر ان تصویروں کو جلا بھی ڈالا۔اس بات
سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ اسے مجھ پر کتنا یقین ہے اور وہ مجھے کسی کی بھی نظروں
میں گرانا نہیں چاہتی۔
بس یہی تو بات ہے روحاب کہ اس وقت قسمت تمہارے حق میں تھی
اور۔۔۔۔۔۔۔
اور آگے بھی میرے حق میں ہی رہے گی۔روحاب نے اسکی بات بیچ
میں کاٹی۔
اور میں جان چکا ہوں کہ ثانیہ نے چاہے جھوٹ ہی بولا ہو کہ
تم نے اسے طلاق کی دھمکی دی ہے صرف چھوٹی سی بات پر مگر اندر کی بات تو یہ ہے کہ تم
واقعی میں اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتے ہو۔اور اگر تو تم مرد ہو تو تم کبھی بھی ایسا
مت کرنا۔
روحاب کی اس بات پر زارون نے قہقہ لگایا اور بولا۔
واہ میرے بھائی کیا بات کہہ دی تم نے آئی لائک اٹ۔اور ہاں
اندر کی بات تو تم جانتے ہی نہیں۔
تم جانتے ہی نہیں کہ میں نے ثانیہ سے شادی صرف اپنی انا
کو تسکین پہنچانے کے لئے کی تھی۔
اس نے ٹھکرایا تھا مجھے اور وہ بھی تمہارے لئے اور مزے کی
بات تو یہ کہ اس نے تمہیں بھی ٹھکرا دیا
میرے لئے اوہ سوری نا تمہارے لئے نا میرے لئے بلکہ پیسوں کے لئے۔
مگر میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ جب تک اسے اپنا کر ٹھکرا
نا دوں اسے وہ ساری سہولتیں آسائشیں دے کر جن کی وہ تمنا رکھتی تھی وہ واپس نا چھین
لوں تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا۔
یہ سب تو میں نے پہلے سے ہی سوچ کر رکھا تھا مگر اس سب میں
جو چیز نئی ہوئی وہ تھی سجل سے محبت اور وہ بھی مہندی کی رات۔
اب بتاؤ بندہ شادی اس سے کرے جس سے اسکو محبت ہے یا اس سے
جس سے اسے سخت نفرت ہے۔تم کیا جانو کہ شادی کے بعد کے دنوں میں میں نے اس لڑکی سے جس
سے میرارواروا محبت کرتا ہےکیسے گزارا کیا ہوگا۔
اب بھی وہ میرے کمرے میں ہوتی ہے تو میرا اپنے ہی کمرےمیں
سانس لینے کو دل نہیں کرتا۔
کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ ثانیہ وہی لڑکی ہے جس سے کبھی
میں نے دل و جان سے محبت کی تھی۔مگر اب وہ لڑکی میری نفرت کے قابل بھی نہیں۔
روحاب نے زارون کی باتوں کو خاموشی سے سنا اور اٹھ کھڑا
ہوا۔
کہاں جا رہے ہو میری بات کا جواب نہیں دیا تم نے۔زارون نے
اسے بغیر کسی بات کا جواب دیے واپس جانے کے لئے تیار دیکھا تو پوچھنے لگا۔
میرا جواب صرف اتنا سا ہے کہ جس طرح تمہاری ضد ہے کہ سجل
کی شادی اپنے علاوہ کسی اور سے نہیں ہونے دو گے اسی طرح اب میری بھی ضد ہے کہ شادی
کروں گا تو صرف سجل سے اور وہ بھی بہت جلد۔
روحاب کی اس بات پر زارون کی مسکراہٹ کہیں غائب ہوگئی۔
مگر پھر وہ دوبارہ مسکراتے ہوئے بولا چلو پھر دیکھتے ہیں
کہ کس کی ضد پوری ہوتی ہے کس کی جیت ہوتی ہے اور کس کی ہار۔
******************
یہ میرے لیپ ٹاپ پر پانی تم نے گرایا ہے۔زارون نے دیکھا
کہ اسکا لیپ ٹاپ پانی سے نچر رہا تھا۔
میرا ہاتھ لگ گیا تو گر گیا جگ۔
ثانیہ نے ایسے کہا جیسے وہ کوئی کپڑا ہو جس پر پانی گر جاۓ
تو سوکھ کر پھر سے ویسا ہی ہو جاۓ
گا جیسا پہلے تھا۔
تمہیں اتنی بھی سینس نہیں کہ ایسی چیزوں کو پانی کے پاس
نہیں رکھتے۔اور پھر جب گر گیا تھا پانی تو کیا منہ اٹھا کر دیکھتی رہی تھی لیپ ٹاپ
اٹھا کر پیچھے نہیں کر سکتی تھی۔زارون اس کی کم عقلی پر تپ کر بولا۔
میں کیوں اٹھاتی تمہاری نوکر ہوں کیا۔
ہاں ایک نوکر سے بڑھ کر میری نظر میں تمہاری کوئی حثیت ہے
بھی نہیں۔
کیا کہا تم نے آخر سمجھتے کیا ہو تم خود کو ایک نمبر کے
دھوکے باز گھٹیا آدمی۔ثانیہ کو زارون کا اسے نوکر کہنا تپا ہی تو گیا تھا۔
ہاں ہوں میں گھٹیا اور دھوکے باز مگر پھر بھی میں تمہارے
لیول تک نہیں پہنچ سکتا۔
یہ پکڑو اپنا سرہانہ اور نکلو میرے کمرے سے اور جا کرجہاں
مرضی سو۔زارون نے اسے اس کا سرہانہ تھمایا اور کمرے سے نکل جانے کا کہا۔
ثانیہ نے سرہانہ غصے سے اس کے منہ پر مارا۔
مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تم جیسے گھٹیا انسان کے ساتھ
ایک ہی بیڈ پر سونے کا۔ثانیہ یہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
زارون کو ثانیہ کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا۔
اس نے پاؤں سے زور سے کمرے کا دروازہ بند کیا اور بیڈ پر
بیٹھ کر لیپ ٹاپ کو چیک کرنے لگا جس کا ثانیہ نے پانی گرا کرکوئی حال نا چھوڑا تھا۔
******************
روحاب نے سجل سے شادی کے لئے ہاں کر دی جب یہ بات سجل کو
معلوم ہوئی تو اسے یقین نا آیا۔
سجل آپی آپ روحاب بھائی سے شادی کے لئے خوش تو ہیں ناں۔سجل
روحاب کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی جب انعم نے اس سے پوچھا۔
معلوم نہیں۔
یہ تو کوئی جواب نا ہوا ٹھیک سے بتائیں آپ خوش ہیں یا نہیں۔
شائد ہاں۔سجل نے کہا۔
آپی شائد یا پکا۔انعم نے اب قدرے اونچی آواز میں پوچھا۔
ہاں۔سجل نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔
یہ ہوئی نا بات ویسے میں تو بہت خوش ہوں روحاب بھائی میرے
جیجوبننےوالے ہیں آپ دونوں کی جوڑی ویسے بہت کمال کی لگے گی۔
ہاں جیسے تمہاری اور موحد کی۔انعم اپنی ہی جون میں بولی
جا رہی تھی جب سجل نے بیچ میں لقمہ دیا۔
کیا کہا۔
میں نے کہا جیسے تمہاری اور موحد کی۔سجل نے مزے سے دوبارہ
کہا۔
سجل آپی آپ بھی ناں۔انعم شرماتی ہوئی وہاں سے اٹھ گئی۔
******************
وہ سب لان میں آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔
سجل کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ سب کو پکڑنے
کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
کبھی دائیں طرف سے موحد اس کے بازو پر چٹکی کاٹتا تو کبھی
بائیں طرف سے معارج۔
تم دونوں بس ایک دفعہ میرے ہاتھ لگ جاؤ۔ایک دفعہ تم لوگوں
کی باری آتو لے پھر میں بھی ایسا ہی کروں گی دیکھنا بچو۔سجل نے اپنے بازو سہلاتے ہوئے
کہا۔
جبکہ انعم اور رومان دور سے ہی سجل آپی میں یہاں ہوں مجھے
پکڑیں کی آوازیں لگا رہے تھے۔
ان کو پکڑنے کے چکر میں سجل کسی چیز سے ٹھوکر کھا کرگرنے
لگی جب کسی نے اسے تھام لیا۔
سجل نے سامنے والے کو چھو کر دیکھا اور بولی۔
اب پکڑے گئے ناں موحد کے بچے۔
مگر جب اس نے آنکھوں سے پٹی اتاری تو دیکھا کہ سامنے موحد
نہیں بلکہ زارون تھا۔جو اسے دونوں بازؤں سے تھامے مسکرا رہا تھا۔
ہار گئی ہار گئی سب ایک دم چلانے لگے۔
تب ہی روحاب کی گاڑی گیٹ سے اندر آئی۔
وہ گاڑی سے نکلا تو ایک دوسرے کے اتنے پاس کھڑےسجل اور زارون
پر اس کی نظر پڑی۔
کیا شور مچا رکھا ہے تم لوگوں نے۔روحاب جان بوجھ کر اونچی
آواز میں بولا تا کہ زارون کو معلوم ہو جاۓ
کہ وہ بھی یہیں موجود ہے۔
روحاب بھائی ہم ہائیڈ اینڈ سیک کھیل رہے ہیں۔رومان نے بتایا۔
یہ کھیل تماشا بند کرو کھانے کا وقت ہو رہا ہے اندر چل کر
کھانا کھاؤ سب۔
روحاب نے ان سب کو غصے سے گھورتے ہوئے اندر چلنے کا کہا
جس پر ان چاروں نے ایک ساتھ اندر کی طرف دوڑ لگا دی۔
*****************
سجل روحاب کو کھانے کے لئے بلانے آئی تھی۔
وہ ان سب کو کھانے کے لئے اندر بھیج کر خود کمرے میں آگیا
تھا۔
روحاب بھائی بڑے پاپا کہہ رہے ہیں کہ کھانے کے لئے نیچے
آجائیں۔
آرہا ہوں تم جاؤ۔بلکہ یہاں آؤ مجھے تم سے ایک بات کہنی تھی۔
سجل جو کمرے سے باہر ہی کھڑی تھی اندر آگئی۔
جی کہئے۔
مجھے کہنا یہ ہے کہ آج کے بعد تم مجھے زارون کے پاس نظر
مت آؤ۔
لیکن کیوں۔سجل نا سمجھی سے بولی۔
بس میں نے کہہ دیا ناں تم اس کے پاس بھی مت جانا اور اگر
وہ گھر آئے تو بہتر ہے کہ تم اس کے سامنے سے فوراً ہٹ جاؤ اوکے۔
جی روحاب بھائی۔
روحاب اس کد بھائی کہنے پر مسکرا دیا۔
ارے پاگل لڑکی اب تو بھائی کو بھائی کہنا بند کر دو اب تو
یہ تمہارے حالیہ منگیتر اور فیوچر ہسبنڈ ہیں۔اور منگیتر کو بھلا کون بھائی بولتا ہے۔موحد
کمرے میں آتے ہوئے شرارت سے بولا تو سجل شرماتی ہوئی اسے گھوری ڈال کر باہر نکل گئی۔
روحاب اور موحد بھی اس کے پیچھے ہی کھانے کے لئے کمرے سے
نکل گئے۔
******************
انعم تم سے ایک بات کرنی ہے میں نے۔سجل کافی دیر سے بیٹھی
کچھ سوچ رہی تھی اور جب کافی سوچنے کے بعد بھی اسے کچھ سمجھ نا آیا تو انعم سے بولی۔
ہاں بولیں آپی۔
انعم لیز کھاتی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد جوس کے سپ لیتی
لیپ ٹاپ پر ناول پڑھنے میں مصروف تھی۔
انعم کیا تمہیں لگتا ہے کہ مجھے زارون بھائی سے دور رہنا
چاہیے۔
کیا مطلب میں سمجھی نہیں۔انعم کو کچھ سمجھ نا آئی۔
مطلب یہ کہ تم نےکبھی محسوس نہیں کیا کہ وہ بہانے بہانے
سےمیرے پاس آنے اور مجھے چھونے کی کوشش کرتے ہیں۔اور پتا ہے کچھ دن پہلے موحد نے اور
کل روحاب نے بھی مجھے ان سےدوررہنے کا بولا۔
سجل نے اسے کھل کر بات بتائی تو انعم بھی سوچ میں پر گئی
اور پھر بولی۔
سجل آپی میرے خیال سےوہ ٹھیک ہی کہتے ہیں کیوں کہ نوٹ تو
میں نے بھی بہت دفعہ کیا ہے لیکن ایک دو دفعہ تو میں نے یہ سمجھ کرنظر انداز کر دیا
کہ وہ شائد ایک کزن کی حثیت سے آپ سے پیار جتاتے ہیں۔مگر اس کے بعد میں اپنی سوچوں
کو جھٹک نہیں سکی کیوں کہ ان کی نظریں تو کچھ اور ہی کہتی ہیں۔
مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے مگر میں کیا کروں دل و دماغ دونوں
ہی کچھ سمجھ نہیں پا رہے کہ آخر ان کے دماغ میں چل کیا رہا ہے۔
چھوڑیں سجل آپی آپ بس موحد اور روحاب بھائی کے کہے پرعمل
کریں۔
دفعہ کریں ان سوچوں کو اور ادھر آئیں اور میرے ساتھ ناول
پڑھیں بہت زبردست ہے۔انعم نے لیپ ٹاپ اس کی طرف کیا۔
سجل بھی اس بارے میں زیادہ سوچنا نہیں چاہتی تھی اس لئے
اپنے دماغ کو ان سوچوں سے پرے رکھنے کے لئے ناول پڑھنے لگی۔
****************
آج گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا بلکل خاموشی۔
ایسی خاموشی جو طوفان سے پہلے کی ہوتی ہے مگر یہاں تو طوفان
آچکا تھا۔
ثانیہ کو طلاق ہو چکی تھی بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ وہ طلاق
لےکرگھرآچکی تھی۔
گھر کے تمام افراد کو چپ لگ گئی تھی بولتے بھی تو کیا ثانیہ
نے جو کرنا تھا وہ تو کر چکی۔
ثانیہ بول بول کر زارون کو جتنی ہو سکے اتنی بددعائیں دے
کر چپ کرچکی تھی۔
اس کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے کہ وہ مجھے طلاق دیتا میں
خود لے کر آگئی۔
ارے کون کرتا اس گھٹیا انسان کے ساتھ گزارا۔
میری شادی اس شخص کے ساتھ کروا کرآپ لوگوں نے تو میری زندگی
عذاب ہی بنا دی۔مگر اب میں دیکھتی ہوں کہ میرے جیتے جی اس کی شادی کیسے ہوتی ہے۔میری
زندگی اجیرن کی ہے ناں اب اس کی بھی ہوگی۔
گھر کے تمام لوگ ثانیہ کو ہی قصور وار مانتے تھے اور اس
کا قصور تھا بھی زارون اگر انا پرست تھا تو وہ اس سے دو ہاتھ آگے تھی۔
طلاق نام کا دھبا خود پر لگوانا شائد اس کے لئے کوئی بڑی
بات نا ہو مگر گھر کے بڑوں کے لئے یہ لفظ بھی قیامت سے کم نا تھا۔
ان کے لئے یہ تکلیف کوئی کم نا تھی کہ ان کی بیٹی اپنی ضد
اور انا کی خاطر طلاق لے کر گھر آبیٹھی ہے۔اور اپنے اس فعل پر ذرا بھی شرمندہ نہیں
ہے۔
ان سب نے اس سے سخت ناراضگی کر لی۔
ثمرین بیگم تو اسے کوس کوس کر اپنا سر تھام کر بیٹھ گئی
تھیں۔
پتا نہیں ہماری تربیت میں کہاں کمی رہ گئی تھی جو ہمیں اس
کے جیسی اولاد ملی جسے اتنا بھی احساس نہیں کہ میرے اس فعل سے میرے ماں باپ کو کتنا
دکھ کتنی تکلیف پہنچے گی۔
رمیز صاحب ثمرین سے یہ کہتے ہوئے انہیں لے کر کمرے میں چلے
گئے۔
شہلا بیگم اور رفیق صاحب بھی ان کو تسلی دینے کے لئے ان
کے پاس چلے گئے۔
******************
سجل ڈرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی کہ کہیں اسے دیکھتے ہی
ثانیہ شروع نا ہو جاۓ
اور ہوا بھی ایسا ہی۔
ثانیہ اسے دیکھتے ہی بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کے پاس
آتی ہوئی چلائی۔
کیوں آئی ہو تم یہاں۔
سجل ایک دم گھبرا گئی۔
وہ میں اپنا سامان لینے آئی تھی کیوں کہ اب تو آپ ہی اس
کمرے میں رہیں گی ناں۔
سجل کو کوئی اور بہانہ نا سوجھا تو ایسا بول دیا۔جبکہ وہ
ثانیہ سے اس کادکھ بانٹنے آئی تھی۔
حالانکہ سب اس کی اتنی بڑی غلطی کی وجہ سے اس سے بات تک
کرنے کو تیار نا تھے مگر سجل پھر بھی چلی آئی۔
یہ کمرے دوبارہ میراصرف تمہاری وجہ سے ہوا ہے صرف اور صرف
تمہاری وجہ سے سمجھی تم۔
میری وجہ سے مگر میں نے کیا کیاایسا۔
سجل کو سمجھ نا آئی کہ ثانیہ نے ایسا کیوں کہا۔
کیوں کہ تم ہی وہ لڑکی ہو جس کی وجہ سے زارون نے مجھے ٹھکرا
دیا تم ہی ہو فساد کی جڑ تم ہی ہو میری طلاق کی وجہ تم ہی ہو قصور وار۔تم میری خوشیوں
کو چاٹ گئی ہو تم نے کی میری زندگی عذاب۔
صرف تمہاری وجہ سے اس نے مجھے بیوی کا درجہ دینے سے انکار
کر دیا۔
اگر آج میں یہاں طلاق لے کر بیٹھی ہوں تو اس کی وجہ صرف
اور صرف تم ہو۔
نکل جاؤ میرے کمرے سے جاؤ اور جا کر خوشیاں مناؤ۔جاؤ اپنے
اس عاشق کے پاس جو شائد تمہارے ہی انتظار میں بیٹھا ہوا ہے اگر وہ تم پر مرتا ہے تو
تمہیں بھی کوئی کم شوق نہیں اس کے آس پاس مٹکنے کا جاؤ ناں اب تو راستہ بھی صاف ہے۔
اب کھڑی کیوں ہو نکلو دفعہ ہو جاؤ میرے کمرے سے۔ثانیہ پاگلوں
کی طرح چلائی۔
جبکہ سجل تو ایسے تھی کہ کاٹو تو بدن میں خون نہیں۔
وہ مرے مرے قدم اٹھاتی دیوار کا سہارا لیتی ہوئی کمرے سے
باہر نکل آئی۔
*********************
زارون سگریٹ جلائے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ لئے راکنگ
چیر پر جھول رہا تھا۔
کتنی بے وقوف ہو تم ثانیہ میرا راستہ اتنی آسانی سے صاف
کر دیا۔خود ہی ہٹ گئی میرے راستے سے چلو کوئی ایک کام تو تم نے میری پسند کا کیا۔تھینک
یو سو مچ۔
زارون خود سے ہم کلام تھا جب دروازے پر آہٹ ہوئی۔
آؤ سجل آؤ میری جان تمہارا ہی انتظار تھا۔
زارون جانتا تھا کہ ثانیہ اپنے پیٹ میں کوئی بات رکھنے نہیں
والی اپنے اندر جلتی آگ کے گولے سجل پر ضرور برسائے گی۔
تمام قصور سجل پرتھوپ دے گی مگر اسے طلاق کی دوسری بڑی وجہ
نہیں بتاۓ
گی جس کی قصور وارصرف اور صرف وہ خود ہے۔
سجل چلتی ہوئی اس کے سامنے آئی اور اس کے ہاتھ سے سگریٹ
لے کر اپنی ہتھیلی پر رکھ کر مٹھی بند کر لی۔
سجل یہ کیا کر رہی ہو۔زارون نے اس کی مٹھی کھولنے کی کوشش
کی مگر وہ اس سے دور ہٹ گئی۔
میری وجہ سے کیا ناں آپ نے یہ سب مجھے پانے کے لئے دی ناں
ثانی آپی کو طلاق مگر آپ یہ بھول جائیں زارون صاحب کہ میں آپکی کبھی بنو گی۔
مجھے پانے کے لئے کیا ناں یہ سب جب میں ہی نہیں رہوں گی
تو مجھے اپنائے گے کیسے۔
سجل یہ کہتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگی تب ہی اس کی نظر
سائیڈ ٹیبل پر آدھ کٹے سیب کی پلیٹ میں پڑی چھڑی پر پڑی۔
اس نے ایک سیکنڈ کی بھی دیر کے بغیر چھڑ ی اپنے ہاتھ میں
لے لی اور اپنے بازو پر کٹ لگا لیا۔
کٹ زیادہ گہرا نہیں لگا تھا اس لئے سجل نے دوبارہ ایسا ہی
کرنے کی کوشش کی۔
اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ چھڑی چلاتی زارون نے چھڑی اس کے
ہاتھ سے لے کر زور سے زمین پر پھینکی۔
چھڑی پھسلتی ہوئی بیڈ کے نیچے چلی گئی۔
یہ کیا کر رہی ہو تم دماغ تو خراب نہیں ہوگیا تمہارا۔زارون
نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔
ہاں ہوگیا ہے دماغ خراب ہوگئی ہوں میں پاگل۔سجل نے دھکا
دے کر اسے خود سے دور کیا۔
آپی ٹھیک کہہ رہی تھیں ایک نمبر کے گھٹیا انسان ہیں آپ پیار
کسی اور سے شادی کسی اور سے اور کتنے دھوکے دیں گے آپ ہم سب کو۔
میں تم سے محبت کرتا ہوں سجل اور تم میری محبت کو میری ضدسمجھو
یا جنون مگر میں تمہیں حاصل کر کے ہی دم لونگا۔اب چاہے جو مرضی ہو جاۓ
تمہیں مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا اور خاص طور پر وہ روحاب۔
کیا کریں گے آپ آخر کر کیا لیں گے کچھ نہیں کر سکتے آپ کیوں
کہ میری شادی تو روحاب سے ہی ہوگی۔سجل نے اسے چیلنج کیا۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ اس نے ایسا کہہ کر بہت بڑی غلطی کر
دی۔
مجھے چیلنج مت کرو سجل ورنہ ابھی تمہیں دکھا دوں گا کہ میں
کیا کر سکتا ہوں۔
آپکو جو کرنا ہے کریں میں آپ سے ڈرنے والی نہیں ہوں۔سجل
غصے سے پھنکارتی ہوئی کمرے سے باہر نکلنے لگی۔
مگر اس کے نکلنے سے پہلے ہی زارون نے کمرے کا دروازہ بند
کر دیا۔
دروازہ کیوں بند کیا۔
ہیں دکھانے کے لئے کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔
سجل اس کا ارادہ جان کر گھبرا گئی۔
دروازہ کھولیں جانے دیں مجھے۔
بلکل بھی نہیں میری جان اب تو چیلنج کیا ہے تم نے مجھے بہت
بڑی غلطی کردی تم نے اب دیکھو تم۔زارون اپنی شرٹ کے بٹن کھولتا اس کی طرف بڑھا۔سجل
شور مچانے لگی مگر اس کی چیخ و پکار کے باوجود بھی زارون کے چہرے پر کسی قسم کی گھبراہٹ
نہیں تھی بلکہ شیطانی مسکراہٹ تھی۔
**********************
تین مہینے گزر چکےتھےسجل بہت بیمار پر گئی تھی کہ پیپرز
بھی نا دےسکی۔
اس سے زیادہ موحد اورمعارج کو اس کے پیپرز نا دینے کا دکھ
تھا۔
ثانیہ نے تو خود کو ان سب سے کاٹ کر رکھ لیا تھا اس کی بلا
سے کوئی جیتا یا مرتا اسے بھلا کیا پرواہ تھی۔
سجل کی آج طبیت کچھ زیادہ ہی خراب تھی۔
کھانے کی میز پر کھانے کی خوشبو سے اسے متلی سی آنے لگی۔اس
نے ایک دم منہ پر ہاتھ رکھا اور سنک کی طرف بھاگ گئی۔
جب واپس آئی تو ثمرین اور شہلا اسے عجیب نظروں سےدیکھ رہی
تھیں۔
جبکہ سجل ان کے اس طرح دیکھنے سے اپنی ہی نظروں میں چور
سی بن گئی۔
شہلا اور ثمرین اتنی نادان نہیں تھیں تجربہ کار تھیں۔
سجل کی چال اسکی بیماری آئے روز چکر آنا اوپر سے اسکا ڈاکٹر
کے پاس جانے سے انکار ان دونوں کے سامنے خطرے کی گھنٹی بجا گیا۔ابھی بھی سجل چکرآنے
کی وجہ سےپاس کھڑے موحد کے ساتھ جا لگی ۔موحد نے اسے جلدی سے تھام لیا۔
******************
اب تمہیں میرا بننے سے کوئی نہیں روک سکتا سجل۔جب سب کو
تمہاری پریگننسی کے بارے میں معلوم ہوگا تو تمہارے نا چاہنے کے باوجود بھی سب تمہیں
میرے سپرد کر دیں گے۔آخر کرنا ہی پرے گا کیوں کہ تمہیں میرے علاوہ اب اپناۓ
گا ہی کون۔
روحاب تو تم سے نفرت کرنے لگے گا۔
بڑا کہتا تھا ناں کہ سجل کو مجھ پر بہت یقین ہے اب دیکھوں
گا کہ اسے آخر سجل پر کتنا یقین ہے۔
ایک منٹ نہیں لگائے گا وہ تمہیں ٹھکرانے میں سجل۔سب تمہیں
چھوڑ دیں گے تب کون اپناۓ
گا تمہیں۔۔۔میں صرف اور صرف میں۔
مجھے معاف کر دینا سجل مجھے ایسا کرنا ہی پڑا کیوں کہ میرے
پاس اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔
تمہارے چیلنج اور روحاب کی ضد نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور
کر دیا۔مگر تم فکر مت کرنا کوئی ہو یا نا ہو میں ہمیشہ رہوں گا تمہارے ساتھ۔
زارون سجل کی تصویر سے بات کرتا خود کو خوش کرنے کی کوشش
کر رہا تھا۔
******************
سجل کو جب ہوش آیا تو کمرے میں سوائے ثانیہ کے اور کوئی
موجود نا تھا۔
ثانیہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
اٹھ گئی تم پتا ہے کب سے تمہارے ہوش میں آنے کا انتظار کر
رہی تھی صرف میں ہی نہیں بلکہ پورے گھر والے۔
لیکن کیوں۔سجل نے پوچھا۔
یہ تو جب تم نیچے چلو گی تو تمہیں معلوم ہو ہی جاۓ
گا۔اب اٹھو بھی جلدی سے۔
سجل اٹھی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی کمرے سے باہر نکل گئی۔
ثانیہ بھی اس کے پیچھے ہی باہر نکل آئی۔
سب لاؤنج میں خاموش بیٹھے تھے۔ثمرین اسے دیکھتے ہی اس کی
طرف چلی آئیں۔
قہر آلودہ نظروں سے سجل کو دیکھتے ہوئے انہوں نے زبان کے
ساتھ ساتھ ہاتھ بھی چلانا شروع کر دیے۔
ایک کے بعد ایک تھپڑ سجل خود کو سنبھال نا پائی اور زمین
پر جا گری۔
ثمرین بھی اس کے پاس ہی زمین پر بیٹھ گئیں اور اسے دونوں
ہاتھوں سے پیٹنا شروع کر دیا۔
بول کہاں منہ کالا کر کے آئی ہو کہاں نکال کر آئی ہو اپنے
ماں باپ کی عزت کا جنازہ۔
کون ہے وہ بے غیرت جس کے ساتھ منہ کالا کر کے آئی ہو۔بے
غیرت تمہیں ذرا بھی شرم نا آئی یہ سب کرتے ہوئے ہماری عزت کا ذرا بھی خیال نا آیا تمہیں
اس وقت۔
بولو بولتی کیوں نہیں کس کا بچہ ہے یہ کون ہے وہ جواب کیوں
نہیں دیتی بولو بھی۔
یہ بچہ کسی اور کا نہیں بلکہ میرا ہے۔
اس آواز پر سب نے نظریں گھما کر دروازے کے بیچ و بیچ کھڑے
شخص کی طرف دیکھا۔
سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیوں کہ دروازے پر کوئی
اور نہیں بلکہ روحاب تھا۔سب روحاب کو اس طرح دیکھ رہے تھےجیسےپہلی دفعہ دیکھ رہےہوں۔
روحاب تیز قدم اٹھاتا سجل کے پاس آیا۔
جھک کر دونوں کندھوں سے اسے تھام کر اپنے ساتھ کھڑا کیا
اور بولا۔
بس کر دیں چھوٹی ماما اب ایک اور دفعہ بھی آپ سجل پر ہاتھ
نہیں اٹھائیں گی۔
کیوں کہ اس میں سجل کا کوئی قصور نہیں ہے سجل نے قصورہے
جو کچھ بھی ہوا وہ میری غلطی تھی میں ہی اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا۔
میں جانتا ہوں کہ میں نے بہت بڑا گناہ کیا ہےمگر اس گناہ
کی سزا سجل کو کیوں ملے اسے تو ویسے بھی میرے یہ سب کرنے کی وجہ سے سزا مل ہی رہی ہے۔اگرآپکو
ہاتھ اٹھانا ہے تو مجھ پر اٹھائیں جان سے مارنا ہے تو مجھے ماریں مگر اب ایک اور خراش
نہیں سجل کو مت آئے۔
دیکھیں اس کی طرف اور بتائیں کہ آپ سب میں سےکسی ایک کو
بھی ایسا لگتاہےکہ سجل کبھی ایسا کرسکتی ہے۔
آپکی تربیت اسکو یہ سب کرنے کی اجازت کبھی نہیں دیتی جو
وہ اتنا بڑا قدم اٹھائے اس نے تو کبھی ایسا سوچا تک۔۔۔۔۔
ٹھاہ۔۔۔
روحاب کی بات منہ میں ہی رہ گئی جب بڑے پاپا نے ایک زوردارتھپڑ
اسکے گال پر رسید کیا۔
اسکی تربیت اسے اس چیز کی اجازت کبھی نہیں دیتی یہ تو مان
لیا مگر ہماری تربیت نے تمہیں اس چیز کی اجازت کب سےدے دی۔
وہ قصور وار نہیں ہے یہ بھی مان لیا مگر تم قصور وار کیوں
ہوتم نے آخر ایسا کیوں کیا۔
آخر کیا بھرگیا تھا تمہارے دماغ میں تو ساری سدھ بدھ کھو
بیٹھے تھے کہاں بیچ آئے تھے اپنی غیرت۔جواب دو مجھے آخر چپ کیوں ہو۔
شرم آ رہی ہے مجھے پولیس کی وردی میں کھڑے اپنے اس بیٹے
پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے جس پر صرف مجھے بھی نہیں بلکہ سب کو ناز تھا۔مگر تم نے تو اپنی
وردی کی لاج بھی نا رکھی ذرا شرم نا آئی تمہیں۔
کیا قصور تھا اس معصوم بچی کا جو اس پر زندگی بھر کے لئے
اتنا بڑا داغ لگا دیا۔
بڑے پاپا نے سجل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو حیرت اور
بے یقینی کا پتلا نہیں بس روحاب کو ہی دیکھ جا رہی تھی کہ آخر کیا سوچ کر اس نے اتنا
بڑا الزام خود پر لے لیا۔
بس یہی تو غلطی ہوگئی مجھ سے اور میں اس پر شرمندہ بھی ہوں
پاپا۔روحاب نے سر اور نظریں دونوں جھکا لیں۔
مت کہو مجھے پاپا نہیں ہوں میں تمہارا باپ میرا بیٹا تم
جیسا ہو ہی نہیں سکتا۔
اور تمہارے شرمندہ ہونے سے کیا ہوگا سب کچھ پہلے جیسا تو
نہیں ہو جاۓ
گا۔تم نے تو مجھے ثمرین اور رمیز کے سامنے نظریں اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔
تم میرے بیٹے تو بلکل نہیں ہو سکتے چلے جاؤ یہاں سے چلے
جاؤ میری نظروں سے دور اس سے پہلے کہ مجھے کچھ ہو جاۓ۔
روحاب نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا سردی میں بھی انکا چہرہ
پسینے سے نچر رہا تھا۔
روحاب کو انہیں اس حالت میں دیکھ کر دلی افسوس ہوا مگر ابھی
وہ مزید کچھ بھی کہہ کر انہیں اور پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے سجل کا ہاتھ تھامتا
ہوا اسے لئے سیڑھیاں چڑھ گیا۔
****************
آپ نے ایسا کیوں کیا روحاب آپ نے اتنا بڑا الزام اپنے سر
کیوں لے لیا۔جبکہ سراسر قصور میرا ہے ساری غلطی میری ہے۔
قصور تو تمہارا بھی نہیں ہے سجل ہاں مگر غلطی ضرور تمہاری
ہے جو تم نےزارون کے پاس جا کر کی ہے۔منع کیا تھا ناں میں نے تمہیں پھر کیوں گئی اس
درندے کے پاس۔
اس گھٹیا آدمی کو تو میرا دل کر رہا ہے اسی وقت شوٹ کر دوں۔
اور تم دیکھنا اب میں اس کا کیا حشر کروں گا میں بھی انسپیکٹر
روحاب ہوں جب تک اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے تڑپا تڑپا کر نا مارا تب تک سکون سے نہیں
بیٹھنے والا۔
مگر آپکو کیسے پتا روحاب کے اس سب کے قصور واروہ ہیں۔سجل
کو ایک دم خیال آیا تو پوچھا۔
مجھے بھی اس حقیقت کا پتا آج ہی چلا اور بتانے والا کوئی
اورنہیں بلکہ خودزارون ہے۔
مگر وہ آپکو کیوں بتائیں گےیہ سب۔
تم کچھ نہیں جانتی سجل۔
میں سب جانتی ہوں کہ وہ مجھ سے جھوٹی محبت کےدعویدار ہیں
اور میری شادی آپ سے تو کیا کسی سے بھی نہیں ہونے دینا چاہتے۔سجل نے اسے بتاتا مگر
وہ یہ بات پہلے ہی جانتا تھا اس لئے بولا۔
وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ میں ایسا کبھی نہیں ہونے دونگا
اس لئے اس نےیہ راستہ اختیار کیا۔
مگر وہ مجھے ابھی ٹھیک سے جان نہیں پایا کہ وہ چاہے کچھ
بھی کر لےتمہیں مجھ سے چھین نہیں سکتا۔
روحاب کی اس بات پر سجل نے چونک کر اسے دیکھا۔پہلے تو تم
صرف میری ضد تھی مگر اب میرا جنون ہو۔وہ تمہیں جتنا بھی مجھ سے دور کرنے کی کوشش کرے
گا میں اتنا ہی تمہارے پاس آؤں گا۔
سجل کو یقین نا آیا کہ روحاب کے لئے وہ اسکا جنون بن چکی
ہے۔
میں پہلے آپکی ضد تھی اور اب جنون مگر شائد محبت نہیں۔سجل
مایوسی سے بولی۔
روحاب اسکی بات پرمسکرا دیا اوربولا۔
ارے پاگل جنون ہی تو محبت کی انتہا ہے اور میرے لئے تو تم
محبت سےبھی بڑھ کر ہو۔اب چاہے کوئی کچھ بھی سوچے یا کچھ بھی سمجھے میں تمہیں اپنا کر
ہی رہوں گا۔
روحاب نے سجل کی بڑی بڑی جھیل جیسی بہتی آنکھوں سے آنسو
صاف کے اور انہیں چوم لیا۔
لیکن روحاب آپ مجھے اس بچے کے ساتھ اتنی آسانی سےاپنا لیں
گے کیا۔
دیکھو سجل اس سب میں اس آنے والی ننھی سی جان جا کیا قصور
بھلا جو میں تمہیں اپنانے سے انکار کردوں اور نا ہی تمہارا کوئی قصور ہے۔
کوئی ہو یا نا ہو مگر میں ہوں تمہارے ساتھ سجل اور وہ بھی
ہمیشہ کے لئے۔
کوئی تمہارے بے قصور ہونے کے بعد بھی اگر تم پر ہاتھ اٹھاۓ
اسکاسامنا میں خود ہی کر لوں گا۔
سجل تمہیں یاد ہے وہ رات جب بادل گرجنے کی وجہ سے تم میرے
سینےسےآلگی تھی۔اور کہہ رہی تھی کہ تمہیں بہت ڈر لگ رہا ہے تو میرا دل کیا کہ کہہ دوں
کہ جب میں ہوں تمہارے پاس تو تمہیں ڈرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔مگر اس وقت تمہارا یہ
اکڑو خان اپنی اکڑ میں ہی رہا اور کچھ نا بولا۔
اور ہاں تمہارے وہ خوابوں کی تعبیر بتانے والے بابا جی بھی
بلکل ٹھیک ہی کہہ رہے تھے۔
وہ جو تمہارے لئےبنا ہے جو تمہیں ہر خطرے اور مشکل سے نکالے
گا وہ کوئی اور نہیں بلکہ میں ہی ہوں۔تمہارا ہم سفر میرا مطلب ہے کہ ہونے والا ہم سفر۔
ایک منٹ یہ سب آپکو کیسے پتا مطلب یہ بابا جی والی بات۔
سجل کو اچھے سے یاد تھا کہ یہ بات اس کے علاوہ صرف ابیہا
اور معارج کو ہی معلوم تھی۔
مجھے معارج نے بتایا۔مگر مجھے معاف کرنا سجل میں تمہیں اس
درندے سے نہیں بچا سکا۔اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں کبھی بھی تمہیں اس کے پاس نا جانے
دیتا۔
لیکن روحاب اب ہوگا کیا سب تو آپکو ہی قصور وار سمجھ رہے
ہیں۔سجل کو اس کی فکر ہوئی۔
تم میری فکر مت کرو سجل صرف چند دنوں کی بات ہے پھر سارا
سچ کھل کر سب کے سامنے آجاۓ
گا۔
اگر میں ابھی سب کو سچ بتا دیتا تو صرف تماشا لگتا اور سب
زارون کے ساتھ تمہارا نکاح پڑھوا دیتے جو مجھے کسی صورت منظور نہیں۔ایک دفعہ بس تمہیں
اپنا بنا لوں اس کے بعد اس زارون کی خیر نہیں اسکا تو میں ایسا حال کروں گا کہ زندگی
بھر نہیں بھولے گا۔
فلحال میرے لئے سب سے ضروری کام تمہیں قانونی طور پر اپنا
بنانا ہے جو کہ میں جلد ہی کرنے والا ہوں۔
********************
اگلے دن بغیر کسی سجاوٹ اور شور شرابے کے خاموشی سے سجل
اور روحاب کا نکاح پڑھوا دیا گیا۔سجل کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کا نکاح روحاب کے ساتھ ان
حالات میں کروایا جاۓ
گا۔
روحاب سے اسکی فیلنگز چھپی ہوئی نہیں تھیں اس لئے جب وہ
دونوں کمرے میں آئے تو روحاب بولا۔
میں جانتا ہوں سجل کہ تم نے یہ سب اس طرح کبھی نہیں سوچا
تھا مگر ایسا بلکل نہیں ہے کہ حالات ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے۔ایک دفعہ سب ٹھیک ہو جاۓ
پھر دیکھنا کیسے دھوم دھام سے شادی ہوتی ہے۔میری بھی خواہش ہے کہ تمہیں دلہن کے سرخ
جوڑے میں دیکھوں۔تم دلہن بنی سجی سنوری میرے انتظار میں اس بیڈ پر بیٹھی ہو۔
اور ایسا ہوگا سجل ضرور ہوگا تب ہمارے ساتھ باقی سب بھی
ہماری خوشیوں میں برابر شریک ہونگے۔
لیکن آج کی رات ایک خوبصورت سی غزل میری جان کے نام۔
روحاب مسکراتا ہوا غزل گنگنانے لگا۔
وہ جو دیپ آنکھوں میں جل رھے
انہیں عاشقی کا پیغام دو
مجھے اپنے لبوں پہ سنمبھال لو
اپنی ہر دعا کو میرا نام دو
میں چلوں تو ۔ تو میرے ساتھ ھو
مجھے تھامے جو وہ تیرا ہاتھ ھو
میری روح کو خود میں اتار لو
میری ہر نظر سے خمار لو
جو مجھے سمیٹے تیری بانہوں میں
میری بے خودی کو جام دو
میری چاہتوں کا بھرم رکھو
مجھے اپنی آنکھوں میں بند رکھو
بے چین رکھے جو مجھے رات بھر
میری خواہشوں کو وہ شام دو
******************
بڑے پاپا روحاب سے سخت ناراض تھے اور اسکا چہرہ تک دیکھنا
نہیں چاہتے تھے۔
شہلا بھی اس سے ناراض تھیں مگر پھر بھی ماں تھیں اس لئے
اس سے کھانے کا پوچھتیں سارے دن کی روداد سننے لگ جاتیں تو روحاب اسی پر خوش ہو جاتا
مگر بڑے پاپا اتنے پر بھی ان سے ناراض ہو جاتے۔
ثمرین اور رمیز بھی پہلے کچھ دن سجل سے ناراض رہے۔
مگر پھر یہ سوچتے ہوئے کہ ان کی بیٹی کا کوئی قصور نہیں
ہے بلکہ الٹا اس کے ساتھ غلط ہوا ہے اگر ہم اس حال میں اسکا خیال نہیں کریں گے تو کون
کرے گا سجل کو گلے سے لگا لیا۔
مجھے معاف کر دو میری بچی میں نے تم پر ہاتھ اٹھایا۔تم تو
میری پھول سی بچی ہو جیسے میں نے آج تک جھڑکا نا تھا مگر اس غلط فہمی کا شکار ہو کر
میں نے تم پر ہاتھ اٹھا ڈالا۔مگر اب نہیں اب تو میں تمہارا دل و جان سے خیال رکھوں
گی۔
سجل نے اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کے اور بولی۔
مجھے بلکل برا نہیں لگا اور نا ہی مجھے اسکا کوئی دکھ ہے
کہ آپ نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا آپ نے جو بھی کیا بلکل ٹھیک کیا۔آپ ماں ہے کیا آپ کا مجھ
پر اتنا بھی حق نہیں کہ آپ مجھے ڈانٹ سکیں مار سکیں۔اس وقت اگر آپ مجھے جان سے بھی
مار دیتیں تو کچھ غلط نا تھا۔اور میں جانتی ہوں کہ آپ مجھے ضرور معاف کر دیں گی۔
معاف تو تمہیں تب کرتے بیٹا جب تمہارا کوئی قصور ہوتا تمہاری
کوئی غلطی ہوتی مگر قصور تو سارا روحاب کا ہے خیر اب اس بات کو زیادہ نا ہی چھیڑا جاۓ
تو ہی اچھا ہے کیوں کہ اب وہ اس گھر کا داماد ہے۔اب کی بار رمیز صاحب سجل سے بولے۔
پاپا آپ نے مجھے معاف تو کر دیا ناں مجھ سے ناراض تو نہیں
آپ۔
اچھے بچوں سے بھی بھلا کوئی ناراض ہوتا ہے۔رمیز صاحب یہ
کہتے ہوئے مسکرا دیے تو سجل بھی مسکرا دی۔
*******************
موحد معارج اور انعم سجل کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو کچھ ہوا
اسکا انہیں بھی بہت دکھ تھا۔
سجل بے قصور تھی تو اس لئے وہ تینوں بھی اس سے کوئی غلط
رویہ نہیں رکھنا چاہتے تھے۔
مگر روحاب سے وہ تینوں کھینچے کھینچے سے تھے۔
سجل آج تو میرے پاس تم سے کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے ورنہ
میں نے تو سوچ رکھا تھا کہ جب تم میری بھابھی بن جاؤ گی تو میں تمہیں تنگ کرنا اور
بھی ڈبل کردوں گا تب تم جا کر روحاب بھائی سے شکایت لگایا کرو گی کہ یہ دیکھیں روحاب
آپکا بھائی ہر وقت مجھے تنگ کرتا رہتا ہے۔اور پھر میں تمہاری نکل اتار کر تمہیں چھیڑا
کروں گا۔
موحد نے کہا۔
اور میں نے سوچ رکھا تھا کہ جب تم روحاب بھائی کے ساتھ شوپنگ
پر جایا کرو گی تو میں بھی تمہارے ساتھ چل پڑوں گی اور تم مروت کے مارے مجھے منع بھی
نہیں کر سکو گی اور نا بھائی کو کرنے دو گی اور تمہاری کی گئی شوپنگ میں سے اپنی پسند کی چیزوں پر حملہ کر کے انہیں بھی اپنے
قبضے میں لے لوں گی۔اب کی بار معارج بولی۔
میں نے بھی تو کچھ سوچا ہوگا اب مجھ سےبھی تو پوچھ لیں۔انعم
نے ان تینوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔میں نے سوچا تھا کہ رات گئے تک آپکے کمرے میں بیٹھ
کر بکس پڑھا کروں گی۔
جبکہ روحاب بھائی انتظار میں ہی ہونگے کہ کب میں اٹھوں اور
کب وہ اپنی بیٹھیں۔
شرارتی موحد شوپنگ کی شوقین معارج اور پڑھاکو انعم نے اپنے
اپنے مطلب کی ہی سوچ بتائی۔
انعم کی بات پر معارج اور موحد ہنس پرے اور بولے۔
ویسے ہم دونوں سے زبردست سوچ تو تمہاری ہے۔
یعنی روحاب بھائی کو تب جب وہ اپنی بیگم کے پاس جانے کو
بے چین ہوں انہیں انتظار کروانا۔
ویسے تم لوگ ایسا اب بھی تو کر سکتے ہو اپنی اپنی سوچوں
پر اب بھی تو عمل کر سکتے ہو۔سجل ان تینوں سے بولی۔
آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں آپی مگر جو کچھ بھی ہوا اس کی وجہ سے
سب ان سے ناراض ہیں اور شائد ہم تینوں بھی۔
اور ماما کہہ رہی تھیں کہ آپ ہی ہیں جنہوں نے اتنا بڑا دل
کر کے انھیں معاف بھی کر دیا۔ورنہ سب سے غلط تو آپ کے ساتھ ہی ہوا ہے۔
میں انہیں معاف کیوں نا کرتی انعم اب تو وہ میرے شوہر ہیں
جو کچھ بھی ہوا ان سے انجانے میں ہوا ورنہ جانتے تو تم سب بھی ہو کہ وہ کیسے ہیں۔
سجل نے ان سب سے کہا مگر حقیقت وہ سب کہاں جانتے تھے کہ
اگر روحاب نے کچھ کیا ہوتا تو سجل اس سے ناراض ہوتی ناں مگر جب روحاب نے کچھ کیا ہی
نہیں تو وہ دکھاوے کی ناراضگی بھی اس سے کیوں رکھتی۔
*******************
بس کل کا دن باقی ہے سجل پھر دیکھنا تمہارا گناہ گار کیسے
جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا۔روحاب نے سجل کے گرد بازو حائل کئے اور اس کے کندھے پر
تھوری ٹکا دی۔
سجل کچھ نا بولی بس"ہوں"کہہ کر چپ ہی رہی۔
اس دن کے بعد سے ہوگی تمہاری اور میری یعنی ہماری زندگی
کی ہیپی سٹارٹنگ۔
روحاب نے اسکی گال کو چھوا تو وہ جبراً مسکرا دی۔کیوں کہ
اس وقت جو وہ سوچ رہی تھی اگر روحاب کو معلوم ہو جاتا تو وہ یقیناً اس سے سخت ناراض
ہو جاتا۔
ثانیہ دروازے پر کھڑی ان کی تمام باتیں سنتی کچھ سوچ رہی
تھی۔
میری زندگی میں زہر گھولنے والے زارون کے علاوہ تم دونوں
بھی ہو اور تم دونوں اپنی زندگی کی ہیپی سٹارٹنگ کرو ایسا میرے جیتے جی تو ممکن نہیں۔
تیار ہو جاؤ تم دونوں آج سے اپنی ایک کے بعد ایک خوشی کو
دکھ میں بدلتا دیکھنے کے لئے۔
اگر میں خوش نہیں تو تم لوگ بھی نہیں اگر کوئی خوشی میرے
لئے نہیں تو اسے میں تم دونوں تک بھی نہیں پہنچنے دوں گی۔
اگر تم لوگوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا ہے تو میں بھی
تم لوگوں کا حال برا کر کے ہی چھوڑوں گی۔تم لوگوں کو ایسے مطمئن تو میں کبھی نہیں دیکھ
سکتی۔
تم لوگوں کی پرسکون زندگی میں زہر نا گھول دیا تو میرا نام
بھی ثانیہ نہیں۔
ثانیہ ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ لئے وہاں سے ہٹ گئی۔
*****************
جاری ہے
Comments
Post a Comment