Agar tum sath ho novel by Isha Gill Part 4

Agar tum sath ho novel by Isha Gill Part 3

اگر تم ساتھ ہو
از "ایشاءگل"
پارٹ 4
تم۔۔۔۔
زارون نے سجل کو اپنے کمرے میں دیکھا تو اس کے پاس آیا اور بولا۔
بہت تیز ہو تم بہت ہی چالاک چپ چاپ روحاب سے نکاح کروایا لیا اور مجھے کانوں کان خبر تک ہونے نا دی۔
بہت ہی گہری چال چلی ہے اس روحاب نے میرے بچے کو اپنا بول کر تمہیں حاصل کر لیا۔
اور تم نے کیا کیا سجل تمہیں تو میں۔۔۔۔
زارون اور بھی کچھ بولنے والا تھا جب سجل بول پڑی۔
کیا کریں گے اب آپ جتنا برا اور غلط کرنا تھا وہ تو آپ نے کے لیا۔
بہت برا ہوا ناں کہ آپ کا پلان نا کام ہو گیا۔
روحاب وقتی طور پر سب کی نظروں میں گر ضرور گئے ہیں مگر انہیں اٹھانے والے ابھی باقی ہیں۔
جب سب کو معلوم ہوگا کہ گناہ گار کون ہے تب انہیں انکا کھویا ہوا مقام واپس مل جاۓ گا۔
چاہتی تو میں بھی ہوں کہ آپکو سزا ملے مگر جو سزا آپکو روحاب دیں گے وہ بہت درد ناک ہوگی۔
اس لئے آج یہ کہنے آئی ہوں کہ اس سے پہلے کہ روحاب آپکو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کر دیں اور پھر وہ سلوک کریں جو ہر مجرم کے ساتھ ہوتا ہے آپ چپ چاپ یہاں سے واپسی کے لئے روانہ ہو جائیں۔
ورنہ پرسوں آپکو یہاں سے نکلنے کا موقع نہیں ملے گا۔اور ہاں اس بھول میں مت رہنا کہ میں آپکو بچا رہی ہوں میں صرف اور صرف پھپھو اور ابیہا آپی کو بچا رہی ہوں ان کی خاطر آپکو اس سب سے آگاہ کر رہی ہوں۔
میں نہیں چاہتی کہ پھپھو کو اس عمر میں اتنا بڑا دکھ ملے اتنا بڑا دکھ وہ برداشت نہیں کر پائیں گی۔
اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ آپکی بہن کی زندگی برباد ہو جاۓ گی۔
اگر ایک دفعہ آپ جیل چلے گئے تو سارے خاندان کو پتا لگنے میں دیر نہیں لگے گی کہ آخر جیل جانے کی وجہ کیا ہے۔
اور پھر ساری زندگی ابیہا آپی کو آپکی وجہ سے طعنے ملتے رہیں گے۔
اور کیا معلوم کہ اسکی نوبت ہی نا آ ئے اور ابیہا آپی ہمیشہ کے لئے اسی گھر میں بیٹھ جائیں۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپکی بہن پر طلاق کا دھبہ لگ جاۓ۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ ساری زندگی رومان کو یہ طعنہ سننے کو ملے کہ ایک بھائی ایسا ہے تو دوسرا نا جانے کیسا ہوگا۔
کون دے گا اسے اپنی بیٹی۔صرف اور صرف آپکی وجہ سے کئیں زندگیاں تباہ ہو جائیں گی۔
آپ صرف اکیلے نہیں ہیں بلکہ آپ کے ساتھ کئیں رشتے جڑے ہیں کم از کم انکا ہی خیال کر لیں ہمارا نا سہی اپنی فیملی کا ہی کر لیں۔
آپکی ماں بہن بھائی کسی ایک کا ہی احساس کر لیں کسی ایک سے تو محبت ہوگی ہی آپکو کہ آپ مزید کچھ کئے بغیر یہاں سے چلیں جائیں۔
بولیں کریں گے ایسا۔۔۔۔۔
یہ کیا بولیں گے سجل جنہوں نے اتنا بڑا گناہ کر دیا ان کے لئے اس سے آگے اور بھلا کچھ مشکل ہو سکتا ہے۔سجل اور زارون دونوں نے ایک ساتھ سر اٹھا کر دروازے پر دیکھا جہاں ابیہا کھڑی تھی۔
آنکھوں میں بے یقینی کے آنسو تھے۔
وہ سب کچھ سن چکی تھی۔
جیل جانا ان کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہوگی سجل ان کے اس فعل سےہم جیئں یا مریں انہیں بھلا کیا پرواہ۔انہیں تو بس اپنی انا تو تسکین پہنچانی ہوتی ہے ناں ہر معاملے میں پھر چاہے ان کی ضد کی وجہ سے کسی کا گھر ہی کیوں نا برباد ہو جاۓ۔
ان سے پوچھو کہ ان کی کوئی بہن ہے بھی یا نہیں۔کسی کی بہن کے ساتھ اتنا غلط کرتے ہوئے انہیں اپنی بہن کا ذرا بھی خیال نا آیا۔
کسی کی بیٹی کے ساتھ ایسا کرتے ہوئے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ کل کو جب انکی بیٹی ہوگی اور کوئی اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے گا تو انہیں اچھا لگے گا کیا کتنی تکلیف ہوگی اپنی بیٹی کی دفعہ یہ خیال نا آیا انکو۔
ایسا کرنے سے انکے خاندان کا نام روشن ہونے والا تھا کیا۔جانتے ہیں زارون بھائی سال ہونے کو آیا ہے اور میری طرف سے کسی کو کوئی خوشخبری سننے کو نہیں ملی میں نے تو ہر معاملے میں صبر شکر کیا اور اس معاملے کو بھی خدا کی مرضی سمجھ کر صبر کیا۔
مگر جانتے ہیں جب رپورٹس کروانے پر معلوم ہوا کہ میں کبھی بھی ماں نہیں بن سکتی تب سے لے کر اب تک مجھے تائی امی سے کتنی کو باتیں کتنے کو اولاد نا ہونے کے طعنے سننے کو ملتے ہیں۔
میں نے تو اس پربھی صبر کیاکہ کوئی بات نہیں اللّه کے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے۔
مگر تائی امی جو ہر بات میں مجھے آگے رکھتی تھیں ہر کام میں میرا مشورہ لیتی تھیں اب کسی کام کے لئے تو کیا ویسے بھی مجھے بلانا گوارا نہیں کرتیں۔چپکے چپکے سفیان سے کہتی ہیں کہ اس سے تو تمہیں کبھی اولاد نا ہوگی میری مانو تو دوسرا بیاہ کر لو۔
وہ تو سفیان ہی ایسا نہیں چاہتے ورنہ تو تائی امی مجھے طلاق دلوانے میں کوئی کثر نا چھوڑیں۔
آپ جانتے ہیں کہ آپکے اس غلط کام کی اگر انھیں خبر ہوئی تو مجھے طلاق دلوانا انکے لئے کوئی مشکل نہیں رہے گا۔
کون سنے گاساری عمر طعنے کہ تمہاری بیوی کے بھائی نے کسی کی بیٹی اور بہن کے ساتھ اتنا غلط کیا۔
اچھا نام اچھالا ہے آپ نے اپنے خاندان کا پہلے ثانیہ کو طلاق دی اور مجھے باتیں سننی پڑیں۔
مگر تب تو سب یہی سمجھتے تھے کہ قصور وار صرف ثانیہ ہے جبکہ قصور آپ دونوں کا ہے اور اب سجل کےساتھ۔۔۔
چھی شرم آنی چاہیے آپکوشرم۔۔۔۔
کیوں کیا آپ نے یہ سب میری چھوڑیں ماما کا ہی سوچ لیتے انھیں اگر یہ سب معلوم ہوگا تو وہ کیسے برداشت کریں گی وہ تو پہلے ہی پریشان رہتی ہیں میرے لئے۔
جانتے ہیں ناں جب سے پاپا نے دوسری شادی کی ہے ماما کتنا ٹوٹ گئی ہیں۔
انکی بیوی انھیں یہاں آنے نہیں دیتیں وہ ہم سب کو بھولے بیٹھے ہیں۔
ہمارے پاپا تو ہم سے دور ہو گئے اب کیا آپ ماما کو بھی ہم سے دور کرنا چاہتے ہیں۔
ماما بہت کمزور پر گئی ہیں اندر سے مگر ہمیں دکھاتی اس لئے نہیں کہ کہیں ہم بھی ان کی طرح ہمت نا ہار بیٹھیں۔
انہوں نے ہمارے لئے اپنے دل کو کس طرح مظبوط کیا ہے اس کا اندازہ بھی ہے آپکو۔بہت پریشانیاں دیکھی ہیں ماما نے وہ بھی اپنی اولاد کی خاطر۔
مگر اب جب انکی اولاد ہی انکو اتنا برا دکھ دے گی تو وہ کیسے سہہ پائیں گی بولیں۔
وہ اب اس سے زیادہ خود کو مضبوط نہیں کر سکیں گیں۔پاپا کی دوسری شادی کا دکھ میری اولاد نا ہونے کا دکھ آپکی طلاق ہونے کا دکھ۔
ہر طرف سے دکھ ہی تو ملے ہیں انھیں اب خدا کا واسطہ ہے انھیں یہ دکھ مت دیجئے گا۔
وہ اپنے جوان بیٹے کو جیل میں جاتا وہاں کہ ظلم سہتا نہیں دیکھ سکیں گی۔
ابیہا نے روتے ہوئے زارون کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔کیا کرے گا رومان جب سارے دوست اسکا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔
صرف آپکی وجہ سے اسکا کردار بھی مشکوک ہو جاۓ گا۔
پلیز بھائی میرے ان جڑے ہوئے ہاتھوں کی لاج رکھ لیں اور چلیں جائیں یہاں سے واپس۔
زارون نے آنسو بہاتی ابیہا کے جڑے ہوئے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور پھر سجل کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
میں مانتا ہوں میں نے بہت غلط کیا تمہارے ساتھ ہی نہیں بلکہ سب کے ساتھ مگر کاش میں ایسا کرنے سے پہلے ایک بار ہی سہی تم سب کے بارے میں سوچ لیتا ایک بار یہ سوچ لیتا کہ اسکا انجام کیا ھوگ تو میں کبھی ایسا مت کرتا۔
مگر کیا کرتا میں پاگل ہی تو ہوگیا تھا سوچ سمجھ سب دور بھاگ گئی تھی مجھ سے۔
میں سوچنا چاہتا بھی تو اس وقت میرے اندر تمہیں پانے کا جنون اتنا بڑھ چکا تھا کہ سوچ ہی نا پاتا۔
میں جانتا ہوں سجل کہ سوری لفظ بہت چھوٹا ہوگا تمہارے لئے مگر پھر بھی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں تم سے۔
کبھی اگر تمہیں اپنے دکھ کے سامنے یہ لفظ بڑا لگنے لگے تو معاف کر دینا مجھے اور میں جانتا ہوں کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
کیوں کہ تمہاری تکلیف کے سامنے میرا یہ لفظ بے معنی ہے۔
لیکن اگر کبھی بھی یہ ذرا سا بھی معنی رکھے تو معاف ضرور کر دینا۔
زارون ابھی چپ ہی ہوا تھا کہ سجل بول پڑی۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں آپکا یہ لفظ میرے زخموں کے سامنے کچھ بھی نہیں۔
میں کبھی بھی اپنا دل اتنا بڑا نہیں کر سکتی کہ آپ کے مجھ پر کئے گئے اتنے بڑے ظلم کے بعد آپکو آسانی سے معاف کر دوں اور سب کچھ بھول جاؤں۔
ایسا کبھی نہیں ہوگا سنا آپ نے کبھی بھی نہیں۔میں آپکو سزا سے بچانا چاہتی ہوں صرف آپ کے اور میرے اپنوں کی وجہ سے مگر میرا رب آپکو جو سزا دے گا اس سے میں آپکو نہیں بچا سکوں گی۔
اس لئے اگر معافی مانگنی ہے تو اللّه سے مانگیں کیوں کہ میرا دل ابھی اتنا بڑا نہیں ہوا کہ آپکو آسانی سے معاف کر دوں۔
سجل اس کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو نظر انداز کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
جبکہ زارون خالی ہاتھ لئے زمین پر ہی بیٹھتا چلا گیا۔
۔**************************
صبح کے چھ بجے ہوئے تھے۔
روحاب جاگنگ کے لئے باہر نکل گیا۔
سجل بھی اٹھ چکی تھی۔
صبح کی ٹھنڈی ہوا میں سانس لینے اور پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو سے لطف اندوز ہونے کے لئے وہ لان میں آگئی اور ادھر سے ادھر چکر لگانے لگی۔
"سجل"
تب ہی کسی نے اسے آواز دی۔
سجل نے مڑ کر دیکھا تو سامنے زارون تھا۔
اس کے ماتھے پر بل پر گئے۔
صاف ظاہر تھا کہ وہ صبح صبح زارون کا چہرہ دیکھنے کی خواہش بلکل نہیں رکھتی تھی۔
آپ گئے نہیں ابھی تک۔
نہیں دو گھنٹے بعد کی فلائٹ ہے۔
زارون نے بتایا۔
ہاں تو پھر جائیں اس سے پہلے کہ روحاب آجائیں۔سجل میں تم سے کچھ کہنے آیا ہوں۔
مجھے آپ سے کچھ نہیں سننا اس سے پہلے کہ میرا دماغ خراب ہو جاۓ چلے جائیں بلکہ آپ کیوں جائیں گے آپکو اگر نہیں جانا تو کوئی بات نہیں میں ہی چلی جاتی ہوں یہاں سے۔
سجل یہ کہتی ہوئی آگے بڑھی مگر زارون اس کا ہاتھ تھام کر اس کے سامنے آگیا۔
کیا بدتمیزی ہے ہاتھ چھوڑیں میرا۔
زارون نے جلدی سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور بولا۔
پلیز ایک آخری بار میری بات سن لو ایک بات منوانے آیا ہوں تم سے سجل پلیز انکار مت کرنا۔
زارون نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔
سجل نے اس کے جڑے ہوئے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور بولی۔
آپ جتنی ظالم نہیں ہوں میں جو وحشی بن جاۓ تو پھر سارے رشتے بھول جاتا ہے مگر مجھ میں انسانیت ہے زارون صاحب۔
آپکو جو کہنا ہے کہئے میں سن رہی ہوں ہاں مگر ذرا جلدی اس سے پہلے کہ روحاب آ جائیں۔
زارون نے اجازت ملنے پر ایک بھی لمحہ ضائع کئے بغیر وہ بات کہہ دی۔سجل یک ٹک اسے دیکھے گئی۔
وہ آخر کیا کہہ رہا تھا۔سجل کتنی دیر حیران کھڑی اسے دیکھتی ہی رہی جب وہ دوبارہ بولا۔
سجل پلیز میری یہ آخری بات مان لینا میں برا انسان نہیں ہوں مگر وقتی طور پر بن گیا تھا۔
سب ٹھیک ہی کہتے ہیں بہت انا پرست ہوں میں۔
ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کو انا کا مسلہ بنا لیتا ہوں۔مگر ایسا بلکل نہیں ہے کہ مجھ میں احساس مر چکا ہے مجھے احساس ہے جو کچھ بھی میں نے کیا اس کا۔ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔
تم کہتی ہو نا سجل کہ تم نے کبھی کسی کا دل نہیں توڑا کیوں کہ دل تو خدا کا گھر ہوتا ہے۔
خدا دل توڑنے والوں کو سزا دیتا ہے انہیں ناپسند فرماتا ہے۔
تو تمہیں یہ بھی معلوم ہوگا سجل کہ خدا پسند انکو کرتا ہے جو معاف کرنے والا ہوتا ہے دوسروں کو اللّه کی رضا کے لئے معاف کرتا ہے چاہے معافی مانگنے والا کتنا ہی گناہگار کیوں نا ہو بس معاف کرنے والے کا دل بڑا ہونا چاہیے۔
اور میں جانتا ہوں کہ تمہارا دل بہت بڑا ہے ایک نا ایک دن تم مجھے ضرور معاف کر دو گی مجھے یقین ہے اس بات کا۔
زارون سجل سے معافی کی التجا کرنے کے بعد تھکے ہوئے قدم اٹھاتا یہاں سے بہت دور جانے کے لئے گیٹ سے باہر نکل گیا۔
سجل آنکھیں بند کئے آنسو پینے لگی۔
کاش آپ نے ایسا نا کیا ہوتا کاش۔
سجل اب آنسو پینے کی بجاۓ انہیں آنکھوں کر ذریعے باہر آنے کا رستہ دینے لگی۔
۔*******************
موحد بھائی واپس کریں میرا موبائل۔
انعم موحد کے پیچھے اپنا موبائل لینے کے لئے بھاگ رہی تھی۔
جبکہ موحد اس کا موبائل ہاتھ میں پکڑے اسکی تمام دوستوں کو گروپ میسج کرنے لگا۔
ایک عدد لارج پیزا ود کولڈ ڈرنک۔
چکن منچوڑین ود فرائڈ رائس۔
زینگر ود جوس اور پھر آئس کریم فائیو سٹار ہوٹل میں میری طرف سے تم سب کے لئے آج بلکل فری۔
پانچ بجے پورے پہنچ جانا تم سب کی پیاری اور کھلے دل کی مالک دوست انعم۔۔۔۔
موحد نے یہ لکھنے کے بعد میسج سینڈ کر دیا۔
موحد بھائی کیا میسج کر رہے ہیں میری دوستوں کو اب دکھا بھی دیں۔
وہ اب بھی اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔
موحد سیڑھیاں اترتا نیچے آیا جب سامنے سے آتی معارج سے اس کی ٹکر ہوئی اور معارج دھرم نیچے۔موحد بدتمیز اندھے کہیں کے جاہل انسان۔
معارج اپنا بازو سہلاتی اسے کوسنے لگی۔
سیم ورڈز فار یو۔
موحد نے مزے سے جواب دیا۔
موحد بھائی اب تو دے دیں موبائل۔
انعم کو اپنے موبائل کی ہی پڑی تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ وہ ضرور کوئی الٹے سیدھے میسجز ہی کرے گا جو اسے بہت مہنگے پڑیں گے۔
اور ہوا بھی ایسا ہی موحد نے اسے آرام سے موبائل تھما دیا۔
جب اس نے میسج پڑھا تو اسکا منہ ایسا بن گیا جیسے ابھی رو دے گی۔
کیوں کہ اس کی دوستوں کے بھی میسجز آچکے تھے۔ارے واہ یعنی آج تو ہمارا ڈنر فری بہت مزہ آنے والا ہے آج تو۔
تم فکر مت کرو ہم آجائیں گے پورے پانچ بجے۔
اور ہاں یہ جو مینو تم نے بتایا ہے یہ کچھ کم نہیں لگ رہا۔
کم والی بات پر انعم نے فوراً اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔لیکن چلو کوئی بات نہیں ہم کھا لیں گے یہ سب بھی۔انعم چہرہ گھمائے موحد کی طرف ہوئی اور بولی۔
اب آپ ذرا مجھے یہ بتائیں کہ انہیں اتنا سب کچھ کھلاۓ گا کون۔
ظاہر ہے تم۔۔۔
انعم کے پوچھنے پر موحد نے آرام سے انعم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
اور اب ذرا یہ بھی بتا دیں کہ اتنا ہیوی خرچہ میں کروں گی کہاں سے۔
اب یہ تو تمہارا مسلہ ہے تمہاری دوستیں ہیں تم نے انوائٹ کیا ہے تم ہی جانو مجھ سے کیا پوچھ رہی ہو۔موحد اپنا سارا کیا کرایا انعم پر تھوپ کر مزے سے وہاں سے ہٹ گیا۔
جبکہ انعم منہ کھولے ہکا بکا اسے دیکھے گئی۔
موحد گانے کی دھن پر سیٹی بجاتا باہر جانےگا جب باہر سے حسینہ اپنے حسن کا جلوہ لئے داخل ہوئی۔موحد الٹے پاؤں واپس مڑنے لگا مگر حسینہ اسے دیکھ چکی تھی اس لئے کسی ہیروئن کی طرح اپنے بال لہراتی بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی۔
موحد جی یہ دیکھیں آج میں نے اپنے ہاتھوں پیروں اور چہرے پر وہ جو سفید والا آٹا نہیں ہوتا وہ لگایا تھا۔
اس لئے دیکھیں کتنی پیاری اور نکھری نکھری لگ رہی ہوں۔موحد نے اسے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اسکا کالا رنگ بدلہ بدلہ اس لئے لگ رہا تھا کیوں کہ اس کے چہرے پر مٹی جمی ہوئی تھی۔
وہ شائد گھر کی ڈسٹنگ کر کے آرہی تھی۔
ہاں لگ تو رہی ہو۔۔۔موحد نے آہستگی سے کہا۔
اور یہ دیکھیں آج تو میں نے سوٹ بھی نیا پہنا ہے۔میری بیگم صاحبہ ہیں ناں بہت ہی اچھی ہیں اپنے وہ تمام کپڑے جو وہ نہیں پہنتیں وہ مجھے دے دیتی ہیں۔
انہیں معلوم جو ہے کہ ان کے کپڑے ان سے زیادہ مجھ پر ہی جچتے ہیں۔
حسینہ کی آخری بات پر موحد اور معارج کا دل چاہا کہ وہ دل کھول کر ہنسیں سواۓ انعم کہ جو ابھی بھی موبائل ہاتھ میں لئے اپنی دوستوں کے ایک کے بعد ایک آنے والے میسجز کو دیکھ کر منہ بنا رہی تھی۔حسینہ تم کتنی اچھی ہو ناں میرے لئے پلیز ایک گلاس پانی لے آؤ گلا بہت خشک ہو رہا ہے۔
موحد کے کہنے کی دیر تھی کہ حسینہ بھاگتی ہوئی کچن میں چلی گئی۔
موحد نے بھی اس کے جیسی پھرتی دکھائی اور بھاگتا ہوا گھر سے ہی باہر نکل گیا۔
حسینہ پانی کا گلاس لئے لاؤنج میں آئی۔
ارے یہ موحد جی کہاں گئے۔
حسینہ نے معارج سے پوچھا۔
وہ اصل میں پاپا کا فون آیا تھا آفس بلا رہے تھے اسے اور تمہیں تو پتا ہے کہ ہمارا موحد کتنا فرمابردار بچہ ہے ایک ہی فون پر چلا گیا۔
معارج نے بہانہ بنا دیا۔
"اچھا"
حسینہ کا منہ لٹک گیا۔
آج تو میں خاص انکے لئے تیار ہو کر آئی تھی مگر وہ تو مجھے جی بھر کا دیکھ بھی نا سکے۔
معارج کے دل میں آیا کہ وہ کہہ دے کہ اگر وہ تمہیں جی بھر کر دیکھ لیتا ناں تو دوبارہ کسی کو ایک نظر دیکھنے کے قابل بھی نا رہتا۔
ایسا کریں یہ لیں آپ ہی پانی پی لیں۔
حسینہ نے گلاس معارج کی طرف بڑھایا۔
حسینہ نے ایک نظر گلاس اور ایک نظر اس کے ہاتھوں کی طرف دیکھا جن پر لگی مٹی گلاس پر صاف واضح ہو رہی تھی۔
ارے نہیں مجھے بلکل پیاس نہیں ہے۔
معارج کو تو الٹی آنے لگی۔حسینہ گلاس لئے واپس کچن میں چلی گئی۔
۔******************
روحاب بھائی میں آجاؤں۔
ہاں آجاؤ۔
روحاب نے سجل کو اپنے کمرے میں آنے کی اجازت دی۔
روحاب شرٹ کے بٹن بند کر رہا تھا جب وہ اس کے پاس آئی۔
روحاب بھائی وہ۔۔۔وہ مجھے آپکو۔۔۔۔
سجل اگر کوئی ضروری بات ہے تو جلدی بولو یوں اٹک اٹک کر اپنا اور میرا بھی وقت برباد مت کرو پلیز۔وہ مجھے آپکو یہ دینا تھا اب کی بار سجل نے وہ پارسل اس کی طرف بڑھایا۔
اس میں کیا ہے۔
روحاب نے پارسل پکڑے بغیر پوچھا۔یہ آپ پلیز خود ہی دیکھ لیں میں نہیں بتا سکتی۔
سجل نے اسے زبردستی پیکٹ پکڑایا۔
روحاب اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا کیا مسلہ ہے اور پھر پیکٹ کھولنے لگا۔
مگر پیکٹ کھولنے کے بعد اسکی رنگت بھی ایسی ہوگئی جیسی صبح سجل کی تھی۔
یہ کیا بیہودگی ہے۔وہ سجل کی طرف دیکھ کر غصے سے بولا۔
میں نہیں جانتی روحاب بھائی یہ تو پارسل آیا تھا بڑے ابا کھول کر دیکھنے لگے تو ان سے لے لیا مجھے یہی لگا کہ ماریہ نے نوٹس بھجواۓ ہیں۔
ان تصویروں کے بارے میں مجھے سچی میں کچھ معلوم نہیں۔
سجل آخر میں منمنائی۔
روحاب نے ان تصویروں کو غور سے دیکھا.یہ وہی لڑکی تھی جو اس دن اس کے ساتھ سیلفی لینے آئی تھی۔
اور یہ تصویر بھی بلکل وہی تھی بس پیچھے سے بیک گراؤنڈ چینج کر دیا گیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ان دونوں کا حلیہ بھی۔
روحاب تصویروں کو غصے سے مروڑتا ہوا بولا۔
ان تصویروں کو چاہے پھاڑو چاہے جلاؤ یا کچھ بھی کرو مگر یہ دوبارہ مجھے یا گھر کے کسی بھی فرد کو کسی بھی صورت نظر نا آئیں۔
روحاب نے تصویریں سجل کو تھمائیں اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
مگر آپ کہاں جا رہے ہیں اس وقت روحاب بھائی سنیں تو سہی۔
سجل اس کے پیچھے دروازے تک آئی مگر وہ اس کی آوازوں کو نظر انداز کرتا ہوا سیڑھیاں اتر چکا تھا۔
سجل بھی اس کے کہے پر عمل کرنے کے لئے ماچس لینے کچن میں چلی گئی۔
۔*********************
ثانیہ نے گھر میں شوشہ چھوڑ دیا تھا کہ زارون اسے طلاق دے رہا ہے۔
گھر کے بڑوں نے جب اس سے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ شادی کو ابھی چار مہینے نہیں ہوئے اور وہ کہتا ہے کہ مجھے اولاد چاہیے۔
چار مہینے ہی تو ہوئے ہیں کوئی چار سال تو نہیں ہو گئے مگر وہ کہتا ہے کہ اگر مجھے خوش خبری نا سنائی تو طلاق دے دوں گا۔
ثانیہ نے صفا چٹ جھوٹ ان کے سامنے بول کر سارا کا سارا الزام زارون کے سر تھوپ دیا۔
اور ساتھ ہی ساتھ آنکھیں رگڑتے ہوئے رونے کا ناٹک بھی شروع کے دیا۔
جب ثانیہ نے ان کو طلاق کی دھمکی کی وجہ نہیں بتائی تھی تو سب سوچ رہے تھے کہ ہونہہ قصور ثانیہ کا ہی ہوگا جو بات طلاق تک آن پہنچی۔کیوں کہ سب جانتے تھے کہ ثانیہ کسی رشتے کو خوش اسلوبی سے نبھا ہی نہیں سکتی۔
شہلا بیگم تو شکر ہی کرتی تھیں کہ ثانیہ ان کی بہو نہیں بنی کیوں کہ وہ زرمین پھپھو سے اس کے آئے دن بغیر کسی بات کے جھگڑوں کا سنتی رہتی تھیں۔
سب نے ثانیہ کو چپ کرواتے اسے حوصلہ رکھنے کا کہتے ہوئے زارون سے ساری بات کرنے کی ٹھانی۔
۔***********************
حولدار اس دن جو لڑکی پولیس اسٹیشن کے باہر ملی تھی اسکا جلدی سے پتا لگواؤ۔
اور ہاں یاد رکھنا دو گھنٹے کے اندر اندر وہ لڑکی یا تو یہاں موجود ہو یا اسکا پتا میرے ہاتھ میں ہو۔
روحاب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ لڑکی ابھی کے ابھی کہیں سے بس اس کے سامنے آجائے۔
جی انسپکٹر روحاب۔حولدار اس کے حکم کی تکمیل کرنے کے لئے باہر نکل گیا۔
۔************************
زارون بیٹا یہ کیا بچپنا ہے ابھی چار مہینے تک نہیں ہوئے تم لوگوں کی شادی کو اور تم نے ثانیہ کو خوشخبری نا سنانے کی وجہ سے اسے طلاق کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو وہ اللّه کی مرضی ہے اس میں تم اس کو کیوں الزام دے رہے ہو ابھی وقت ہی کتنا ہوا ہے تم لوگوں کی شادی کو۔
رمیز صاحب نے زارون کو سمجھانا چاہا جبکہ زارون ہکا بکا انہیں دیکھنے لگا کہ یہ آخر ثانیہ نے کون سی کھچڑی بنا کر انہیں کھلائی ہے۔
زارون کو ایک دم تپ چڑھ گئی وہ یہ سوچتا ہوا کہ تمہیں تو میں کسی حال میں نہیں چھوڑوں گا ثانیہ میڈم۔۔رمیز صاحب سے بولا۔
میں نہیں جانتا مامو کہ ثانیہ نے آپ سب سے اس کے علاوہ اور کون کون سی باتیں کی ہیں مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اس نے جو کچھ بھی کہا ہوگا اس میں ایک فیصد بھی سچ نہیں۔
بات تو اصل یہ ہے کہ ثانیہ نے خود مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر میں اسے اس مہینے کے اندر اندر انگلینڈ نا لے کر گیا تو وہ مجھ سے طلاق لے لے گی۔
روز مجھ سے اسی بات پر لڑتی ہے گھر کا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے اگر آپکو یہ جھوٹ لگ رہا ہے تو آپ ماما سے پوچھ لیں ہماری لڑائی کا حرف حرف ان تک آسانی سے پہنچتا ہے۔
میں کتنی کوشش کرتا ہوں کے ہماری لڑائی کو ہمارے کمرے تک ہی محدود رکھوں مگر وہ رکھنے ہی نہیں دیتی۔
روز شوپنگ پر جانا ہوتا ہے اسے اور میں لے کر بھی جاتا ہوں روز رات کو دیر تک لونگ ڈرائیو کے لئے جانا ہوتا ہے اسے میں تب بھی چل پڑتا ہوں رات کو ایک دو بجے اٹھ کر کہتی ہے کہ مجھے باہر سے آئسکریم لا کر دو جبکہ گھر میں آئسکریم موجود ہوتی ہے مگر نہیں ہر بات میں ضد آگے ہوتی ہے۔
اسے گھومنے پھرنے سے غرض ہے شوپنگ سے غرض ہے انگلینڈ جانے سے غرض ہے اب آپ ہی بتائیں مامو ان سب میں آخر میں کہاں ہوں میرا بھی تو اس پر کوئی حق ہے۔
مگر اس کا کہنا ہے کہ شادی سے پہلے تو تم کہتے تھے کہ تمہیں انگلینڈ لے کر جاؤں گا اور میں شادی کے لئے مان گئی اب آپ ہی بتائیں مامو اسکا مطلب یہی ہوا کہ اس نے مجھ سے شادی صرف یہاں سے دور انگلینڈ جانے کے لئے کی تھی۔
اس نے جو بات آپکو بتائی ایسا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے میں خود اکثر اس سے اس بارے میں بات کرتا ہوں تو کہتی ہے کہ وہ ابھی بچوں کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتی دو تین سال تک آزادی سے رہنا چاہتی ہے۔
اگر آپکو یقین نہیں تو بلائیں اسے اور پوچھیں اس سے۔
زارون نے جو بچوں والی بات کہی وہ واقعی میں سچ تھی۔زارون کی بات سننے کے بعد رمیز صاحب کو تو چپ ہی لگ گئی۔
وہ کیا سب ہی جانتے تھے کہ ثانیہ کی فطرت شروع سے ہی مطلبی اور خود غرض ہے۔
بچپن سے لے کر اب تک وہ ہر بات پے جھوٹ بولتی آئی تھی۔
اور صرف اور صرف اپنا مطلب ہی تلاش کرتی آئی تھی۔مگر رمیز صاحب کو لگا تھا کہ ان کی بیٹی کم از کم شادی کے معاملے میں تو اتنا بڑا جھوٹ نہیں بولے گی۔
رفیق صاحب زارون کی ساری بات سننے کے بعد بولے۔زارون بیٹا میں تمہیں کسی بھی بات میں غلط نہیں مانتا۔
قصور ثانیہ کا ہے مگر چلو اس بار اس کی باتوں کو یہ سمجھ کر نظر انداز کر دینا کہ تھوڑی کم عقل ہے نا سمجھ ہے ابھی مگر خیر تمہاری ممانی سمجھا دیں گیں اسے۔
تم ثانیہ کو لے کر نہیں جاؤ گے تم گھر جاؤ شام کو ثانیہ خود تمہارے پاس موجود ہوگی۔
بہتر ہے کہ اسے اسکی غلطی کا احساس کرایا جائے اور وہ خود تمہارے پاس آئے۔
جی بہتر بڑے مامو۔زارون دل میں اپنی اس ایموشنل کارکردگی پر خوش ہوتا ہوا کھڑا ہوگیا۔
جبکہ شہلا اور ثمرین ثانیہ کو سمجھانے کے لئے اٹھ گئیں۔
۔*********************
انسپکٹر روحاب اس لڑکی کا پتا معلوم ہو گیا ہے۔
اسکا نام مونا ہے اور وہ شوپنگ پلازہ کے پاس آسمانی بلڈنگ کے روم نمبر سترہ میں رہتی ہے۔
حولدار نے واقعی میں پورے دو گھنٹے کے اندر آکر روحاب کو اس لڑکی کا پتا بتایا۔
گڈ ویری گڈ۔۔۔
روحاب اسے شاباشی دیتا ہوا مسکرا دیا۔
۔*********************
روحاب سیڑھیاں چڑھتا ہوا دوسرے پورشن پر آیا۔یہ کافی پرانی بلڈنگ تھی۔
تمام رومز کے باہر نمبرز کی سلیٹ لگی ہوئی تھی۔جو کہ مٹی اور زنگ سے بھری ہوئی تھیں۔
نمبرز تو مشکل سے نظر آرہے تھے۔
روحاب جلدی سے روم نمبر سترہ کی طرف بڑھ گیا۔بیل شاید خراب تھی جو چل نہیں رہی تھی اس لئے وہ ڈور ناک کرنے کے بعد اس کے کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔
زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا اس مونا نامی لڑکی نے جلد ہی دروازہ کھول دیا۔
روحاب نے دیکھا کہ اسے دیکھتے ہی اس کے چہرے کی رنگت اڑ گئی۔
ہائے میں انسپکٹر روحاب یقیناً یاد ہی ہوگا تمہیں میں۔یاد کیسے نہیں ہونگا تم تو میری بہت بڑی فین ہو ناں۔وہ پہلے تو گھبراتی ہوئی سر ہلانے لگی مگر پھر جلد ہی اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتی ہوئی بولی۔
جی جی آپکو کیسے بھول سکتی ہوں ابھی اس دن ہی تو آپکے ساتھ تصویر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے بولتے بولتے زبان دانتوں تلے دبائی۔
اچھا ہوا یہ بات تم نے خود ہی کہہ دی ورنہ مجھے ہی شروع کرنے کی زحمت کرنی پڑتی۔
سنو لڑکی میرے پاس نا ہی زیادہ وقت ہے اور ہوتا بھی تو مجھے بلکل شوق نہیں ہے اپنا قیمتی وقت برباد کرنے کا اس لئے اب جلدی سے بتا دو کہ ان تصویروں کا کیا چکر ہے۔
جی میں سمجھی نہیں۔وہ لڑکی شائد اتنی جلدی حقیقت اگلنے نہیں والی تھی۔
ایک پولیس والے سے ایک مجرم سے سچ اگلوانا کوئی مشکل کام نہیں۔
مگر تم نے اگر اسے مشکل بنانے کی کوشش کی تو یاد رکھنا تمہیں میرے ساتھ پولیس اسٹیشن جانا پڑے گا۔
اور جانتی ہو ناں کہ پولیس اسٹیشن میں مجرم کس لئے لائے جاتے ہیں۔
روحاب جو کہہ رہا تھا سچ ہی کہہ رہا تھا کیوں کہ اگر وہ لڑکی سچ بولنے میں کچھ دیر اور لگاتی تو وہ واقعی میں اسے پولیس اسٹیشن لے جانے میں دیر نا لگاتا۔میں نے کچھ نہیں کیا انسپکٹر روحاب میں سچ کہہ رہی ہوں۔وہ گھبراتے ہوئے بولی۔
میں نے کب کہا کہ تم نے کچھ کیا ہے میں تو یہ پوچھ رہا ہوں کہ ان تصویروں کے پیچھے اصل ہاتھ کس کا ہے۔
کون ہے آخر جسے میرے ہاتھوں مرنے کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے۔
وہ لڑکی ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ہاتھوں کی انگلیاں چٹکارنے لگی جیسے بھاگنا کا راستہ تلاش کر رہی ہو۔روحاب اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا۔پھر روحاب نے اچانک ہی پستول نکال لی۔
روحاب کا ارادہ گولی چلانے کا بلکل بھی نہیں تھا ہاں مگر اسے ڈرانے کا ضرور تھا کیوں کہ وہ بتانے میں وقت بہت لگا رہی تھی اور روحاب کو اس انتظار سے سخت کوفت ہو رہی تھی۔
روحاب کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر اس کی پوری آنکھیں کھل گئیں اور ساتھ ہی زبان بھی۔
یہ سب میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا بلکہ ایسا کرنے کو مجھے کسی نے بولا تھا اور اس کام کے پیسے بھی دیے تھے۔میرا کام صرف آپکے ساتھ تصویریں بنوانا تھا ان تصویروں میں ردوبدل میں نے نہیں بلکہ انہوں نے کی ہے۔
کون ہے وہ؟روحاب دانت پیستا ہوا بولا۔
اس پر اس لڑکی نے اس ہستی کا نام بتا دیا جو روحاب کو سب کی نظروں میں گرانے کے چکر میں تھی۔
جبکہ روحاب کو وہ نام سن کر اپنے کانوں پر یقین نا آیا۔
۔*******************
ثانیہ شام کو اپنے سسرال موجود تھی۔
اس کے چہرے سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ اسے یہاں زبردستی بھیجا گیا ہے۔
شہلا اور ثمرین نے پہلے تو اسے پیار سے سمجھایا مگر جب وہ نا سمجھی تو ثمرین غصے سے بولیں۔
جب تک تم کنواری تھی تب تک ہمارا تم پر زیادہ حق تھا اور بچپن سے لے کر اب تک ہم تمہاری ضد اور من مانیوں کو مانتے آئے ہیں۔
مگر اب تم شادی شدہ ہو ہم سے زیادہ تم پر اب تمہارے شوہر کا حق ہے وہ جو کہتا ہے اسے مانا کرو اور آئے دن کے لڑائی جھگڑوں سے اسکی اور اپنی زندگی اجیرن مت کرو۔
سال دو سال بعد وہ یہاں آتا ہے اس لیے کہ سارا سال محنت کرنے کے بعد وہ ایک دو مہینے اپنے گھر والوں کے ساتھ سکون سے رہ سکے مگر تم اس کے سکون کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہو۔
خبردار جو آئندہ تم نے جھوٹی باتیں بنا کر ہمیں زارون کے خلاف کرنے کی کوشش کی تو۔
تمہاری شادی تمہاری مرضی اور خوشی سے ہوئی ہے ہم نے کوئی زبردستی نہیں کی تمہارے ساتھ۔
اب اٹھو اور جاؤ ورنہ میں زارون کو بولوں گی کہ آؤ اور اپنی بیوی کو جس طرح مرضی یہاں سے لے جاؤ۔اور ہاں اب وہی تمہارا گھر ہے وہیں رہو تو بہتر ہے۔
آئے روز یہاں مت آیا کرو ساتھ ساتھ گھر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ تم سسرال سے زیادہ میکے میں نظر آؤ۔
ثانیہ یہ سوچتی ہوئی کہ یعنی میرا جھوٹ پکڑا گیا زارون اپنا کہا پورا کر کے ہی چھوڑے گا وہاں سے پاؤں پٹکتی ہوئی کھڑی ہوگئی۔
روحاب بیٹا ہمیں تم سے کچھ بات کرنی ہے یہاں بیٹھو۔
بڑے پاپا اور بڑی ماما نے روحاب کو اپنے کمرے میں بلایا اور بیٹھنے کا کہا۔
جی پاپا کوئی خاص بات ہے۔ہاں بیٹا بات تو خاص ہی ہے۔
ہم اصل میں تمہاری شادی کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
بہت منع کر لیا تم نے مگر اب نہیں بہت دیر کر لی تم نے مگر اب ہم تمہاری شادی کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
مگر پاپا اتنی جلدی کیا ہے۔
روحاب کو کوئی اور بہانہ نا سوجھا تو جلدی کا بہانہ کیا۔
کیا ہوگیا ہے روحاب کس جلدی کی بات کر رہے ہو تم ستائیسویں میں لگ لگنے والے ہو تم اور ابھی بھی تم کہہ رہے ہو کہ ہم جلدی کر رہے ہیں۔اب کی بار شہلا بیگم بولیں۔
تمہاری ماما بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں اب بتاؤ کیا کہتے ہو تم۔
ٹھیک ہے پاپا اگر آپ لوگ پکا ارادہ کر ہی چکے ہیں تو میں انکار نہیں کروں گا روحاب نے ان کے فیصلے پر سر جھکا دیا۔
یہ ہوئی نا بات اب بتاؤ کے کوئی لڑکی تو پسند نہیں تمہیں رفیق صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
آپ بھی کیسی بات کر رہے ہیں پاپا اگر پسند ہوتی تو اب تک منع کیوں کرتا۔
یعنی یہ تو اور بھی اچھی بات ہوگئی کہ اب تمہیں ہماری پسند کی لڑکی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔رفیق صاحب کی بات پر روحاب نے چونک کر سر اٹھایا۔
کیا مطلب آپ نے کوئی لڑکی ڈھونڈ کر رکھی ہے یا ڈھونڈنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ڈھونڈنے کی ضرورت ہی کیا ہے روحاب بیٹا اپنی سجل ہے تو سہی گھر کی بچی ہے اپنے ہاتھوں میں پلی بڑھی ہے پھر بھلا باہر جانے کی کیا ضرورت ہے۔شہلا بیگم سجل کی بات کرتی ہوئیں محبت سے بولیں۔
جبکہ سجل کے نام پر روحاب انہیں حیرت سے دیکھنے لگ گیا۔
کیا ہوا روحاب تمہیں سجل سے شادی پر کوئی اعتراض ہے دیکھا جاۓ تو کوئی کمی نہیں ہے اس میں ہاں بس تھوڑی سی لاپرواہ ہے۔
نہیں ماما ایسی بات نہیں بس میں نے اسکو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا۔
یہ تو ہمیں بھی معلوم ہے روحاب بیٹا سجل بہت معصوم ہے ثانیہ کی طرح بلکل بھی نہیں ہے۔
اور شکر ہے کہ بچپن سے لے کر اب تک اس میں ثانیہ کی کوئی بات نظر نہیں آئی۔تم دونوں ایک دوسرے کے لئے ہر لحاظ سے بہتر ہو۔
شہلا بیگم سجل کو بہو بنانے کا ارادہ پکا ارادہ کر چکی تھیں۔
ماما میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا مجھے سوچنے کے لئے کچھ وقت چاہیے۔
ہاں ہاں ضرور وقت لو مگر جواب صرف ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔روحاب بیٹا جواب ہاں میں ہو یا نا میں تمہیں اپنی زندگی کے متعلق فیصلہ کرنے کا پورا حق ہے۔
شہلا کی بات منہ میں ہی رہ گئی جب رفیق صاحب نے ان کی بات کاٹی۔
تم بہتر جانتے جو کہ تم سجل کے ساتھ خوش رہ سکتے ہو یا نہیں اس کے ساتھ تمہارا گزارا ہو سکتا ہے یا نہیں اس لئے تم آرام سے سوچ کر ہمیں جواب دینا۔اب جاؤ شاباش اپنے کمرے میں آرام کرو تھکے ہوئے ہوگے۔
رفیق صاحب کی بات پر روحاب سر ہلاتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
۔*************************
کیا روحاب بھائی؟؟؟؟
سجل کو یقین نا آیا۔
ہاں اور نہیں تو کیا ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس بدتمیز موحد کی شکایت کرنے گئی تھی پاپا سے تو انہیں روحاب بھائی سے تمہارے لئے بات کرتے سنا۔
معارج نے کچھ دیر پہلے ہونے والی گفتگو سے سجل کو آگاہ کیا۔
اچھا تو پھر روحاب بھائی نے کیا کہا۔
سجل کو جاننے کی بے چینی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا سوچ کر جواب دوں گا۔
اس بات پر سجل کا منہ بن گیا۔
وہ سوچنے لگی اگر انہوں نے سوچنے کے بعد انکار کر دیا تو۔
اور یہی بات معارج بھی اس سے کہنے لگی تو سجل بولی۔
ہاں تو کر دیں انکار مجھے کیا۔
مگر اندر سے تو اس کی بھی خواہش تھی کہ اس رشتے کے مطلق روحاب کا انکار نہیں بلکہ اقرار ہو۔
اور وہ سوچے بیٹھی تھی کہ اگر ماما پاپا نے اس سے بات کی تو وہ فوراً ہاں کر دے گی۔
ویسے اب تو بس روحاب بھائی کے ہاں کرنے کی دیر ہے پھر تو میرے تم سے تین تین رشتے بن جائیں گے۔یعنی کزن اور دوست کے ساتھ ساتھ بھابھی کا بھی۔معارج شرارت سے بولی۔
اچھا اب بس کر دو جو ہوگا دیکھا جاۓ گا۔
سجل نے اسے چپ کروانا چاہا مگر وہ چپ نا کی۔
کیا مطلب جو بھی ہوگا۔
مطلب انکار یا اقرار۔
سجل نے اسے سمجھایا۔
اچھا میں ذرا اس موحد کی شکایت لگا کر آئی پہلے تو روحاب بھائی کمرے میں تھے اس لئے واپس آگئی مگر اب تو یہ نہیں بچنے والا۔
معارج موحد کی شکایت بڑے پاپا کو لگانے کے لئے ان کے کمرے میں چلی گئی۔
موحد نے اس کے بیگ سے نوٹس نکال کر انہیں پھاڑ کر رومان کے ساتھ مل کے ان کے جہاز بناۓ تھے اور پھر پورے لان میں ادھر سے ادھر اڑائے۔
معارج کو معلوم ہوا تو ان دونوں پر برس پڑی۔
موحد نے تو اپنے دونوں کان بند کر لئے مگر رومان کو جب معلوم ہوا کہ جن کے جہاز بنا بنا کر وہ اڑا رہا تھا وہ دراصل معارج کے نوٹس تھے تو جلدی سے وہاں سے کھسک گیا۔
۔**********************
تم کیا چاہتے ہو مجھ سے۔
کمرے میں اس وقت دو نفوس موجود تھے یعنی روحاب اور زارون۔
وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔
کیا مطلب میں سمجھا نہیں۔
زارون نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔
تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کس بارے میں بات کر رہا ہوں اس لئے زیادہ انجان مت بنو۔
انجان تو بنو گا جب تک تم سیدھی طرح مجھے ساری بات نہیں بتاؤ گے۔
زارون ہونٹوں پر مسکراہٹ لئے بولا۔
سونا نامی لڑکی کو میرے ساتھ تصویریں بنوانے کے لئے بھیجنا اور پھر ان تصویروں میں ردو بدل کر کے انکا میرے لئے غلط استعمال کرنا اس سب کے پیچھے تمہارا کیا مقصد تھا۔
روحاب نے بغیر کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ساری بات کہہ ڈالی۔
اوہو تو تمہیں معلوم ہو ہی گیا۔
ویسے میں جانتا تھا کہ انسپکٹر روحاب سے کوئی بات چھپی رہ ہی نہیں سکتی اور لگتا ہے کہ وہ تصویریں گھر کے بڑوں کے ہاتھ نہیں لگیں نہیں تو اب تک گھر کی فضا اتنی پر سکون نا ہوتی۔
میں یہاں تم سے گھر کی فضا کے متعلق بات کرنے نہیں آیا بلکہ میں وہ وجہ جاننے آیا ہوں جس کو مد نظر رکھتے ہوئے تم نے بغیر کسی رشتے کا لحاظ رکھے بغیر یہ غلط کام کروایا۔
آخر کیا چاہتے ہو تم مجھ سے۔
اس وقت روحاب کو اس کی مسکراہٹ زہر لگ رہی تھی۔تمہاری طرف سے انکار۔
کیا مطلب۔
روحاب کو سمجھ نا آئی۔
تمہاری طرف سے سجل کے لئے انکار۔
سجل سے شادی سے منع کر دو۔
کیوں کہ سجل صرف میری ہے اور میں اس کی شادی تم سے تو کیا کسی سے بھی نہیں ہونے دونگا۔
کیا گھٹیا پن ہے یہ۔
روحاب کو ایک دم غصہ آگیا۔
ڈیر کزن یہ گھٹیا پن نہیں بلکہ محبت ہے۔
میں نے وہ تصویریں اس لئے بھیجیں تا کہ گھر کے تمام افراد انھیں دیکھیں اور پھر چھوٹے مامو اور مامی تو کیا سجل بھی تم سے شادی کے لئے ہرگز راضی نا ہو۔
مگر افسوس وہ تصویریں تمہارے ہاتھ لگ گئیں۔زارون نے افسوس کیا۔
روحاب اس کی بات پر مسکرایا اور بولا۔
سجل مجھ سے شادی کے لئے انکار نہیں کرے گی کیوں کہ تمہاری بے خبری کے لئے تمہیں بتاتا چلوں کہ وہ تصویریں میرے نہیں بلکہ سجل کے ہاتھ لگی تھیں اور وہ انہیں کسی اور کے پاس لے جانے کی بجاۓ میرے پاس لے کر آئی تھی۔
اور پھر میرے کہنے پر ان تصویروں کو جلا بھی ڈالا۔اس بات سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ اسے مجھ پر کتنا یقین ہے اور وہ مجھے کسی کی بھی نظروں میں گرانا نہیں چاہتی۔
بس یہی تو بات ہے روحاب کہ اس وقت قسمت تمہارے حق میں تھی اور۔۔۔۔۔۔۔
اور آگے بھی میرے حق میں ہی رہے گی۔روحاب نے اسکی بات بیچ میں کاٹی۔
اور میں جان چکا ہوں کہ ثانیہ نے چاہے جھوٹ ہی بولا ہو کہ تم نے اسے طلاق کی دھمکی دی ہے صرف چھوٹی سی بات پر مگر اندر کی بات تو یہ ہے کہ تم واقعی میں اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتے ہو۔
اور اگر تو تم مرد ہو تو تم کبھی بھی ایسا مت کرنا۔روحاب کی اس بات پر زارون نے قہقہ لگایا اور بولا۔واہ میرے بھائی کیا بات کہہ دی تم نے آئی لائک اٹ۔اور ہاں اندر کی بات تو تم جانتے ہی نہیں۔
تم جانتے ہی نہیں کہ میں نے ثانیہ سے شادی صرف اپنی انا کو تسکین پہنچانے کے لئے کی تھی۔
اس نے ٹھکرایا تھا مجھے اور وہ بھی تمہارے لئے اور مزے کی بات تو یہ کہ اس نے تمہیں بھی ٹھکرا دیا میرے لئے اوہ سوری نا تمہارے لئے نا میرے لئے بلکہ پیسوں کے لئے۔
مگر میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ جب تک اسے اپنا کر ٹھکرا نا دوں اسے وہ ساری سہولتیں آسائشیں دے کر جن کی وہ تمنا رکھتی تھی وہ واپس نا چھین لوں تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا۔
یہ سب تو میں نے پہلے سے ہی سوچ کر رکھا تھا مگر اس سب میں جو چیز نئی ہوئی وہ تھی سجل سے محبت اور وہ بھی مہندی کی رات۔
اب بتاؤ بندہ شادی اس سے کرے جس سے اسکو محبت ہے یا اس سے جس سے اسے سخت نفرت ہے۔تم کیا جانو کہ شادی کے بعد کے دنوں میں میں نے اس لڑکی سے جس سے میرا روا روا محبت کرتا ہے کیسے گزارا کیا ہوگا۔
اب بھی وہ میرے کمرے میں ہوتی ہے تو میرا اپنے ہی کمرے میں سانس لینے کو دل نہیں کرتا۔
کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ ثانیہ وہی لڑکی ہے جس سے کبھی میں نے دل و جان سے محبت کی تھی۔
مگر اب وہ لڑکی میری نفرت کے قابل بھی نہیں۔روحاب نے زارون کی باتوں کو خاموشی سے سنا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
کہاں جا رہے ہو میری بات کا جواب نہیں دیا تم نے۔زارون نے اسے بغیر کسی بات کا جواب دیے واپس جانے کے لئے تیار دیکھا تو پوچھنے لگا۔
میرا جواب صرف اتنا سا ہے کہ جس طرح تمہاری ضد ہے کہ سجل کی شادی اپنے علاوہ کسی اور سے نہیں ہونے دو گے اسی طرح اب میری بھی ضد ہے کہ شادی کروں گا تو صرف سجل سے اور وہ بھی بہت جلد۔روحاب کی اس بات پر زارون کی مسکراہٹ کہیں غائب ہوگئی۔
مگر پھر وہ دوبارہ مسکراتے ہوئے بولا چلو پھر دیکھتے ہیں کہ کس کی ضد پوری ہوتی ہے کس کی جیت ہوتی ہے اور کس کی ہار۔
۔******************
یہ میرے لیپ ٹاپ پر پانی تم نے گرایا ہے۔
زارون نے دیکھا کہ اسکا لیپ ٹاپ پانی سے نچر رہا تھا۔
میرا ہاتھ لگ گیا تو گر گیا جگ۔
ثانیہ نے ایسے کہا جیسے وہ کوئی کپڑا ہو جس پر پانی گر جاۓ تو سوکھ کر پھر سے ویسا ہی ہو جاۓ گا جیسا پہلے تھا۔
تمہیں اتنی بھی سینس نہیں کہ ایسی چیزوں کو پانی کے پاس نہیں رکھتے۔
اور پھر جب گر گیا تھا پانی تو کیا منہ اٹھا کر دیکھتی رہی تھی لیپ ٹاپ اٹھا کر پیچھے نہیں کر سکتی تھی۔
زارون اس کی کم عقلی پر تپ کر بولا۔میں کیوں اٹھاتی تمہاری نوکر ہوں کیا۔
ہاں ایک نوکر سے بڑھ کر میری نظر میں تمہاری کوئی حثیت ہے بھی نہیں۔
کیا کہا تم نے آخر سمجھتے کیا ہو تم خود کو ایک نمبر کے دھوکے باز گھٹیا آدمی۔
ثانیہ کو زارون کا اسے نوکر کہنا تپا ہی تو گیا تھا۔
ہاں ہوں میں گھٹیا اور دھوکے باز مگر پھر بھی میں تمہارے لیول تک نہیں پہنچ سکتا۔
یہ پکڑو اپنا سرہانہ اور نکلو میرے کمرے سے اور جا کر جہاں مرضی سو۔
زارون نے اسے اس کا سرہانہ تھمایا اور کمرے سے نکل جانے کا کہا۔
ثانیہ نے سرہانہ غصے سے اس کے منہ پر مارا۔
مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تم جیسے گھٹیا انسان کے ساتھ ایک ہی بیڈ پر سونے کا۔
ثانیہ یہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
زارون کو ثانیہ کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا۔
اس نے پاؤں سے زور سے کمرے کا دروازہ بند کیا اور بیڈ پر بیٹھ کر لیپ ٹاپ کو چیک کرنے لگا جس کا ثانیہ نے پانی گرا کر کوئی حال نا چھوڑا تھا۔
۔******************
روحاب نے سجل سے شادی کے لئے ہاں کر دی جب یہ بات سجل کو معلوم ہوئی تو اسے یقین نا آیا۔
سجل آپی آپ روحاب بھائی سے شادی کے لئے خوش تو ہیں ناں۔
سجل روحاب کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی جب انعم نے اس سے پوچھا۔
معلوم نہیں۔
یہ تو کوئی جواب نا ہوا ٹھیک سے بتائیں آپ خوش ہیں یا نہیں۔
شائد ہاں۔
سجل نے کہا۔
آپی شائد یا پکا۔
انعم نے اب قدرے اونچی آواز میں پوچھا۔
ہاں۔
سجل نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔
یہ ہوئی نا بات ویسے میں تو بہت خوش ہوں روحاب بھائی میرے جی جو بننے والے ہیں آپ دونوں کی جوڑی ویسے بہت کمال کی لگے گی۔
ہاں جیسے تمہاری اور موحد کی۔
انعم اپنی ہی جون میں بولی جا رہی تھی جب سجل نے بیچ میں لقمہ دیا۔
کیا کہا۔میں نے کہا جیسے تمہاری اور موحد کی۔
سجل نے مزے سے دوبارہ کہا۔
سجل آپی آپ بھی ناں۔
انعم شرماتی ہوئی وہاں سے اٹھ گئی۔
۔******************
وہ سب لان میں آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔
سجل کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ سب کو پکڑنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
کبھی دائیں طرف سے موحد اس کے بازو پر چٹکی کاٹتا تو کبھی بائیں طرف سے معارج۔
تم دونوں بس ایک دفعہ میرے ہاتھ لگ جاؤ۔
ایک دفعہ تم لوگوں کی باری آتو لے پھر میں بھی ایسا ہی کروں گی دیکھنا بچو۔
سجل نے اپنے بازو سہلاتے ہوئے کہا۔
جبکہ انعم اور رومان دور سے ہی سجل آپی میں یہاں ہوں مجھے پکڑیں کی آوازیں لگا رہے تھے۔
ان کو پکڑنے کے چکر میں سجل کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گرنے لگی جب کسی نے اسے تھام لیا۔
سجل نے سامنے والے کو چھو کر دیکھا اور بولی۔
اب پکڑے گئے ناں موحد کے بچے۔
مگر جب اس نے آنکھوں سے پٹی اتاری تودیکھا کہ سامنے موحد نہیں بلکہ زارون تھا۔
جو اسے دونوں بازؤں سے تھامے مسکرا رہا تھا۔
ہار گئی ہار گئی سب ایک دم چلانے لگے۔
تب ہی روحاب کی گاڑی گیٹ سے اندرآئی۔
وہ گاڑی سے نکلا تو ایک دوسرے کے اتنے پاس کھڑے سجل اور زارون پر اس کی نظر پڑی۔
کیا شور مچا رکھا ہے تم لوگوں نے۔
روحاب جان بوجھ کر اونچی آواز میں بولا تا کہ زارون کو معلوم ہو جاۓ کہ وہ بھی یہیں موجود ہے۔
روحاب بھائی ہم ہائیڈ اینڈ سیک کھیل رہے ہیں۔رومان نے بتایا۔
یہ کھیل تماشا بند کرو کھانے کا وقت ہو رہا ہے اندر چل کر کھانا کھاؤ سب۔
روحاب نے ان سب کو غصے سے گھورتے ہوئے اندر چلنے کا کہا جس پر ان چاروں نے ایک ساتھ اندر کی طرف دوڑ لگا دی۔
۔*****************
سجل روحاب کو کھانے کے لئے بلانے آئی تھی۔
وہ ان سب کو کھانے کے لئے اندر بھیج کر خود کمرے میں آگیا تھا۔
روحاب بھائی بڑے پاپا کہہ رہے ہیں کہ کھانے کے لئے نیچے آجائیں۔
آرہا ہوں تم جاؤ۔بلکہ یہاں آؤ مجھے تم سے ایک بات کہنی تھی۔
سجل جو کمرے سے باہر ہی کھڑی تھی اندر آگئی۔
جی کہئے۔
مجھے کہنا یہ ہے کہ آج کے بعد تم مجھے زارون کے پاس نظر مت آؤ۔
لیکن کیوں۔سجل نا سمجھی سے بولی۔
بس میں نے کہہ دیا ناں تم اس کے پاس بھی مت جانا اور اگر وہ گھر آئے تو بہتر ہے کہ تم اس کے سامنے سے فوراً ہٹ جاؤ اوکے۔
جی روحاب بھائی۔
روحاب اس کے بھائی کہنے پر مسکرا دیا۔
ارے پاگل لڑکی اب تو بھائی کو بھائی کہنا بند کر دو اب تو یہ تمہارے حالیہ منگیتر اور فیوچر ہسبنڈ ہیں۔اور منگیتر کو بھلا کون بھائی بولتا ہے۔
موحد کمرے میں آتے ہوئے شرارت سے بولا تو سجل شرماتی ہوئی اسے گھوری ڈال کر باہر نکل گئی۔
روحاب اور موحد بھی اس کے پیچھے ہی کھانے کے لئے کمرے سے نکل گئے۔
۔******************
انعم تم سے ایک بات کرنی ہے میں نے۔
سجل کافی دیر سے بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی اور جب کافی سوچنے کے بعد بھی اسے کچھ سمجھ نا آیا تو انعم سے بولی۔
ہاں بولیں آپی۔
انعم لیز کھاتی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد جوس کے سپ لیتی لیپ ٹاپ پر ناول پڑھنے میں مصروف تھی۔انعم کیا تمہیں لگتا ہے کہ مجھے زارون بھائی سے دور رہنا چاہیے۔
کیا مطلب میں سمجھی نہیں۔
انعم کو کچھ سمجھ نا آئی۔
مطلب یہ کہ تم نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ وہ بہانے بہانے سے میرے پاس آنے اور مجھے چھونے کی کوشش کرتے ہیں۔
اور پتا ہے کچھ دن پہلے موحد نے اور کل روحاب نے بھی مجھے ان سے دور رہنے کا بولا۔
سجل نے اسے کھل کر بات بتائی تو انعم بھی سوچ میں پر گئی اور پھر بولی۔
سجل آپی میرے خیال سے وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں کیوں کہ نوٹ تو میں نے بھی بہت دفعہ کیا ہے لیکن ایک دو دفعہ تو میں نے یہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا کہ وہ شائد ایک کزن کی حثیت سے آپ سے پیار جتاتے ہیں۔
مگر اس کے بعد میں اپنی سوچوں کو جھٹک نہیں سکی کیوں کہ ان کی نظریں تو کچھ اور ہی کہتی ہیں۔
مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے مگر میں کیا کروں دل و دماغ دونوں ہی کچھ سمجھ نہیں پا رہے کہ آخر ان کے دماغ میں چل کیا رہا ہے۔
چھوڑیں سجل آپی آپ بس موحد اور روحاب بھائی کے کہے پر عمل کریں۔
دفعہ کریں ان سوچوں کو اور ادھر آئیں اور میرے ساتھ ناول پڑھیں بہت زبردست ہے۔
انعم نے لیپ ٹاپ اس کی طرف کیا۔
سجل بھی اس بارے میں زیادہ سوچنا نہیں چاہتی تھی اس لئے اپنے دماغ کو ان سوچوں سے پرے رکھنے کے لئے ناول پڑھنے لگی۔
۔****************
آج گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا بلکل خاموشی۔
ایسی خاموشی جو طوفان سے پہلے کی ہوتی ہے مگر یہاں تو طوفان آچکا تھا۔
ثانیہ کو طلاق ہو چکی تھی بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ وہ طلاق لے کر گھر آچکی تھی۔
گھر کے تمام افراد کو چپ لگ گئی تھی بولتے بھی تو کیا ثانیہ نے جو کرنا تھا وہ تو کر چکی۔
ثانیہ بول بول کر زارون کو جتنی ہو سکے اتنی بددعائیں دے کر چپ کر چکی تھی۔
اس کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے کہ وہ مجھے طلاق دیتا میں خود لے کر آگئی۔
ارے کون کرتا اس گھٹیا انسان کے ساتھ گزارا۔
میری شادی اس شخص کے ساتھ کروا کر آپ لوگوں نے تو میری زندگی عذاب ہی بنا دی۔
مگر اب میں دیکھتی ہوں کہ میرے جیتے جی اس کی شادی کیسے ہوتی ہے۔
میری زندگی اجیرن کی ہے ناں اب اس کی بھی ہوگی۔گھر کے تمام لوگ ثانیہ کو ہی قصور وار مانتے تھے اور اس کا قصور تھا بھی زارون اگر انا پرست تھا تو وہ اس سے دو ہاتھ آگے تھی۔
طلاق نام کا دھبا خود پر لگوانا شائد اس کے لئے کوئی بڑی بات نا ہو مگر گھر کے بڑوں کے لئے یہ لفظ بھی قیامت سے کم نا تھا۔
ان کے لئے یہ تکلیف کوئی کم نا تھی کہ ان کی بیٹی اپنی ضد اور انا کی خاطر طلاق لے کر گھر آبیٹھی ہے۔اور اپنے اس فعل پر ذرا بھی شرمندہ نہیں ہے۔
ان سب نے اس سے سخت ناراضگی کر لی۔
ثمرین بیگم تو اسے کوس کوس کر اپنا سر تھام کر بیٹھ گئی تھیں۔
پتا نہیں ہماری تربیت میں کہاں کمی رہ گئی تھی جو ہمیں اس کے جیسی اولاد ملی جسے اتنا بھی احساس نہیں کہ میرے اس فعل سے میرے ماں باپ کو کتنا دکھ کتنی تکلیف پہنچے گی۔
رمیز صاحب ثمرین سے یہ کہتے ہوئے انہیں لے کر کمرے میں چلے گئے۔
شہلا بیگم اور رفیق صاحب بھی ان کو تسلی دینے کے لئے ان کے پاس چلے گئے۔
۔******************
سجل ڈرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی کہ کہیں اسے دیکھتے ہی ثانیہ شروع نا ہو جاۓ اور ہوا بھی ایسا ہی۔
ثانیہ اسے دیکھتے ہی بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کے پاس آتی ہوئی چلائی۔
کیوں آئی ہو تم یہاں۔
سجل ایک دم گھبرا گئی۔
وہ میں اپنا سامان لینے آئی تھی کیوں کہ اب تو آپ ہی اس کمرے میں رہیں گی ناں۔
سجل کو کوئی اور بہانہ نا سوجھا تو ایسا بول دیا۔جبکہ وہ ثانیہ سے اس کا دکھ بانٹنے آئی تھی۔
حالانکہ سب اس کی اتنی بڑی غلطی کی وجہ سے اس سے بات تک کرنے کو تیار نا تھے مگر سجل پھر بھی چلی آئی۔
یہ کمرے دوبارہ میرا صرف تمہاری وجہ سے ہوا ہے صرف اور صرف تمہاری وجہ سے سمجھی تم۔
میری وجہ سے مگر میں نے کیا کیا ایسا۔
سجل کو سمجھ نا آئی کہ ثانیہ نے ایسا کیوں کہا۔کیوں کہ تم ہی وہ لڑکی ہو جس کی وجہ سے زارون نے مجھے ٹھکرا دیا تم ہی ہو فساد کی جڑ تم ہی ہو میری طلاق کی وجہ تم ہی ہو قصور وار۔
تم میری خوشیوں کو چاٹ گئی ہو تم نے کی میری زندگی عذاب۔
صرف تمہاری وجہ سے اس نے مجھے بیوی کا درجہ دینے سے انکار کر دیا۔
اگر آج میں یہاں طلاق لے کر بیٹھی ہوں تو اس کی وجہ صرف اور صرف تم ہو۔
نکل جاؤ میرے کمرے سے جاؤ اور جا کر خوشیاں مناؤ۔
جاؤ اپنے اس عاشق کے پاس جو شائد تمہارے ہی انتظار میں بیٹھا ہوا ہے اگر وہ تم پر مرتا ہے تو تمہیں بھی کوئی کم شوق نہیں اس کے آس پاس مٹکنے کا جاؤ ناں اب تو راستہ بھی صاف ہے۔
اب کھڑی کیوں ہو نکلو دفعہ ہو جاؤ میرے کمرے سے۔ثانیہ پاگلوں کی طرح چلائی۔
جبکہ سجل تو ایسے تھی کہ کاٹو تو بدن میں خون نہیں۔
وہ مرے مرے قدم اٹھاتی دیوار کا سہارا لیتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی۔
۔**********************
زارون سگریٹ جلائے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ لئے راکنگ چیر پر جھول رہا تھا۔
کتنی بے وقوف ہو تم ثانیہ میرا راستہ اتنی آسانی سے صاف کر دیا۔
خود ہی ہٹ گئی میرے راستے سے چلو کوئی ایک کام تو تم نے میری پسند کا کیا۔
تھینک یو سو مچ۔
زارون خود سے ہم کلام تھا جب دروازے پر آہٹ ہوئی۔آؤ سجل آؤ میری جان تمہارا ہی انتظار تھا۔
زارون جانتا تھا کہ ثانیہ اپنے پیٹ میں کوئی بات رکھنے نہیں والی اپنے اندر جلتی آگ کے گولے سجل پر ضرور برسائے گی۔
تمام قصور سجل پر تھوپ دے گی مگر اسے طلاق کی دوسری بڑی وجہ نہیں بتاۓ گی جس کی قصور وار صرف اور صرف وہ خود ہے۔
سجل چلتی ہوئی اس کے سامنے آئی اور اس کے ہاتھ سے سگریٹ لے کر اپنی ہتھیلی پر رکھ کر مٹھی بند کر لی۔
سجل یہ کیا کر رہی ہو۔زارون نے اس کی مٹھی کھولنے کی کوشش کی مگر وہ اس سے دور ہٹ گئی۔
میری وجہ سے کیا ناں آپ نے یہ سب مجھے پانے کے لئے دی ناں ثانی آپی کو طلاق مگر آپ یہ بھول جائیں زارون صاحب کہ میں آپکی کبھی بنو گی۔
مجھے پانے کے لئے کیا ناں یہ سب جب میں ہی نہیں رہوں گی تو مجھے اپنائے گے کیسے۔
سجل یہ کہتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگی تب ہی اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر آدھ کٹے سیب کی پلیٹ میں پڑی چھڑی پر پڑی۔
اس نے ایک سیکنڈ کی بھی دیر کے بغیر چھڑ ی اپنے ہاتھ میں لے لی اور اپنے بازو پر کٹ لگا لیا۔
کٹ زیادہ گہرا نہیں لگا تھا اس لئے سجل نے دوبارہ ایسا ہی کرنے کی کوشش کی۔
اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ چھڑی چلاتی زارون نے چھڑی اس کے ہاتھ سے لے کر زور سے زمین پر پھینکی۔
چھڑی پھسلتی ہوئی بیڈ کے نیچے چلی گئی۔
یہ کیا کر رہی ہو تم دماغ تو خراب نہیں ہوگیا تمہارا۔زارون نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔
ہاں ہوگیا ہے دماغ خراب ہوگئی ہوں میں پاگل۔
سجل نے دھکا دے کر اسے خود سے دور کیا۔
آپی ٹھیک کہہ رہی تھیں ایک نمبر کے گھٹیا انسان ہیں آپ پیار کسی اور سے شادی کسی اور سے اور کتنے دھوکے دیں گے آپ ہم سب کو۔
میں تم سے محبت کرتا ہوں سجل اور تم میری محبت کو میری ضد سمجھو یا جنون مگر میں تمہیں حاصل کر کے ہی دم لونگا۔
اب چاہے جو مرضی ہو جاۓ تمہیں مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا اور خاص طور پر وہ روحاب۔
کیا کریں گے آپ آخر کر کیا لیں گے کچھ نہیں کر سکتے آپ کیوں کہ میری شادی تو روحاب سے ہی ہوگی۔
سجل نے اسے چیلنج کیا۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اس نے ایسا کہہ کر بہت بڑی غلطی کر دی۔
مجھے چیلنج مت کرو سجل ورنہ ابھی تمہیں دکھا دوں گا کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔
آپکو جو کرنا ہے کریں میں آپ سے ڈرنے والی نہیں ہوں۔سجل غصے سے پھنکارتی ہوئی کمرے سے باہر نکلنے لگی۔
مگر اس کے نکلنے سے پہلے ہی زارون نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔
دروازہ کیوں بند کیا۔
ہیں دکھانے کے لئے کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔
سجل اس کا ارادہ جان کر گھبرا گئی۔
دروازہ کھولیں جانے دیں مجھے۔
بلکل بھی نہیں میری جان اب تو چیلنج کیا ہے تم نے مجھے بہت بڑی غلطی کر دی تم نے اب دیکھو تم۔زارون اپنی شرٹ کے بٹن کھولتا اس کی طرف بڑھا۔سجل شور مچانے لگی مگر اس کی چیخ و پکار کے باوجود بھی زارون کے چہرے پر کسی قسم کی گھبراہٹ نہیں تھی بلکہ شیطانی مسکراہٹ تھی۔
۔**********************
تین مہینے گزر چکے تھے سجل بہت بیمار پر گئی تھی کہ پیپرز بھی نا دے سکی۔
اس سے زیادہ موحد اور معارج کو اس کے پیپرز نا دینے کا دکھ تھا۔
ثانیہ نے تو خود کو ان سب سے کاٹ کر رکھ لیا تھا اس کی بلا سے کوئی جیتا یا مرتا اسے بھلا کیا پرواہ تھی۔
سجل کی آج طبیت کچھ زیادہ ہی خراب تھی۔
کھانے کی میز پر کھانے کی خوشبو سے اسے متلی سی آنے لگی۔اس نے ایک دم منہ پر ہاتھ رکھا اور سنک کی طرف بھاگ گئی۔
جب واپس آئی تو ثمرین اور شہلا اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
جبکہ سجل ان کے اس طرح دیکھنے سے اپنی ہی نظروں میں چور سی بن گئی۔
شہلا اور ثمرین اتنی نادان نہیں تھیں تجربہ کار تھیں۔سجل کی چال اسکی بیماری آئے روز چکر آنا اوپر سے اسکا ڈاکٹر کے پاس جانے سے انکار ان دونوں کے سامنے خطرے کی گھنٹی بجا گیا۔ابھی بھی سجل چکر آنے کی وجہ سے پاس کھڑے موحد کے ساتھ جا لگی ۔موحد نے اسے جلدی سے تھام لیا۔
۔******************
اب تمہیں میرا بننے سے کوئی نہیں روک سکتا سجل۔جب سب کو تمہاری پریگننسی کے بارے میں معلوم ہوگا تو تمہارے نا چاہنے کے باوجود بھی سب تمہیں میرے سپرد کر دیں گے۔
آخر کرنا ہی پرے گا کیوں کہ تمہیں میرے علاوہ اب اپناۓ گا ہی کون۔
روحاب تو تم سے نفرت کرنے لگے گا۔
بڑا کہتا تھا ناں کہ سجل کو مجھ پر بہت یقین ہے اب دیکھوں گا کہ اسے آخر سجل پر کتنا یقین ہے۔
ایک منٹ نہیں لگائے گا وہ تمہیں ٹھکرانے میں سجل۔سب تمہیں چھوڑ دیں گے تب کون اپناۓ گا تمہیں۔۔۔میں صرف اور صرف میں۔
مجھے معاف کر دینا سجل مجھے ایسا کرنا ہی پڑا کیوں کہ میرے پاس اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔
تمہارے چیلنج اور روحاب کی ضد نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کر دیا۔
مگر تم فکر مت کرنا کوئی ہو یا نا ہو میں ہمیشہ رہوں گا تمہارے ساتھ۔
زارون سجل کی تصویر سے بات کرتا خود کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
۔******************
سجل کو جب ہوش آیا تو کمرے میں سوائے ثانیہ کے اور کوئی موجود نا تھا۔
ثانیہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
اٹھ گئی تم پتا ہے کب سے تمہارے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہی تھی صرف میں ہی نہیں بلکہ پورے گھر والے۔
لیکن کیوں۔
سجل نے پوچھا۔یہ تو جب تم نیچے چلو گی تو تمہیں معلوم ہو ہی جاۓ گا۔
اب اٹھو بھی جلدی سے۔
سجل اٹھی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی کمرے سے باہر نکل گئی۔
ثانیہ بھی اس کے پیچھے ہی باہر نکل آئی۔
سب لاؤنج میں خاموش بیٹھے تھے۔ثمرین اسے دیکھتے ہی اس کی طرف چلی آئیں۔
قہر آلودہ نظروں سے سجل کو دیکھتے ہوئے انہوں نے زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی چلانا شروع کر دیے۔
ایک کے بعد ایک تھپڑ سجل خود کو سنبھال نا پائی اور زمین پر جا گری۔
ثمرین بھی اس کے پاس ہی زمین پر بیٹھ گئیں اور اسے دونوں ہاتھوں سے پیٹنا شروع کر دیا۔
بول کہاں منہ کالا کر کے آئی ہو کہاں نکال کر آئی ہو اپنے ماں باپ کی عزت کا جنازہ۔
کون ہے وہ بے غیرت جس کے ساتھ منہ کالا کر کے آئی ہو۔بے غیرت تمہیں ذرا بھی شرم نا آئی یہ سب کرتے ہوئے ہماری عزت کا ذرا بھی خیال نا آیا تمہیں اس وقت۔
بولو بولتی کیوں نہیں کس کا بچہ ہے یہ کون ہے وہ جواب کیوں نہیں دیتی بولو بھی۔
یہ بچہ کسی اور کا نہیں بلکہ میرا ہے۔
اس آواز پر سب نے نظریں گھما کر دروازے کے بیچ و بیچ کھڑے شخص کی طرف دیکھا۔
سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیوں کہ دروازے پر کوئی اور نہیں بلکہ روحاب تھا۔سب روحاب کو اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے پہلی دفعہ دیکھ رہے ہوں۔
روحاب تیز قدم اٹھاتا سجل کے پاس آیا۔
جھک کر دونوں کندھوں سے اسے تھام کر اپنے ساتھ کھڑا کیا اور بولا۔
بس کر دیں چھوٹی ماما اب ایک اور دفعہ بھی آپ سجل پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گیں۔
کیوں کہ اس میں سجل کا کوئی قصور نہیں ہے سجل نے قصور ہے جو کچھ بھی ہوا وہ میری غلطی تھی میں ہی اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا۔
میں جانتا ہوں کہ میں نے بہت بڑا گناہ کیا ہے مگر اس گناہ کی سزا سجل کو کیوں ملے اسے تو ویسے بھی میرے یہ سب کرنے کی وجہ سے سزا مل ہی رہی ہے۔اگر آپکو ہاتھ اٹھانا ہے تو مجھ پر اٹھائیں جان سے مارنا ہے تو مجھے ماریں مگر اب ایک اور خراش نہیں سجل کو مت آئے۔
دیکھیں اس کی طرف اور بتائیں کہ آپ سب میں سے کسی ایک کو بھی ایسا لگتا ہے کہ سجل کبھی ایسا کر سکتی ہے۔
آپکی تربیت اسکو یہ سب کرنے کی اجازت کبھی نہیں دیتی جو وہ اتنا بڑا قدم اٹھائے اس نے تو کبھی ایسا سوچا تک۔۔۔۔۔
ٹھاہ۔۔۔
روحاب کی بات منہ میں ہی رہ گئی جب بڑے پاپا نے ایک زوردار تھپڑ اسکے گال پر رسید کیا۔
اسکی تربیت اسے اس چیز کی اجازت کبھی نہیں دیتی یہ تو مان لیا مگر ہماری تربیت نے تمہیں اس چیز کی اجازت کب سے دے دی۔
وہ قصور وار نہیں ہے یہ بھی مان لیا مگر تم قصور وار کیوں ہو تم نے آخر ایسا کیوں کیا۔
آخر کیا بھر گیا تھا تمہارے دماغ میں تو ساری سدھ بدھ کھو بیٹھے تھے کہاں بیچ آئے تھے اپنی غیرت۔جواب دو مجھے آخر چپ کیوں ہو۔
شرم آ رہی ہے مجھے پولیس کی وردی میں کھڑے اپنے اس بیٹے پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے جس پر صرف مجھے بھی نہیں بلکہ سب کو ناز تھا۔
مگر تم نے تو اپنی وردی کی لاج بھی نا رکھی ذرا شرم نا آئی تمہیں۔
کیا قصور تھا اس معصوم بچی کا جو اس پر زندگی بھر کے لئے اتنا بڑا داغ لگا دیا۔
بڑے پاپا نے سجل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو حیرت اور بے یقینی کا پتلا نہیں بس روحاب کو ہی دیکھ جا رہی تھی کہ آخر کیا سوچ کر اس نے اتنا بڑا الزام خود پر لے لیا۔
بس یہی تو غلطی ہوگئی مجھ سے اور میں اس پر شرمندہ بھی ہوں پاپا۔
روحاب نے سر اور نظریں دونوں جھکا لیں۔مت کہو مجھے پاپا نہیں ہوں میں تمہارا باپ میرا بیٹا تم جیسا ہو ہی نہیں سکتا۔
اور تمہارے شرمندہ ہونے سے کیا ہوگا سب کچھ پہلے جیسا تو نہیں ہو جاۓ گا۔تم نے تو مجھے ثمرین اور رمیز کے سامنے نظریں اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔
تم میرے بیٹے تو بلکل نہیں ہو سکتے چلے جاؤ یہاں سے چلے جاؤ میری نظروں سے دور اس سے پہلے کہ مجھے کچھ ہو جاۓ۔
روحاب نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا سردی میں بھی انکا چہرہ پسینے سے نچر رہا تھا۔
روحاب کو انہیں اس حالت میں دیکھ کر دلی افسوس ہوا مگر ابھی وہ مزید کچھ بھی کہہ کر انہیں اور پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے سجل کا ہاتھ تھامتا ہوا اسے لئے سیڑھیاں چڑھ گیا۔
۔****************
آپ نے ایسا کیوں کیا روحاب آپ نے اتنا بڑا الزام اپنے سر کیوں لے لیا۔
جبکہ سراسر قصور میرا ہے ساری غلطی میری ہے۔قصور تو تمہارا بھی نہیں ہے سجل ہاں مگر غلطی ضرور تمہاری ہے جو تم نے زارون کے پاس جا کر کی ہے۔
منع کیا تھا ناں میں نے تمہیں پھر کیوں گئی اس درندے کے پاس۔
اس گھٹیا آدمی کو تو میرا دل کر رہا ہے اسی وقت شوٹ کر دوں۔
اور تم دیکھنا اب میں اس کا کیا حشر کروں گا میں بھی انسپیکٹر روحاب ہوں جب تک اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے تڑپا تڑپا کر نا مارا تب تک سکون سے نہیں بیٹھنے والا۔
مگر آپکو کیسے پتا روحاب کے اس سب کے قصور وار وہ ہیں۔
سجل کو ایک دم خیال آیا تو پوچھا۔
مجھے بھی اس حقیقت کا پتا آج ہی چلا اور بتانے والا کوئی اور نہیں بلکہ خود زارون ہے۔
مگر وہ آپکو کیوں بتائیں گے یہ سب۔
تم کچھ نہیں جانتی سجل۔
میں سب جانتی ہوں کہ وہ مجھ سے جھوٹی محبت کے دعویدار ہیں اور میری شادی آپ سے تو کیا کسی سے بھی نہیں ہونے دینا چاہتے۔
سجل نے اسے بتاتا مگر وہ یہ بات پہلے ہی جانتا تھا اس لئے بولا۔
وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ میں ایسا کبھی نہیں ہونے دونگا اس لئے اس نے یہ راستہ اختیار کیا۔
مگر وہ مجھے ابھی ٹھیک سے جان نہیں پایا کہ وہ چاہے کچھ بھی کر لے تمہیں مجھ سے چھین نہیں سکتا۔
روحاب کی اس بات پر سجل نے چونک کر اسے دیکھا۔پہلے تو تم صرف میری ضد تھی مگر اب میرا جنون ہو۔
وہ تمہیں جتنا بھی مجھ سے دور کرنے کی کوشش کرے گا میں اتنا ہی تمہارے پاس آؤں گا۔
سجل کو یقین نا آیا کہ روحاب کے لئے وہ اسکا جنون بن چکی ہے۔میں پہلے آپکی ضد تھی اور اب جنون مگر شائد محبت نہیں۔
سجل مایوسی سے بولی۔
روحاب اسکی بات پر مسکرا دیا اور بولا۔
ارے پاگل جنون ہی تو محبت کی انتہا ہے اور میرے لئے تو تم محبت سے بھی بڑھ کر ہو۔
اب چاہے کوئی کچھ بھی سوچے یا کچھ بھی سمجھے میں تمہیں اپنا کر ہی رہوں گا۔
روحاب نے سجل کی بڑی بڑی جھیل جیسی بہتی آنکھوں سے آنسو صاف کے اور انہیں چوم لیا۔
لیکن روحاب آپ مجھے اس بچے کے ساتھ اتنی آسانی سے اپنا لیں گے کیا۔
دیکھو سجل اس سب میں اس آنے والی ننھی سی جان جا کیا قصور بھلا جو میں تمہیں اپنانے سے انکار کر دوں اور نا ہی تمہارا کوئی قصور ہے۔
کوئی ہو یا نا ہو مگر میں ہوں تمہارے ساتھ سجل اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے۔
کوئی تمہارے بے قصور ہونے کے بعد بھی اگر تم پر ہاتھ اٹھاۓ اسکا سامنا میں خود ہی کر لوں گا۔
سجل تمہیں یاد ہے وہ رات جب بادل گرجنے کی وجہ سے تم میرے سینے سے آلگی تھی۔
اور کہہ رہی تھی کہ تمہیں بہت ڈر لگ رہا ہے تو میرا دل کیا کہ کہہ دوں کہ جب میں ہوں تمہارے پاس تو تمہیں ڈرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔
مگر اس وقت تمہارا یہ اکڑو خان اپنی اکڑ میں ہی رہا اور کچھ نا بولا۔
اور ہاں تمہارے وہ خوابوں کی تعبیر بتانے والے بابا جی بھی بلکل ٹھیک ہی کہہ رہے تھے۔
وہ جو تمہارے لئے بنا ہے جو تمہیں ہر خطرے اور مشکل سے نکالے گا وہ کوئی اور نہیں بلکہ میں ہی ہوں۔
تمہارا ہم سفر میرا مطلب ہے کہ ہونے والا ہم سفر۔ایک منٹ یہ سب آپکو کیسے پتا مطلب یہ بابا جی والی بات۔
سجل کو اچھے سے یاد تھا کہ یہ بات اس کے علاوہ صرف ابیہا اور معارج کو ہی معلوم تھی۔
مجھے معارج نے بتایا۔مگر مجھے معاف کرنا سجل میں تمہیں اس درندے سے نہیں بچا سکا۔
اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں کبھی بھی تمہیں اس کے پاس نا جانے دیتا۔
لیکن روحاب اب ہوگا کیا سب تو آپکو ہی قصور وار سمجھ رہے ہیں۔
سجل کو اس کی فکر ہوئی۔
تم میری فکر مت کرو سجل صرف چند دنوں کی بات ہے پھر سارا سچ کھل کر سب کے سامنے آجاۓ گا۔
اگر میں ابھی سب کو سچ بتا دیتا تو صرف تماشا لگتا اور سب زارون کے ساتھ تمہارا نکاح پڑھوا دیتے جو مجھے کسی صورت منظور نہیں۔
ایک دفعہ بس تمہیں اپنا بنا لوں اس کے بعد اس زارون کی خیر نہیں اسکا تو میں ایسا حال کروں گا کہ زندگی بھر نہیں بھولے گا۔
فلحال میرے لئے سب سے ضروری کام تمہیں قانونی طور پر اپنا بنانا ہے جو کہ میں جلد ہی کرنے والا ہوں۔
۔********************
اگلے دن بغیر کسی سجاوٹ اور شور شرابے کے خاموشی سے سجل اور روحاب کا نکاح پڑھوا دیا گیا۔سجل کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کا نکاح روحاب کے ساتھ ان حالات میں کروایا جاۓ گا۔
روحاب سے اسکی فیلنگز چھپی ہوئی نہیں تھیں اس لئے جب وہ دونوں کمرے میں آئے تو روحاب بولا۔
میں جانتا ہوں سجل کہ تم نے یہ سب اس طرح کبھی نہیں سوچا تھا مگر ایسا بلکل نہیں ہے کہ حالات ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے۔
ایک دفعہ سب ٹھیک ہو جاۓ پھر دیکھنا کیسے دھوم دھام سے شادی ہوتی ہے۔
میری بھی خواہش ہے کہ تمہیں دلہن کے سرخ جوڑے میں دیکھوں۔
تم دلہن بنی سجی سنوری میرے انتظار میں اس بیڈ پر بیٹھی ہو۔
اور ایسا ہوگا سجل ضرور ہوگا تب ہمارے ساتھ باقی سب بھی ہماری خوشیوں میں برابر شریک ہونگے۔
لیکن آج کی رات ایک خوبصورت سی غزل میری جان کے نام۔
روحاب مسکراتا ہوا غزل گنگنانے لگا۔
وہ جو دیپ آنکھوں میں جل رھے
انہیں عاشقی کا پیغام دو
مجھے اپنے لبوں پہ سنمبھال لو
اپنی ہر دعا کو میرا نام دو
میں چلوں تو ۔ تو میرے ساتھ ھو
مجھے تھامے جو وہ تیرا ہاتھ ھو
میری روح کو خود میں اتار لو
میری ہر نظر سے خمار لو
جو مجھے سمیٹے تیری بانہوں میں
میری بے خودی کو جام دو
میری چاہتوں کا بھرم رکھو
مجھے اپنی آنکھوں میں بند رکھو
بے چین رکھے جو مجھے رات بھر
میری خواہشوں کو وہ شام دو
۔******************
بڑے پاپا روحاب سے سخت ناراض تھے اور اسکا چہرہ تک دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔
شہلا بھی اس سے ناراض تھیں مگر پھر بھی ماں تھیں اس لئے اس سے کھانے کا پوچھتیں سارے دن کی روداد سننے لگ جاتیں تو روحاب اسی پر خوش ہو جاتا مگر بڑے پاپا اتنے پر بھی ان سے ناراض ہو جاتے۔ثمرین اور رمیز بھی پہلے کچھ دن  سجل سے ناراض رہے۔
مگر پھر یہ سوچتے ہوئے کہ ان کی بیٹی کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ الٹا اس کے ساتھ غلط ہوا ہے اگر ہم اس حال میں اسکا خیال نہیں کریں گے تو کون کرے گا سجل کو گلے سے لگا لیا۔
مجھے معاف کر دو میری بچی میں نے تم پر ہاتھ اٹھایا۔تم تو میری پھول سی بچی ہو جیسے میں نے آج تک جھڑکا نا تھا مگر اس غلط فہمی کا شکار ہو کر میں نے تم پر ہاتھ اٹھا ڈالا۔
مگر اب نہیں اب تو میں تمہارا دل و جان سے خیال رکھوں گی۔
سجل نے اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کے اور بولی۔
مجھے بلکل برا نہیں لگا اور نا ہی مجھے اسکا کوئی دکھ ہے کہ آپ نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا آپ نے جو بھی کیا بلکل ٹھیک کیا۔
آپ ماں ہے کیا آپ کا مجھ پر اتنا بھی حق نہیں کہ آپ مجھے ڈانٹ سکیں مار سکیں۔
اس وقت اگر آپ مجھے جان سے بھی مار دیتیں تو کچھ غلط نا تھا۔
اور میں جانتی ہوں کہ آپ مجھے ضرور معاف کر دیں گیں۔
معاف تو تمہیں تب کرتے بیٹا جب تمہارا کوئی قصور ہوتا تمہاری کوئی غلطی ہوتی مگر قصور تو سارا روحاب کا ہے خیر اب اس بات کو زیادہ نا ہی چھیڑا جاۓ تو ہی اچھا ہے کیوں کہ اب وہ اس گھر کا داماد ہے۔
اب کی بار رمیز صاحب سجل سے بولے۔
پاپا آپ نے مجھے معاف تو کر دیا ناں مجھ سے ناراض تو نہیں آپ۔
اچھے بچوں سے بھی بھلا کوئی ناراض ہوتا ہے۔رمیز صاحب یہ کہتے ہوئے مسکرا دیے تو سجل بھی مسکرا دی۔
۔*******************
موحد معارج اور انعم سجل کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو کچھ ہوا اسکا انہیں بھی بہت دکھ تھا۔
سجل بے قصور تھی تو اس لئے وہ تینوں بھی اس سے کوئی غلط رویہ نہیں رکھنا چاہتے تھے۔
مگر روحاب سے وہ تینوں کھینچے کھینچے سے تھے۔سجل آج تو میرے پاس تم سے کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے ورنہ میں نے تو سوچ رکھا تھا کہ جب تم میری بھابھی بن جاؤ گی تو میں تمہیں تنگ کرنا اور بھی ڈبل کر دوں گا تب تم جا کر روحاب بھائی سے شکایت لگایا کرو گی کہ یہ دیکھیں روحاب آپکا بھائی ہر وقت مجھے تنگ کرتا رہتا ہے۔
اور پھر میں تمہاری نکل اتار کر تمہیں چھیڑا کروں گا۔
موحد نے کہا۔
اور میں نے سوچ رکھا تھا کہ جب تم روحاب بھائی کے ساتھ شوپنگ پر جایا کرو گی تو میں بھی تمہارے ساتھ چل پڑوں گی اور تم مروت کے مارے مجھے منع بھی نہیں کر سکو گی اور نا بھائی کو کرنے دو گی اور تمہاری کی گئی شوپنگ میں سے  اپنی پسند کی چیزوں پر حملہ کر کے انہیں بھی اپنے قبضے میں لے لوں گی۔
اب کی بار معارج بولی۔میں نے بھی تو کچھ سوچا ہوگا اب مجھ سے بھی تو پوچھ لیں۔
انعم نے ان تینوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔میں نے سوچا تھا کہ رات گئے تک آپکے کمرے میں بیٹھ کر بکس پڑھا کروں گی۔
جبکہ روحاب بھائی انتظار میں ہی ہونگے کہ کب میں اٹھوں اور کب وہ اپنی بیٹھیں۔
شرارتی موحد شوپنگ کی شوقین معارج اور پڑھاکو انعم نے اپنے اپنے مطلب کی ہی سوچ بتائی۔
انعم کی بات پر معارج اور موحد ہنس پرے اور بولے۔ویسے ہم دونوں سے زبردست سوچ تو تمہاری ہے۔
یعنی روحاب بھائی کو تب جب وہ اپنی بیگم کے پاس جانے کو بے چین ہوں انہیں انتظار کروانا۔
ویسے تم لوگ ایسا اب بھی تو کر سکتے ہو اپنی اپنی سوچوں پر اب بھی تو عمل کر سکتے ہو۔
سجل ان تینوں سے بولی۔
آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں آپی مگر جو کچھ بھی ہوا اس کی وجہ سے سب ان سے ناراض ہیں اور شائد ہم تینوں بھی۔
اور ماما کہہ رہی تھیں کہ آپ ہی ہیں جنہوں نے اتنا بڑا دل کر کے انھیں معاف بھی کر دیا۔
ورنہ سب سے غلط تو آپ کے ساتھ ہی ہوا ہے۔
میں انہیں معاف کیوں نا کرتی انعم اب تو وہ میرے شوہر ہیں جو کچھ بھی ہوا ان سے انجانے میں ہوا ورنہ جانتے تو تم سب بھی ہو کہ وہ کیسے ہیں۔
سجل نے ان سب سے کہا مگر حقیقت وہ سب کہاں جانتے تھے کہ اگر روحاب نے کچھ کیا ہوتا تو سجل اس سے ناراض ہوتی ناں مگر جب روحاب نے کچھ کیا ہی نہیں تو وہ دکھاوے کی ناراضگی بھی اس سے کیوں رکھتی۔
۔*******************
بس کل کا دن باقی ہے سجل پھر دیکھنا تمہارا گناہ گار کیسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا۔
روحاب نے سجل کے گرد بازو حائل کئے اور اس کے کندھے پر تھوری ٹکا دی۔
سجل کچھ نا بولی بس
"ہوں"
کہہ کر چپ ہی رہی۔
اس دن کے بعد سے ہوگی تمہاری اور میری یعنی ہماری زندگی کی ہیپی سٹارٹنگ۔
روحاب نے اسکی گال کو چھوا تو وہ جبراً مسکرا دی۔کیوں کہ اس وقت جو وہ سوچ رہی تھی اگر روحاب کو معلوم ہو جاتا تو وہ یقیناً اس سے سخت ناراض ہو جاتا۔
ثانیہ دروازے پر کھڑی ان کی تمام باتیں سنتی کچھ سوچ رہی تھی۔
میری زندگی میں زہر گھولنے والے زارون کے علاوہ تم دونوں بھی ہو اور تم دونوں اپنی زندگی کی ہیپی سٹارٹنگ کرو ایسا میرے جیتے جی تو ممکن نہیں۔
تیار ہو جاؤ تم دونوں آج سے اپنی ایک کے بعد ایک خوشی کو دکھ میں بدلتا دیکھنے کے لئے۔
اگر میں خوش نہیں تو تم لوگ بھی نہیں.. اگر کوئی خوشی میرے لئے نہیں تو اسے میں تم دونوں تک بھی نہیں پہنچنے دوں گی۔
اگر تم لوگوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا ہے تو میں بھی تم لوگوں کا حال برا کر کے ہی چھوڑوں گی۔تم لوگوں کو ایسے مطمئن تو میں کبھی نہیں دیکھ سکتی۔
تم لوگوں کی پرسکون زندگی میں زہر نا گھول دیا تو میرا نام بھی ثانیہ نہیں۔
ثانیہ ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ لئے وہاں سے ہٹ گئی۔
*****************
جاری ہے




CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING




Comments