Mere yaqeen ka hasil novel by Ayesha Habib Episode 2

Mere yaqeen ka hasil novel by Ayesha Habib Episode 2

"میرے یقین کا حاصل"
از
"عائشہ حبیب"
قسط نمبر ۲
وہ دیکھو ذلقرنین کسی لڑکی سے بات کر رہا ہے .
حرا کے کہنے پر اس نے ایک نظر دیکھا مگر پھر توجہ کتاب کی طرف کر لی .
یار تم دیکھ کیوں نہیں رہی؟؟؟ دیکھو وہ کس طرح اس سے ہنس ہنس کر بات کر رہا ہے.
کرنے دو حرا تمہیں کیا مسئلہ ہے۔پاکیزہ نے اکتاتے ہوئے کہا .
وہ کسی لڑکی سے اتنا frank ہو کر بات کر رہا ہے اور تمہیں اس بات سے فرق ہی نہیں پڑا ۔یہی اگر میرے والا ہوتا تو اس کی شامت آ جانی تھی اب تک .یہی تو فرق ہے حرا شہباز کہ
’’
وہ آپ والا نہیں میرے والا ہے‘‘‘
ارے واہ کیا بات ہے میڈم پاکیزہ آپ کی۔آپ تو چھا گئی ہے آج . یہ ُ جملہ ماہم کی طرف سے آیا تھا ۔اس نے بھی ذلقرنین کو دیکھا تھا مگر حرا کی طرح کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا مگر پاکیزہ کے اس جملے پر وہ اس کو بے اختیار داد دے گئی تھی .
وہ خود بھی حیران تھی کہ وہ بے اختیاری میں کیا بول گئی ہے مگر اس نے جو بھی بولا تھا ۔اس پر اس کا دل اور دماغ دونوں مطمئن تھے.
وہ محبت میں کبھی بھی اتنی بے باک نہیں ہوئی ۔نہ ہی وہ ہر وقت ذلقرنین کے نام کی مالا جھپتی تھی اور نہ ہی وہ اپنی دوستوں سے ذلقرنین کی محبت کے قصے share کرتی تھی۔ذلقرنین کو دیکھ کر اس کے چہرے پر عام سے تاثر ہوتے اسی لیے اس کی دوستوں کو لگتا تھا کہ
دونوں کی محبت بس کھوکھلی ہے ۔اس میں کوئی شدت نہیں ہے اگر کبھی یہ نہ ملے تو ان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
مگر کوئی یہ پاکیزہ طاہر سے پوچھتا کہ ُ اس کو فرق پڑتا ہے یا نہیں .
’’’’
عام لڑکیوں کی طرح اس نے بھی کئی مرتبہ اپنا نام پاکیزہ طاہر کی بجائے پاکیزہ ذلقرنین لکھا تھا ۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ اس نام کو کاٹنے یا مٹانے کی ہمت بھی نہیں رکھتی تھی اس لیے وہ ان کاغذ کے ٹکروں کو سنبھال کر رکھتی تھی‘‘‘‘
ہر نماز کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی اس انسان کا چہرہ ُ اس کی نظروں کے سامنے آ جاتا اور اس سے بڑھ کر محبت کا ثبوت کیا ہو گا کہ
’’’
آپ ایک ایسے انسان کی خوشیوں کے لیے اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلاو جو دنیا کی نظر میں آپ کا کچھ نہیں ہے مگر آپ کا رب جانتا ہے وہ آپ کے لیے کیا ہے اور پاکیزہ نے کبھی بھی ُ اس کی لمبی زندگی اور خوشیوں کے سوا کچھ نہیں مانگا تھا حتی کہ اس کا ساتھ بھی نہیں ‘‘‘
اور کہیں نہ کہیں اس کے اندر یہ یقین تھا کہ ذلقرنین حیدر صرف اور صرف پاکیزہ طاہر کا ہے۔
اس کے چہرہ پر گہری ہوتی ُ مسکراہٹ کو دیکھ کر حرا نے ُ اس کے سامنے ہاتھ ہلایا۔
ہیلو میڈم کن خیالوں میں کھو گئی آپ۔ہمیں پتہ ہے کہ وہ پاکیزہ طاہر کا ہے اس لیے آپ ُ ان کے خیالوں سے باہر آ جاؤ۔
ویسے ایک بات تو بتاؤ پاکیزہ ؟؟؟ْ اریبہ نے پوچھا
ذلقرنین میں ایسا کیا خاص ہے؟؟؟ جو تم اس کو پسند کرتی ہو ۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ وہ اتنا handsome بھی نہیں ہے.
financially
بھی اتنا مضبوط نہیں ہے۔۔اور نہ ہی کسی بہت اچھے خاندان سے تعلق ہے اس کا
میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ایسی کون سی عادت ہے جو تمہیں attract کرتی ہے؟؟؟
اور نہ ہی وہ اس کے آگے پیچھے گھومتا ہے اور نہ ہی مجھے لگتا ہے کہ کبھی انہوں نے گھنٹوں ایک دوسرے کے ساتھ بات کی ہوں گئی
یہ کہنے والی حرا تھی۔
وہ ان سب کو سن رہی تھی مگر بول کچھ بھی نہیں رہی تھی مگر اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی .
تم کچھ بول کیوں نہیں رہی۔اریبہ نے اس سے پوچھا
میں سوچ رہی ہوں جن attributes کا تم نے ابھی ذکر کیا ہے کیا ان کی کوئی اہمیت ہے میری نظر میں یا نہیں
اور یقین کرو میرے دل کا جواب نہیں کے علاوہ کچھ نہیں آیا .
لو ُ سن لو بات . حرا نے ایک مرتبہ پھر سے اعتراض کرتے ہوئے کہا
حرا کی بات سے اس کے چہرے پر پھر سے مسکراہٹ آ گئی . تم لوگ میری طرف دیکھو
میں کسی ناول کی heroine نہیں ہوں جس کی زندگی میں وہ مرد آ ئے گا جو مردانگی وجاہت کا حامل ہوگا کہ جب وہ میرے قریب سے گزرے تو میرا دل دھک دھک کرنے لگے اور نہ ہی وہ کسی بہت اعلی خاندان سے تعلق رکھتا ہو کہ گاڑی اور بینک بیلنس جیسی سہولیات کا مالک ہوں۔یہ سب ناول کی دنیا کی خرافات ہے حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا .
جبکہ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ
’’
مرد عورت سے محبت کرتے وقت ایک بات دیکھتا ہے اور وہ ہے ُ حسن ۔۔عورت کے مسکرانے کی دیر ہوتی ہے کہ مرد کو طوفانی قسم کا عشق ہو جاتا ہے اور اگر عورت بیوقوف ہو تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے مر د کے لیے ۔ کیونکہ عقلمند عورت تو مرد کو ویسے ہی پسند نہیں ہوتی جبکہ عورت محبت کرنے سے پہلے مرد کا سارا شجرہ نسب دیکھے گی جس میں خاندان سے لیکر بینک بیلنس تک ماضی ،حال سب جان کر ہی عورت اقرار کرتی ہے اور اسی لیے بزرگ سہی کہتے ہیں عورت کبھی بھی کسی کنگلے انسان سے محبت نہیں کرے گی چاہے
وہ اس کو کتنا ہی پسند کیوں نہ کرتی ہوں ۔اسی لیے پیدا کرنے والے نے مرد کو جیب اور عورت کو حسن دیا‘‘‘
ایسا تو نہیں ہوتا اکژ cases میں ہم نے دیکھا ہے کہ لڑکا اتنا مظبوط نہیں ہوتا مگر لڑکی اس سے محبت کرتی ہے اور شادی بھی ہو جاتی ہے.. ماہم نے اعتراض کرتے ہوئے کہا
کہا دیکھا تم نے یقیناً کسی ناول میں پڑھا ہوگا یا فلم وغیرہ میں دیکھا ہو گا .
حقیقت میں بھی دیکھا ہے ۔
ان سب cases میں عورت کا خود کا background مظبوط ہو گا . عورت کے پاس پیسے کی ریل پیل ہو گئی اس لیے وہ اس چیز کی
پرواہ نہیں کرے گی مگر کیا حقیقت میں بھی کسی کو فقیروں سے عشق ہوتا ہے ۔ کم از کم عورت کو تو مشکل سے ہی ہوتا ہے .
وہ سب پتہ نہیں اس کی باتوں سے agree ہو رہی تھیں یا نہیں مگر حیران ضرور تھیں کیونکہ انہوں نے کبھی بھی پاکیزہ طاہر کو محبت
کے نام پر یوں تقریر کرتے نہیں دیکھا تھا .
وہ ُ اٹھی اور گاڑدن میں موجود گلابوں کے پھولوں کے پاس چلی گئی ۔وہ ان کو دیکھ رہی تھی اور نجانے کس خیال کے تحت اس نے گلاب کا پھول توڑ لیا .
اس نے ان سب کی طرف دیکھا اور پھر بولی
’’
میں ایک عام سی لڑکی ہوں اور عام لڑکیوں کی زندگی میں شہزادے نہیں آتے ۔۔ اور زندگی جب اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ گزرتی ہے تو زندگی گزارنے کا مزا آتا ہے نہیں تو پھر آپ یا تو complex میں زندگی گزارتے ہو کہ کسی سے جنون کی حد تک متاثر ہو یا پھر ڈر کر کہ کچھ بول ہی نہیں سکتے اور مجھے دونوں طرح کی زندگیوں سے نفرت ہے ‘‘‘
اور رہی بات کہ میں ذلقرنین کو کیوں پسند کرتی ہوں تو اس کی بھی ایک وجہ ہے۔ میری محبت بھی غرض کے بغیر نہیں ہے اور میں اس بات کو مانتی ہوں۔۔
غرض ۔کیسی غرض؟؟؟ یہ سوال ماہم نے پوچھا تھا۔
مجھے یقین نہیں ہو رہا کہ تم بھی کسی غرض کی وجہ سے محبت کرتی ہوں . اریبہ نے حیران ہو کر کہا .
کوئی بھی محبت غرض کے بغیر نہیں ہوتی میں نے بتایا نہ اور میری غرض کیا ہے میں پھر کبھی بتاؤں گئی
اور ہاں حرا آپ کے سوال کا جواب کہ وہ میرے آگے پیچھے کیوں نہیں گھومتا؟؟؟
تو وہ ذلقرنین حیدر ہے بھنورا نہیں جو پھول کا رس پینے کے لیے اس کے ارد گرد گھومتا رہے۔ اس نے گلاب کے ُ پھول کو بغور دیکھتے ہوئے کہا . اس کی آنکھوں میں ڈولتے یقین کو سب نے محسوس کیا تھا .
اور ویسے بھی یار اس کو بھی پتہ ہے کہ یہ پھول اسی کا ہے ۔دیکھو کیسی مہر لگائی ہے اس نے کہ آج میڈم اپنے ان کے حق میں بول ہی پڑھی ورنہ مجھے تو بڑا ترس آتا تھا ذلقرنین پر کہ اس نے کس کو پسند کیا ہے جو اس کے حق میں بولتی بھی نہیں ہیں .
اریبہ کی بات نے سب کو ہنسنے پر موجود کر دیا تھا اور وہ خود بھی حیران تھی کہ وہ آج اتنا بول کیسے گئی کیونکہ اس نے کبھی بھی اپنے
جذبوں کا اظہار نہیں کیا تھا ۔اس پر بھی نہیں جس کو وہ شدت سے چاہتی تھی . مگر کبھی کبھی بول لینا چاہیے . خود سے تو اظہار کر
لینا چاہیے کہ کو ئی آپ کے لیے کتنا اہم ہے .وہ مسکرائی اور پھر ان سب سے مخاطب ہوئی .
لیکچر لینے کا کوئی ُ موڈ ہے یا آج میری محبت پر دیوان مکمل کرنا ہے . ا س کو پھول کبھی بھی اچھے نہیں لگے تھے مگر نجانے اس گلاب میں ایسی کیا بات تھی کہ اس نے اس کو اپنی کتاب میں رکھ لیا اور اٹھ کھڑی ہوئی .
وہ سب کلاس کی طرف جا رہی تھی ۔ جب اس نے ذلقرنین کو دیکھا جو ابھی بھی کسی بات پر ُ مسکرا رہا تھا ۔۔اس نے اس کو مسکراتے ہوئے دیکھا ۔ایک پل کے لیے تو اس کی خواہش ہوئی کہ وہ ُ رک جائے اور اس کو مسکراتا دیکھتی رہے .
چاہے وہ اس کی وجہ سے نہیں مسکرا رہا تھا مگر وہ مسکرا رہا تھا اور پاکیزہ طاہر کے لیے اس سے بڑھ کر کیا بات ہو سکتی ہے کہ اس کا
حادی مسکرا رہا تھا۔
وہ اس کو مسلسل دیکھ نہیں سکتی تھی مگر بہت چپکے سے ُ اس نے ُ اس سے مسکراہٹ کے دائمی رہنے کی ُ دعا مانگ لی جو ُ اس وقت ان
دونوں کو دیکھ رہا تھا .
مگر ُ اس کو کیا علم تھا کہ جس بے غرضی کے ساتھ ُ اس نے ُ اس کی مسکراہٹ کی ُ دعا مانگی تھی ۔وقت ُ اس کو اتنا ہی بے رحم بنا دے گا کہ وہ ذلقرنین کی ذات کی دھجیاں بکھیر دے گئی۔اس کو ذلیل کر دے گئی . اس کو اس بات کی سزا دے گئی جو ذلقرنین حیدر کے
اختیار میں نہیں تھی ورنہ پاکیزہ طاہر کے لیے وہ یہ بھی کر جاتا . وقت نے یہ جملہ شاید پاکیزہ طاہر کے لیے ہی بولا تھا .
’’
اگر آپ بہت بہادر ہے اور وقت کے زخموں کی پرواہ نہیں کرتے تو یقین کریں آپ کو توڑنے کے لیے وقت کسی ایسے شخص کو آپ کے خلاف کھڑا کرے گا جس پر آپ کو بہت مان ہوتا ہے ۔ اور یقین کریں جب مان ٹوٹتا ہے تو انسان مرتا نہیں ہے مگر ختم ہو جاتا ہے ۔ ُ مردہ تو مٹی کے نیچے چلا جاتا ہے مگر جو ختم ہو جاتا ہے وہ ہر روز یا تو خود پر فاتحہ پڑھتا ہے یا مان توڑنے والے پر اور اس سے بھیانک تکلیف آپ کو وقت دے نہیں سکتا‘‘‘‘
آج تو sunday ہے ۔ آج کے دن تو گھر ُ رک جاؤ .
وہ جو کسی کام سے باہر جا رہا تھا شازیہ خالہ کی آواز سن کر رک گیا۔اس سے پہلے وہ ان کو کوئی excuse پیش کرتا وہ خود ہی بول
پڑی .
جب سے آئی ہوں تب سے دیکھ رہی ہوں تم ہر وقت کام میں مصروف رہتے ہو . اتنی بھی فرصت نہیں کہ دو گھڑی اپنی خالہ کے پاس
بیٹھ کر اُن سے حال چال ہی ُ پوچھ لو۔
ارے خالہ جان ایسی بات نہیں ہے۔بس کام کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے مصروف ہونا پڑتا ہے
ایسی بھی کیا مصروفیت بیٹا کہ ا پنوں کے لیے بھی آپ کے پاس وقت نہ ہو۔لوگ ٹیھک کہتے ہیں کہ جب اولاد جوان ہو جائے نہ تو اس سے اس کا ٹائم مانگنا پڑتا ہے۔۔
مجھے تو تم بچپن والے ذلقرنین ہی پسند تھے جو شازی خالہ شازی خالہ کہتے ہوئے میرے آگے پیچھے تو گھومتا رہتا تھا . اس نے ایک نڑوٹھا
انداز اپناتے ہوئے کہا .
اچھا تو اب کیا نہ پسند ہوں؟؟؟ ذلقرنین نے ان کی باتوں سے لطف اندوز ہو ئے پوچھا
نہ پسند تو نہیں ہوں ۔ بھلا بچے بھی کبھی ماں باپ کو نہ پسند ہوئے ہیں ؟؟ بس اب تم تبدیل ہو گئے ہو .
نہیں خالہ جانی ایسی بات نہیں ہے ۔ ابھی bussiness شروع کیے ہوئے اتنے سال نہیں ہوئے ۔اسی لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے کہ یہ
establish
ہو جائے۔
اچھا ہو سکتا ہے تم ٹیھک کہ رہے ہو۔
اب آپ ناراض تو نہ ہو . ذلقرنین نے ان کے چہرہ کے expressions دیکھ کر کہا . پتہ ہے آپ جب ناراض ہوتی ہے تو بوڑھی بوڑھی سی لگتی ہے .
خبردار اگر تم نے مجھے ُ بوڑھی کہا تو . ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔ تمھا ری ماں سے تین سال بڑی ہوں مگر چھوٹی لگتی ہوں۔ لوگ تو یقین ہی نہیں کرتے کہ میں چار جوان بچوں کی ماں ہوں ۔
شازیہ خالہ کی بات سن کر بے اختیار مسکراہٹ اس کے لبوں پر آ گئی کیونکہ وہ جانتا تھا خالہ جان اپنی عمر کے متعلق حد سے زیادہ
concious
تھی ۔ عمر کی پچاس بہاریں دیکھ چکی تھی مگر ابھی بھی خود کو young سمجھتی تھی . اور وہ خود کو maintain بھی بہت
رکھتی تھی . سر جھاڑ منہ پھاڑ عورتیں تو ان کو ویسے بھی نا پسند تھی .
کیا باتیں ہو رہی ہیں خالہ بھانجے میں؟؟نصرت بیگم نے ُ ان دونوں کو باتیں کرتے دیکھا تو ُ پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔
سمجھا لو ریحانہ اپنے بیٹے کو مجھے ُ بوڑھا کہہ رہا ہے .
اچھا ریحانہ بیگم نے ہنستے ہوئے کہا . اپنی بہن کی اس عادت سے وہ خود بھی اچھے سے واقف تھی .
ویسے آپا جب اولاد جوان ہو جاتی ہے تو ماں باپ بوڑھے ہی ہوتے ہیں . ریحانہ نے اپنی بہن کو چھیڑتے ہوئے کہا
یک نہ شد دو شد ۔ وہ کیا کم تھا جو تم بھی شروع ہو گئی۔
اس سے پہلے اس topic پر مزید بحث ہو تی۔ افشاں کی آمد نے موضوع تبدیل کر دیا ۔
واہ آج تو بڑے بڑے لوگ بیٹھے ہیں۔ واضح اشارہ ذلقرنین کی طرف تھا۔ جسے اس نے مسکراہٹ کے ساتھ نظرانداز کر دیا تھا۔
ویسے ذلقرنین بھائی کو میں جب پہلی مرتبہ ملی تھی یہ تب بھی سنجیدہ ہوتے تھے اور اب تو اتنے سالوں بعد مل رہی ہوں خالہ تو یہ اور سنجیدہ ہو گئے ہیں اور پہلے سے زیادہ handsome بھی .مگر میں پھر بھی ان سے ناراض ہوں . اس نے ریحانہ بیگم کے گلے میں باہیں
ڈالتے ہوئے کہا
لگتا ہے آپ کو بھی خالہ کی طرح کافی شکوے اور شکایات ہے ؟؟
تو اور کیا نہیں بھائی۔میں پچھلے ہفتہ سے لاہور آئی ہوئی ہوں اور کسی نے ابھی تک مجھے مینار پاکستان بھی نہیں دکھایا ۔جو بندہ لاہور آ کر
سب سے پہلے دیکھتا ہے. کتنی خوش تھی میں کہ لاہور جا رہی ہوں . خوب عیش کروں گی ، گھوموں گی مگر یہاں تو کوئی لفٹ ہی
نہیں کرواتا مجھے .
تو آپ اپنی خالہ کے ساتھ چلی جائیں ۔یہ آپ کو دکھا دیں گئیں جو آپ کو دیکھنا ہوا .
نہ بھئی مجھ میں تو ہمت نہیں ہے کہ میں اس عمر میں اتنا گھوموں۔
دیکھ لیا آپ نے ایسے ہی ہر کوئی ٹال رہا ہے مجھے۔ افشاں نے منہ پھیلاتے ہوئے کہا۔ خالہ تو ایسے بات کر رہی ہیں جیسے سو سال کی
ہو گئی ہو .
ماما آپ اب اتنی بھی بوڑھی نہیں ہوئی کہ گھوم ہی نہ سکیں۔ آخر یہ ہمارے مہمان ہے ان کیا خیال ہم کو ہی تو رکھنا ہے
ایسی بات ہے تو تم خود کیوں نہیں لے جاتے؟؟
اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتا ۔آنے والی فون کال دیکھ کر وہ excuse کرتا ہوا باہر چلا گیا۔
نصرت بیگم بھی کسی کام سے باہر گئی توشازیہ مراد جو اب تک چپ بیٹھی ہوئی تھی، افشاں سے مخاطب ہوئی .
تم آج کے بعد ذلقرنین کو بھائی نہیں بولوں گئی.
افشاں نے کافی حیرت سے اپنی ماں کو دیکھا جو اس وقت کچھ سوچ رہی تھی۔
what are you saying mom??? he is older than me.how can i call him by name ??
سنو افشاں ۔میں یہاں تمھاری اور ذلقرنین کی شادی کا مقصد لیکر آئی ہوں ۔اس لیے بہتر ہے کہ وہی کرو جو میں تمہیں کرنے کو کہہ
رہی ہوں۔
what?? are you in your senses mom???
آپ کو پتہ بھی ہے کہ آپ مجھ سے کیا کہہ رہی ہو۔ آپ نے میرا اور ان کا age gape دیکھا ہے کیا؟؟
دس سال کا فرق ہے بس اور اتنا تو عام ہوتا ہے۔ تمہارے پاپا مجھ سے پندرہ سال بڑے ہیں مگر کیا محسوس ہوتا ہے؟؟ نہیں نہ تو بس تم بھی یہ سوچ اپنے دماغ سے نکال دو۔
مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ یہ سب کیوں بول رہی ہے . مگر آپ کو اتنا میں بتا دوں اور آپ پہلے سے جانتی بھی ہے کہ میں
ارحم کو پسند کرتی ہوں . اور وہ بھی مجھ سے محبت کرتا ہے اور ہم دونوں شادی کا ارادہ بھی رکھتے ہیں تو بہتر ہیں کہ آپ اپنی یہ فضول سوچ چھوڑ دیں .
چٹاخ۔۔۔۔۔ ایک ہی تھپڑ نے افشاں کو دن میں تاڑے دکھا دیے تھے . اس نے کافی حیرت اور خوف سے اپنی ماں کی طرف دیکھا .
ایسا بالکل بھی نہیں تھا کہ شازیہ مراد ان ماؤں میں سے تھی کہ جن کے سامنے بیٹی اپنے محبوب کا نام لے اور وہ بدنامی کے خوف سے
مارنا شروع کر دیں۔ یہاں وجہ کوئی اور تھی .
میں آج کے بعد اس لڑکے کا نام بھی تمہارے منہ سے نہ سنوں ۔یاد رکھو اگر تمہاری ماں تمہیں آزادی دے سکتی ہیں تو چھین بھی سکتی ہے۔ اس لیے اپنی اس نام نہاد محبت کو بھول جانا. اور اگر تم نہ بھولی نہ تو مجھے بہت سے طریقے آتے ہیں .
افشاں ابھی تک اپنے چہرہ پر ہاتھ رکھے اپنی ماں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی . کیونکہ شدید سے شدید غصہ کی حالت میں بھی شازیہ مراد نے خود پر قابو رکھا تھا . اور وہ اس کی سب حرکتوں سے واقف بھی تھی مگر اتنی معمولی سی بات پر وہ یوں آپے سے باہر ہو
جائے گئی . اس کے لیے کافی حیران کن تھا .
شازیہ نے جب یہ دیکھا تو ایک گہری سانس لی اور اس کو اپنے پاس صوفے پر بٹھایا .
sorry
میرے بچے مجھے اس طرح آپ پر ہاتھ نہیں اُٹھانا چاہیے تھا مگر آپ نے بات ہی ایسی کی تھی کہ میں اپنا کنٹرول کھو گئی تھی.
بیٹا میں آپ کی ماما ہوں مجھ سے بہتر آپ کے مستقبل کے متعلق کوئی نہیں سوچ سکتا ۔ آپ خود بھی نہیں جانتی کہ آپ کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔میں نے ذلقرنین کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔تھوڑے عرصے میں وہ خود کو اتنا اسٹبلیش کر چکا ہے ۔میں نے اس کی آنکھوں میں آگے بڑھنے کی لگن دیکھی ہے ۔وہ رشتوں کو بھی اہمیت دینے والا مرد ہے ۔اس لیے بہتر ہے تم میرے انتخاب پر امین کہہ لو۔ اور رہی بات محبت کی تو جب مرد میں اتنی خصوصیات ہو تو خود بخود ہو جا تی ہے۔ اس یے کہ رہی ہوں کہ تم بیوقوف مت بننا ۔ تم ساری عمر عیاشی کی زندگی گزارتی آئی ہوں ۔ جس کی بات تم کر رہی ہو وہ تم سے محبت کے خوبصورت دعوی تو کر سکتا ہے مگر تمہیں وہ سب نہیں دے سکتا جس کی تم عادی ہو ۔ اس لیے کوئی ایسی بیوقوفی مت کرنا جس پر بعد میں پچھتانا پڑے۔ہمارے
معاشرے میں مرد کی جیب دیکھی جاتی ہے اس کی محبت نہیں۔ اس لیے اپنی اس غلطی کو دفنا دو اور بھول کر بھی کسی کے سامنے ذکر کرنا۔ورنہ میں چھوڑوں گئی نہیں تمہیں . آئی سمجھ تمہیں .
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا . جذبات کے سہارے زندگی گزارنے والوں میں سے نہیں تھی وہ . اور ویسے بھی کچھ لوگوں کے لیے محبت صرف وقت گزاری کا نام ہے اور کچھ نہیں .
مگر ماما میں نے تو سنا ہے کہ وہ کسی سے محبت کرتے ہیں۔ اس لیے ابھی تک شادی نہیں کر رہے۔
محبت کرتا تھا کرتا ہے نہیں .
اور چندہ تمہیں یہی تو کرنا ہے کہ ذلقرنین کے دل سے اس باسی محبت کو نکالنا ہے۔ویسے بھی اس لڑکی کی شادی ہو چکی ہے تو یہ کب تک اس کی محبت کا جوگ لے گا۔
تم جوان ہو ، خوبصورت ہو اس لیے مجھے یقین ہے کہ تم اس کے دل میں اپنے لیے جگہ بنا لو گئی۔
مگر ماما میں یہ سب کیسے کروں گئی ؟؟
اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاروں۔اس کی پسند اور نہ پسند کیا خیال رکھو اور جب بھی اس کے سامنے آؤ اچھی حالت میں آؤ۔
اور یہ جینز شرٹ ذرا کم استعمال کرو . اس کو مشرقی لباس زیادہ بھاتا ہے .
اور اس کے ساتھ ہی اپنی خالہ کا دل بھی مکمل طور پر جیت لو تاکہ اس کو بھی یقین ہو جائے کہ تم سے بہتر لڑکی ذلقرنین کے لیے ہو ہی نہیں سکتی۔
اوکے ماما۔ جیسا آپ کہوں۔
افشاں تم شازیہ مراد کی بیٹی ہو۔ کسی کو قابو میں کیسے کرنا ہے ؟؟؟ یہ تمہیں سکھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ چیز تمھارے خون میں شامل ہے۔
افشاں نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔
وقت نے پاکیزہ طاہر کی محبت کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا تھا ۔وقت اپنا سب سازو سامان لیکر آیا تھا اور دوسری طرف محبت کے پاس صرف غرور تھا .
۔اور محبت دیکھ رہی تھی کہ کون جیتے گا وقت یا کسی کا غرور۔
وہ آئینے کے سامنے بال کھولے بیٹھی تھی۔جب نصرت آپا کمرہ میں داخل ہوئی۔
اس کو یوں کسی گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ کر حیران ہوئی اور پھر خود ہی ُ پوچھ بیٹھی
کیا سوچ رہی ہوں پاکیزہ بچے؟؟؟
وہ جو اپنے خیالوں میں گم تھی ۔نصرت آپا کی آواز پر چونک پڑی اور مرر میں ان کے عکس کو دیکھ کر بولی ۔میں عفت آپا کے متعلق
سوچ رہی ہوں آپا .عفت کے متعلق ؟؟؟ وہ کیوں بھلا . وہ بیڈ پر بکھرے سامان کو اٹھانے لگ گئی .
مجھے ان کے لیے بہت ُ برا محسوس ہورہا ہے ۔وہ یہ سب deserve نہیں کرتی۔
کیا نہیں کرتی؟؟ اور تمہیں کیوں ُ برا محسوس ہو رہا ہے؟؟
آپا ان کی شادی قاسم میر سے ہو رہی ہے اور کون نہیں جانتا قاسم شاہ کس عادات و اطوار کیا ہے۔ وہ آپا کو کبھی بھی خوش نہیں رکھ سکے گا۔
کچھ لوگ خوش رہنے کے شادی تھوڑی کرتے ہیں . مجبوری بھی ہوتی ہے چندا . اس نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا
ایسی بھی کیا مجبوری کہ آپ شادی کے نام پر اذیت کا پھندا ہی گلے میں ڈال لو۔شادی تو زندگی کا بہت اہم معاملہ ہوتا ہے نا ؟؟؟
اس کی آنکھوں کی پلکوں پر چند سیکنڈ کے لیے ایک شخص ابھرا تھا . اگر نصرت کا دھیان اس کی طرف ہوتا تو وہ ضرور اس کے چہرہ پر کھلنے والی حیا کی لالی کو دیکھ لیتی .
’’’
محبت کو خوبصورت حیا ء بناتی ہے . جیسے کسی پر کوئی رنگ بہت جچتا ہے نہ اسی طرح محبت پر حیا ء کا رنگ جچتا ہے جبکہ بے باکی محبت کی موت ہوتی ہے‘‘‘ .
زیادہ بڑی نہیں ہو گئی تم جو شادی کے متعلق باتیں کرنے لگ گئی ہو۔ انہوں نے کپڑوں کی تہ لگاتے ہوئے ہنستے ہوئے پوچھا
اس میں کیا بڑی ہونے والی بات ہے آپا ؟؟؟؟ شادی تو کرنی ہوتی ہے نابلکہ آپ کو ایک مزے کی بات بتاؤں میں نے تو اپنے لیے ُ دولھا بھی پسند کر لیا ہے۔ پاکیزہ نے ٹیبل پر پڑے ہوئے سیب کو اٹھا تے ہوئے کہا
اس کا بظاہر نارمل انداز سے بولا ہوا جملہ نصرت کو سر سے پاؤں تک ہلا گیا۔وہ کپڑے چھوڑ کر پاکیزہ کی طرف پلٹی۔
تم نے کیا کہا ابھی۔یہ سب کب ہوا؟؟ تم نے کسی سے بات تو نہیں کی۔ کسی کسی کو بھی مت بتا نا .
میں مذاق کر رہی تھی ۔نصرت آپا کیا ہو گیا آپ کو۔
نصرت کا فق ہوتا چہرہ دیکھ کر وہ خود بھی گھبرا گئی تھی ۔اس لیے اس نے بات کو تبدیل کر دیا۔
تم سچ کہہ رہی ہو نا پاکیزہ ؟؟ نصرت نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
جی میں سچ بول رہی ہوں مگر آپ کو کیا ہو گیا آپا۔آپ اتنا گھبرا کیوں گئی ہے یہ تو بہت معمولی سی بات تھی۔
آئندہ میرے ساتھ ایسا مذاق مت کرنا پاکیزہ۔ تمھاری نصرت آپا تم سے بہت محبت کرتی ہے پاکیزہ . اس نے اس کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا . مجھ میں مزید کچھ کھونے کی ہمت نہیں ہے .
وہ نہ سمجھی سے انہیں دیکھ رہی تھی . وہ کچھ پوچھنا چاہتی تھی کہ ایسی کیا بات ہے کہ وہ اتنی چھوٹی سی بات پر یوں گھبرا گئی ہے۔اس نے ان کی آنکھوں میں خوف دیکھا تھا
مگر اس سے پہلے وہ کچھ ُ پوچھتی اس نے نصرت آپا کو اپنے کمرہ کی طرف جاتے دیکھا۔
وہ دروازے کے پاس سے پلٹی اور پھر اس کے پاس ُ رکی .
وہ کچھ لمحے پاکیزہ کو دیکھتی رہی اور پھر اس کا ماتھا چوم کر بولی
میں دعا کروں گی کہ تم کسی کی غلطی کی سزا مت بھگتو .
یہ کہہ کر وہ واپس پلٹ گئی .
وہ کچھ پوچھنا چاہتی تھی اس سے . وہ ان کو روکنا چاہتی تھی مگر ان کی حالت دیکھ کر ُ چپ ہو گئی۔
چھوڑ دیں اس کو ۔ ُ خدا کے لیے رحم کھاؤ اس پر۔ مر جائے گی یہ .
وہ ان لوگوں سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی۔ جو آج کے دن کو روز محشر سمجھ کر خدا بن گئے تھے ۔ مگر ان لوگوں کی آنکھوں میں رحم نہیں تھا، حالانکہ وہ سب اس کے اپنے تھے۔
اور وہ جو اپنی نہیں تھی وہ کبھی کسی کے پاؤں پکڑتی اور کبھی کسی کے۔ کبھی اپنے وجود سے اس کو چھپانے کی کو شش کرتی ۔ کبھی رحم کی بھیک کے لیے ہاتھ جوڑ رہی تھی۔
مگر وہاں موجود ہر انسان گھونگا بہرا ہو گیا تھا .
باجی آپ روکے نہ بھائی کو۔ دیکھے اس کا کیا حال ہو گیا ہے ۔وہ مر جائے گی . اس نے نبیلہ مراد علی کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا
یہ سب کرتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو روکا تھا کیا؟؟؟ اسے نہیں پتہ تھا کہ ایسی باتیں چھپتی نہیں ہیں ۔ اب کیا ہے تو بھگتے بھی ۔
ُُُ ُ شکر کرو صرف جسمانی تکلیف دے رہے ہیں نہیں تو لوگ جان سے مار دیتے ہیں اور کانوں کان کسی کو خبر نہیں ہوتی .
وہ الفاظ سن کر صدمے کی سی کیفیت میں آ گئی تھی ۔یہ الفاظ وہ عورت بول رہی تھی جو منزہ یسین سے سب سے زیادہ محبت کرنے کا دعوی کرتی تھی مگر آج وقت نے ثابت کر دیا تھا زمانہ تب تک آپ کا ساتھ دیتا ہے جب تک آپ انمول ہو ،فائدہ مند ہو اور جیسے ہی آپ بے انمول ہوتے ہو سب سے پہلے وہی لوگ نظریں ُ چراتے ہیں۔
واہ کیا کہنا آپ کا۔ اگر آپ بھول گئی ہے تو میں آپ کو یاد دلا دیتی ہوں کہ یہ وہی منزہ یسین ہے کہ جب آپ نے رات کے اندھیرے میں ا س گھر میں قدم رکھا تھا تو اس نے آپ کو پناہ دی تھی۔ ُ اس وقت اگر یہ نہ ہوتی تو یقیناً لوگوں کو بھی کانوں کان خبرنہیں ہونی تھی۔
طنز کا یہ تیر سیدھا مدیحہ کے دل کو لگا تھا مگر اس سے پہلے وہ اس کو کوئی کڑوا سا جواب دیتی ۔وہ راشدہ بیگم سے مخاطب ہوئی۔
باجی آپ تو روکے۔آپ کی تو بیٹی ہے ۔آپ تو رحم کھائے اس پر۔آپ تو ماں ہیں۔
ہاں میں ماں ہوں مگر اس وقت بے بس ُ ہوں ۔میں کیسے روکوں ان کو ۔وہ میری بات کب سنے گے۔
راشدہ بیگم کی آنکھوں میں رحم ضرور تھا . وہ بھی اس لیے شائد کے وہ ممتا کے درجے پر فائض تھی مگر وہ اتنی ہی لاچار اور بے بس تھی جتنی اس وقت وہ .
اس کی آخری امید بھی دم توڑ گئی۔ اور باقی کسی اور کو کہنا فضول تھا۔
وہ دیوار کے ساتھ لگی اس کو پٹتا دیکھ رہی تھی ۔اس کے ہاتھ کچھ نہیں تھا تو بے بسی کے عالم میں اس نے ہاتھ آسمان کی طرف ُ اٹھا لیے۔
بے غیرت ، ذلیل، کم ذات اور نجانے کون کون سے الفاظ تھے جو اس کو بولے جا رہے تھے۔ لاتوں ،تھپڑوں اور جوتوں کی بارش تھی جو رک ہی نہیں رہی تھی،اس کے بالوں کو بے دردی سے گھسیٹا جا رہا تھا۔
مگر وہ چپ کر کے یہ سب برداشت کر رہی تھی۔ اس نے نہ تو کسی کا ہاتھ روکا ، نہ معافی مانگی اور نہ ہی کسی سے رحم کی درخواست کی تھی۔اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی بارش بھی نہیں تھی۔ اس کے ذہن میں بس ایک ہی فقرہ گونج رہا تھا۔
’’’
میں مرد ہوں ، اور سب جانتے ہیں مرد ایسی غلطیاں کرتے رہتے ہیں . اس لیے بی بی آنسو مت بہاؤ مجھے بیزاری محسوس ہو رہی ہے ‘‘‘
اس سے آگے وہ سوچ ہی نہیں پا رہی تھی ۔اسے یہ بھی نہیں احساس ہو رہا تھا کہ وقت کے خدا کس طرح اس پر ظلم کر رہے ہیں۔
لے جاؤ اس کو اندر اور اس کے نکاح کی تیاری کرو۔
اس کے جسم پر جگہ جگہ جوتوں کے نشان تھے۔ اس کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا ۔وہ بال جن کو وہ گھنٹوں سنوارا کرتی تھی آج اس کے اردگرد بکھر کر یوں لپٹے ہوئے تھے جیسے کوئی اپنا غم کے وقت آپ سے لپٹ کر روتا ہے۔ مگر اس کی آنکھوں میں ویرانی تھی
ایسی ویرانی جو نصرت کے دل کو دہلا رہی تھی۔
وہ کبھی اپنے ڈوپٹے سے اس کا چہرہ صاف کرتی اور کبھی اس کے زخموں پر مرہم لگاتی ۔ وہ رو رہی تھی اس سے منزہ یسین کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی ۔وہ چا رہی تھی کہ وہ رو لیں تاکہ اس کا دل ہلکا ہو جا ئیں مگر اس کی آنکھیں تو ویران تھی۔
کیوں رو رہی ہو نصرت؟؟؟
مجھ سے آپ کا یہ درد دیکھا نہیں جا رہا منزہ باجی۔
درد ؟؟؟ کہاں ہے درد ؟؟ مجھے تو درد محسوس نہیں ہو رہا۔ اس نے اپنے اردگرد دیکھتے ہوئے کہا۔
مت آنسو بہاؤ . آنسوؤں سے کچھ نہیں ہوتا . اس کے ذہن میں پھر سے فقرہ گونجا تھا .
باجی اب آپ ایسی باتیں نہ کریں ۔ان لوگوں نے اتنا آپ کے ساتھ اتنا ُ برا کیا ہے۔اتنا تو کوئی جانور کو بھی نہیں مارتا۔
تو کیا میں نے اپنے ساتھ اچھا کیا ہے نصرت؟؟؟؟
اس کو اللہ ُ پوچھے گا باجی کہ اس بغیرت نے یہ سب کیوں کیا؟؟؟ آہ لگے گی آپ کی ان کو بھی اور اس کو بھی
آہ ......... ہا ہا ہا ........ہاہاہا ہا ........ وہ زور سے ہنسی تھی
اس کو یوں ہنستا دیکھ کر نصرت کا دل کٹ رہا تھا
’’’
جس کے آنسو کسی کو نہیں لگے ۔ اس کی آہ کیا لگے گی نصرت‘‘‘‘
نہ باجی ایسا نہ کہے . آپ اللہ پر چھوڑ دیں . وہ خود ہی ان ظالموں سے حساب لے لیں گا .
’’
ہر چیز اللہ کے ُ پوچھنے کے لیے نہیں چھوڑتے۔ کچھ چیزوں کا خود بھی حساب لے لیتے ہیں۔‘‘‘‘
میں سمجھی نہیں باجی۔
نصرت میرا ایک کام کرے گی ۔ دیکھ انکار مت کرنا میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔
نہ باجی نہ۔کیوں مجھے شرمندہ کر رہی ہو، آپ بس بولو۔
اس کو قبرستان بلاؤ۔ مجھے اس سے آخری مرتبہ ملنا ہے۔ اور گورکن کو کہنا ایک قبر کی جگہ دے دیں۔
باجی یہ آپ کیا کہ رہی ہے ؟؟ قبرستان کون جاتا ہے ؟؟ اس نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا
کیوں لوگ جاتے نہیں ہیں کیا ؟؟
وہ تو مردوں کو دفنانے جاتے ہیں ۔زندہ لوگوں کا وہاں کیا کام۔
مجھے بھی کچھ دفنانا ہے نصرت ۔کچھ نہیں بہت کچھ دفنانا ہے مجھے ... اس نے کسی گہری سوچ سے باہر آتے ہوئے کہا
اسی اثناء میں دروازہ کھلا اور نبیلہ اندر داخل ہوئی۔
نبیلہ اور اس کی آنکھیں ملیں مگر وہ کچھ بولی نہیں . ایک لفظ ہمدردی کا بھی نہیں .
پرسوں تمہارا نکاح ہے ۔اس لیے مزید کو ئی ایسی حرکت نہ کرنا کہ ولی حامد تمہیں زندہ مار دے۔ ُ اس نے تمہاری زندگی بخش دی ہے ۔اسی کو غنیمت سمجھو۔اور یہ رہا تمھارا نکاح کا جوڑا .
زندگی بحش دی۔ ہاہاہاہاہا۔۔۔شکر کرو اس نے میری زندگی بخش دی ہے ورنہ میری موت تمھاری تباہی کی ذمہ دار ہوتی ۔نبیلہ میڈم ۔اور یہ بات مجھ سے بہتر تم جانتی ہو۔
اس سے پہلے نبیلہ بولتی وہ پھر سے اس سے مخاطب ہوئی۔
اور اس نکاح کے جوڑے کو لے جاؤ نبیلہ۔میں نکاح پر کسی کی ُ اترن نہیں پہنوں گی اور یہ بات ولی حامد کو بھی بتا دینا۔
نبیلہ نے خشمگیں نگاہوں سے اسے اور نصرت کو دیکھا جو نفرت سے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔وہ ہنکار بھرتی ہوئی کمرہ سے نکل گئی۔
نصرت ۔۔۔
جی باجی۔
یہ بات سب کو بتا دو کہ میرا نکا ح کا جوڑا سفید ہونا چاہیے سفید ۔اس میں کسی بھی رنگ کی تشبیہ نہ ہو . اور نکاح جس جگہ میں کہوں گی وہاں پڑھا جائے گا.
نصرت اس کی بات سن کر حیرت کے سمندر میں ڈوب گئی ۔بھلا کبھی کسی دلہن نے بھی سفید رنگ کا جوڑا پہنا ہے . اور دوسری شرط بھی عجیب تھی . مگر وہ کچھ بولی نہیں وہ صرف اس کو دیکھ رہی تھی جو الماری کی تلاشی لے رہی تھی نجانے ایسی کون سی چیز کی تلاش تھی کہ اس کو اپنے زخموں سے اُٹھنے والی ٹیسوں کی بھی پرواہ نہیں تھی ۔
*********************
جاری ہے

CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING



Comments