❤اگر تم ساتھ ہو❤
از "ایشاءگل"
پارٹ 5
سجل نے کھیر کی پلیٹ روحاب کے سامنے رکھی اور اس کے پاس
ہی کھڑی ہو گئی۔
کھڑی کیوں ہو سر پر کیا اب میرے نوالے گنو گی۔
"جی"
سجل نے آرام سے جواب دیا۔
کیا کہا۔
روحاب نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
میرا مطلب تھا نہیں۔۔۔بلکل بھی نہیں۔۔۔
آپ کھیر کھائیں ناں خاص طور پر آپکے لئے اپنے ہاتھوں سے
بنائی ہے۔
روحاب نے کھیر کا پہلا چمچ لیا اور پھر سجل کی طرف دیکھا
جو مسکراتا ہوا چہرہ لئے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
روحاب دوبارہ سر جھکا کر چپ چاپ کھیر کھانے لگا۔ایک پلیٹ
ختم کرنے کے بعد اس نے باؤل میں سے باقی کی کھیر بھی لے لی۔
جبکہ سجل خوش ہوتی ہوئی سوچنے لگی لگتا ہے انکو کھیر کچھ
زیادہ ہی پسند آگئی ہے۔
روحاب کھیر کھانے کے بعد بغیر کچھ کہے چلا گیا۔ارے دیکھو
تو کتنے مزے سے کھیر کھا کر چپ چاپ چلے گئے۔
جب کھیر اتنی ہی پسند آئی ہے تو بندہ کوئی کومپلیمنٹ ہی
پاس کر دیتا ہے۔
مگر نہیں یہ کیوں کریں گے تعریف کرنے سے انکی شان میں فرق
جو پڑ جاۓ
گا۔
تعریفیں کروانے کے لئے تو بس ایک یہی بنے ہیں اور کسی کا
تو دل ہی نہیں چاہتا اپنی تعریف سننے کو۔ابھی بھی ویسے ہی اکڑو خان ہیں اور شائد ہمیشہ
ہی ایسے رہیں گے۔
سجل کھیر کے برتن اٹھا کر شیلف پڑ پٹک رہی تھی وہ اپنی تعریف
نا ہونے کا غصہ ان پڑ نکال رہی تھی۔سجل نے فریج میں سے کھیر کا چھوٹا باؤل نکالا اور
کھانے لگی۔
پہلا چمچ لیتے ہی اس کے منہ میں کرواہٹ گھل گئی۔ارے یہ کیا۔اس
نے جلدی سے کلی کی۔
میں نے تو اس میں ذرا بھی نمک نہیں ڈالا پھر یہ کڑوا زہر
کیسے بن گئی۔
او میرے خدایا۔سجل کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔اب سمجھ آئی
روحاب ساری کی ساری کھیر کیوں کھا گئے۔
میں بھی کتنی پاگل ہوں ناں اپنی تعریف نا ہونے پڑ مری جا
رہی تھی مگر اتنا بھی معلوم نہیں کہ اس پڑ تعریف نہیں بلکہ اچھی خاصی ڈانٹ بنتی تھی۔
مگر انہوں نے تو مجھے کچھ بھی نہیں کہا اسکا مطلب تو یہ
ہوا کہ وہ مجھے ڈانٹ کراداس نہیں کرنا چاہتے تھے۔
مگر سمجھ نہیں آ رہا کہ اس میں نمک آیا کیسے مجھے تو اچھے
سے یاد ہے کہ میں نے اس میں چینی ہی ڈالی تھی۔
اف کیا مصیبت ہے کچھ پتا نہیں چل رہا۔سجل اپنے اندازے لگا
لگا کر تھک چکی تھی اس لئے کھیر سنک میں الٹ کرتا کہ کوئی کھا نا لے کچن کی لائٹ بند
کرتی ہوئی اپنے کمرے میں آگئی۔
**********************
اف ایک تو اس بیلنس کو بھی ابھی ختم ہونا تھا۔انعم تمہارا
موبائل کہاں ہے۔معارج نے انعم سے اسکا موبائل مانگا۔
وہاں سائیڈ ٹیبل پڑ ہوگا۔
انعم کے کہنے پڑ معارج نے سائیڈ ٹیبل پڑ پڑا اسکا موبائل
لے لیا اور جلدی سے کسی کا نمبر ڈائل کیا۔ہیلو۔۔۔
ہاں ہاں بس میں آرہی ہوں دس منٹ میں پہنچ جاؤں گی اچھا اچھا
ٹھیک ہے ابھی فون رکھتی ہوں۔
معارج آپی آپ کہیں جا رہی ہیں کیا۔
انعم نے اس کے کپڑے دیکھے اور اسے اتنا تیار دیکھا تو پوچھنے
لگی۔
ٹائٹ جینز اوپر شارٹ شرٹ اور گلے میں بس نام کا دوپٹہ لئے
وہ تیار کھڑی تھی۔
ہاں ایک دوست کی سالگرہ ہے ہم سب دوستوں کو انوائٹ کیا ہے۔
کون سی دوست کی سالگرہ ہے۔
بس ہے ایک دوست ابھی مجھے دیر ہو رہی ہے اس لئے چلتی ہوں
بائے۔
معارج واقعی میں جلدی میں تھی اس لئے کمرے سے نکل گئی۔
******************
انعم معارج کہاں ہے نظر نہیں آرہی۔
سجل نے کمرے میں آتے ہوئے پوچھا۔
آپی وہ تو اپنی کسی دوست کی سالگرہ پڑ گئی ہیں کہہ رہی تھیں
کہ دیر ہو رہی ہے اس لئے جلدی میں چلی گئیں۔
کون سی دوست بتایا نہیں اس نے۔
ہاں پوچھا تھا میں نے مگر انہوں نے کہا کہ ہے ایک دوست نام
نہیں بتایا جلدی میں تھیں ہوگی کوئی نئی دوست انکی میرے موبائل سے فون کر رہی تھیں
اسے انکے اپنے موبائل میں بیلنس نہیں تھا تو وہ گھر ہی چھوڑ گئی ہیں۔
انعم سجل کو بتا کر اپنے کپڑے اٹھاۓ
نہانے کے لئے واش روم چلی گئی۔
سجل نے انعم کا موبائل پکڑا اور اس آخری نمبر پڑ کال کرنے
لگی۔
معارج جلدی میں نمبر ڈیلیٹ کرنا شائد بھول گئی تھی۔
کال فوراً پک کر لی گئی۔دوسری طرف کوئی لڑکا تھا۔دس منٹ
کا کہہ رہی تھی تم اور ابھی تک پہنچی نہیں جان اب اتنا انتظار بھی مت کرواؤ اب آبھی
جاؤ ناں۔
سجل نے جلدی سے کال ڈسکنکٹ کر دی اور وہ نمبر اپنے موبائل
پڑ سینڈ کر کے انعم کے موبائل سے ڈیلیٹ کر دیا اور پھر اپنے کمرے میں آگئی۔
یہ موبائل اسے موحد نے گفٹ کیا تھا سجل کے ساتھ پیش آنے
والے واقعے کے بعد اسکا موبائل بھی وہیں بس اسٹینڈ پر رہ گیا تھا۔
مگر موحد نے اسے بلکل ویسا ہی موبائل گفٹ کر دیا۔کیا کروں
میں اس معارج کو سمجھایا بھی تھا میں نے پتا نہیں اب تک پہنچ بھی گئی ہوگی خدا کرے
نا ہی پہنچی ہو۔
کیا کروں روحاب کو بتاؤں یا نا بتاؤں اب تو لگتا ہے بتانا
ہی پڑے گا۔
سجل نے روحاب کو فون ملایا مگر اس نے رسیو نا کیا۔اپنی ناراضگی
کے چکر میں یہ فون ہی نہیں اٹھا رہے اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگلے بندے کو کوئی ضروری
کام بھی تو ہو سکتا ہے۔
سجل نے اسے میسج کیا پلیز کال رسیو کریں بہت ضروری بات بتانی
ہے آپکو۔
اور پھر دوبارہ اسے کال کرنے لگی۔
پہلی ہی بیل پڑ کال رسیو کر لی گئی۔کیا مصبت آن پڑی ہے اب
کیوں ڈسٹرب کر رہی ہو مجھے۔روحاب فون اٹھاتے ہی بول پڑا۔
روحاب مجھے آپکو کچھ بتانا ہے۔
اور پھر سجل نے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر روحاب کو ساری
صورت حال سے آگاہ کیا۔
تم نے مجھے یہ سب پہلے کیوں نہیں بتایا اب عین وقت پڑ کیوں
بتا رہی ہو تمہیں اب میں کیا کہوں کم عقل بیوی۔۔۔جلدی سے وہ نمبر سینڈ کرو مجھے۔
جی کرتی ہوں۔
سجل نے فون بند کرنے کے بعد وہ نمبر روحاب کو سینڈ کر دیا۔
*********************
حولدار جلدی سے یہ نمبر ٹریس کرواؤ میرے پاس زیادہ وقت نہیں
ہے۔
جی انسپکٹر روحاب میں ابھی آتا ہوں۔
حولدار جلدی سے وہاں سے غائب ہوگیا اور پھر دو منٹ بعد ظاہر
بھی ہوگیا۔
انسپکٹر اس نمبر کو استعمال کرنے والا زیادہ دور نہیں ہے
یہیں پرانی مندی کے پاس موجود ہے۔
روحاب اسی حولدار کو ساتھ لئے جیپ میں جا کر بیٹھ گیا۔
*****************
یہ تم کیا کر رہے ہو ساحر تم نے تو کہا تھا کہ تم نے مجھے
بس ایک دفعہ دیکھنے کے لئے بلایا ہے اور وعدہ بھی کیا تھا کہ تم مجھے چھوؤ گے نہیں۔
کیسا وعدہ ایسے وعدے تو میں ہر روز ہر کسی سے کرتا ہوں۔
یہ وعدہ تو تمہاری نظر میں ہے ناں مگر میری نظر میں میں
جو نا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں وہ تو میں ضرور کرتا ہوں۔ساحر نے ہنستے ہوئے اسے خود سے
قریب کر لیا۔
یہاں میرے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے اس لئے بہتری
اسی میں ہے کہ شور مچا کر مجھے غصہ مت دلانا۔
کتنے جھوٹے ہو تم ساحر تم نے جھوٹ بول کر پھسایا ہے مجھے۔مجھے
تمہاری بات ماننی ہی نہیں چاہیے تھی۔معارج اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
وہ لڑکی ہی کیا جو مجھ سے نا پٹے۔لڑکیوں کو پٹانا تو میرے
بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یونیورسٹی میں تو ہر
وقت تمہاری وہ چپکو کزن تمہارے ساتھ ہوتی تھی اور ہاں وہ تمہارا بھائی بھی مگر اب تو
نا بھائی ہے نا ہی کزن یہی تو اصل موقع ہے۔
گھٹیا انسان چھوڑو مجھے.
نہیں چھوڑوں
گا کیا کر لو گی۔ساحر نے اپنے پیلے دانت دکھاۓ۔
معارج نے اس کے ہاتھ پڑ اپنے دانت گاڑھ دیے۔
جاہل لڑکی یہ کیا کر رہی ہو زیادہ چلاکی مت دکھاؤ۔ساحر نے
اسے کندھوں سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگایا اور پھر ساتھ ہی اس کے اوپر جھکا مگر تک
ہی دروازہ توڑ کر وہ اندرداخل ہوا یعنی روحاب۔
روحاب غصے سے قدم اٹھاتا اسکی طرف آیا اور پھر اسے گریبان
سے پکڑ کرمارنا شروع کر دیا۔
مکے لاتیں گھونسے مار مار کر اسے پڑےگرایا۔
ساحر کو سمجھ نا آئی کہ یہ اچانک ہوا کیا۔
حولدار پکڑو اسے اور لے جا کر جیل میں اس کی اچھی دھلائی
کرو ایک پل کے لئے بھی ہاتھ پیچھے مت ہٹانا۔
حولدار اسے گاڑی میں لے گیا جبکہ روحاب اب غصے سے معارج
کی طرف دیکھتا اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے تقریباً گھسیٹتا ہوا گھر لے آیا۔
*******************
روحاب نے اسے دھکا دے کر بیڈ پر گرایا اور بولا۔
آج کے بعد اگر گھر سے باہر قدم بھی نکالا تو ٹانگیں توڑ
دوں گا تمہاری آئی سمجھ۔
روحاب اسے غصہ دکھا کر واپس پولیس اسٹیشن چلا گیا۔
سجل نے آگے بڑھ کر روتی ہوئی معارج کو گلے لگا لیا اور چپ
کروانے لگی۔
جبکہ انعم پاس کھڑی ساری صورت حال سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔
وہ اتنی سمجھدار تو تھی ہی کہ روتی ہوئی معارج اور پولیس
اسٹیشن سے روحاب بھائی کے چلے آنے اور اسے اس طرح گھسیٹتے ہوئے ساتھ لانے کی ایک ہی
وجہ ہو سکتی ہے اور پھر اوپر سے گھر سے باہر نا نکلنے کی پابندی بھی۔
انعم سردآہ بھرتی ہوئی ان دونوں کے پاس ہی بیٹھ گئی۔
**********************
یہ بات گھر میں ان چاروں کے علاوہ کسی کو معلوم نا تھی اور
معارج شکر ادا کر رہی تھی کہ روحاب نے یہ بات گھر کے بڑوں کو نہیں بتائی تھی۔
سجل جو روحاب کی ناراضگی دور کرنے کے چکر میں اتنا کچھ کر
چکی تھی معارج والی بات اس سے چھپانے پڑ روحاب اس سے اور بھی ناراض ہوگیا تھا۔پہلے
تو وہ اسے ڈانٹ لیتا تھا اس پڑ غصہ کر لیتا تھا مگر اب تو اس سے بات تک نہیں کر رہا
تھا۔
سجل روحاب کی شرٹ پریس کر رہی تھی شرٹ پریس کرنے کے بعد
وہ ساتھ والے کمرے میں آگئی۔موحد اور انعم بیٹھے کسی ٹوپک پڑ بحث کر رہے تھے۔جبکہ معارج
خاموش بیٹھی سن رہی تھی۔
تم دونوں کس بحث میں پڑ گئے۔
ہم دونوں یہ بحث کر رہے ہیں کہ مرغی پہلے آئی یا انڈا۔موحد
نے الٹا ہی جواب دیا۔
آپی فضول بات کر رہے ہیں یہ ہم تو اس بات پڑ بحث کر رہے
تھے کہ۔۔۔۔۔
کہ عقل بڑی یا بھینس۔۔۔موحد انعم کی بات کاٹ کر پھر الٹا
ہی بولا۔
چلو سجل تم ہی بتاؤ عقل بڑی یا بھینس۔
ظاہر ہے عقل۔سجل نے فوراً ہی جواب دیا۔
پہلے ایک دفعہ تم اپنی عقل اور بھینس کا موازنہ کر کے دیکھو
پھر مانو گا۔موحد کی اس بات پڑ انعم اور چپ بیٹھی معارج کو بھی ہنسی آگئی۔
موحد بدتمیز چھوٹی عقل ہوگی تمہاری۔سجل اس کی بات کا مطلب
سمجھتے ہوئے بولی۔
سجل کہاں چلی گئی ہو فوراً کمرے میں آؤ۔ساتھ والے کمرے سے
سجل کو روحاب کی روبدار آواز سنائی دی۔
لو جی آگئی بیچاری سجل کی شامت۔
موحد نے پہلے ہی سب کو بتا دیا کہ اسے یقیناً روحاب سے اچھی
خاصی سننے کو ملنے والی ہیں۔
سجل تو روحاب کی آواز پڑ ہی بھاگ گئی تھی۔
**********************
جی آپ نے بلایا۔سجل کمرے میں آتی ہوئی فرمابرداری سے بولی۔
یہ کیا ہے۔روحاب نے شرٹ اس کے سامنے لہرائی۔
یہ شرٹ ہے۔سجل نے معصومیت سے جواب دیا۔
وہ تو مجھے بھی دکھائی دے رہا ہے کہ یہ شرٹ ہے اندھا نہیں
ہوں میں مگر ذرا غور سے دیکھو یہ کیا ہے۔اب کی بار روحاب نے اس کے سامنے شرٹ کا جلا
ہوا بازو لہرایا۔
ہائے ربا یہ کیسے جل گئی۔
وہی تو میں بھی تم سے پوچھ رہا ہوں کہ یہ کیسے جل گئی۔
مم۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔میں نے اسے نہیں جلایا۔۔۔سجل ہکلاتی ہوئی بولی۔
اچھا ذرا یہ بتاؤ کہ یہ شرٹ پریس کس نے کی۔ظاہر ہے تمہارےعلاوہ
کون کر سکتا ہے۔روحاب نے خود ہی سوال پوچھ کر خود ہی جواب بھی دے دیا۔
مگر اسے میں نے نہیں جلایا میں نے تو اسے بہت آرام سے بہت
محبت سے پریس کیا تھا سچ میں۔۔۔
اور ہاں اس دن آپ نے میری خاطر چپ چاپ وہ نمک والی کھیربھی
کھا لی مگر میں سچ کہہ رہی ہوں روحاب میں نے اس میں ایک چٹکی بھی نمک نہیں ملایا تھا
پتا نہیں وہ کیسے آگیا اس میں۔میں تو آپ کا ہر کام بہت دھیان سے کرتی ہوں مگر پتا نہیں
وہ ہر بار خراب کیسے ہو جاتا ہے اور اب یہ شرٹ بھی۔۔۔۔۔سجل کی آنکھوں سے ننھے منے آنسوؤں
کے قطرے بہہ نکلے۔
وہ بات ادھوری چھوڑے رونے لگی۔
سجل جتنا بھی روحاب کا کام دھیان سے کرتی اسے خوبصورت بنانے
کی کوشش کرتی وہ اتنا ہی خراب ہوتا چلا جاتا اور پھر سجل کو روحاب سے اچھی خاصی ڈانٹ
پڑتی۔
روحاب نے اس کے روانی سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھا اور
شرٹ پڑے پھینکتا ہوا اس کے پاس آیا۔
سجل سویٹ ہارٹ میں جانتا ہوں کہ تم میرا کام کتنے دھیان
اور کتنی محبت سے کرتی ہو۔مگر کیا کروں اتنی بری عادت جو پڑ گئی ہے تم پڑ روب جھاڑنے
کی چھوٹتی ہی نہیں حلانکہ کتنی ہی کوشش کرتا ہوں۔
یہ روب جھاڑنے والی عادت کو چھوڑیں وہ تو مجھے بھی ہوگئی
ہے آپکی ڈانٹ سننے کی۔
مگر وہ جو آپ مجھ سے ناراض ہیں اسکا کیا۔سجل سو سو کرتی
ہوئی بولی۔
کون پاگل ناراض ہے تم سے وہ تو میں ایسے ہی تنگ کر رہا تھا
تمہیں۔
کیوں کہ جب تم مجھے مناتی ہو مجھے منانے کے لئے اتنا کچھ
کرتی ہو تو مجھے اچھا ہی اتنا لگتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ بس روٹھا ہی رہوں تم سے۔مگر
آج تو میری ڈانٹ نے تمہیں رلا ہی دیا۔
ادھر دیکھو سجل میری طرف۔
روحاب نے ایک ہاتھ اس کے کندھے اور دوسرا اس کی تھوری پڑ
رکھتے ہوئے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا۔تمہارا کوئی بھی کام غلط بلکل نہیں ہے اور نا ہی
خراب انفیکٹ تم تو بہت سمجھدار ہوگئی ہو۔
تھوڑی بہت شرارتیں ابھی بھی ہیں تم میں مگر اچھی لگتی ہو
ایسے مجھے۔
میرا ارادہ تمہیں رلانے کا بلکل بھی نہیں تھا اس لئے اب
مسکرا دو جلدی سے کیوں کہ آج میں اپنی پیاری سی وائف کو ڈنر پڑ لے کر جانے والا ہوں۔
سچ میں روحاب۔سجل کو یقین نا آیا کہ اکڑو خان آج اسے ڈنر
پڑ لے کر جانے والا ہے۔
ہاں بلکل سچ اور اس کے بعد میں تمہیں تمہاری پسند کی شاپنگ
بھی کرواؤں گا۔
آپ کتنے اچھے ہیں نا روحاب۔سجل خوشی سے چہکتی ہوئی روحاب
کے سینے سے لگ گئی۔
"you
know sajal you are the queen of my heart"
میں جانتی
ہوں مسٹر اکڑو خان۔
سجل کے اکڑو خان کہنے پڑ روحاب زور سے ہنسنے لگا۔روحاب کے
سینے سے لگی سجل بھی ہنس پڑی۔
**********************
سجل شیشے کے سامنے کھڑی اپنے بال بنا رہی تھی جب روحاب کی
نظر اس کے بازو پر پڑی۔
سجل یہ کیسا نشان ہے تمہارے بازو پر۔
کون سا نشان۔۔۔؟؟سجل کا پورا دھیان بال بنانے پر تھا۔
یہی جو تمہارے بازو پر ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی کٹ کا
نشان ہے۔
روحاب نے اپنا اندازہ لگایا تو سجل نے فوراً اپنا بازو نیچے
کر =لیا۔
وہ نشان واقعی میں کٹ کا تھا۔وہی کٹ جو سجل نے زارون کو
خود کو ختم کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے اپنے بازو پر لگایا تھا۔
ارے ہاں یہ اب کا تھوڑی نا ہے پہلے کا ہے۔
اس بدتمیز موحد کے پیچھے بھاگ رہی تھی ناں تو اسی چکر میں
پتا ہی نہیں چلا ٹھوکر کھا کر زمین پر گر گئی اور زمین پر پڑے کانچ کے ٹکڑے پر میرا
بازو آگیا تو یہ کٹ لگ گیا۔
صرف اور صرف اس موحد کو پکڑنے کے چکر میں۔سجل نے کیا خوب
بات بنائی۔
ورنہ اگر روحاب کو سچ بتا دیتی کہ وہ خود کو جان سے مارنے
کے چکروں میں یہ کٹ لگا بیٹھی تھی تو روحاب کھڑے کھڑے اس کو خوب سنا دیتا۔
اور وہ روحاب سے ڈانٹ سننے یا اسے دوبارہ سے ناراض کرنے
کے موڈ میں بلکل بھی نہیں تھی۔
اچھا چلو چھوڑو یہ بال وال بنانا۔جان کچھ دیر اب میرے پاس
آکر بھی بیٹھ جاؤ ویسے بھی اب تو سونے کا وقت ہوگیا ہے۔اس لئے اب آبھی جاؤ یار۔
جی بس آگئی۔
سجل بالوں کو فولڈ کر کے انہیں کیچر لگا کر بیڈ پر بیٹھے
روحاب کے پاس آگئی۔
روحاب نے مسکراتے ہوئے اپنا بازو اس کی طرف کیا تو سجل نے
بھی مسکراتے ہوئے اس کے بازو پر اپنا سر ٹکا دیا۔
روحاب نے سائیڈ لیمپ بند کیا اور آنکھیں موند گیا۔
روحاب رات کو بڑے پاپا کے ساتھ کسی کام کے لئے چلا گیا تھا۔
اس لئے سجل کو لے کر ڈنر پر نا جا سکتا۔جب واپس آیا تب رات
کے گیارہ بج رہے تھے اس نے سجل سے کہا کہ چلو ڈنر نا سہی مگر شوپنگ کے لئے تمہیں لے
جاتا ہوں مگر سجل نے منع کر دیا اور بولی۔
روحاب کوئی بات نہیں ہم کل چلے جائیں گے۔
****************
سجل تم کہاں جا رہی ہو۔
ثانیہ نے سجل اور روحاب کو ایک ساتھ باہر جاتے دیکھا تو
پوچھنے لگی۔
ثانی آپی میں روحاب کے ساتھ ڈنر پڑ جا رہی ہوں اور پتا ہے
پھر ڈنر کے بعد یہ مجھے شاپنگ بھی کروانے والے ہیں۔
سجل ہونٹوں پڑ مسکراہٹ سجاۓ
اسے بتانے لگی جبکہ ثانیہ کو اس وقت سجل کی مسکراہٹ زہر لگ رہی تھی۔
سنو سجل میرا بھی بہت دل چاہ رہا ہے باہر جانے کو پتا نہیں
کیوں گھر میں رہ رہ کر میرا تو دم ہی گھٹنے لگا ہے۔دل چاہ رہا ہے کچھ دیر کھلی فضا
میں سانس لینے کو۔ثانیہ نے ایسا منہ بنا کر کہا جیسے واقعی میں ابھی اسکا سانس بند
ہو جاۓ
گا۔
سجل کی مسکراہٹ ایک دم غائب ہوگئی۔
کچھ دیر تو وہ کچھ بھی نا بولی مگر پھر دوبارہ مسکرا دی۔
کیوں نہیں آپی آپ بھی چل سکتی ہیں ہمارے ساتھ۔میں سمجھ سکتی
ہوں کہ آپ کتنا بور ہو جاتی ہونگی گھر میں رہ رہ کر۔
سجل نےاسے اپنے ساتھ آنے کی اجازت دی تو ثانیہ کے ہونٹوں
پڑ فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی مگر یہ مسکراہٹ صرف چند پل کی تھی۔
سجل کو بیوقوف بنانا آسان تھا مگر روحاب کو نہیں۔سجل چپ
ہوئی تو روحاب بول پڑا۔
مس ثانیہ آپکو شائد اتنی بھی سینس نہیں ہے کہ اگر ہسبنڈ
اینڈ وائف باہراکیلے جانا چاہتے ہوں تو کسی تیسرے کو ان کے ساتھ چل کر ان کی پرائیویسی
میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیے۔
اور رہی بات کھلی فضا میں سانس لینے کی تو گھر کا لان اور
چھت کس لئے ہیں وہاں جائیں اور جی بھر کا سانس لیں اوکے۔
چلو سجل ہم تو چلتے ہیں۔
روحاب ثانیہ کو مسلے کا حل بتا کر سجل کا ہاتھ تھامتے ہوئے
آگے بڑھ گیا۔
جبکہ سجل چل تو آگے رہی تھی مگر چہرہ اسکا پیچھے تھا۔
وہ ثانیہ کو دیکھ رہی تھی جو کہ روحاب کی پشت کو آگ بگولا
نظروں سے گھور رہی تھی۔
ہونہہ بڑا پیار دکھا رہے ہو ناں سجل کے لئے تمہارا پیار
سراسر جھوٹا ہے یہ تو میں کچھ ہی دنوں میں ثابت کردوں گی سجل پڑ۔
پھر دیتے رہنا اپنے جھوٹے پیار کی صفائیاں کیوں کہ سجل تو
صرف وہی سنے گی جو میں کہوں گی۔
ثانیہ اپنے دل کو اس پلان کے ذریعے تسکین پہنچاتی اپنے کمرے
کی طرف بڑھ گئی ایک وہی تو اس کا ٹھکانہ تھا جہاں سارا دن پڑے وہ تمام رشتوں میں دراڑیں
پیدا کرنے کے پلان ترتیب دیتی رہتی تھی اور اسکا سب سے بڑا ٹارگٹ سجل تھی۔
سجل کو روحاب سے دور کر کے روحاب کو خود سے قریب کرنا اسکا
مین مقصد تھا۔
************************
موحد بڑے پاپا کی اس بات کو بھولے بیٹھا تھا کہ پیپرز کے
بعد تم مجھے آفس نظر آؤ۔
مگر آج وہ اسے کھینچ کھانچ کر اپنے ساتھ لے ہی گئے اور موحد
برے سے منہ بناتا ان کے ساتھ چل پڑا۔
سب ڈنر کے لئے ٹیبل پڑموجود تھے۔
پڑے پاپا آپکو معلوم ہے کہ آج موحد مجھ سے کیا کہہ رہا تھا۔
یہ کہہ رہا تھا کہ اب تو میں نے بزنس بھی جوائن کر لیا ہے
اب تو پاپا کو میری شادی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
سجل نے کھاتے کھاتے بڑے مزے سے بڑے پاپا سے کہا۔جبکہ موحد
اس بات کے لئے جو اس نے سجل سے کہی ہی نہیں تھی اسے آنکھیں دکھانے لگا۔
ہوگئے ہیں تمہیں کوئی دس بارہ مہینے آفس جوائن کیے میرے
خیال سے تو آج پہلی دفعہ تم نے آفس میں شکل دکھائی ہے۔
جب ڈھنگ سے کام سیکھ لو گے ناں اور جب مجھے بھی معلوم ہو
جائے گا کہ اب تم اپنے پیروں پڑ کھڑے ہو چکے ہو تو سوچوں گا اس بارے میں۔
ابھی شادی کے خیالات چھوڑ کر اپنا دھیان صرف اور صرف کام
پڑ رکھو۔
ہاں تو ابھی بھی تو میں اپنے پیروں پڑ ہی کھڑا ہوں ناں بلکہ
جہاں تک مجھے بتایا گیا ہے میں ایک سال کا تھا جب سے اپنے پیروں پڑ کھڑا ہوں۔موحد نے
بیوقوفانہ بات کہی۔
تو تمہارا کیا مطلب ہے کہ تب ہی تمہاری شادی کر دیتے۔بڑے
پاپا کی بجاۓ
سجل نے جواب دیا۔
موحد تو چپ ہی ہوگیا۔
ویسے بتاؤ گے نہیں بڑے پاپا کو کہ وہ کون ہے جس سے شادی
کے لئے تم مرے جا رہے ہو میرا مطلب ہے کہ جلدی میں ہو۔چلو کوئی بات نہیں اگر تم نہیں
بتا رہے تو میں بتا دیتی ہوں۔سجل نے اس کے بولنے کا انتظار کیے بغیر کہا۔
سجل کی اس بات پڑ موحد نے انعم اور انعم نے سجل کی طرف دیکھا
اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
سجل اس کے اشاروں کو نظر انداز کرتی ہوئی بولی۔
بڑے پاپا وہ لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ۔۔۔
موحد کی۔۔۔دلکش و حسین۔۔۔۔حسینہ ہے۔۔
"کیا"
سجل کے ساتھ والی کرسی پڑ بیٹھا موحد ایک دم چلایا جبکہ
سجل نے جلدی سے اپنے کانوں پڑ ہاتھ رکھ لئے۔
سجل تمہارا دماغ اور آنکھیں خراب ہوگئی ہیں کیا جو تم میرے
لئے اس حسینہ عرف "نرا ہاسا" کی بات کر رہی ہو۔
موحد سجل سے کہتا ہوا بڑے پاپا کی طرف ہوا کہ کہیں وہ سجل
کی اس بات کو سچ ہی نا سمجھ لیں مگر بڑے پاپا سر جھکائے ہولے سے مسکرا رہے تھے۔موحد
نے ان کی مسکراہٹ دیکھی تو سمجھ گیا کہ حسینہ کے دماغی فتور کے بارےمیں وہ بھی جانتے
ہیں۔
ویسے موحد اس بات پڑ تو تم مجھے ضرور شاباشی دوگے کہ میں
نے بڑے پاپا اور بڑی ماما سے تمہارے اور انعم کے بارے میں بات کر لی ہے۔سجل نے اس کے
کان میں کہا۔
کیا تم سچ کہہ رہی ہو یہ کارنامہ تم نے کب سرانجام دیا لڑکی۔موحد
نے بے یقینی سے پوچھا۔
بس آج صبح ہی۔
ارے واہ بہت بہت شکریہ بھئی داد دیتا ہوں تمہیں۔
موحد کی اس بات پڑ سجل نے فرضی کالر اچکائے اور مسکرا دی۔
جبکہ انعم کان لگانے کے باوجود بھی ان دونوں کی باتیں نا
سن سکی اور مایوس ہوتی ہوئی دوبارہ کھانے کی پلیٹ پڑ جھک گئی۔
**********************
سب کھانے سے فارغ ہوگئے تو سجل انعم کے پاس آئی اور بولی
کہ اس نے انعم کے لئے بڑے پاپا اور بڑی ماما سے بات کی تھی اور وہ فوراً مان گئے۔
انعم یہ بات سن کر بہت خوش ہوئی مگر پھر بولی۔
مگر سجل آپی یہ بات تو ماما پاپا کو کرنی چاہیے تھی ناں
انکا بات کرنا ہی زیادہ مناسب لگتا۔
ہاں کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو مگر تمہیں پوری بات کا نہیں پتا۔
بڑے پاپا نے مجھ سے پوچھا کہ یہ موحد ہر بات میں شادی کا
ذکرکرتا رہتا ہے میں جانتا ہوں کہ وہ مذاق کرتا ہے مگر پھر بھی اگر وہ کسی لڑکی کو
پسند کرتا ہے تو ہمیں بھی بتا دو اس نے تم سے تو ذکرکیا ہی ہوگا۔
بس انکا یہ پوچھنا تھا کہ میں نے یہ سوچتے ہوئے کہ سجل یہی
موقع ہے بتا دے اور کروا دے ہیر رانجھا کا ملن تو بس بتادیا میں نے۔اب بتاؤ میں نے
ٹھیک کیا ناں۔
معلوم نہیں آپی۔انعم شرماتی ہوئی وہاں سے اٹھ گئی۔
ارے جاتے جاتے سچ تو بول جاتی۔سجل نے اسے آواز دی اور پھر
خود بھی ہنس دی۔
********************
سجل مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ثانیہ سجل کے کمرے
میں آئی۔
روحاب ابھی تک گھر نہیں آیا تھا اور یہی موقع تھا تھوڑا
سادکھاوا کر کے سجل کو روحاب کے خلاف کرنے کا۔
ہاں آئیں ناں ثانی آپی بیٹھیں۔
سجل روحاب کے کپڑے ہینگ کر رہی تھی انہیں واپس رکھتی ہوئی
ثانیہ کو بیٹھنے کا کہہ کر خود بھی اس کے پاس بیڈ پڑ بیٹھ گئی۔
سجل تمہیں کتنا یقین ہے کہ روحاب تم سے واقعی میں محبت کرتا
ہے۔
یہ کیسا سوال ہے آپی۔
سیدھا سا سوال ہے سجل مگر شائد تمہارے پاس اسکا جواب نہیں
ہے۔
ایسا بلکل بھی نہیں ہے روحاب مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔وہ
کہتے ہیں کہ میں انکا جنون ہوں اور انکے لئے جنون محبت کی انتہا ہے۔
جھوٹ بولتا ہے وہ سجل۔وہ تم سے کوئی محبت وہبت نہیں کرتا
صرف دکھاوا کرتا ہے محبت کا۔
ثانی آپی پلیز یہ بات مت کہیں وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں بس
اس سے آگے میں کوئی بحث نہیں کرنا چاہتی۔
میں جانتی تھی کہ تم میری باتوں پڑ یقین نہیں کرو گی مگر
اس بات کا ثبوت بھی ہے میرے پاس کہ وہ تم سے صرف دکھاوے کی محبت کرتا ہے۔ثانیہ اٹھی
اور روحاب کی الماری کے بڑے دراز کی طرف بڑھی۔
اس کی چابی کہاں ہے سجل۔
وہ تو روحاب نے رکھی ہے انہی کے پاس ہوتی ہے۔
کیا مطلب کہ اسی کے پاس ہوتی ہے وہ ساتھ لے کر جاتا ہے کیا
اسے۔
میرا مطلب تھا کہ وہ چابی انہوں نے ہی رکھی ہے۔
کہاں رکھی ہے دینا پسند کرو گی۔
لیکن آپی اس دراز میں ان کی پرسنل چیزیں ہونگی میں نہیں
دے سکتی آپ کو۔سجل نے چابی دینے سے انکار کر دیا۔
اگر تم مجھے چابی نہیں دوگی تو میں تم پڑ ثابت کیسے کروں
گی کہ روحاب کی تمہارے لئے محبت سچی نہیں بلکہ جھوٹی ہے۔ثانیہ نے اس انداز سے بات کہی
کہ سجل کو چابی دینی ہی پڑے۔
کیا مطلب کیا آپکو معلوم ہے کہ اس دراز میں کیا ہے۔
ہاں مجھے معلوم ہے آج سے نہیں بلکہ بہت پہلے سے اب چابی
دو مجھے۔
سجل نے الماری میں لٹکے روحاب کے بلیو کوٹ میں سے چابیوں
کا بنڈل نکل کر ثانیہ کو تھما دیا۔
ثانیہ کو شائد پہلے سے ہی معلوم تھا کہ اس دراز کی چابی
کون سی ہے اس لئے پہلی ہی چابی سے دراز کھل گیا۔
ثانیہ نے اس میں سے کچھ چیزیں نکال کر سجل کو تھما دی۔
یہ کیا ہے۔
تم دیکھو گی تو معلوم ہو جاۓ
گا۔
سجل نے ان چیزوں کو بیڈ پڑ رکھا اور دیکھا کہ ان میں سے
ایک وہی سرخ ڈائری تھی جس پڑ اس نے ثانیہ کا سکیچ بنادیکھا تھا۔
اور شائد اور بھی بہت کچھ تھا اس ڈائری میں جو ثانیہ کے
لئے لکھا گیا تھا۔
اس کے علاوہ کچھ تصویریں تھیں جو ثانیہ کی تھیں۔
سجل نے انہیں اٹھا کر دیکھا ہر تصویر کے پیچھے لکھا گیا
تھا
"My
True Love"
دو تین مرجھاۓ
ہوئے گلاب کے پھول تھے۔
روحاب کو گلاب سے الرجی تھی وہ انہیں چھونا تو دور کی بات
ان کے پاس بھی نہیں جاتا تھا مگر پھر بھی اس نے وہ پھول ثانیہ کو دیے اور ابھی تک سنبھال
کا کیوں رکھے۔
اس کے علاوہ ایک سرخ رنگ کی چھوٹی سی ڈبیہ تھی جس میں ایک
نگ والی خوبصورت رنگ موجود
تھی۔
سجل یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو روحاب نے مجھے دی تھیں۔
یہ پھول تصویریں انگوٹھی اور یہ ڈائری اس نے میرے لئے لکھی۔
یہ تصویریں اسے بہت پسند تھیں اور اس نے مجھے بہت ہی خوبصورت
سے فریم میں لگا کر گفٹ کی تھیں مگر مجھ سے وہ فریم ٹوٹ گیا۔
میں نے تو یہ تمام چیزیں اسے واپس کر دیں مگر تم کیا بتا
سکتی ہو کہ اس نے ان چیزوں کو پھینکنے کی بجاۓ
انہیں ابھی تک اس لاکر میں سنبھال کر کیوں رکھا ہوا ہے۔
وہ تو نفرت کرتا ہے ناں مجھ سے اور محبت کرتا ہے تم سے تو
پھراسکو کیا ضرورت پڑی ان کو تم سے چھپانے کی۔تم صاف نا سہی مگر کچھ کچھ تو سمجھ ہی
گئی ہوگی کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔
اگر ابھی بھی نہیں سمجھی تو میں بتا دیتی ہوں اس نے یہ سب
چیزیں اس لئے سنبھال کر رکھیں کیوں کہ وہ مجھ سے نفرت نہیں کرتا بلکہ ابھی بھی محبت
کرتا ہے۔
تمہارا یہ خیال سراسر غلط ہے کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے۔
تم بہت معصوم ہو سجل اور بہت بیوقوف بھی تمہیں تو وہ آسانی
سے بیوقوف بنا سکتا ہے۔
تم کیا سمجھتی ہو کہ اس نے تمہیں بچے سمیت قبول کر لیا ہے
تو اسکا مطلب یہ ہواکہ وہ تم سے محبت کرتا ہے۔
نہیں سجل بی بی اسکا اصل مقصد تو یہ سب کر کے زارون کو نیچا
دکھانا تھا اسکو شکست دینا تھا۔اور دیکھنا اب جلد ہی وہ تمہیں چھوڑ دے گا۔اور پھر واپس
میرے پاس لوٹے گا کیوں کہ پہلا پیار کبھی نہیں بھولتا پہلے پیار کی کسک ہمیشہ باقی
رہتی ہے۔
اور تم دیکھنا یہ پیار اسے تب تک چین نہیں لینے دے گا جب
تک وہ میرے پاس واپس نہیں لوٹ آتا۔
ثانیہ اتنا کچھ بول رہی تھی جبکہ سجل کی نظریں ابھی بھی
تصویر کے پیچھے لکھے
"My
True Love"
پڑ ٹکی ہوئی تھیں۔
آنکھوں کا پانی بس دھوا دار بہنے ہی والا تھا۔
ثانیہ یہی تو چاہتی تھی وہ اسے چپ کروانے کے موڈ میں بلکل
بھی نہیں تھی اس لئے اپنے پلان کے کامیاب ہونے پڑ خود کو شاباشی دیتی ہوئی کمرے سے
باہر نکل گئی۔
*********************
ارے سجل تم ابھی تک جاگ رہی ہو لگتا ہے میرا ہی انتظار کر
رہی تھی۔رات کا ایک بج رہا تھا اور روحاب ابھی آیا تھا۔
ایسا کچھ نہیں ہے میں ناول پڑھ رہی تھی اس لئے جاگ رہی تھی۔
اچھا تو پھر ایسا کرتے ہیں ایک ساتھ پڑھتے ہیں کیوں کہ نیند
تو آج مجھے بھی نہیں آرہی۔
جی نہیں آپکو پڑھنا ہے تو اکیلے پڑھیں مجھے نیند آرہی ہے
میں سونے لگی ہوں اور ہاں آپ پلیز مجھے کسی چیز کے لئے مت اٹھانا اور لائٹ بھی مہربانی
کر کےجلد ہی بند کر دیجئے گا۔
سجل روحاب کی طرف سے منہ پھیر کر لیٹ گئی۔جبکہ روحاب سوچنے
لگا کہ اتنا روڈ رویہ آخر آج اسے ہوا کیا ہے۔
مگر خیر یہ سوچتے ہوئے کہ شائد اسے واقعی میں نیند آئی ہے
اسے دوبارہ بلانے کا ارادہ ترک کرتا ہوا کپڑے چینج کرنے کے لئے واش روم چلا گیا۔
*********************
سجل میری یہ والی شرٹ ذرا جلدی سے پریس کر دو۔روحاب نے اسے
لائٹ گرین شرٹ پکڑاتے ہوئے کہا۔
سجل نے خاموشی سے شرٹ پکڑی اور پریس کرنے لگی۔
خیر ہے پہلے تو روز میرے کہنے سے پہلے ہی میری ہر چیز ریڈی
ہوتی تھی تمام شرٹس پریس ہوتی تھیں اور آج ایک بھی اس حالت میں نہیں۔
مجھے اور بھی بہت سے کام ہوتے ہیں۔سجل نے روکھے انداز میں
کہا۔
روحاب دو دن سے اس کی بجھی ہوئی صورت اور روڈ رویہ نوٹ کر
رہا تھا۔
پہلی بات تو یہ سجل کہ تمہیں کوئی بھی کسی کام کو ہاتھ نہیں
لگانےدیتا۔
اور دوسری بات اگر کام ہوتےبھی ہیں تو میرے ہی ہوتے ہیں
ناں اور وہ تم روز ہی بغیر کہے کرتی ہو۔مگر دو دن سے دیکھ رہا ہوں تم میرا کوئی کام
نہیں کر رہی ہر کام جو تم بہت شوق سے کرتی تھی اب دور بھاگ رہی ہو۔
ٹھیک ہے تمہیں نہیں کام کرنے تو کوئی مسلہ نہیں مگر کم از
کم وجہ تو بتاؤ کہ اچانک ہی ایسا کیوں۔نا ہی مجھ سے بات کر رہی ہو میں بلا لیتا ہوں
تو جواب دے دیتی ہو ورنہ چپ ہی رہتی ہو آخر ہوا کیا ہے تمہیں جو ایسا رویہ اپنا لیا
ہےتم نے۔
کچھ نہیں ہوا ہے مجھے اور میرے خیال سے آپ شائد شاور لینے
جا رہے تھے شرٹ پریس ہوگئی ہے یہ پکڑیں اور جائیں۔سجل نے پریس ہوئی شرٹ اس کی طرف بڑھائی
اور اسے یہاں سے بھیجنا چاہا۔
روحاب نے اس کے ہاتھ سے شرٹ لے کر بیڈ پڑ پھینکی اور اسکا
ہاتھ پکڑ کر اسے بھی بیڈ کی طرف کھینچا۔
چھوڑیں مجھے۔
آج جواب دوگی تو ہی چھوڑوں گا۔
کیا جواب دوں میں کیا سننا چاہتے ہیں آپ۔
وہی جو کسی نے تمہارے دماغ میں بھر دیا ہے۔وہی جس کی وجہ
سے تم مجھ سے کھینچی کھینچی سی رہنے لگی ہو۔
مجھے کسی نے بھی کچھ نہیں کہا اس لئے اب چھوڑیں مجھے۔
سچ بولو گی تو ہی چھوڑوں گا۔روحاب نے اس کے بازو پڑ گرفت
اور بھی مظبوط کر دی۔
ٹھیک ہے تو پھر میں آپکو سناؤں گی نہیں بلکہ دکھاؤں گی۔
سجل اس کے ہاتھ اپنے بازوؤں سے ہٹاتی ہوئی الماری میں بنے
دراز کی طرف بڑھی۔
دراز کھول کر اس میں سے وہ چیزیں نکالیں جن کی وجہ سے اس
کا دماغ گھوما ہوا تھا۔
لا کر بیڈ پر روحاب کے سامنے پھینکیں اور بولی۔
اب بتائیں یہ اب تک آپکے اس دراز میں محفوظ کیا کر رہی تھیں۔یہ
گلاب ان سے تو خاص الرجی ہے ناں آپکو پھر آخر کیوں سنبھال کر رکھا ہے اسے۔سجل نے سوکھا
ہوا گلاب اس کے سامنے لہرایا۔
نا پسند کرتے ہیں ناں آپ ثانی آپی کو پھر یہ تصویریں ابھی
تک یہاں کیا کر رہی ہیں۔
زہر بھرا ہے ناں آپکے دل میں ان کے لئے تو پھر یہ محبت بھرے
اشعار یہ غزلیں اظہار محبت سے بھری ہوئی ڈائری ان کے لئے پھر ابھی تک یہاں کیوں ہے۔اور
ہاں یہ انگوٹھی کیا دوبارہ انہیں پہنانے کا ارادہ رکھتے ہیں آپ۔
سجل کیا فضول بولے جا رہی ہو چپ کر جاؤ۔روحاب نے اسے چپ
کروانا چاہا۔
اچھا میں فضول بول رہی ہوں تو پھر آپ ہی بتا دیں آخر سچ
کیا ہے۔
کیوں کہ آپ تو جھوٹ بولتے ہی نہیں ناں۔یہ روحاب کے لئے سجل
کا پرانا ڈائلاگ تھا۔
صحیح کہا تم نے میں نے ہمیشہ سچ بولا ہے اور سچ کا ساتھ
دیا ہے اور آیندہ بھی دیتا آؤں گا۔
یہ تمام چیزیں میرے دراز میں اس لئے موجود نہیں تھیں کہ
مجھے ابھی بھی ان سے کوئی دلی لگاؤ ہے۔بلکہ اس لئے موجود تھیں کہ کب تم انہیں دیکھو
اور انہیں اپنے ہاتھوں سے نکال کے پھینکو اور مجھ سے جھگڑو کے میں نے ابھی تک ان کو
کیوں اپنے پاس رکھا۔
اب آپکی زندگی میں صرف میں ہوں صرف میں اور آپکی ہر چیز
بس مجھ سے وابستہ ہونی چاہیے۔میں تمہارے منہ سے یہ الفاظ سننا چاہتا تھا بس اتنی سی
خواہش رکھتا تھا۔
یہ نہیں چاہتا تھا کہ تم میری محبت پر شک ہی کرنے لگ جاؤ۔
میں چاہتا تھا کہ تم مجھ سے جڑی ان تمام چیزوں کو جو مجھے
بہت تکلیف دیتی ہیں خود اپنے ہاتھوں سےدورکرو۔
اور یہ انگوٹھی رکھنے کا مقصد تم ہو سجل۔یہ انگوٹھی میں
تمہیں پہنانا چاہتا تھا تمہیں بتلانا چاہتا تھا کہ اس انگوٹھی کی اصل حقدار صرف تم
ہو۔
میں نے یہ بہت محبت اور مان سے خریدی تھی مگر لینے والے
کو اس کی قدر نا ہوئی۔
اس کی اصل قدر صرف تم ہی جان سکتی تھی مگر افسوس سجل تم
تو ابھی تک میرے پیار کی قدر کو ہی نہیں سمجھ پائی۔
تم اتنا تک نہیں جان پائی کہ میرا پیار تمہارے لئے کوئی
وقتی یا جھوٹا نہیں ہے۔
اور ہاں یہ غلط اور گھٹیا باتیں تمہارے دماغ میں جس نے بھری
ہیں میں اچھے سے جان چکا ہوں کہ وہ کون ہے۔
صرف ان چیزوں کو دیکھنے سے ہی تم اتنی بڑی غلط فہمی کا شکار
نہیں ہو سکتی کیوں کہ اگر تمیں مجھے برا یا غلط سمجھنا ہی ہوتا تو تم تب ہی سمجھ لیتی
جب اس مونا نامی لڑکی کے ساتھ زارون نے میری تصویروں کا غلط استعمال کروایاتھا۔
مگر جب تک کوئی تمہارا دماغ اپنے مطابق نا کرے تب تک ہوتا
نہیں اور اب جان چکا ہوں کہ تم کس کی زبان بول رہی ہو۔
ثانیہ نے کیا ہے ناں تمہیں میرے خلاف اسی نے بھرا نا تمہارے
دماغ میں یہ خناس۔
کچھ بھی ہو جاۓ
تم نے ہمیشہ اسی کی باتوں پڑ یقین کیا ہے اسی کا ساتھ دیا ہے تو ٹھیک ہے آگے بھی اسی
کی باتوں پڑ یقین کر کےمیرےساتھ اپنا رشتہ اچھے سے نبھاتی رہنا۔
اور ہاں جاتے جاتے صرف اتنا کہوں گا کہ نجانے وہ دن کب آئے
گا جس دن تمہیں جھوٹ سچ۔۔۔۔اچھے برے۔۔۔۔کھڑے کھوٹے۔۔۔میں فرق نظر آئے گا۔روحاب غصے
سے بولتا آخر میں اسے اسکی عقل کی کمی کا بتا گیا۔
جبکہ سجل بیڈ پڑ شرمندہ سی بیٹھ گئی۔
اف یہ میں نے کیاکردیا۔
ہر بار میں ایسا ہی کرتی ہوں اپنی بیوقوفیوں اور غلط باتوں
سے ہمیشہ ان کا دل دکھا دیتی ہوں۔
مگر اس دفعہ تو کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔
اب میں کیا کروں۔
سجل کے دماغ سے ثانیہ کی باتیں اب بلکل نکل چکی تھیں اگر
تھیں تو صرف روحاب کی باتیں۔
**********************
معارج کے لئے رشتہ آیا تھا۔
رفیق صاحب کے دوست کی فیملی تھی۔
انہوں نے رشتہ تو سجل کے لئے مانگا تھا مگر یہ معلوم ہونے
پڑ کہ وہ تو شادی شدہ ہے تو معارج کے لئے کہہ دیا۔
لڑکے کا نام سلمان تھا۔انجینئر تھا۔عمر اٹھائیس سال تھی۔
لڑکا دیکھا بھالا تھا اچھی فیملی تھی شروع سے جان پہچان
تھی اس لئے انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں بنتی تھی۔
معارج سے پوچھا گیا تو اس نے بھی ہاں میں سر ہلا دیا اور
کرتی بھی کیا ساحر کے اتنے بڑے دھوکے کے بعد وہ اب اپنی مرضی کرنےکاسوچ بھی نہیں سکتی
تھی اس لئے بڑوں کی رضا میں راضی ہوگئی۔
بس پھر کیا تھا لڑکے والوں کی طرف سے جلدی شادی کا اسرار
ہوا تو گھر میں شادی کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔
سجل تو اس حالت میں بازاروں کے چکر لگانے سے رہی اس لئے
معارج کے پاس ہی رہتی۔
معارج اس رشتے پڑ کچھ اداس اداس سی تھی۔اس نے شہلا اور ثمرین
کو اپنی مرضی کی شوپنگ کا کہہ دیا اور خود آئے روز بازار جانے سے انکار کر دیا۔
سب حیران تھے کہ معارج جو بازاروں کی جان نہیں چھوڑتی تھی
اب معذرت کر کے گھر بیٹھ گئی ہے۔
خیر تیاریاں زوروں پڑ تھیں آخر مہندی کا دن آن بھی پہنچا
اور پتا بھی نا چلا۔
*********************
سجل کو آٹھواں مہینہ لگ چکا تھا۔
نک سک سی تیار ہوئی سجل بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔وہ ریڈ
دوپٹے اور گولڈن فراک پہنے ہوئے تھی۔
وہ آج خاص روحاب کے لئے تیار ہوئی تھی ورنہ تو وہ تیار ہی
نہیں ہوتی تھی۔
کیوں کہ روحاب ابھی تک اس سے ناراض تھا۔
روحاب کی اسے سمجھ نا آتی تھی جب ماننا ہوتا تو بغیر مناۓ
ہی مان جاتا مگر جب وہ منا منا کر تھک جاتی تو تب اس کے موڈ میں رتی بھر بھی فرق نا
پڑتا۔
سجل نے شیشے میں اپنا جائزہ لیا۔
اس وقت وہ ڈھول ڈرم سی لگ رہی تھی۔
لڑکی تو میں لگ ہی نہیں رہی کہیں سے. پوری کی پوری آنٹی ہی لگ رہی
ہوں۔سجل نے اپنا حلیہ دیکھتے ہوئے خود سے کہا۔
تم لڑکی عورت کی بات کر رہی ہو مجھے تو تم کسی دوسرے پلانٹ
سے آیا ہوا کوئی ایلین لگ رہی ہو۔موحد نے کمرے میں آتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔
تم تو چپ ہی رہو اڑیٹ۔۔۔۔
مسز روحاب اوہ سوری مسز اکڑو خان میں یہاں آپکو یہ بتانے
آیا ہوں کہ چھوٹی ماما کہہ رہی ہیں کہ اگر آپ نے تیاری مکمل فرما لی ہے تو آپ ان خوبصورت
پیروں کے ساتھ ننھے قدم اٹھا کر نیچے تشریف لے آئیں اور آکر اپنی ڈیوٹی سر انجام دیں۔
میرا مطلب ہے کہ سجل کی بچی نیچے چل کر مہندی کی تھالیاں
سجاؤ کیوں کہ یہ کام تم نے اپنے سر لیا تھا۔
موحد پہلے اسے عزت دیتا ہوا پھر آخر میں اپنے سابقہ انداز
میں بولا۔
او ہاں میں تو بھول ہی گئی تھی چلو چلیں۔
سجل موحد کے ساتھ ہی کمرے سے باہر نکل گئی مگر موحد بھاگنے
میں پھرتی دکھاتا ہوا منٹوں میں غائب۔جبکہ سجل آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔
ارے ثانی آپی آپ ابھی تک اوپر ہیں اور یہ آپ پیچھےکیا چھپا
رہی ہیں کچھ خاص ہے کیا۔
ارے نہیں کچھ بھی تو نہیں میں نے کیا چھپانا ہے۔ثانیہ آئل
کی شیشی دوپٹے میں چھپائے جلدی سے اس کے سامنے سے اوجھل ہو گئی۔
سجل کندھے اچکاتی ہوئی کہ ہوگا کچھ آگے پڑھی اور سیڑھیاں
اترنے لگی۔
مگر تیسری سیڑھی پڑ پاؤں رکھتے ہی اسکا پاؤں بری طرح پھسلا۔
بلیک شلوار قمیض میں ملبوس سیڑھیاں چڑھتے روحاب نے جلدی
سے اسے پکڑا اور جلدی کے چکر میں وہ زور سے گرل کے ساتھ جا لگا۔کہنی میں ایک دم درد
کی لہر اٹھی۔مگر اسے کہاں پرواہ تھی پرواہ تھی تو صرف سجل کی۔
سجل میری جان آر یو اوکے۔روحاب نے بے حد فکر مندی سے پوچھا۔
سجل اپنا سانس درست کرتی ہوئی بولی۔
میں ٹھیک ہوں روحاب بس وہ میرا پاؤں۔۔۔۔۔
سجل کی بات ادھوری ہی رہ گئی کیوں کہ اس کی نظر سیڑھی پڑ
گرے آئل پڑ پڑی جو وافر مقدار میں سیڑھی پڑ موجود تھا۔
اس آئل کی وجہ سے میرا پاؤں پھسل گیا مگر یہ اتنا سارا آئل
یہاں گرایا کس نے۔
سجل نے روحاب سے ایسے پوچھا جیسے اسے تو سارا کچھ ہی معلوم
تھا۔
پتا نہیں شاید مہندی کی تھالیاں اوپر نیچے لاتے گر گیا ہو
گا تم ایسا کرو ہاتھ دو اپنا اور آہستہ آہستہ اترو۔
روحاب نے اسکا ہاتھ خود ہی تھام لیا اور اسے لئے سیڑھیاں
اترنے لگا۔
روحاب بھول گیا تھا کہ وہ تو کئیں دنوں سے سجل سے ناراض
ہے۔
روحاب ایک بات بولوں آپ تو مجھ سے ناراض تھے ناں۔سجل نے
اسے یاد دلایا۔
سجل میں تم سے کتنا ہی ناراض سہی مگر کبھی اتنا ناراض نہیں
ہو سکتا کہ تمہیں کسی خطرے میں دیکھ کر بھی صرف اپنی ناراضگی کی ہی فکر کروں تمہاری
نہیں۔
ہاں اگر تمہیں میری ناراضگی کی اتنی ہی فکر ہے تو میں پھر
سے ناراض ہو جاتا ہوں۔
روحاب نے جان بوجھ کر ایسا کہا۔
ارے نہیں نہیں ایسا مت کیجئے گا ایک تو آپ نے اتنے دنوں
بعدناراضگی ختم کی ہے اب پلیز دوبارہ ناراض مت ہونا۔سجل جلدی سے بول پڑی۔
روحاب ہنس پڑا اور بولا۔
سجل تم پلیز اپنا دھیان رکھا کرو ادھر ادھر دیکھتی نہیں
اور چل پڑتی ہو۔میں تو سارا دن گھر نہیں ہوتا ورنہ خود تمہارا خیال رکھتا۔بہت فکر مند
رہتا ہوں تمہارے لئے چاہے جتنا بھی ناراض رہوں تم سے مگر تمہاری تکلیف کا سوچ کر ہی
مجھے خود کو تکلیف ہونے لگتی ہے۔
روحاب کی بات پر سجل سوچنے لگی اگر روحاب اسے نا پکڑتا تو
وہ منہ کے بل سیڑھیوں سے گرنے والی تھی۔اور پھر کیا ہوتا اس سے آگے وہ سوچنا بھی نہیں
چاہتی تھی۔
روحاب آپ اگر دو دن مجھ سے بات کرتے ہیں تو باقی کے دس دن
ناراضگی میں ضائع کر دیتے ہیں۔سجل نے منہ پھلاتے ہوئے کہا۔
مائے ڈیر وائف تم میں صرف یقین کی کمی ہے اور وہ بھی میرے
لئے ورنہ تو میرا تم سے جھگڑا اور ہے ہی کس بات کا۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں روحاب اور پتا نہیں کیوں مجھے لگتا
ہے کہ ثانی آپی ہمیں ایک ساتھ خوش دیکھنا نہیں چاہتیں۔
تمہیں تو صرف ایسا لگتا ہے ناں سجل جبکہ مجھے اس بات کا
پورا پورا یقین ہے کہ وہ ایسا ہی چاہتی ہے۔مگر وہ تمہیں مجھ سے کتنا بھی دور کرنے کی
کوشش کیوں نا کر لے ہمیشہ اس کوشش میں ناکام ہی رہے گی۔
ایک منٹ سجل۔
روحاب نے بات کرتے کرتے جیب سے موبائل نکالا۔کسی کی کال
آرہی تھی۔
روحاب نے کال بیک کرنا چاہی تو موبائل میں بیلنس نا تھا۔
شیٹ یار سجل تمہارے موبائل میں بیلنس ہوگا کیا مجھے ارجنٹ
کال کرنی ہے۔
یاد کریں جناب وہ دن جب میں نے بھی آپ سے یہی کہا تھا مگر
مجھے جو جواب ملا وہ ابھی تک میرے حافظے میں محفوظ ہے۔
خیر کیا یاد کریں گے جائیں لے لیں موبائل روم میں پڑا ہے۔
سجل کے کہنے پر روحاب کو وہ دن یاد آگیا جب سجل نے اس سے
اپنی دوست کو ارجنٹ کال کرنے کے لئے موبائل مانگا تھا۔
وہ مسکرا دیا اور موبائل لینے روم میں چلا گیا۔
********************
موحد ڈھولکی اپنے سامنے رکھے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
خواتین و حضرات اور ان کے بچے برائے مہربانی میری طرف توجہ
فرمائیں۔
چونکہ آج میری پیاری سی بہن کی مہندی کی رسم ہے اور مہندی بغیر ڈھولکی اور گانے شانے
کے ادھوری سی لگتی ہے۔
اس لئے ڈھولکی بجانے کی شروعات میں کروں گا۔موحد نے ڈھولکی
سنبھالی جو کہ اس سے سنبھل نہیں رہی تھی۔
بدمعاش کہیں کا اٹھ یہ لڑکیوں کے کرنے والے کام ہیں نا کہ
لڑکوں کے۔شہلا بیگم نے اپنے اس شرارتی ہونہار کو مسکراتے ہوئے جھڑکا۔
میری پیاری ماں آپ یہ پکڑیں چمچ اور بجانا شروع کریں۔موحد
نے انہیں چمچ پکڑا کر ڈھولکی بجانا شروع کر دی۔
جبکہ سب اس کی ڈھولکی کی ٹوٹی پھوٹی تال کو انجوئے کرنے
لگے۔
سجل ان سب کے ساتھ زمین پر بیٹھنے کی بجاۓ
صوفے پر معارج کے پاس بیٹھ گئی۔
روحاب بھی فون سے فارغ ہونے کے بعد اس کے ساتھ ہی آکر بیٹھ
گیا۔
سجل یہ انگوٹھی تم نے کب پہنی۔
روحاب نے وہی انگوٹھی اس کے ہاتھ کی تیسری انگلی میں دیکھی
تو پوچھنے لگا۔
اگر آپ اپنی ناراضگی کو ایک پل کے لئے سائیڈ پر رکھ کر مجھے
دیکھتے تو آپکو معلوم ہوتا کہ یہ انگوٹھی تو میں نے اسی دن سے پہنی ہوئی ہے۔
اس سب کے لئے سوری سجل مگر مجھے تو لگا تھا کہ تم اس انگوٹھی
کوکبھی نہیں پہنو گی۔
کیوں نہیں پہنتی روحاب آپ نے ہی تو کہا تھا کہ اس انگوٹھی
کی اصل حقدار میں ہوں اور حقدار کو اسکا حق تو ملنا ہی چاہیے ناں۔
اور یہ دیکھیں یہ تو مجھے بلکل فٹ ہے سچ کہوں تو آپکی پسند
بہت ہی لا جواب ہے آئی رئیلی لائک اٹ۔ ۔۔۔
تم نے ٹھیک کہا میری جان میری پسند تو واقعی میں بہت لا
جواب ہے۔روحاب نے نظریں اس کے چہرے پر ٹکائے کہا۔اسکا اشارہ سجل کی طرف تھا۔
اور میری پسند بھی کچھ کم لا جواب نہیں ہے۔سجل اس کی بات
کے اختتام کے ساتھ ہی بول پڑی۔
جی بیگم صاحبہ میرے جیسا بندہ جس کی بھی پسند ہوگا اسکا
ہر انتخاب لا جواب ہی ہوگا ناں اور۔۔۔۔
کیا مطلب جس کی بھی پسند..
صرف میری پسند ہیں آپ۔سجل نے اسے بیچ میں ٹوکا۔
ہاں ہاں میں وہی کہہ رہا تھا۔روحاب نے اس کے ہاتھ کی طرف
دیکھتے ہوئے کہا جسے وہ دل پر رکھے اپنی طرف اشارہ کر رہی تھی۔
******************
ارے بہن آج کل تو جس کے گھر بھی جاؤ یہی سننے کو ملتا ہے
کہ فلاع کی اولاد نہیں میری بیٹی کی اولاد نہیں میری بہو کی نہیں بہت ہی پریشان ہوں۔
ابیہا اپنی ساس کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی جب پاس بیٹھی عورتوں
نے یہ باتیں شروع کر دیں۔
اور نہیں تو کیا میری اپنی بہو کو دیکھ لو آٹھ مہینے سے
زیادہ ہو گئے شادی کو مگر ابھی تک خوشخبری نا سنائی۔
تائی امی نے ابیہا کے بارے میں کہا اور اس طرح کہا جیسے
خوشخبری سنانا اورنا سنا اس کے بس میں ہو۔دوسری عورت لمبی سی اچھا کرتے ہوئے ایسے حیران
ہونے لگی جبکہ حیران ہونے والی کوئی اتنی بڑی بات تھی نہیں۔
اک دم ابیہا کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا۔
اسے اچانک یاد آیا اسے تو سجل کو ایک چیز دینی تھی۔
وہ وہاں سے اٹھی اور صوفے پر بیٹھی سجل کے پاس چلی آئی۔
سجل روحاب سے باتیں کرنے میں مصروف تھی جب ابیہا نے اسے
پکارا۔
سجل یہاں آنا ذرا تم سے کچھ کام ہے۔
جی آپی آرہی ہوں۔
سجل روحاب کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑواتی جو کہ وہ چھوڑ
نہیں رہا تھا اور جان بوجھ کر اسے ابیہا کی بات سننے میں دیر کروا رہا تھا ابیہا کے
پاس چلی آئی۔
ابیہا اسے لیتی ہوئی اس کے کمرے میں آگئی اور اسے ایک خط
تھما دیا۔
سجل پلیز یہ خط بغیر پڑھے پھاڑنا مت۔
میں نہیں جانتی کہ اس میں کیا لکھا ہے مگر زارون بھائی نے
مجھے یہ تمہیں دینے کے لئے کہا تھا۔
میرا ماما کی طرف چکر نہیں لگ سکا اس لئے تمہیں یہ فوراً
دے نا سکی۔
زارون بھائی نے کہا تھا کہ یہ خط میں تم تک لازمی پہنچا
دوں اور یہ خط صرف تم ہی پڑھو نا کہ کوئی اور۔
میں نہیں جانتی کہ یہ خط پڑھنے کا صحیح وقت ہے یا نہیں مجھے
نہیں معلوم اس کے اندر جو لکھا ہے اسے پڑھ کر تمہیں خوشی ہوگی یا دکھ مگر آج میں نے
تم تک تمہاری امانت پہنچا دی ہے پڑھ لو۔
ابیہا اسے خط پڑھنے کا کہہ کر اسے کمرے میں اکیلا چھوڑ کر
کمرے سے باہر نکل گئی۔
***********************
سجل میں جانتا ہوں کہ تم مجھے معاف نہیں کرو گی کیوں کہ
میں نے کام ہی ایسا کیا ہے جس پر میں معافی کا حق دار بھی نہیں ہوں۔
میں جانتا ہوں کہ تم میری تحریر بھی پڑھنا پسند نہیں کرو
گی مگر پلیز اسے ادھورا مت چھوڑنا کیوں کہ میرے یہ خط لکھنے کا مقصد تمہیں تمہارے ارد
گردکے حالات سے با خبر کرنا ہے۔
جانتی ہو میرے جانے سے ایک دن پہلے ثانیہ میرے پاس آئی تھی۔
اس نے کہا کہ اسے تمہاری اور روحاب کی باتوں سے معلوم ہو
چکا ہے کہ وہ بچہ میرا ہے۔
اور وہ اس بچے کو اس دنیا میں کسی بھی صورت نہیں آنے دے
گی۔
کیوں کہ ایسا کرنے سے وہ مجھ سے اپنا بدلہ پورا کرے گی اور
تمہیں بھی تکلیف پہنچے گی۔
وہ تمہیں اور روحاب کو الگ کرنا چاہتی ہے۔کیوں کہ اسکا کہنا
ہے کہ جہاں جہاں خوشیاں اسکا مقدر تھیں وہ تم نے اس سے چھین لیں۔
مجھ سے طلاق کے بعد وہ دوبارہ روحاب کے پاس واپس لوٹنا چاہتی
تھی مگر روحاب نے جلد ہی تمہیں اپنا لیا۔
کہا تو اس نے اور بھی بہت کچھ تھا سجل مگر میں مختصر یہ
کہوں گا کہ وہ جب تک تمہارے پاس رہے گی تم کبھی خوش نہیں رہ سکو گی۔
سجل وہ حسد کرتی ہے تم سے اور اسکا حسد اسے تو چین سے جینے
نہیں دے گا مگر وہ تمہاری بھی ہر خوشی کو چاٹ جاۓ
گا۔
سجل میرے لئے اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات اور کیا ہوگی کہ
میں ہونے والا ایک گناہ گار باپ ہوں۔
میری تم سے ہاتھ جوڑ کر درخواست نہیں بلکہ التجا ہے کہ پلیز
اس بچے کو اس کے اصلی باپ کے بارے میں کبھی مت بتانا۔
اور اس کی خاطر ہی سہی مگر اپنا خیال رکھنا۔
بلکہ مجھے تو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کیوں کہ تم اس معاملے
میں بہت خوش قسمت ہو کہ تمہیں روحاب جیسا لائف پارٹنر ملا۔
جسے تم پر خود سے بھی زیادہ یقین ہے اور مجھے بھی اس بات
کا یقین ہے کہ وہ تمہارا ہمیشہ بہت خیال رکھے گا۔
آخری بار پھر کہوں گا کہ دشمن کی کسی بھی چال کو خود پر
کامیاب مت ہونے دینا۔
میں واپس نہیں جا رہا سجل میں یہی ہوں پاکستان میں مگر جہاں
بھی رہوں گا تم سب سے دور ہی رہوں گا۔
تمہارا گناہ گار زارون۔
*********************
سجل خط پڑھنے کے بعد گرنے کے سے انداز میں بیڈ پر بیٹھ گئی
اور خط کو گھورنے لگی۔
خط اس کے آنسوؤں سے بھیگتا چلا گیا۔
آخر ایسا میرے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے۔
کیوں ہر بار میرے لئے نئی سے نئی مشکل پیدا ہو جاتی ہے۔
اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ میرے ساتھ جو ہوا۔۔۔جو ہو رہا
ہے اور جو بھی ہونے والا ہے یہ سب کرنے والے میرے اپنے ہیں۔
آخر میرا قصور ہی کیا ہے جو میرے ساتھ یہ سب کیا جا رہا
ہے۔آخر کیوں؟؟؟؟؟
سجل وہاں بیٹھی بری طرح رونے لگی۔
روحاب جو ابیہا سے سجل کا پوچھتا ہوا کمرے میں آیا تھا سجل
کو ہچکیوں کے ساتھ اتنی بری طرح روتا دیکھ پریشان ہوگیا۔
سجل کیا ہوا تمہیں اس طرح کیوں رو رہی ہو۔
روحاب بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا اور اسکا چہرہ اوپر کئے
پوچھنے لگا جو آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔
روحاب میرے ساتھ ہی یہ سب کیوں ہو رہا ہے آخر میرے اپنے
ہی میرے دشمن کیوں ہیں۔
سجل اس کے سینے سے جا لگی اور اسکی شرٹ کو دونوں ہاتھوں
سے دبوچے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔روحاب کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی
ہے اور وہ آخر اسے چپ کیسے کروائے۔
تم آخر کس کی بات کر رہی ہو سجل۔روحاب نے اس سے پیار بھرے
لہجے میں پوچھتے ہوئے خود سے دھیرے سے الگ کیا۔
سجل اسے سب بتانے لگی مگر پھر یہ سوچتے ہوئے کہ روحاب تو
ابھی کہ ابھی ثانیہ کو سنا ڈالے گا اور گھر میں موجود مہمانوں کی پرواہ بھی نہیں کرے
گا اور وہ شادی کے دوران کوئی بدمزگی نہیں چاہتی تھی اس لئے چپ رہی۔
سجل میں نے جو پوچھا ہے اسکا جواب دو۔
وہ اصل میں ثانیہ آپی نے بہت روڈلی بات کی مجھ سے انہوں
نے کہا کہ انکی خوشیاں میں نے چھینی ہیں میں انکی دشمن ہوں اور یہ بھی کہ کاش میں انکی
بہن نا ہوتی۔
سجل نے جھوٹ بولا مگر آخری بات اس کے دل کی تھی کہ کاش واقعی
میں وہ ثانیہ کی بہن نا ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ایسا کہا تم سے ویسے اس سے اور امید بھی کیا کی جا
سکتی ہے۔
جن لوگوں کا کام ہی دوسروں کو تکلیف پہنچانا ہو انھیں رولا
کر خود مسکرانا ہو انکی باتوں کو اتنا دل پر نہیں لینا چاہیے۔
سہی کہا ہے اس نے سجل کہ کاش تم اس کی بہن نا ہوتی۔
کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو تمہیں یوں اس کے الفاظ سے تکلیف
نا پہنچتی۔
تمہاری زندگی میں یوں بدمزگی نا ہوتی تمہاری زندگی کسی حد
تک پر سکون ہوتی۔
اس کی باتوں پر آنسو بہا کر تم صرف اور صرف اپنے قیمتی آنسو
ضائع کر رہو ہو جن کی اسے رتی بھر بھی پرواہ نہیں مگر مجھے کتنی پرواہ ہے یہ تو تم
جانتی ہو ناں سجل تو پلیز میری خاطر چپ کر جاؤ۔
میں اس خوشی کے موقع پر تمہیں روتے ہوئے دیکھنا تو دور کی
بات اتنا سا اداس بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔سجل نے یہ سوچتے ہوئے کہ وہ واقعی میں اپنے
ساتھ ساتھ روحاب کو بھی پریشان کر رہی ہے۔
خود تکلیف میں ہو کر اسکو بھی تکلیف دے رہی ہے فوراً اپنے
آنسو صاف کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔
میں منہ دھو کر آتی ہوں روحاب آپ نیچے چلیں۔
ڈیٹس لائک آ گڈ گرل۔۔۔
روحاب نے مسکراتے ہوئے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔اور ہاں
جلدی سے نیچے آجانا اور رونا مت ورنہ میں چیک کرنے آجاؤں گا۔
روحاب یہ کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
سجل نے جھک کر اپنے پیر کے بائیں جانب سے خط اٹھایا اور
اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے باسکٹ میں پھینک دیا۔
پھر واش روم میں گھس گئی اور باقی کے آنسو سنک کے پاس کھڑی
ہو کر بہانے لگی۔
*****************
بیٹیوں کے جانے سے گھر میں کتنا سناٹا ہو جاتا ہے ناں ثمرین۔شہلا
بیگم کو معارج کی یاد ستا رہی تھی۔
ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ بیٹیاں ہی تو گھر کی رونق ہوتی ہیں۔
اور میں تو آپکی بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری دونوں بیٹیوں
کواپنے ہی گھر میں رکھ لیا۔
ارے ثمرین اس میں شکر گزاری والی کون سی بات ہے تمہاری بیٹیاں
میری بھی تو بیٹیاں ہی ہیں ناں۔
اور میرے روحاب اور موحد کے ہوتے ہوئے میں سجل اور انعم
کو غیروں میں کیسے جانے دیتی۔
اب تو ماشاللہ موحد نے بھی بزنس اچھی طرح سے سنبھال لیا
ہے بس انعم کی پڑھائی ختم ہو جاۓ
پھر تم بھی انعم کے ہاتھ پیلے کرنا اور میں بھی اپنے موحد کے سر پر سہرا سجا دیکھوں۔
اور میرا تو ارادہ ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ روحاب اور سجل
کی شادی کی تقریب بھی رکھ دوں۔
کتنے ارمان ہو گے ناں ان کے بھی مگر حالات نے موڑ ہی ایسا
لیا کہ انہیں جلدی میں نکاح کرنا پڑا۔
مگر دیکھنا میں دونوں بیٹوں کی شادی دھوم دھام سے کر کے
ان کے سارے ارمان پورے کروں گی۔
بس اللّه ہمارے بچوں کی دلی خواہشات پوری کرے۔انکی خوشیاں
انہیں اور ہمیں بھی دکھانا نصیب کرے۔۔۔
آمین۔۔۔شہلا کی بات پر ثمرین نے بھی آمین بولا۔
ان دونوں کے پیچھے کھڑی ثانیہ آمین کہنے کی بجاۓ
سواۓ جلنے کڑکنے کے اور کیا کر
سکتی تھی۔
کیوں کہ ان کی باتوں کے بیچ سب بچوں کا ذکر تھا سواۓ
اس کے۔
کیا باتیں ہو رہی ہیں۔سجل ان کے پاس آبیٹھی۔
ہم تو یہ باتیں کر رہے تھے کہ تم اپنا بلکل بھی خیال نہیں
رکھتی جب دیکھو ادھر سے ادھر ٹیہلتی پھرتی ہو کبھی بیٹھ بھی جایا کرو۔شہلا بیگم نے
مسکراتے ہوئے کہا۔
ارے بڑی ماما آپ سب ہیں تو سہی میرا خیال رکھنے کے لئے اور
ویسے بھی آپکو تو پتا ہی ہے کہ میں چلنے پھرنے سے زیادہ بیٹھنے سے تھک جاتی ہوں۔
خیر یہ سب باتیں چھوڑیں اور مجھے یہ بتائیں کہ کل سب لوگ
جا رہے ہیں ناں معارج کی طرف۔
ہاں بیٹا سب نے اتنے پیار اور محبت سے بلایا ہے جانا تو
پرے گا ہی تم چلو گی۔
نہیں ماما میں گھر پر ہی رہوں گی۔
اور ثانیہ تم؟؟؟؟
ثمرین بیگم نے نا جانے کیوں اس سے بھی پوچھ لیا۔مگر ارادہ
ان کا کوئی بھی نہیں تھا اس کو ساتھ لے جانے کا کیوں کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ثانیہ
وہاں جا کر کوئی فضول بات کرے جو ثانیہ کے سسرال والوں کو بری لگے۔
ارے واہ ماما کہیں آپ نے غلطی سے تو مجھ سے نہیں پوچھ لیا۔کیوں
کہ وہ کیا ہے ناں مجھے کوئی فضول شوق نہیں ہے یوں ہی منہ اٹھا کر کسی کے بھی گھر چلے
جانے کا۔
ثانیہ نے اپنے اندر بھرا غصہ نکالا۔
تمیز سے بار کرو ثانیہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ تمہاری بہن
کے سسرال والے ہیں۔
ثمرین بیگم کو اس کی بات پر غصہ ہی تو آگیا تھا مگر ثانیہ
کو کیا پرواہ تھی اس غصے کی۔
چھوڑیں ماما کیوں خواہ مخواہ ان سے بات کر کے خود کو پر
ہائیپر کر رہی ہیں آپ۔ان کو کبھی کسی کی خوشی سے کوئی مطلب ہوا بھی ہے۔
سجل نے ثانیہ کو کن نظروں سے دیکھتے ہوئے ثمرین سے کہا۔
جبکہ ثانیہ یہ سوچتی ہوئی کہ آج تک اتنا کچھ ہو جانے کے
باوجود بھی کبھی سجل اس کے خلاف نہیں بولی۔اب یوں اچانک کیا ہوگیا جو یہ اس سے اس طرح
بات کر رہی ہے۔اس طرح تو وہ اسے بیوقوف بنانے میں کامیاب نہیں رہے گی۔یہ تو کچھ زیادہ
ہی چالاک بنتی جا رہی ہے غصے سے وہاں سے واک آوٹ کر گئی۔
**********************
سب معارج کی طرف گئے ہوئے تھے۔
سجل اور ثانیہ گھر پر ہی تھیں۔
روحاب کی آج شائد نائٹ ڈیوٹی تھی جو وہ صبح ہی صبح اپنے
دوستوں کی طرف چلا گیا تھا اور اب واپس آرہا تھا۔
سجل چاۓ
بنا دو پلیز سر دکھ رہا ہے۔
جی ابھی بنا کے لائی۔سجل لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی
اٹھ کر چاۓ
بنانے چلی گئی۔
روحاب اس کی جگہ پر بیٹھ گیا۔
سجل نے دودھ کی کیتلی فریج سے نکال کر چولہے پر رکھی اور
ماچس جلانے لگی۔
سجل یہ کیا کر رہی ہو تم۔روحاب نے جلدی سے آکر اس کے ہاتھ
میں پکڑی ہوئی ماچس فرش پر گرا دی۔
کیا مطلب کہ کیا کر رہی ہو چولہہ جلانے لگی تھی آپ نے خود
ہی تو کہا ہے کہ چاۓ
بنا کر لاؤ۔سجل نے معصومیت سے جواب دیا۔
روحاب نے آگے ہو کر گیس چیک کی تو وہ کھلی ہوئی تھی۔
سجل تمہیں ذرا بھی سمیل نہیں آئی یہ چاروں کے چاروں چولہے
کھلے پڑے ہیں۔ پورے گھر میں گیس پھیلی
ہوئی ہے مجھے وہاں بیٹھے کو سمیل آگئی اور تمہیں پاس کھڑی کو پتا ہی نہیں چلا۔
ابھی اگر ذرا سی بھی ماچس کی تیلی لگ جاتی تو جانتی ہو کیا
ہونے والا تھا۔
آگ لگ جاتی ہر طرف اور ساتھ ہی تمہیں۔۔۔۔۔۔
روحاب بولتے بولتے ایک پل کے لئے خاموش ہوا مگر پھر دوبارہ
بولا۔
آخر دھیان کہاں رہتا ہے تمہارا۔اب یوں کھڑی ہونقوں کی طرح
دیکھ کیا رہی ہو نکلو کچن سے باہر۔
روحاب اسے لئے کچن سے باہر لان میں آیا۔
اور پھر خود جا کر گھر کے تمام کھڑکیاں دروازے کھولنے لگا۔
جبکہ سجل باہر بت بنی کھڑی تھی۔
ساری بات سمجھنے میں اسے ایک منٹ کا بھی وقت نا لگا۔
اس کی آنکھوں سے دکھ اور غصے کی شدت سے آنسو بہہ نکلے۔
ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ابھی وہ کچھ کر ڈالے گی مگر خود
کو نہیں بلکہ ثانیہ کو۔
سجل آنسو صاف کرتی ہوئی اندر جانے لگی جب لاؤنج کے دروازے
سے نکلتی ہوئی ثانیہ لان میں آئی۔
وہ سیدھا سجل کے پاس آئی اور بولی۔
تمہیں اگر مرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو اکیلی مرو ناں۔ہم سب
کو بھی اپنے ساتھ ساتھ مارنے پر کیوں تلی ہوئی ہو۔کیوں سارے گھر میں گیس پھیلا رکھی
ہے اتنی سی بھی عقل تم میں ہے یا نہیں۔ثانیہ نے اپنی طرف سے سارے کا سارا ملبع اس پر
تھوپنا چاہا۔
مگر سجل اب اس کی تمام چالاکیاں سمجھ چکی تھی۔
سجل بولی تو کچھ بھی نہیں مگر اس کا ہاتھ خود بخوداٹھا اور
ثانیہ کے گال پر نشان چھوڑتا چلا گیا۔ثانیہ اس اچانک حملے پر ہکا بکا رہ گئی۔
مجھ پر ہاتھ کیسے اٹھایا تم نے جاہل لڑکی۔تم نے مجھ پر ہاتھ
اٹھا کر بہت بڑی غلطی کی ہے اب دیکھو تم۔
بدلے میں ثانیہ نے بھی اپنا ہاتھ اٹھایا مگر وہ ہوا میں
ہی رہ گیا۔
کیوں کہ اب سامنے روحاب کھڑا تھا۔
اس نے ثانیہ کا ہاتھ سختی سے پکڑا اور بولا۔
نہیں ثانیہ بی بی ایسی غلطی کبھی مت کرنا ورنہ بہت برا ہوگا
یہ یاد رکھنا تم۔تم کیا سمجھتی ہو کہ میں اندھا ہوں مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔
تمہاری تمام چالیں اچھے سے سمجھتا ہوں میں۔تمہارے دماغ میں
جو چل رہا ہے ناں وہ اچھے سے جانتا ہوں میں۔
میرا اور سجل کا رشتہ ختم کرنا چاہتی ہو ناں تم واپس میری
طرف پلٹنا چاہتی ہو ناں تم مگر بھول جاؤ کہ ایسا کبھی ہوگا۔میں تو تمہاری شکل تک دیکھنا
پسند نہیں کرتا۔
اس رشتے کے خاتمے سے پہلے میں تمہیں ہی ختم کر دونگا۔
روحاب نے غصے سے اس کا ہاتھ پڑے جھٹکا۔
روحاب چپ ہی ہوا تھا کہ سجل بول پڑی۔
صرف یہی نہیں روحاب انہوں نےتو میرے بچے کو مارنے کی بھی
کوشش کی آج ہی نہیں پہلے بھی۔آپ کیا سمجھتی تھیں کہ مجھے کبھی پتا نہیں چلے گا کہ آپ
کیا چاہتی ہیں۔
ارے میں کیا سب جانتے ہیں کہ آپ جیسی لڑکی کبھی اپنے علاوہ
کسی اور کی خوشی برداشت ہی نہیں کر سکتی۔
دوسروں کی خوشیاں چھیننا دوسروں کے گھر برباد کرکے جشن منانا
تو اب شائد آپ کا مقصد بن چکا ہے۔اگر آپکو اتنا ہی شوق ہے یہ سب کرنے کا تو چلی جائیں
ناں اس گھر سے کہیں اور جا کرکریں یہ سب کم از کم ہماری زندگیاں تو عذاب میں مت ڈالیں۔
میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا صرف اور صرف آپ کی وجہ سے ہوا۔
اور اب جب کہ میں نے یہ سب قبول کے لیا ہے اپنی زندگی میں
خوش ہوں تو آپ سے یہ بھی برداشت نہیں ہو رہا۔
کون ہیں آپ کیا میری ہی بہن ہیں مجھے تو یقین ہی نہیں آتا۔
آخر کیسی لڑکی ہیں جس سے اپنی ہی بہن کی مسکراہٹ تک نہیں
دیکھی جاتی۔
ارے لوگ تو کیا کچھ نہیں کرتے اپنی بہن کے چہرے پر ایک ہلکی
سی ہی مسکراہٹ لانے کے لئے۔
مگر آپ تو نجانے کن بہنوں میں سے ہیں جو مسکراہٹ لانے کی
بجاۓختم کرنے کے در پر ہے۔
خوشیاں بانٹنے کی بجاۓ
خوشیاں چھیننے کے در پر ہے۔مجھے تو شرم آرہی ہے آپ کو اپنی بہن کہتے ہوئے۔آپ پاگل ہو
چکی ہیں بلکل پاگل کیوں کہ ایسا کوئی نہیں کرتا جیسا آپ کر رہی ہیں۔
ہاں ہوگئی ہوں میں پاگل۔ثانیہ واقعی میں پاگلوں کی طرح چلائی۔
تم لوگوں نے مجھ سے میری خوشیاں چھینیں تو اب میری باری
ہے۔
ہاں جلتی ہوں میں تم سب سے کیسے اپنی زندگی میں ہنس کھیل
رہے ہو۔
کیسے مطمئن ہو اپنی زندگی سے۔
اور جو میری زندگی اجیرن بن گئی ہے اسکا تو کسی کو کوئی
خیال ہی نہیں ہے۔
آپ نے اپنی زندگی خود اجیرن کی ہے طلاق لے کر خود گھر میں
بیٹھیں۔
پہلے روحاب کے دل کے ساتھ کھیلا اور پھر زارون کے۔کتنے لوگوں
کے دل توڑے آپ نے.. ماما پاپا کو کتنی تکلیف پہنچی
ہے آپ کے اس طرح طلاق لے کر چلے آنے سے۔
مگر آپکو کیا پرواہ آپ نے تو ایک دفعہ بھی ان سے معافی نہیں
مانگی۔ایک دفعہ بھی انکے سامنے جا کر اپنی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔سجل اسے بیچ میں
ٹوک کر بولی۔
تم نے کی میری زندگی عذاب۔
میں کیوں مانگتی معافی کیوں ہوتی میں شرمندہ جب میرا کوئی
قصور کوئی غلطی ہی نہیں ہے۔تمہاری وجہ سے زارون نے مجھے طلاق دی۔تم نے معصوم بن کراسےاپنی
طرف کھینچا اس پر ڈورے ڈالے خیر کچھ کم گھٹیا تو وہ بھی نہیں۔اس کے پاس بھی تم اپنی
مرضی سے گئی تب ہی تو یہ سب۔۔۔۔۔
اوه جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔۔روحاب نے غصے کے مارے اسے ایک زور دار
تھپڑ دے مارا۔
ثانیہ کی باقی کی بات تو منہ میں ہی رہ گئی۔
ثانیہ کچھ پل تو گال پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورتی رہی مگر
پھر کسی پاگل کی طرح روحاب کو کاٹ کھانے کو دوڑی۔
گھٹیا انسان بیہودہ جاہل تو نے مجھ پر ہاتھ بھی کیسے اٹھایا
تیری اتنی مجال۔
ثانیہ نے اس کے سینے پر مکے برسانے شروع کر دیے۔روحاب نے
اسے پکڑ کر پڑے دھکیلا تو وہ جا کر لان میں پڑی کرسیوں کے ساتھ لگی۔
ایک دم ثانیہ کو نجانے کیا ہوا اس نے پلیٹ میں پڑی چھڑی
اٹھائی اور بولی.
آج میں تمہیں
نہیں چھوڑوں گی۔
سن سجل میری زندگی کا سب سے بڑا کانٹا تم ہی ہو,آج تو تجھے اکھاڑ کرپھینک ہی دونگی۔
ثانیہ چھڑی کی نوک سجل کی طرف کئے آگے بڑھی۔اس نے سجل کے
دل پر وار کرنا چاہا۔
سجل ہکا بکا کھڑی ہی رہی اور اپنی جگہ سے ہل ہی نا سکی۔
روحاب نے جلدی سے آگے بڑھ کر ثانیہ کو روکنا چاہا مگر اس
سے پہلے ہی کسی نے سختی سے ثانیہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔یہ موحد تھا۔
یہ کیا کر رہی ہیں آپ..
پاگل ہوگئی ہیں کیا۔اپنی بہن کی ہی جان کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔
موحد چھوڑ دو اسے..
میں بھی دیکھتا ہوں کہ میرے ہوتے ہوئے یہ سجل کو ہاتھ بھی کیسے لگاتی
ہے۔روحاب نے موحد کو اسے چھوڑنے کا کہا۔
نہیں بھائی یہ اس وقت اپنے بس میں بھی نہیں ہیں۔میں انکو
چھوڑنے کی حماقت نہیں کر سکتا۔
موحد کے بچے چھوڑمجھے۔
بڑے آئے اس کے ہمددرد بننے۔چھوڑ مجھے ورنہ اس سے پہلے تجھے
ختم کر دوں گی۔
اس سے پہلے کہ موحد اسے چھوڑتا یا وہ خود کو چھڑواتی کسی
نے اسے اپنی طرف کھینچا اور اس طرح مارا کہ وہ خود کو سنبھال ہی نا پائی اور زمین پر
جاگری۔
اس کے سامنے رمیز صاحب کھڑے تھے۔
انہیں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ آج وہ اسے جان سے ہی مار ڈالیں
گے۔
انہوں نے اسے بری طرح سے مارنا شروع کر دیا کسی نے بھی انہیں
روکا نہیں۔
یہاں تک کہ ثمرین نے بھی جو کہ ماں تھی اور اپنی بیٹی تو
اس طرح مارکھاتادیکھ خاموش کھڑی تھیں۔
چھوٹے پاپا کیا کررہے ہیں آپ چھوڑیں اسے۔آخر روحاب نے آکر
انہیں روکا۔
مجھے مت روکو روحاب آج تو میں اسے جان سے مار دونگا۔بہت
برداشت کر لیا اس کی حرکتوں کو۔
ہر بات پر ہر کام پر چپ رہا اس کے مگر اب یہ کسی کا قتل
کرنے کا سوچے گی اوروہ بھی اپنی بہن کا تو میں کیسے چپ بیٹھوں کیسے آخر۔
چھوڑ دو مجھے روحاب تا کہ آج میں اس کا قصہ ہی تمام کردوں۔
کاش تم پیدا ہوتے ہی مر جاتی کیوں ہمیں اتنے دکھ دکھانے
کے لئے زندہ رہ گئی۔اب کی بار ثمرین بیگم اس کے پاس آئیں اور بولیں۔
تم اندر چلو ثمرین تمہاری طبیت خراب ہو رہی ہے۔شہلا بیگم
اسے سہارا دیتی ہوئی اندر لے جانے لگیں۔
روحاب اس کو چھوڑ آؤ پاگل خانے یہ وہیں رہے تو اچھا ہے ایسے
پاگلوں کی ہمارے گھر میں کوئی گنجائش نہیں۔
چھوٹے پاپا آپ کچھ مت کہیں سنبھالیں اپنے آپ کو۔
کیوں نا کچھ بولوں اتنا کچھ ہوگیا اتنی بڑی باتیں چھپائیں
اس نے ہم سے اور تم کہہ رہے ہو کہ میں ابھی بھی چپ رہوں۔
موحد بڑے پاپا کو اندر لے جاؤ۔
روحاب نے دیکھا کہ رمیز صاحب کا غصے سے بول بول کر سانس
اکھڑ رہا تھا اس لئے موحد کو انہیں اندر لے جانے کا بولا۔
موحد انہیں لئے اندر کی طرف بڑھا۔
مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے اس جہنم میں سڑنے کا۔
میں مر جاؤں گی مگراب تم لوگوں کے ساتھ کبھی نہیں رہوں گی۔
ثانیہ چلاتی ہوئی اندر بھاگ گئی۔
جبکہ سجل اپنا سر تھامتی چکراتی ہوئی زمین پر گر گئی۔
سجل کیا ہوا تمہیں۔
روحاب کی اس پر نظر پڑی تو جلدی سے اس کی طرف بڑھ گیا۔
********************
جاری ہے
Comments
Post a Comment