Agar tum sath ho novel by Isha Gill Last Part

Agar tum sath ho novel by Isha Gill Part 3
اگر تم ساتھ ہو
از "ایشاءگل"
آخری حصہ

آج گھرمیں گہری خاموشی تھی۔
نہ ہی آج ڈنر بنا اور نہ ہی کسی نے ویسےکچھ کھانے کی زحمت کی۔
روحاب نے خود سجل کے لئے سوپ بنایا اور اسے پلانے لگا۔مگر سجل نے پینے سے منع کر دیا۔
"سجل اپنی طبیعت دیکھو اور اپنے نخرے دیکھو۔بس میں نے کہا نا تم اب چپ چاپ یہ سوپ پیو گی تو مطلب پیو گی۔"روحاب نے اسے مصنوئی غصہ دکھاتے ہوئے ڈانٹا تو وہ برا سا منہ بناتے ہوئے سوپ پینے لگی۔
اور ساتھ ہی ساتھ اپنے آنسو بھی جنہیں وہ اب بہانہ نہیں چاہتی تھی۔
***************
"تم سب لوگوں نے مجھے مجبور کر دیا ہے اتنا بے بس کر دیا ہے کہ میں اب کچھ نہیں کر سکتی۔مگراس کے باوجود بھی میں نے ایک کام تو کر دیا ہے جس کا انجام تم لوگوں کو میرے جانے کے بعد دکھائی دے گا۔اچھا نہیں کیا آج تم لوگوں نے میرے ساتھ۔"
ثانیہ چھت پر کھڑی خود ہی سے باتیں کر رہی تھی بلکہ زہر اگل رہی تھی۔
"تم سب نے مجھے میری زندگی اپنے ہی ہاتھوں ختم کرنے پر مجبورکر دیا ہے۔مگر میں اتنی آسانی سے نہیں جا رہی۔اکیلی نہیں مروں گی بلکہ تمہیں مار کرمروں گی سجل۔
میرے مرنے سے کسی کو کوئی فرق پڑے یا نہ پڑے مگر تمہارےمرنےسے تو پڑے گا نا،کتنا دکھ، کتنی تکلیف ہوگی ناں سب کو۔اور یہی تو مجھے چاہیے۔
کاش میں سب کی تکلیف دہ حالت دیکھنے کے لئے زندہ رہ جاتی مگر نہیں اب تو مرنا ہی پڑے گا مجھے بھی اور تمہیں بھی۔
اور روحاب کے بچے تم۔۔۔۔۔
میری بد دعا ہے کہ تم کبھی خوش نہ رہو، سب ترس جائیں تمہارے چہرے کی ایک مسکراہٹ دیکھنے کے لئے۔
بہتر ہے کہ تم بھی اس کے ساتھ ہی مر جاؤ کیوں کہ اس کے بعد بھی تو تمہیں پل پل مرنا ہی ہے۔
ویسے یہ تمہارا پل پل مرنا زیادہ بہتر ہے۔
جا رہی ہوں میں اپنی طرف سے تم لوگوں کو ڈھیروں خوشیاں دے کر۔۔۔۔
اور اپنا آخری مقصد پورا کر کے۔۔۔
جا رہی ہوں میں۔۔۔
ہا ہا ہا۔۔۔"
ثانیہ پاگلوں کی طرح قہقے لگانے لگی۔
اور پھر دونوں بازو پھیلائے دیوار سے نیچے چھلانگ لگا گئی۔
*****************
سجل نے ابھی دو چمچ ہی لئے تھے کہ اس کی حالت بری ہونے لگی۔
گلے پر ہاتھ رکھےوہ لمبے لمبے سانس لینے لگی۔
"سجل کیا ہوا تمہیں؟"روحاب سوپ کا پیالہ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اسےدیکھنے لگا۔
سجل اچانک اٹھی اور واش روم بھاگ گئی۔اور پھر سنک کے سامنے کھڑی ہو کر الٹیاں شروع کر دیں۔
"سجل آر یو اوکے۔۔۔؟"روحاب نے دروازہ بجا کر پوچھا مگر کوئی جواب نہ آیا۔
روحاب سے اب انتظار کرنا مشکل ہو رہا تھا اس لئے وہ اندر چلاگیا۔
جب وہ دروازہ کھول کر اندر گیا تو سجل چکرا کر گرنے ہی والی تھی۔
روحاب نے جلدی سے اسے اپنی بانہوں میں لیا اور تقریباً بھاگتا ہوا اسےگاڑی میں لے آیا اور پھر گاڑی ہوسپٹل کی طرف بڑھا دی۔
***************
"ڈاکٹر میری وائف کیسی ہے۔۔۔؟"کافی ٹائم بعد جب ڈاکٹر روم سے باہر نکلی تو روحاب بولا۔
"وہ اب ٹھیک ہیں۔"
"اسے ہوا کیا تھا ڈاکٹر۔۔۔؟"
"انھیں زہر دیا گیا تھا۔۔"
"وہاٹ زہر؟؟؟"روحاب کو تو جیسے کرنٹ لگا۔
"جی ہاں پر یہ اچھا ہوا کہ انہوں نے اسی وقت الٹیاں شروع کر دیں، ورنہ زہرکو پورے جسم میں پھیلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔
جتنا زہر موجود تھا وہ نکال دیا گیا ہے اینڈ ناؤ شی از فائن۔
چونکہ وہ پریگنینٹ ہیں اس لئے اب آپکو انکا اور بھی خیال رکھنا پڑے گا روحاب صاحب اور شکر کریں بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔"
ڈاکٹر اسے سجل کی خاص طور پر کیئر کرنے کی ہدایت دے کر واپس مڑ گئی۔
جبکہ روحاب غصے سے مٹھیاں بند کئے کھڑا تھا۔
یہ کام یقیناً ثانیہ کا تھا اور آج وہ اسے چھوڑنے نہیں والا تھا۔
اس کا بس نہیں چل رہا تھا ابھی مروڑ دے مگرسجل کی ابھی کنڈیشن نازک تھی اس لئے اسے رات ہسپتال ہی رکنا پڑا۔
****************
وہ خاموشی سے دروازہ کھولے سجل کے پاس آیا۔سجل لگاۓ گئے انجکشن کی وجہ سے گہری نیند میں تھی۔
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ کسی قسم کے دباؤ میں مبتلا ہے اس لئے سجل کے لئے ایک لمبی پر سکون نیند بہت ضروری ہے۔
اور روحاب جانتا تھا کہ سجل کی زندگی میں جو کچھ بھی ہوا اور جو کچھ آج ہوا اس کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہے۔
روحاب اس کے پاس بیٹھا اور اس کے بالوں کو سہلانے لگا۔
"میری جان مجھے معاف کر دو مجھے اگر معلوم ہوتا کہ اس سوپ میں زہر ہے تو میں کبھی بھی ضد کر کےتمہیں وہ سوپ نہ پلاتا۔
مگر آج میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ جس نے تمہیں اس حال میں پہنچایا ہے اسکو میں چھوڑوں گا نہیں۔اب میں بالکل بھول جاؤں گا کہ وہ ثانیہ تمہاری بہن ہے۔
تم بس اب جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔"
روحاب نے اس نازک سی لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور اپنے دل سے لگا لیا تا کہ اس کے دل میں جلتی آگ پر اس کے نازک ہاتھ کے احساس سے ٹھنڈک کی پھوار پڑ سکے۔
****************
صبح ہوتے ہی وہ سجل کو لئے گھر واپس لوٹا۔
اس ارادے کے ساتھ کہ آج تو وہ ثانیہ کا قتل کر کے ہی چھوڑے گا وہ اس قابل ہی نہیں کہ اسے زندہ سلامت اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا جا سکے۔
مگر وہ سجل کو لئے جب گھر میں داخل ہوا تو بے یقینی سے سامنے کا منظر دیکھ کر حیرت کا پتلا بنا وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا۔
صحن میں گھر اور محلے کے تمام لوگ موجود تھے۔سب کے آنسو روانی سے بہہ رہے تھے بلکہ پھوٹ پھوٹ کر رویا جا رہا تھا۔
اور جس کے لئے رویا جا رہا تھا وہ بے جان وجود صحن کے بیچ و بیچ پڑا تھا۔
سجل تو وہیں روحاب کے پیروں میں بیٹھی پھوڑ پھوٹ کر رونے لگی۔
"یہ تم نے کیا کیا ثانیہ۔۔۔؟آخر کیوں کیا ایسا۔۔۔۔؟"ثمرین بیگم روتے ہوئے مسلسل اس سے کلام کر رہی تھیں۔
روحاب زمین پر اس کے پاس بیٹھا اور اسے کندھوں سے تھام کر اپنے ساتھ لگا لیا مگر ایک لفظ بھی تسلی کا نہ بول سکا۔
کون جانتا تھا کہ ثانیہ نے جیسا کہا تھا وہ ویسا کر دکھائے گی۔۔۔۔۔۔
ثانیہ وہ لڑکی تھی جس نے ساری زندگی سوائےحسد کرنے کے اور کچھ سیکھا ہی نہ تھا اور حسد کرنے والے کو اسکی اس بیماری سے نجات صرف اور صرف ایک موت ہی دلا سکتی ہے۔جو کہ آج اسکو مل گئی تھی۔
حسد کرنا بھی اس کا اپنا ہی انتخاب تھا اور موت بھی۔
اور اس کے یہ دونوں انتخاب ہی غلط تھے کیوں کہ اس کے دونوں انتخاب سب کے لئے دکھ کا باعث ہی بنے۔
******************
آج اس گھر میں ایک ننھا سا مہمان آیا تھا اوہ سوری بلکہ آئی تھی۔
ایک ننھی سی پری۔
سب اس ننھی پڑی کے گرد جمع تھے۔
کبھی کوئی اسے اپنی بانہوں میں لے رہا تھا تو کبھی کوئی۔
کیوں کہ وہ تھی ہی اتنی پیاری کہ جو بھی اسے اپنی بانہوں میں لیتا اس سے نظریں ہٹانا ہی بھول جاتا۔آخر میں باری معارج کی آئی تو روحاب نے جلدی سے اسے معارج سے لے لیا۔
"ارے بھائی کیا کر رہے ہیں ابھی تو پکڑا ہے میں نے، اب کچھ دیر تو اسے میرے پاس رہنے دیں۔"
"پورے ایک منٹ پکڑا ہے تم نے اسے اور مجھے دیکھو جس نے اپنی پری کو غور سے دیکھا بھی نہیں۔مجھے بھی تو دیکھنے دو اپنی پرنسز کو۔"روحاب نے اسے جی بھر کر دیکھا اور پھر سجل کو تھما دیا۔
سجل جو کب سے اس انتظار میں تھی اسکو لئے بیڈ سے اتری اور اس ننھی منی گڑیا کو سامنے بیٹھی ابیہا کی جھولی میں ڈال دیا۔
ابیہا حیران ہو کرسجل کو دیکھنے لگی۔
ابیہا ہی کیا باقی سب بھی حیران ہوگئے۔
"ایسے حیران مت ہوں آپی میں تو کب سے اس انتظار میں تھی۔سوچتی ہی رہتی تھی کہ کب یہ دن آئے اور کب میں اسے آپ کے حوالے کروں۔اور یہ میری نہیں زارون کی خواہش تھی۔
جانتی ہیں جانے سے ایک دن پہلے وہ میرے پاس آئے تھے۔اور ہاتھ جوڑ کر التجا کی تھی کہ میں انکی اولاد کو آپ کے حوالے کروں۔میں نے تو انکو اسی دن معاف کر دیا تھا۔
جانتی ہیں انہوں نے کیا کہا تھا کہ اللّه تو بندے کی بڑی سے بڑی خطا کو بڑے سے بڑے گناہ کو معاف کر دیتا ہے جب وہ اپنے رب سے گڑگڑا کر معافی مانگے۔انہوں نے جو بھی کیا جیسا بھی سہی مگر میں انکے جڑے ہوئے ہاتھوں انکی التجاؤں کے سامنے اپنے دل کو اور سخت نہ کر سکی۔
لوگوں کے تو پتھر دل بھی پگھل جاتے ہیں آپی مگر میں نے تو اپنے دل تو کبھی پتھر بنایا ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ خدا انکو نا پسند کرتا ہے جو کسی کا دل توڑتے ہیں اور انکو پسند کرتا ہے جو دل جوڑتے ہیں کسی کو معاف کردیتے ہیں چاہے معافی مانگنے والا کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو۔۔۔
تو بس میں نے بھی انھیں معاف کر دیا مگر مجھے افسوس ہے میں انکے سامنے یہ نا کہہ سکی کہ میں نے آپکو معاف کر دیا۔
میں نے تو انکو معاف کر دیا ہے مگر ہو سکے تو آپ سب بھی انھیں معاف کر دیجئے گا میری خاطر ہی سہی۔"
سجل نے دیکھا سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے اس لئے جلدی سے بات بدل گئی۔
"خیر میں یہ کہہ رہی تھی کہ آپی یہ گڑیا اب آپکی ہے اور اس کا نام بھی آپ ہی تجویز کریں گی۔اب جلدی سے بتائیں کیا نام رکھیں گی اسکا؟"
ابیہا مسکراتی ہوئی اس ننھی سی جان کو چومنے لگی اور بولی۔
"ثانیہ"
اس کمرے کے تمام افراد جو اس کی مسکراہٹ پر مسکرائے تھے مگر ثانیہ کے نام پر ان کی مسکراہٹ کہیں غائب ہوگئی۔
"میں جانتی ہوں کہ آپ سب یہ نام سن کر ضرور حیران ہونگے۔
مگر میں اس کا نام ثانیہ رکھ کر آپکو وہ ثانیہ دکھانا چاہتی ہوں جو زندگی کے ہر لمحے کو خود بھی جیتی ہے اور دوسروں کو بھی جینے دیتی ہے۔
میں آپکو وہ ثانیہ دکھانا چاہتی ہوں جسے دیکھ کر حسین زندگی کا گمان ہو۔جسے دیکھ کر لوگوں کی بے جان زندگی میں جینے کی امنگ پیدا ہو نا کہ مرنے کی تمنا۔

میں یہ ثانیہ دکھا کر آپ لوگوں کی زندگی سے وہ ساری تلخیاں، دکھ، تکلیفیں مٹانا چاہتی ہوں جو اس نام سے آپ سب کے چہروں پر ظاہر ہوتی ہیں۔
میں سب کے سامنے ایک نئی ثانیہ لانا چاہتی ہوں۔۔۔
آپ سب ہی بتائیں کیا میں یہ نام رکھ کر ٹھیک کر رہی ہوں۔۔؟"
ابیہا نے آخر میں پوچھا کہ شائد اس کے اس نام سے کوئی مطمئن نہ ہو۔مگر بڑے ابا نے آکر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور بولے۔
" ہمیشہ خوش رہو بیٹا۔"
سجل جو ابیہا کے پاس کھڑی تھی روحاب کے پاس آئی اور بولی۔
"روحاب میں نے ٹھیک کیا ناں؟"
"تم نے جو بھی کیا ٹھیک کیا میں تمہارے اس فیصلے سے بہت خوش ہوں سجل۔ایم سو ہیپی میری جان۔"روحاب نے مسکراتے ہوئے اس کو اپنے ساتھ لگا لیا اور اس کے ماتھے پر پیار بھرا بوسہ دیا۔
*****************
ایک سال گزر چکا تھا انعم کے پڑھائی سے فارغ ہوتے ہی موحد نے اسے گھیر لیا۔
"بہت ہوگیا انو کی بچی بہت کر لیں تم نے پڑھائیاں۔آج ہی جا رہا ہوں میں ماما کے پاس۔تیاری کر لو اپنا کمرہ چھوڑ کر میرے کمرے میں شفٹ ہونے کی۔"
موحد نے شہلا سے اس بارے میں بات کی تو وہ جو پہلے ہی اس انتظار میں بیٹھی تھیں باقی سب سے بات کر کے شادی کی ڈیٹ فکس کر دی۔
تیاریاں تو پہلے ہی مکمل تھیں۔
ان دونوں کے ساتھ ساتھ روحاب کو دولہا اور سجل کو بھی دلہن بنا دیا گیا۔
*****************
روحاب سجاوٹ سے بھرپور کمرے میں داخل ہوا۔سجی سنوری سجل کے پاس آیا۔
وہ اپنا سرخ اور گولڈن لہنگا پورے بیڈ پر پھیلائے بیڈ کے بیچ و بیچ بیٹھی تھی۔
"تمہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے آج کے دن خاص طور پر میرے لئے آسمان سے کوئی حور اتار دی گئی ہے۔بہت ہی حسین لگ رہی ہو میری جان تمہارے حسن کی تعریف میں میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں ہیں کہ جن میں تم کیا ہو یہ میں بتا سکوں۔
جانتی ہو کتنا ارمان تھا مجھے تمہیں دلہن کے جوڑے میں سجا سنورا دیکھنے کا۔
ویسے یہ معارج بھی ناں پورا آدھا گھنٹہ لگا کر مجھے اندر بھیجا ہے اس نے۔تم ہی سفارش کر دیتی میری کیا ہوتا اگر جلدی اندر آ جاتا تو۔۔۔۔"
"میں کون سا کہیں بھاگی جا رہی تھی ابھی بھی تو یہیں۔۔۔۔۔"سجل نے بولتے بولتے اپنی زبان کو بریک لگائی۔
"اف سجل تم بھی پاگل ہو بھولو مت تم اس وقت دلہن ہو اس لئے بس چپ رہو اور شرماؤ۔"سجل نے دل ہی دل میں خود کو ڈپٹا۔
جبکہ روحاب اس کی ادھوری بات پر ہنسنے لگا۔
"تم نہیں بدل سکتی سجل لگتا ہے کہ تم ہمیشہ ایسے ہی رہو گی۔
اور اگر سچ بتاؤں تو میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تم ہمیشہ ایسی ہی رہو۔تھوڑی کم عقل۔۔۔تھوڑی چلبلی۔۔۔اور لڑتی جھگڑتی۔
تمہاری انہی نوک جونک اور باتوں سے مجھے ہمارے رشتے ہی خوبصورتی کا احساس ہوتا ہے۔
تم نے تو میرے اندر سے اس اکڑو خان کو نکال ہی دیا ہے جو کبھی ہوا کرتا تھا۔
لگتا ہے تمہارا ہی عکس پڑا ہے جو میں بھی کچھ کچھ خوش مزاج بن ہی گیا ہوں ورنہ تم اکیلی ہی نہیں تھی جو مجھے اکڑو خان کہتی تھی۔
ویسے بیگم صاحبہ آج میں بہت بہت بہت زیادہ خوش ہوں اتنا کہ۔۔۔۔۔
کیا ہوا میں یہاں اپنی خوشی ظاہر کر رہا ہوں اور تم ہو کہ عجیب عجیب منہ بنا رہی ہو۔"
"وہ آپکو تو پتا ہے روحاب میں نے نا ہی کبھی اتنا ہیوی میک اپ کیا ہے اور نہ ہی ایسا ڈریس اور جیولری پہنی ہے۔
میرا تو دم گھٹ رہا ہے میں یہ سب اتارنے جا رہی ہوں۔"سجل نے یہ کہتے ہوئے بیڈ سے اترنا چاہا۔
"ارے خبردار جو تم نے بیڈ سے ایک قدم بھی نیچے اتارا تو۔"روحاب اتنی اونچی بولا کہ سجل تو کانپ ہی گئی۔۔۔۔
"ابھی تو میں نے تمہیں جی بھر کر دیکھا بھی نہیں۔آج کے دن میرے لئے کم از کم تھوڑی دیر ہی پلیز ایسے ہی رہو۔اتنی پیاری لگ رہی ہو اب جی بھر کر دیکھنا تو بننا ہی ہے میرا۔"روحاب نے اسکا سفید نازک و ملائم ہاتھ تھاما جو اس کے نام کی مہندی سے بھرا ہوا تھا اور اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔
اور پھر ٹکٹکی باندھے اسے جی بھر کر دیکھے گیا۔جبکہ سجل شرم کے مارے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا گئی۔
سنو اے ہم سفر میری
مجھے تم سے یہ کہنا ہے
مجھے تم سے محبت تھی
مجھے تم سے محبت ہے
میرے دن رات میں تم ہو
میری ہر بات میں تم ہو
خوشی کے جتنے موسم بھی
تمہارے ساتھ دیکھے ہیں
میرے جیون کا حاصل ہیں
تمہارے نام کے جگنو،
تمہارے لمس کی خوشبو،
تمہارے پیار کا جادو
میری رگ رگ میں شامل ہیں
میں اپنی ذات کے چاہے کسی موسم میں رہتا ہوں
ہر اک موسم تمہارا ہے
تمہارا ساتھ پیارا ہے
میرے ہر پل میں رہتی ہو
جو میرا دل ہے پاگل سا
اسی پاگل میں رہتی ہو
سنو! تم سے یہ کہنا ہے
کہ تم میری محبت سے کبھی مت بدگماں ہونا
کہ میری زندگانی کے سبھی رستے جو سچ پوچھو
تمہاری سمت آتے ہیں
میں تم سے دور رہ پاؤں یہ اب ممکن نہیں جاناں
سنو! عہد محبت کی مجھے تجدید کرنی ہے
پرانی بات ہے لیکن مجھے پھر بھی یہ کہنی ہے
مجھے تم سے محبت تھی، مجھے تم سے محبت ہے
ہر اک موسم تمہارا ہے
تمہارا ساتھ پیار ہے
سنو اے ہمسفر میری !!!
روحاب نے اپنی جیب سے ایک نازک سی گولڈ کی بریسلیٹ نکالی اور سجل کا ہاتھ تھام کر اس کی کلائی میں سجا دی۔
"ہے تو یہ ایک نازک سی بریسلیٹ لیکن لایا میں بہت پیار سے ہوں کیوں کہ تم پر نازک چیزیں زیادہ اچھی لگتی ہیں۔"
"بہت پیاری ہے یہ روحاب تھینک یو سو مچ۔"
"ایسے تو میں تھینک یو نہیں لوں گا اس کے لئے تمہیں پہلے تجھے کچھ بولنا پڑے گا۔"
"کیا بولنا پڑے گا؟"سجل نے پوچھا۔
"وہی جو تم اکثر مجھے میری پیٹھ پیچھے کہتی ہو۔"ہونہہ اکڑو خان کہیں کے"روحاب نے سجل کی نقل اتاری۔
"ارے آپ سن لیتے تھے؟"سجل حیران ہوئی۔
"ہاں بالکل چلو اب جلدی سے ویسے ہی غصے سے بولو۔"روحاب نے لہجے میں شرارت سموئے کہا۔
"جی نہیں میں نہیں کہنے والی۔"
"لیکن کیوں؟؟"
"کیونکہ اب آپ اکڑو خان نہیں ہیں ناں۔"
"اچھا تو پھر کیا ہوں اب بتانا ذرا۔"
"اب تو آپ میرے۔۔۔۔"
"سجل کیا میرے۔۔۔۔۔اف جلدی بولو بھی۔۔۔۔"
"اب تو آپ میرے مجازی خدا ہیں۔اس لئے اب آپکی پیٹھ پیچھے تو کیا میں آپ کے سامنے بھی کچھ نہیں کہوں گی۔"
"ارے واہ تم تو بہت سمجھدار ہو گئی ہو۔ماشاللہ نظر نہ لگے کسی کی۔"روحاب نے ثمرین بیگم کی طرح کہا۔
وہ سجل کی نظر اتارتے ہوئے اکثر ایسا ہی کہتی تھیں۔
جبکہ سجل روحاب کے اس انداز پر ہنسنے لگی۔
روحاب آدھی ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹکائے لیٹ گیا اور ہنستی ہوئی سجل کے لئے دل میں دعا کرنے لگا کہ اسکی خوشیوں کو واقعی میں کسی کی نظر نا لگے۔
*********************

"ارے ارے کدھر ایسے کیسے چل دیے اندر۔۔۔پتا بھی ہے روحاب بھائی کو پورا آدھا گھنٹہ لگا کر اندر بھجوایا ہے۔لیکن اگر تم دس ہزار نکالتے ہو تو میں فوراً پیچھے ہٹ جاتی ہوں۔"معارج آدھ کھلے دروازے کے بیچ و بیچ پھیل کر کھڑی تھی۔
اس نے ہاتھ پھیلا کر موحد کو پیسے اس کے ہاتھ پر رکھنے کا کہا۔
مگر موحد اس سے بھی زیادہ چالاک تھا۔
کچھ سوچتے ہوئے اس نے پیسے جیب سے نکالے اور گننے لگا۔اور پھر سائیڈ پر دیکھ کر بولا۔
" جی سلمان بھائی آپ کدھر گھوم رہے ہیں آپکی وائف تو یہ رہیں۔"
معارج نے اپنے ہسبنڈ کا نام سنا تو تھوڑا سا باہر نکل کر اس طرف دیکھنے لگی جہاں موحد سلمان کو آواز دے رہا تھا۔
وہ تھوڑا سا باہر کیا نکلی موحد نے اسے سارے کا سارا باہر نکال دیا اور بولا۔
"ایسے اتنی دقتوں سے جو باہر دیکھ رہی ہو ایسا کرو نیچے صوفے پر بیٹھے ہیں پاس بیٹھ کر غور سے دیکھ لو۔"
اور پھر اندر گھس کے زور سے دروازہ بند کر گیا۔
"موحد کنجوس کہیں کے تمہیں تو میں دیکھ لوں گی۔"معارج پاؤں پٹکتی ہوئی وہاں سے نکل لی۔
موحد دروازہ بند کر کے واپس مڑا تو سامنے سے آتی انعم سے ٹکرہو گئی۔
اتنی لمبی ہیل پہننے کی وجہ سے انعم خود کو سنبھال نہ پائی اور سیدھا موحد کی بانہوں میں آگئی۔
"ارے واہ آتے ہی اتنی مہربانی۔لگتا ہے یہ ٹہل ٹہل کر میرا ہی انتظار کیا جا رہا تھا۔" موحد خوش ہوتے ہوئے بولا۔
"نہیں وہ تو میں آپ کی اور معارج آپی کی آواز سن کر آئی تھی یہی دیکھنے کہ معارج آپی کیا کہہ رہی ہیں۔"
"مجھے اندر آنے سے روک رہی تھی کہہ رہی تھی کہ پہلے دس ہزار نکالو۔اب مجھے میرے ہی کمرے میں آنے کے لئے دس ہزار کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔حد ہوگئی یعنی۔"
"اچھا تو کیا دے دیے آپ نے؟"انعم نے پوچھا۔
"ایسے کیسے دے دیتا جانتا ہوں اس نے روحاب بھائی سے دس ہزار لینے کے باوجود بھی آدھا گھنٹہ لگا کر انہیں اندر جانے دیا۔اور سیدھی سی بات ہے مجھ سے اتنا لمبا انتظار نہیں ہوتا اس لئے بھگا دیا اسے۔
خیر چھوڑو معارج کو میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ آج تو تم دل میں اتر جانے کی حد تک پیاری لگ رہی ہو۔"
انعم بھی ریڈ اور گولڈن لہنگا پہنے ہوئے تھی۔
سجل اور انعم دونوں کے لہنگے ایک جیسے بنوائے گئے تھے۔
"آپ بھی بہت پیارے لگ رہے ہیں۔"بدلے میں انعم نے بھی اس کی تعریف کی۔
"اہم شکریہ جناب۔اب تم ادھر بیڈ پر بیٹھو کہ آج ساری باتیں کھڑے کھڑے ہی کر لینی ہیں۔"
انعم خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
"انو تم جانتی ہو ناں ثانیہ آپی کی وجہ سے جو کچھ بھی ہوا وہ ابھی تک سب کی ذہن میں تازہ ہے۔ابھی بھی گزرا ہوا وقت سب کو تکلف دیتا ہے۔انکی یاد سے سب کو سکون کم تکلف زیادہ ہوتی ہے۔آج میں بھی تم سے ایک وعدہ کرتا ہوں اور تم بھی کرو گی کہ ہم دونوں مل کر اس گھر کو جنت کا گہوارہ بنائیں گے۔
سب کو اتنی خوشیاں دیں گے کہ سب وہ کچھ بھول جائیں گے جو پیچھےگزر چکا ہے۔
اپنی اس نئی زندگی کو حسین اور پر سکون بناۓ گے۔بولو کرتی ہو وعدہ؟"
تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو
میں یونہی مست نغمے لٹاتا رہوں
تم مجھے دیکھ کر مسکراتی رہو
میں تمہیں دیکھ کر گیت گاتا رہوں
کتنے جلوے فضاؤں میں بکھرے مگر
میں نے اب تک کسی کو پکارا نہیں
تم کو دیکھا تو نظریں یہ کہنے لگیں
ہم کو چہرے سے ہٹنا گوارا نہیں
تم اگر میری نظروں کے آگے رہو
میں ہر اک شئے سے نظریں چراتا رہوں
تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو ۔۔۔
میں نے خوابوں میں برسوں تراشہ جسے
تم وہی سنگ مرمر کی تصویر ہو
تم نہ سمجھو تمہارا مقدر ہوں میں
میں سمجھتا ہوں تم مری تقدیر ہو
تم اگر مجھ کو اپنا سمجھنے لگو
میں بہاروں کی محفل سجاتا رہوں
تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو
موحد نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا تو انعم نے سر ہلاتے ہوئے ہاں میں جواب دیا اور ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
موحد نے اسکا ملائم و نازک ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔
"آج میں بہت خوش ہوں کہ میں نے جس لڑکی کو دل و جان سے چاہا اسے پا لیا۔
میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں ہر وہ خوشی دوں گا جس کی تم تمنا رکھتی ہو۔ہمیشہ تمہارا ساتھ دوں گا۔
کبھی بھی زندگی کے کسی بھی موڑ پر خود کو اکیلی محسوس مت کرنا کیوں کہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہونگا انو۔"
"جی موحد۔۔۔"انعم بس اتنا ہی بول سکی۔
آنکھوں میں خوشی کے آنسو لئے اس نے موحد کے کندھے سے سر ٹکا دیا۔
موحد نے اپنی جیب سے سرخ رنگ کی ایک ڈبیہ نکالی۔جس میں ان دونوں کے نام کی گولڈ کی انگوٹھی تھی۔
موحد نے وہ انگوٹھی اس کے ہاتھ کی تیسری انگلی میں سجا دی۔
"جس طرح اس انگوٹھی پر ہم دونوں کا نام ایک ساتھ ہے اس طرح آج سے ہم دونوں بھی ایک ساتھ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
تم بھی تو کچھ بولو انو۔"
"میں بس یہ کہوں گی کہ میں اب یہ انگوٹھی اپنی انگلی سے کبھی نہیں اتاروں گی کیوں کہ یہ آپکے پیار کی پہلی نشانی ہے اور اسے میں خود سے اب کبھی جدا نہیں کروں گی۔۔۔"

انعم کے ان الفاظ نے موحد کے دل تک ٹھنڈک پہنچا دی۔
"اور کچھ نہیں بولو گی؟"
"اور یہ کہ آپ بہت اچھے ہیں۔"انعم نے شرماتے ہوئے کہا اور موحد کے سینے میں منہ چھپا گئی۔
موحد کو انعم کے اس طرح کرنے پر بے حد پیار آیا۔بدلے میں اس نے بھی انعم کے گرد بہت پیار سے بازو حائل کر دیے۔
******************
موحد اور انعم نیچے آئے تو صحن کے بیچ و بیچ بیٹھی کوئی لڑکی زور زور سے رو رہی تھی۔
غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا وہ تو حسینہ تھی۔
"ارے حسینہ تمہیں کیا ہوا ایسے کیوں رو رہی ہو؟"
موحد کے پوچھنے کی دیر تھی بس پھر کیا تھا حسینہ ہو گئی شروع۔
"آپ ہیں میرے رونے کی وجہ موحد جی۔آپ نے دھوکہ دیا ہے مجھے بے وفائی کی ہے میرے ساتھ۔وعدہ کیا تھا آپ نے مجھ سے کہ آپ مجھے چاند پر لے کر جائیں گے۔میرے لئے نیلے رنگ کے شاپر میں تارے توڑ کر لائیں گے۔مجھے پرستان کی ملکہ بنا کر رکھیں گے۔سارے وعدے جھوٹے تھے آپ کے۔"حسینہ کے دل کے ٹوٹے ٹوٹے ہو چکے تھے۔
اس کے دل ٹوٹنے کی آواز موحد کے کانوں تک پہنچی تو اس نے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے۔
مگر پھر غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ تو گرینڈر مشین کی آواز ہے۔
موحد اپنے دماغ پر زور دیتے ہوئے سوچنے لگا کہ اس نے ایسے حسین وعدے آخر کئے کب تھے۔
انعم دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے پوچھ رہی ہو کہ

"یہ سب کیا ہے جناب"
جبکہ موحد ادھر ادھر دیکھتا بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔۔۔
اور پھر سامنے دیکھتا ہوا پیچھے قدم اٹھانے لگا کہ جلد از جلد باہر کے دروازے تک پہنچ جاۓ۔
مگر تب ہی پیچھے سے آتی سجل سے اس کی ٹکر ہوئی۔
سجل کے ہاتھ میں پکڑا شیشے کا گلاس فرش پر جا گرا۔
"اف موحد کیا مصیبت آن پڑی ہے الٹے پاؤں کیوں چل رہے ہو؟"
سجل کے پوچھنے پر موحد نے سامنے کھڑی مصیبت یعنی حسینہ عرف "نرا ہاسا" کی طرف اشارہ کیا۔
"ارے موحد جی اب آپ کہاں جا رہے ہیں میرے سوالوں کا جواب تو دیتے جائیں۔"حسینہ اس کی طرف بڑھی۔
جبکہ موحد حسینہ نامی بلا کو اپنی طرف آتا دیکھ فرش پر پڑے کانچ کے ٹکڑوں پر سے جمپ لگاتا ہوا باہر کی طرف بھاگ گیا۔
لاؤنج میں بیٹھے تمام افرادکے قہقے چھوٹ گئے۔
سب جان چکے تھے کہ حسینہ اب مرتے دم تک موحد کا پیچھا نہیں چھوڑنے والی تھی۔
***************
آٹھ سال گزر چکے تھے۔
روحاب اور سجل کی ایک بیٹی روشانے جبکہ موحد اور انعم کا ایک بیٹا صالح تھا۔
دونوں سات سال کے تھے۔
ایک دوسرے سے بہت لڑتے جھگڑتے تھے مگر پھر دو منٹ بعد ہی ایسے ہو جاتے جیسے کبھی لڑے ہی نہ تھے۔
آٹھ سالہ ثانیہ جب ان کے ساتھ ہوتی تو وہ کھیل میں اسے اپنا پارٹنر بنانے کے لئے لڑتے۔
مگر ثانیہ بڑے آرام اور پیار سے ان دونوں کی لڑائی ختم کروا دیتی اور ایسا کھیل شروع کر دیتی جس میں کسی قسم کے پارٹنر کی کوئی گنجائش ہی نہ ہوتی تا کہ جھگڑا شروع ہی نہ ہو۔
ثانیہ ہوبہو ابیہا کا پیکر تھی۔
بالکل ویسی ہی نرم طبعیت۔
ابیہا نے شروع سے ہی اسے دعائیں اور کلمات سکھانا شروع کر دیے تھے۔
اس لئے اس کا زیادہ تر رحجان دینی تعلم کی طرف تھا نا کہ اپنے ہم عمر بچوں کی طرح کھیلوں پر۔
وہ پانچوں وقت کی نماز ادا کرتی۔
اور پھر اس کے بعد ابیہا کے ساتھ بیٹھ کر قرآن مجید کا سبق دہراتی جو کہ روز اسے ابیہا پڑھاتی تھی۔
ثمرین اور رمیز کے ساتھ ساتھ باقی سب کے دل میں بھی ثانیہ کو دیکھ کر ٹھنڈک سی پر جاتی۔
*****************
سجل اور روحاب ہر سال کراچی آتے تھے اور وہاں کے یتیم خانے میں یتیم بچوں کے لئے کپڑے جوتے اور ضرورت کی دوسری چیزیں بانٹتے تھے۔
یہ تمام چیزیں وہ روشانے کے ہاتھوں ان بچوں کو دیا کرتے۔
یتیم خانے سے ہوتے ہوئے وہ کراچی کر دربار میں آئے۔وہ ڈبہ پیکنگ جو انہوں نے خاص طور پر ریسٹورنٹ سے کروائی تھی بانٹنے لگے۔
"ماما میں ان انکل کو بھی کھانا دوں ناں یہ ایک شاپر دیں مجھے۔"
"کن انکل کو بیٹا سب کو دے تو دیا ہے۔"
سجل نے لائن میں کھڑے تمام لوگوں کو دیکھا جن کے ہاتھوں میں روشانے ایک ایک ڈبہ پکڑا چکی تھی کوئی بھی خالی ہاتھ نا تھا۔
"نہیں ماما وہ والے انکل رہ گئے ہیں۔"
روشانے نے اس انکل کی طرف اشارہ کیا جو ان سب سے قدرے دور ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگاۓ بیٹھا تھا۔
سجل نے اس طرف دیکھا جس طرف روشانے انگلی سے اشارہ کر رہی تھی تو اس طرف نظر پڑتے ہی اس کے ہاتھ میں پکڑے شاپر زمین پر جا گرے۔
"ماما کیا کر رہی ہیں آپ، بابا دیکھیں ناں ماما نے سارے شاپر نیچے گرا دیے۔"
"ارے سجل کیا کرتی ہو اگر شاپر پکڑے نہیں جا رہے تھے تو بھلا مجھے پکڑا دیتی۔"
"سجل کدھر گم ہو گئی تم۔۔۔۔؟"
"روحاب وہ زارون۔۔۔۔"
"سجل یہ تمہیں آج زارون کہاں سے یاد۔۔۔۔"
روحاب نے سجل کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے سائیڈ پر دیکھا تو اسے بھی چپ لگ گئی۔
وہ یقیناً زارون ہی تھا۔
"یہ تو زارون ہے مگر یہ یہاں کیسے اور وہ بھی اس حال میں؟"
روحاب ایک منٹ کی بھی دیر لگاۓ بغیر اس تک پہنچا سجل بھی اس کے پیچھے بھاگی۔
"زارون آپ یہاں اس حال میں کیسے۔۔۔؟"سجل نے اس سے پوچھا۔اس پر اس نے سر اٹھا کر ایسے دیکھا جیسے شائد اسی کا ہی نام لیا گیا ہو۔سجل نے اس کی طرف دیکھا پھٹے ہوئے کپڑے بغیر جوتے کے پاؤں جسم پر جگہ جگہ چوٹوں کے نشان رنگ کالا سیاہ دھول مٹی سے بھرے ہوئے  بکھرے بال۔۔۔وہ کہیں سے بھی زارون نہیں لگ رہا تھا۔
مگر وہ دونوں اسے دور سے بھی پہنچان سکتے تھے۔سجل کو زارون کی وہ تحریر یاد آگئی۔
"میں واپس نہیں گیا سجل میں یہیں ہوں مگر جہاں بھی ہوں تم سب سے بہت دور ہوں"
"زارون جواب دو تم کہاں رہتے ہو تم تو واپس چلے گئے گئے تھے ناں؟"اب کی بار روحاب نے پوچھا۔
"ارے صاحب اس پاگل سے کیا پوچھتے ہیں یہ تو پچھلے پانچ سالوں سے یہیں ہے۔
پاگل ہے یہ بچے اسے پتھر مارتے ہیں اور یہ چپ چاپ کھاتا رہتا ہے۔میں نے تو آج تک اسے بولتے نہیں دیکھا، لگتا ہے گونگا ہے بس ہاتھ جوڑ کر معافی ہی مانگتا رہتا ہے۔
لگتا ہے کسی کی بددعا لگی ہے اس بے چارےکو، بڑے ہی برے حال میں ہے، ایسے ہی پڑا رہتا ہے ہر وقت۔"
ایک آدمی انہیں بتا کر زارون کو چاول والا شاپر پکڑا کرآگے بڑھ گیا۔
زارون نے جلدی سے شاپر کھولا اور چاول کھانے لگا۔سجل کے کانوں میں اس آدمی کے الفاظ گھونجنے لگے
"بس ہاتھ جوڑ کرمعافی ہی مانگتا رہتا ہے"
سجل کو اس کے حال پر رونا آگیا۔
روحاب کا حال بھی اس سے کچھ کم نہ تھا۔وہ زارون کے پاس زمین پر بیٹھ گیا اور بولا۔
"زارون ادھر دیکھو میری طرف میں روحاب اور یہ سجل پہنچانا ہمیں۔"
زارون نے ان دونوں کی طرف دیکھا اور پھر کھانے کا شاپر دوسری طرف کر کے خود بھی اس طرف منہ کر لیا ایسے جیسے وہ اس سے اس کا کھانا چھین لیں گے۔
"زارون ہمارے ساتھ چلو گے ہمارے گھر اور تمہارے اپنے گھر۔تمہیں پتا ہے سب نے تمہیں معاف کر دیا ہے کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔"
روحاب دوبارہ اس سے مخاطب ہوا۔مگر اس بار وہ کھانے کا شاپر وہیں پھینکے وہاں سے اٹھ گیا۔
"زارون رکو، کہاں جا رہے ہو؟"
مگر زارون ان کی ایک نہ سنتا وہاں سے غائب ہو گیا۔
*****************
"روحاب میں نے انہیں کبھی کوئی بددعا نہیں دی۔قسم سے میں نے تو اس بارے میں کبھی سوچا تک نہیں۔ میں نے تو انہیں تب ہی معاف کر دیا تھا جب وہ معافی مانگنے آئے تھے۔"سجل نے روتے ہوئے روحاب کو یقین دلانا چاہا۔
"ہاں سجل مجھے پتا ہے تم روؤنہیں چپ کر جاؤ۔"
"میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی ان کو اس حال میں دیکھوں گی وہ تو ہمیں پہنچان تک نہیں رہے۔"
"سجل تم پلیز چپ کر جاؤ مجھے تو خود کچھ سمجھ نہیں آرہی۔اب یہاں سے چلو اور روشانے بیٹا مجھے اپنا ہاتھ پکڑاؤ۔"
روشانے نے روحاب کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ساتھ چل پڑی۔
***************
"کیا ہوا سجل کیا سوچ رہی ہو؟"روحاب شرٹ کے بٹن بند کرتا بیڈ پر کچھ سوچتی سجل کے پاس آبیٹھا۔
"میں زارون اور ثانی آپی کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔"
"اچھا کیا سوچ رہی ہو ان کے بارے میں؟"
"میں سوچ رہی ہوں کہ آج ثانی آپی ہمارے ساتھ ہوتیں تو شائد وہ بدل چکی ہوتیں ہمارے ساتھ خوش ہوتیں۔کاش وہ ایسا نہ کرتیں۔ثانی آپی نے تو اس زندگی کی تلخیوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے موت کو گلے لگا لیا۔
مگر زارون اب جس حال میں ہیں وہ اس حال سے نجات حاصل کرنے کے لئے تو موت کو بھی گلے نہیں لگائیں گے۔
کیا وہ ساری زندگی اسی حال میں رہیں گے۔انہیں تو کچھ بھی یاد نہیں، پھوپھو، ابیہا آپی،  رومان انکل کوئی بھی تو یاد نہیں۔
مجھے تو ان کے بارے میں سوچ سوچ کر ہی نجانے کیا ہو رہا ہے۔
وہ تو ہمارے ساتھ آنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔کاش وہ ہمارے ساتھ آجاتے تو پھپھو کتنی خوش ہوتیں انہیں دیکھ کر۔"
"سجل ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا پھپھو انہیں دیکھ کر وقتی طور پر تو خوش ہو جاتیں مگر پھر ساری زندگی اسے اس حال میں دیکھ دیکھ کر تکلیف میں رہتیں صرف پھپھو ہی نہیں بلکہ ہم سب بھی۔
پھپھو نے پہلے کم تکلیفیں جھیلی ہیں جو انہیں ایک اور تکلیف دکھا دی جاتی۔پھپھو کے لئے زارون کے اس حال سے انجان رہنا ہی بہتر ہے۔
وہ ہمارے ساتھ نہیں آیا ایک طرح سے یہ اچھا ہی ہوا۔اور رہی بات ثانیہ کی تو دیکھو سجل ثانیہ نے جو کچھ بھی کیا اسے بدلے میں وہی سب ملا۔اس نے اپنی زندگی خود ختم کی موت کو گلے اس نے خود لگایا۔اگر وہ ہمارے ساتھ رہتی تو شائد ہماری زندگی اتنی مطمئن نہ ہوتی۔
اور تم بھی جانتی ہو کہ اس نے اپنی زندگی اسی شرط پر ختم کی کیوں کہ اس سے پہلے وہ تمہاری زندگی ختم کرنے کی پلاننگ کر چکی تھی۔
تم نے سنا ہی ہوگا کہ مرنے والوں کے ساتھ تو صبرآجاتا ہے مگر زندہ لوگوں کے ساتھ نہیں۔
پھپھو زارون کو اس حالت میں دیکھتی رہیں گی تو انہیں کبھی صبر نہیں آئے گا۔اس لئے پلیز تم ان سے زارون کا ذکر کبھی مت کرنا انہیں بہت دکھ ہوگا۔اور تم فکر مت کرنا میں نے زارون کے لئے ہر مہینے ضروری چیزیں بھجوانے کا ذمہ لگوا دیا ہے۔کم از کم اس کا ظاہری حال تو بہتر ہو۔اور ہاں میں خود بھی وہاں جاتا رہوں گا۔تم اب زیادہ سوچو مت اور آرام کرو۔میں ذرا روشانے کو لے کر آیا اس نے بھی عادت ڈال لی ہے رات دیر تک جاگنے کی، کھیل رہی ہو گی صالح کے ساتھ، میں لے کر آیا ابھی۔"
روحاب نیچے چلا گیا جبکہ سجل آنکھیں موند کر لیٹ گئی۔
**************
"ارے بچو بس بھی کر دو پورے گھر میں ادھم مچا رکھی ہے۔لاؤنج کا برا حال کر کے رکھ دیا ہے ارے بس بھی کرو اب۔"
شہلا بیگم ان دونوں کو روکتیں جو کہ ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگ رہے تھے لاؤنج میں پھیلی چیزیں اٹھانے لگیں۔
"ارے بھابھی بیٹھ جائیں ان بچوں کا کیا ہے آپ نے ابھی چیزیں اٹھانی ہیں انہوں نے دوبارہ پھیلا دینی ہیں۔"
زرمین پھپھو انہیں صوفے پر بٹھاتیں خود بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئیں۔
سجل بھی تھکی ہاری کچن سے نکل کر ان کے پاس آبیٹھی۔
انعم قالین پر بیٹھی صوفے کے ساتھ ٹیک لگائے ان دونوں کو کب سے دیکھ رہی تھی۔
"انعم تم کیا سوچ رہی ہو؟"
سجل تھوڑا سا آگے کھسک کر انعم کے پاس ہوگئی۔
"کچھ خاص سوچ رہی ہوں آپی۔"
"اچھا تم جو کچھ بھی خاص سوچ رہی ہو کیا مجھے نہیں بتاؤ گی۔"
"ارے کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ میں جو سوچ رہی ہوں وہ آپ ہی سے تو کہوں گی۔"
"اچھا تو پھر بتاؤ جلدی سے ایسا کیا سوچ رہی تھی تم؟"
"ہاں بیٹا بتاؤ۔"
سجل کے ساتھ ساتھ ثمرین بیگم نے بھی پوچھا۔
"میں یہ سوچ رہی تھی کہ۔۔"انعم بولتے بولتے رکی تھی یا شائد جھجھک رہی تھی۔
"اب بولو بھی انعم بھلا مجھ سے کچھ کہنے کے لئے تمہیں سوچنے کی ضرورت کب سے پر گئی؟"
"آپی میں سوچ رہی تھی کہ روشانے کو اپنی بیٹی بنا لوں۔"انعم نے آخر وہ خاص بات کہہ ہی ڈالی۔
انعم کی بات پر سجل کے ساتھ ساتھ شہلا ثمرین اور زرمین پھپھو بھی مسکرا دیں۔
انعم کو ان کی مسکراہٹ سے اپنا جواب مل گیا تھا۔تب ہی گھر کے مرد حضرات گھر میں تشریف لائے۔
موحد ان سب کے پاس آیا اور بولا۔
" اسلام علیکم کیا یہاں پر کوئی خاص ڈسکشن ہو رہی تھی؟"
"جی بہت خاص مگر کیا ڈسکشن ہو رہی تھی یہ میں آپکو بعد میں بتاؤں گی۔"انعم نے موحد کی بات کا جواب دیا۔
تب ہی رومان بھی یہیں آگیا۔
"ارے آگیا میرا بھائی پر یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟"
"یہ میں کیمرہ لایا ہوں موحد بھائی۔چلیں اس کیمرے کی پہلی تصویر کی شروعات آپ سے کرتے ہیں میرا مطلب ہے کہ آپ سب سے ہو جاۓ ایک فیملی پکچر۔"

موحد جو اسکی پہلی بات سے خوش ہو رہا تھا اس کے مطلب بتانے سے اسکا منہ بن گیا۔
"ٹھیک ہے ٹھیک ہے مگر تصویر ٹاپ کی ہونی چاہیے ورنہ تیری خیر نہیں۔"
"چلیں سب اپنی اپنی جوڑیاں بنا لیں۔"
ماما پاپا، چھوٹے پاپا اور چھوٹی ماما آپ لوگ بھی۔"
"پرے ہو بدتمیز کہیں کا۔" اس بات پر شہلا نے اسے ایک چپٹ لگائی۔
سب لائن میں کھڑے ہو گئے۔
روحاب سجل کی کمر میں ہاتھ ڈالے اس کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔
جبکہ موحد نے انعم کے کندھے پر ہاتھ رکھے اسے اپنے اور پاس کر لیا۔
ابیہا بھی میکے آئی ہوئی تھی۔صالح بھاگ کر ابیہا اور ثانیہ کو بھی بلا لایا۔
روشانے اور صالح اپنے دونوں ہاتھوں سے وکٹری کا نشان بنائے ان سب کے آگے کھڑے ہوگئے۔
ثانیہ بھی اپنی معصوم سی مسکراہٹ لئے ان دونوں کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔
"سب ریڈی ہیں کیا۔۔۔؟ون ٹو تھری اور یہ۔۔۔۔۔۔۔"
"ایک منٹ رکو ارے مجھے اور میرے بچوں کو بھول گئے کیا۔"معارج اپنے بچوں کو لئے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوئی۔
بچوں کو بچوں کی لائن میں کھڑا کیا اور خود ابیہا کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔
رومان دروازے کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا کہ شائد ابھی کوئی اور بھی ٹپک پڑے۔
"اوئے رومان یہ تو باہر کیا دیکھ رہا ہے کوئی نہیں آنے والا اب۔چل جلدی سے ایک ٹاپ والی فوٹو کھینچ۔"موحد نے اسے آواز لگائی۔
رومان کیمرے کو ٹائمر لگاتا خود بھی آکر تصویر کا حصہ بن گیا۔
کیمرے نے ان سب کی مسکراہٹوں کو ہمیشہ ہمیشہ کہ لئے اپنے اندر محفوظ کر لیا۔
*****************
"""ختم شد"""

Comments