Mere yaqeen ka hasil novel by Ayesha Habib Episode 3

Mere yaqeen ka hasil novel by Ayesha Habib Episode 2

"میرے یقین کا حاصل"
از
"عائشہ حبیب"
قسط نمبر  ۳
شادی کا ہلہ گلہ اپنے عروج پر تھا . وہ اپنے کزنز کو مختلف گانوں پر ڈانس کرتے دیکھے رہی تھی . ُ دولھا میاں خود بھی جھوم جھوم کر ڈانس کر رہے تھے اور وہ جس کا یہ دن تھا وہ مہندی کا جوڑا پہنے ، ہاتھوں میں مہندی لگائے سب کو خوشیاں مناتے دیکھ رہی تھی مگر ُ اس کے خود کے چہرہ پر کوئی خوشی نظر نہیں آ رہی تھی . اگر وہ کچھ لمحوں کے لیے ُ مسکراتی بھی تھی نہ تو کوئی بھی ُ اس کی مسکراہٹ میں موجود پھیکا پن آسانی سے دیکھ سکتا تھا . پا کیزہ کو ُ اس پر ترس آ رہا تھا . نجانے کیا سوچتے ہوئے وہ اپنی جگہ سے ُ اٹھی اور جا کر عفت کے پاس بیٹھ گئی .
ارے واہ آپا آپ کی تو مہندی کا رنگ بہت گہرا ہے . ُ اس نے عفت کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیکر خوش ہوتے ہوئے کہا
عفت نے اپنے دونوں ہاتھوں کی طرف دیکھا ۔ رنگ کا کیا ہے پگلی . رنگ تو رنگ ہوتا ہے ُ اتر جاتا ہے . نجانے وہ کس سوچ میں تھی جو ُ اس کی بات کا اتنا گہرا جواب دیا
ہاں ُ اتر تو جاتا ہے مگر میں نے ُ سنا ہے کہ جس دلہن کے ہاتھوں پر مہندی کا گہرا رنگ آئے . ُ اس کا شوہر اس سے بہت پیار کرتا ہے .
اچھا تو جن کے ہاتھوں پر رنگ نہیں آتا کیا ُ ان کے شوہر ُ ان سے پیار نہیں کرتے .؟؟؟ عفت نے ُ الٹا ُ اسی سے سوال ُ پوچھا
پتہ نہیں مگر میں تو یہی سنتی آئی ہوں . ُ اس نے رفعت کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہا .
اچھا اسی لیے تم نے مہندی نہیں لگائی کہ کوئی یہ نہ اندازہ لگا لیں کہ پاکیزہ کا شوہر ُ اس سے کتنی محبت کرتا ہے . عفت نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا .
کیا آپا آپ بھی نہ ... ُ اس نے شرم سے لال ہوتے ہوئے کہا . آپ کو پتہ ہے میں مہندی کیوں نہیں لگاتی . جب یہ ُ اترتی ہے نہ تو مجھے بہت ُ الجھن ہوتی ہے

’’پیار بھی مہندی کے رنگ کی طرح ہوتا ہے پاکیزہ . شروع شروع میں گہرا بہت گہرا مگر پھریہی رنگ پھیکا پڑنا شروع ہو جاتا ہے اور جانتی ہو جب رنگ پھیکا پڑتا ہے تو کیا ہوتا ہے . تو اپنے ہی ہاتھوں سے الجھن ہونا شروع ہو جاتی ہے . اسی طرح جب محبت پھیکی پڑتی ہے تو انسان خود سے الجھ پڑ تا ہے ‘‘
مگر مجھے نہیں لگتا کہ آپ کی محبت کا رنگ کبھی پھیکا پڑے گا .دیکھے قاسم بھائی کو وہ کتنا خوش نظر آ رہے ہیں وہ جانتی تھی کہ جو وہ بول رہی وہ محض ایک قیاس آرائی ہے ُ اس کے سوا کچھ نہیں . عفت نے ایک نظر اسٹیج کی طرف دیکھا جہاں اس کا ہونے والا مجازی خدا ُ اس کی ہی کچھ کزنز کے ساتھ رقص میں مصروف تھا
قاسم خوش نظر آ نہیں رہا وہ خوش ہے . بھلا اس طرح کا مرد جو عیاشی کا دلداہ ہو جس کے نزدیک عورت جسم سے زیادہ اہمیت نہ رکھتی ہو . اس کو ان چھوئی لڑکی مل جائے . ُ اس کے لیے اس سے بڑھ کر فخر کی کیا بات ہو گی
عفت یک دم ُ اداس ہوئی تھی .
آپا آپ نے انکار کیوں نہیں کیا ؟؟
انکار تو تب کرتی نہ پاکیزہ جب مجھ سے ُ پوچھا جاتا . جب مجھ سے ُ پوچھا ہی نہیں گیا تو کیسا انکار کیسا اقرار . ُ اس نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا
وہ جانتی تھی وہ جو کہہ رہی ہے بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے . ُ اس کے پاس تسلی کے لیے الفاظ بھی نہیں تھے ۔ وہ یہ سب کچھ بچپن سے دیکھتی آ رہی تھی .

لڑکیوں کو اچھا کھلایا پلایا اور پہنایا جاتا ہے مگر ُ ان کو بولنے کی اجازت نہیں دی جا تی . ُ ان کی حثیت قربانی کے ُ اس جانور کی سی ہوتی ہے جس کی خوب دیکھ بھال کی جاتی ہے اور پھر ُ اس کو ذبح کر دیا جاتا ہے ۔ اس کے خاندان میں بھی یہی تھا کہ عورتوں کو قربانی کا جانور ہی سمجھا جاتا تھا بس فرق یہ تھا کہ یہاں ُ چھڑی گردن پر نہیں بلکہ خواہشوں ، جذبات اور ارمانوں پر چلائی جاتی ہے .

عفت آپی کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا . جائیداد اور برداری کو آڑ بناتے ہوئے ان کی شادی ایک انسان کے ساتھ کروائی جا رہی تھی جو انسان تو کیا شاید جانور کہلانے کے بھی حقدار نہیں تھا . ایسی کون سی ُ برائی تھی جو ُ اس میں موجود نہ تھی . جس کی ہر شام کھوٹے پر گزرتی ہو بھلا ُ اس کو عورت کی عزت یا جذبات کی کیا پرواہ ہو گئی .
وہ صرف دعا کر سکتی تھی یا افسوس اور ُ اس نے یہ دونوں کام اپنی تائی زاد بہن کے لیے کیے تھے .

کیا بات ہے کزن آج تو تم پہچانی نہیں جا رہی . یہ بولنے والا واجد تھا جو کب ُ اس کے پیچھے آ کر کھڑا ہوا . اس کو معلو م نہ ہوا . واجد نے باقی کزن کی موجودگی میں پاکیزہ کی طرف ہاتھ سلام لینے کے لیے بڑھایا .
پاکیزہ نے ایک نظر اپنی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ کی طرف دیکھا ۔اور دوسرے ہی پل وہ اس کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو نظرانداز کر کے وہ عفت سے کچھ کہہ کر ُ اٹھ گئی .
سب کزنز کے سامنے وہ اپنی اس بے عزتی پر کھول ُ اٹھا مگر پھر بھی ڈھیٹ پن کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اور اس بات کو لائٹ لیتے ہوئے وہ ایک مرتبہ پھر سے پاکیزہ سے مخاطب ہوا
کہا جا رہی ہو کزن ؟؟ کیا تمہیں میرا آنا اچھا نہیں لگا؟؟؟؟ ُ اس نے سامنے ٹیبل پر رکھی ہوئی مٹھائی میں سے گلاب جامن منہ میں ڈالتے ہوئے دوبارہ ُ پوچھا
وہ ُ اس کو اگنور کرنا چاہتی تھی مگر ُ اس کے دوبارہ سوال پوچھنے پر وہ اپنے اندر کے غصہ کو کنٹرول نہ کر سکی اور پلٹی
مجھے لگتا تھا کہ تمھاری نظر بالکل ٹھیک ہے اس لیے تم میرے چہرہ پر اپنے لیے بیزاری دیکھ لو گئے مگر چلو اب تمہیں نظر نہیں آیا تو تمہیں بتادیتی ہوں کہ ہاں مجھے تمھارا یہاں آنا اچھا نہیں لگا .
وہ ُ منہ پھٹ تو تھی اس بات کا اندازہ تو تھا واجد کو مگر وہ ُ یوں سب کے سامنے اس کی ذات پر چوٹ کرے گی اس بات کا اندازہ شاید واجد کو نہیں تھا . تبھی تو ُ اس کا چہرہ پاکیزہ کی بات پر سرخ ہوا تھا .
ُُباقی سب لوگوں کے لیے بھی اگرچہ پاکیزہ کا رویہ انوکھا نہیں تھا مگر حیران کن ضرور تھا . اس لیے سب آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارہ کر کے اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے .

پاکیزہ یہ کہہ کر ُ رکی نہیں بلکہ آگے بڑھ گئی ۔ واجد مراد کو یوں سب کے سامنے نیچا دکھا کر ُ اس کی ذات کو ایک عجیب سا سکون ملا تھا . ُ اسے واجد مراد سے ایک عجیب سی چڑھ تھی . یہ نہیں تھا کہ وہ اس خاندان کا واحد ہی ایسا سپوت تھا جو بگڑا ہوا تھا مگر واجد مراد کی حرکتوں کی وہ چشم دید گواہ تھی . اس لیے ُ اس دن کے واقعہ کے بعد ُ اس کی نفرت ُ اس کے لیے اور بڑھ گئی تھی اور اپنی نفرت کا اظہار کرنے میں وہ رتی بھر بھی دیر نہیں کرتی تھی .

وہ نزہت آپا کو ڈھونڈ رہی تھی جب وہ ُ اس کے پیچھے آیا . مگر اس مرتبہ اس کوحیرانگی نہیں ہوئی کیونکہ اُسے اس بات کی توقع تھی .

تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھے سب کے سامنے بے عزت کرنے کی کی ؟؟ اگرچہ ُ اس کی آواز پست تھی مگر ُ اس میں موجود غصہ کے عنصر کو وہ بخوبی دیکھ سکتی تھی .
میں نے کب تمھاری بے عزتی کی ۔ میں نے تو تمھاری بات کا جواب دیا تھا واجد . پاکیزہ نے اپنے چہرہ پر بیزاری کے تاثرات لاتے ہوئے کہا .اور اگر تم بات کا جواب دینے کو بے عزتی سمجھتے ہو تو یہ تمھاری سوچ ہے .
وہ یہ کہہ کر آگے بڑھنے لگی تھی جب واجد نے ُ اس کی کلائی پکڑی
تم حد سے بڑھ رہی ہو . اگر تم میری کزن نہ ہوتی تو پھر میں دیکھتا کہ کوئی عورت واجد مراد کو کیسے پلٹ کر جواب دیتی ہے .

’’واجد کلائی چھوڑو میری ورنہ میں نہ صرف پلٹ کر جواب دینا جانتی ہوں بلکہ ہاتھ ُ اٹھانے کا ہنر بھی بہت اچھے سے جانتی ہو . ‘‘‘

واجد کی آواز جتنی پست تھی ُ اس کی آواز ُ اتنی ہی بلند تھی . پاکیزہ کی آنکھیں آگ بسا رہی تھی . ُ اس نے آج تک اگر کسی لڑکی کا ہاتھ پکڑا تھا تو ُ اس کو گھبراتے ، ڈرتے یا منتیں کرتے دیکھا تھا مگر پاکیزہ وہ واحد لڑکی تھی کہ جس کی آنکھوں میں دور دور تک ڈر نہیں تھا اور ُ اسے لگا کہ اگر ُ اس نے ہاتھ نہ چھوڑا تو وہ اپنا ہنر آزما لیں گئی . اس لیے ُ اس نے ہاتھ چھوڑ دیا .
پاکیزہ نے ایک نظر اپنے چھوٹے ہوئے ہاتھ کی طرف دیکھا اور اگلے ہی پل ُ اس نے قہر بساتی نظروں سے واجد کی طرف دیکھا جو ُ اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا ۔
یہ مت سمجھنا کہ میں تمھاری دھمکی سے ڈر گیا . میں بس کوئی تماشہ نہیں
create کرنا چاہتا . میں عورتوں کو اپنے سامنے بولنے نہیں دیتا اس لیے اگلی مرتبہ اپنے لہجے اور اپنے آپ پر قابو رکھنا ورنہ تمھارے غرور کو میں خاک میں ملا دوں گا. واجد نے ُ اس کو انگلی ُ اٹھا کر تنبیہ کرتے ہوئے کہا
ہاہاہاہاہا ُ اس کی بات کو ہوا میں ُ اڑاتے ہوئے پاکیزہ نے قہقہ لگایا
تمھارا آج تک بکریوں سے ہی پالا پڑتا رہا ہو گا واجد کبھی کسی شیرنی کے ساتھ مقابلہ کرنا تو بہت دور تم نے سوچا بھی نہیں ہو گا . کسی دوسرے کے غرور کو خاک میں ملانے کے لیے انسان کی خود کی اوقات ہونی چاہے اور تمھاری اوقات عیاش مرد کے سوا کچھ نہیں . اس لیے اگلی مرتبہ میں نہیں تم اپنے آپ کو قابو میں رکھنا . یہی نہ ہو مجھے خاک میں ملانے کا سوچتے سوچتے تم خود خاک بن جاؤ ۔
وہ یہ کہہ کر ُ رکی نہیں آگے بڑھ گئی
واجد مراد اپنی بے عزتی پر دانت پیس کر رہ گیا . اب وہ پاکیزہ طاہر کی ذات کا غرور توڑ نے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا تھا اور
شاید ُ اس حد کو پاڑ کرنے پر ُ اس کو ذرا بھی ندامت محسوس نہ ہوتی . ُ اس نے اپنی پاکٹ سے اپنا سیل نکالا اور نمبر ڈائل کرنے لگا . پاکیزہ کو نیچے دکھانے کے لیے ُ اس کے پاس اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں تھا



وہ آج سب کو باہر ڈنر کے لیے لے کر جا رہا تھا . شازیہ خالہ کے بار بار کہنے پر ُ اسے خود بھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے زندگی میں کام کے علاوہ کوئی اور مصروفیت ہی نہیں رہ گئی .
اس لیے وہ اپنے کمرہ میں تیار ہو رہا تھا . جب ُ اس نے دروازہ پر ہلکی سی دستک ُ سنی . کام کرنے والی تو اس وقت ہوتی نہیں اور ماما کبھی کمرہ میں نوک کر کے داخل نہیں ہوئی . اس لیے ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کون ہو سکتا ہے کہ ُ اس نے افشاں کو اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا .
ذلقرنین نے ُ اس کو ایک نظر دیکھا اور پھر سے اپنی شرٹ کے بازو لگانے لگ گیا .

آپ مصروف تو نہیں تھے ؟؟؟
آپ کو کیا لگ رہا ہے ؟؟؟ ذلقرنین نے ُ الٹا ُ اس سے سوال پوچھا
well مجھے تو نہیں لگ رہا کہ آپ مصروف ہو . ُ اس نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا
وہ کیا ہے نا ماما کسی سے کال پر بات کر رہی ہے اور خالہ نماز پڑھ رہی ہے تو میں انتہا کی بور ہو رہی تھی اس لیے سوچا کہ چلو آپ کے ساتھ گپ شپ کر لیتی ہوں .(جبکہ حقیقت میں وہ اتنا تیار ہو کر صرف ذلقرنین کو متاثر کرنے آئی تھی اور ایسا کرنے کے لیے شازیہ نے ُ اس کو ہی بولا تھا )
اچھا . ُ اس کی اتنی لمبی چوڑی وضاحت پر وہ بس یہی کہہ سکا .
ایک بات ُ پوچھوں آپ سے ؟؟؟ وہ جو اس انتظار میں تھی کہ وہ خود ُ اس کی تعریف کرے گا ۔ ُ اس کا بے نیازی والا انداز دیکھ کر خود ُ پوچھ بیٹھی .
میں کیسی لگ رہی ہوں ؟؟؟
ذلقرنین نے ُ اس کے سوال پر عجیب سے تاثرات دئیے جیسے ُ اس نے کافی مضہکہ خیز سوال ُ پوچھا ہو ۔ ُ اس نے مرر سے ایک نظر ُ اس کو دیکھا اور دوبارہ سے بال بنانے میں مصروف ہو گیا .
صحیح لگ رہی ہوں ۔
ُُُاس کے لیے دئیے والے انداز پر وہ کھول کر رہ گئی . ُ اس نے سارا دن تیاری پر لگا دیا . اور یہ کہہ رہا ہے کہ صحیح لگ رہی ہوں . کوئی اور ُ اس کی جگہ ہوتا تو شاید اب تک ا فشاں پر دل ہار چکا ہوتا .
نہیں وہ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ میں نے کبھی ایسی کام والی ٖفراک یا جیولری نہیں پہنی نہ . میں زیادہ تر
westren styles کے کپڑے ہی پہنتی ہوں نہ . اسی لیے آپ سے ُ پو چھا
تو نہ پہنا کرو . جب آپ اپنے آپ کو
comfortable محسوس نہیں کرتی . ُ اس نے اپنے آپ کو فائنل ٹچ دیتے ہوئے کہا

ُُاس کا دل چاہا کہ وہ اپنا سر پیٹ لیں. ُ اس نے آج ماما کے کہنے
black رنگ کی ۵ فٹ لمبی فراک پہنی جس کے گلے اور دامن پر کام تھا .افشاں کو بال کھولنے سے ُ الجھن تھی مگر آج ُ اس نے وہ بھی کھولے تھے اور یہ بندہ بجائے دو لفظ تعریف کے بولنے کے کہہ رہا تھا کہ صحیح لگ رہی ہو . اگر اس کی جگہ ارحم ہوتا تو وہ اب تک اس کی شان میں زمین آسمان ایک کر ُ چکا ہوتا .

ویسے آپ کو نہیں لگتا آپ کنجوسی کے معاملے میں شیخوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہو . اس نے ناراض لہجے میں جواب دیا .
وہ جو ُ اس کو چلنے کا کہنے لگا تھا . ُ اس کی بات ُ سن کر حیران ہوا .
کنجوسی کیا مطلب ؟؟؟ وہ
actually میں ُ اس کی بات کا مطلب نہیں سمجھ سکا تھا . اس لیے ُ اس سے مخاطب ہوا
جی کنجوسی ........... افشاں نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا
میں اتنی اچھی لگ رہی ہوں . خالہ ، ماما اور حتی کہ انکل نے بھی میری تعریف کی مگر ایک آپ ہو کہ تعریف تو دور کی بات ہے مجھے یہ بھی نہیں کہا کہ میں اچھی لگ رہی ہوں . ُ اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا
میں نے کہا تو ہے کہ صحیح لگ رہی ہو . ذلقرنین نے ُ اس کی بات کا جواب دیا
ُُُاٖٖف کیا آپ نے کبھی کسی لڑکی کی تعریف نہیں کی . اس نے پھر سے منہ پھلایا تھا .
لڑکی کی تو کی ہے مگر کبھی کسی بچی کی نہیں کی ہے . ذلقرنیں نے ُ اس کی بات پر مسکراتے ہوئے کہا
ارے بھائی کیا ہو رہا ہے ۔ تم دونوں ابھی تک باہر نہیں آئے . ریحانہ نے کمرہ میں داخل ہوتے ہوئے کہا
چلنا نہیں ہے کیا ؟؟ اس نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
میں تو ریڈی ہوں مگر آپ کی بھانجی صاحبہ کو شاید کوئی کمی محسوس ہو رہی ہے تبھی مجھ سے ُ پوچھ رہی ہیں کہ میں کیسی لگ رہی ہوں .ذلقرنین نے ُ اس کو تنگ کرتے ہوئے کہا . مسکراہٹ ابھی بھی ہونٹوں پر موجود تھی .
ارے کہا ہے کوئی کمی ؟؟ میری بیٹی اتنی پیاری لگ رہی ہے کہ میں شازیہ سے ابھی کہہ رہی تھی کہ اٖفشاں کی نظر اتاروں گی آ کر .اللہ میری بچی کو ہر ُ بری نظر سے محفوظ رکھیں . ُ اس نے افشاں کو گلے لگاتے ہوئے کہا
سیکھیں کچھ ان سے . اس کو کہتے ہیں تعریف کرنا . اس نے اتراتے ہوئے کہا
اچھا جی . اس نے کندھے ُ اچکائے اور باہر نکل گیا .
کئی سالوں کے بعد آج وہ اپنی فیملی کے ساتھ ٹائم کو
enjoy کر رہا تھا ۔ ایسا نہیں تھا کہ اس نے زندگی سے منہ موڑ لیا ہو بس اس نے خود کو مصروف کر لیا تھا .
آج اس کو ُ یوں سب کے ساتھ ہنستا مسکراتا دیکھ کر ریحانہ بیگم خدا کا شکر ادا کرتی نہیں تھک رہی تھی . اس کو افشاں پر اور بھی پیار آ رہا تھا جو اس وقت بھی ذلقرنیں کے ساتھ نوک جوک میں لگی ہوئی تھی . ذلقرنیں کو دولہا بنے کی دیکھنے کی آرزو پھر سے ُ پورے زور سے بیدار ہونے لگی تھی.
گھر جانے کے بعد سب کو شدت سے چائے کی طلب ہوئی تو ریحانہ بیگم نے افشاں کو کہا کہ وہ ذلقرنیں کے کمرہ میں چائے دے آئے
جس وقت وہ چائے لیکر آئی وہ اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ لگا ہوا تھا .
یہ لیں آپ کی چائے . افشاں نے ٹیبل پر چائے رکھتے ہوئے کہا
شکریہ . اس نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور پھر سے لیپ ٹیپ کے ساتھ مصروف ہو گیا .
شکریہ تو مجھے آپ کا کرنا چاہیے جو آج آپ نے میری ٖفرمائش پر مجھے باہر ڈنر کروایا .
کوئی بات نہیں آپ ہماری مہماں ہو بلکہ میری کزن ہو تو اتنا تو چلتا ہے . ُ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
سنیں آپ کو ایک بات کہوں ؟؟
ذلقرنیں نے ُ اس کی طرف دیکھا ۔ جیسے کہہ رہا ہو بولو کیا کہنا چاہتی ہوں .
آپ کی مسکراہٹ بہت اچھی ہے . یا میں اگر یہ کہوں کہ آپ ُ مسکراتے ہوئے بہت اچھے لگتے ہیں تو غلط نہ ہو گا . اس لیے آپ ُ مسکراتے رہا کریں .
good night یہ کہہ کر وہ چلی گئی مگر ذلقرنین اس کے لفظوں پر جیسے چکرا ہی گیا
ُُاس کا عام سا تعریفی جملہ ذلقرنین کے زخموں پر نمک کی طرح لگا تھا
اس نے اپنے آپ کو کام میں دوبارہ مصروف کر لیا تاکہ ُ اس کا ذہن اس کے ماضی کی کسی یاد کے شکنجہ میں نہ آ سکیں
جس یاد سے وہ بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا . رات تکیہ پر سر رکھتے ہی وہ ُ پوری طرح اس پر حاوی ہو چکی تھی .


ُُسنو پاکیزہ وہ لائبریری میں بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی ۔ جب حادی کی آواز پر اس نے سر ُ اٹھا کر اس کو دیکھا
black شلوار قمیض میں وہ بہت پیارا لگ رہا تھا اور ُ اس کی dark brown آنکھیں جن میں پاکیزہ کو اپنا ہی عکس دکھائی دے رہا تھا .
آج ایک عجیب سا طلسم رکھتی تھی . کون کہتا ہے کہ وہ پیارا نہیں ہے . اس سے پہلے کہ وہ اور بے خود ہوتی . ُ اس نے اپنی نگاہیں دوسری طرف کر لی .

کیا بات ہے پہلے تو مجھے دیکھا جا رہا تھا مگر اب جب تمھارے سامنے بیٹھی ہوں تو آپ نے اپنی نگاہیں کرم ہم سے ہٹا لی ہے .ذلقرنین نے شوخ ہوتے ہوئے کہا
actually جب تم یہاں بیٹھنے لگے تو میں سوچ رہی تھی کہ لوگ کیا سوچیں گئے کہ لڑکی اتنی personalited اور پیاری ہے .
اور لڑکا..................... ُ اس نے شرارتی انداز میں کہتے ہوئے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا .
اور لڑکا کیا ؟؟؟؟؟ ذلقرنین نے ُ اسی کے انداز کو اپناتے ہوئے پوچھا
ُاٹھو اور وہ وہاں مرر لگا ہے ُ اس میں دیکھو کہ لڑکا کیسا ہے ؟؟؟ پاکیزہ نے ُ اس کو مرر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاں . انداز ابھی بھی تنگ کرنے والا تھا .
اچھا مگر ایک شرط پر دیکھوں گا مرر . ذلقرنین نے ُ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا
کیسی شرط ؟؟؟ پاکیزہ نے ُ اس سے پوچھا
میں مرر میں اپنا آپ تب دیکھوں گی جب آپ میڈم میرے ساتھ مرر کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔ ذلقرنیں کا جواب ُ اس کو نظر جھکانے پر مجبور کر گیا .
میں بھی تو دیکھنا چاہتا ہوں کہ میرا عکس مرر میں زیادہ اچھا لگتا ہے یا پاکیزہ طاہر کی آنکھوں میں . ُ اس نے شوخ ہوتے ہوئے کہا
تم زیادہ شاعر نہیں ہوتے جا رہے دن بدن .
کیا کریں جب سے آپ سے محبت کی ہے . شعروشاعری سے پالا پڑ گیا ہے ورنہ وہ کیا غالب نے کہا ہے
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

oh my GOD تم تو سچ میں نکمے ہو گئے ہو . پا کیزہ نے ُ اس کے شعر پر ہنستے ہوئے کہا
well مسٹر غالب آپ مجھے یہ بتانا پسند کریں گئے کہ آپ اس وقت یہاں کیا کر رہے ہیں ؟؟؟
او ہاں یہ تو میں بتانا ُ بھول ہی گیا کہ میں ملکہ عالیہ کے سامنے کیوں بیٹھا ُ ہوں . ُ اس نے بولے پن کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا
جی بالکل . ُ اس کی بات پر پاکیزہ نے اتراتے ہوئے کہا اور ایک ادائے بے نیازی سے بولی کہ آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ ملکہ عالیہ کا وقت کتنا قمیتی اور خاص ہے .
ذلقرنین کے لبوں کو مسکراہٹ چھو گئی . وہ قہقہ لگا کر ہنسنا چاہتا تھا مگر وہ جہاں بیٹھے ہوئے تھے وہاں یہ حرکت خاصی معیوب سمجھی جاتی ہے .
ُاس کے مسکرانے پر پاکیزہ کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی تھی . نجانے اس کو ہنستا دیکھ کر ُ اسے ہر طرف بہار کیوں محسوس ہوتی تھی .
تو ملکہ عالیہ آپ کی ریاست کا یہ عام سا بندہ جو دل و جان سے آپ پر فدا ہے . وہ یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ جیسے کہ آپ کو معلوم ہے کہ اگلے ہفتہ آپ کی سالگرہ آ رہی ہے تو یہ عام سا بندہ آپ سے یہ ُ پو چھنے آیا ہے کہ آپ اپنی سالگرہ پر کیا گفٹ لینا پسند
کرے گی اس بندہ نا چیز سے .
well آپ کی درخواست پر غور کیا جائے گا مگر ُ اس بندہ نا چیز کو ایک بات کہہ دیں کہ وہ عام سا بندہ نہیں ہے . ملکہ ُ اس پر نظر رکھتی ہے اور جس پر ملکہ کی نظر ہو . وہ عام نہیں بہت خاص ہوتا ہے .(اس کا خود کو عام کہنا پاکیزہ کو اچھا نہیں لگا تھا )
ذلقرنیں نے ُ اس کی طرف حیران ہوتے ہوئے دیکھا
یقین مانو مجھے تو یقین ہی نہیں ہو رہا کہ یہ تم بات کر رہی ہو .
اچھا جی
ہاں جی ۔ کیونکہ مجھ پر آپ کی نظر کرم کبھی کبھی ہی ہوتی ہے .
پاکیزہ ُ اس کی بات پر مسکرا کر رہ گئی .
بتاؤں بھی پاکیزہ کیا گفٹ لو گئی .
مجھے ضرورت نہیں ہے حادی .
اچھا وہ تو ٹھیک ہے بابا مگر میں چاہتا ہوں تم مجھ سے کچھ ضد کر کے مانگو . تم مجھ سے کوئی فرمائش کرو . کچھ حق سے مانگو .
حق سے مانگو . ُ اس نے اس جملہ کو زیر لب دہرایا
حق سے مانگناکیا ہوتا ہے ؟؟؟ ُ اس نے اسی کی بات میں سے ُ اس کے لیے سوال نکال لیا تھا

’’ملکہ عالیہ حق سے مانگنے کا مطلب ہوتا ہے مان ہونا ، غرور ہونا ، اندھا یقین ہونا ُ اس شخص پر کہ وہ آپ کو انکار نہیں کر سکتا . آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ کوئی آپ کی بات ماننے والا ہے ، کوئی آپ کی خواہش پوری کرنے والا ہے . ہر انسان اپنی خواہش خود ُ پوری کر سکتا ہے مگر وہ خواہش ، وہ مان جو کوئی اپنا پوری کر دے ۔ آپ کو وہ فخر دیتا ہے کہ آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ اس پوری کائنات میں ایک شخص تو ہے نہ جس پر آپ اپنا حق جتا سکتے ہو اور اپنے دل کی بات منوا سکتے ہو اور جس کی زندگی میں ایسا کوئی اپنا ہو تو وہ بہت لکی ہوتا ہے ‘‘‘
تو کیا میں لکی ُ ہوں ؟؟؟؟
ٓآزما کر دیکھ لو . ذلقرنیں کی بات میں ہی نہیں آنکھوں میں بھی ُ اس کو سچائی کا عکس نظر آ رہا تھا
تو پھر مجھے ُ اس وقت کا انتظار رہے گا حادی جب میں تم سے کچھ حق کے ساتھ مانگوں گی .
مگر اب کے لیے تو کچھ مانگوں نہ مجھے اچھا لگے گا . ُ اس نے مسکراتے ہوئے دوبارہ اپنا مطالبہ سامنا رکھا تھا
ُُُسنو حادی اگر تم مجھے کچھ دینا ہی چاہتے ہو تو ہمیشہ کے لیے اپنی مسکراہٹ دے دو . تمہیں میں آج تک نہیں کہہ سکی مگر اب کہتی ہوں کہ مجھے تمھاری مسکراہٹ بہت اچھی لگتی ہے اور میں زندگی بھر اس مسکراہٹ کے ساتھ دیکھنا چاہتی ہوں .
وہ یہ کہہ کر ُ رکی نہیں بلکہ لائبریری سے چلی گئی تھی اور شاید ذلقرنین کی زندگی سے بھی
ایک آنسو کا قطرہ تھا جو ذلقرنین کی آنکھ سے نکل کر تکیہ میں جذب ہو گیا تھا . یہ ُ اس کے ُ اس قرب یا اذیت کا گواہ تھا جس سے وہ اس وقت لڑ رہا تھا .
وہ ُ اٹھا اور کھڑکی کے پاس چلا گیا . کھڑکی کے پار ُ اس پار اندھیرا تھا بالکل ویسا ہی اندھیرا جیسا ُ اس دن ُ اس کی زندگی میں چھا گیا تھا جب
ُُاس نے پاکیزہ کو کسی دوسرے مرد کے کندھے پر سر رکھا دیکھا تھا ۔
اب بھی وہ منظر ُ اس کی آنکھوں کے گرد گھوم گیا تھا .
کاش پاکیزہ طاہر کاش میں نے تم سے محبت نہ کی ہوتی صرف وقت پاس کیا ہوتا تو آج میں اس عذاب سے نہ گزرتا .
کاش میں وقت کو واپس لے کر آ سکتا ..... ُ اس نے غصہ سے دیوار کو
hit کیا .
غالبا ُ اس کی نظر موبائل پر پڑی .
ُُاس نے موبائل ُ اٹھایا اور نمبر ڈائل کر کے کان کو لگا لیا .
دوسری طرف سے نسوانی آواز ُ ابھری .
ُمگر تھوڑی ہی دیر بعد ُ اس کا دل اچاٹ ہو گیا اور اس نے خدا حافظ بولے بغیر کال ڈسکنکٹ کر دی بالکل یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اگلے بندہ کا اس پر کیا ہو گا .

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ہم محبت کے معاملے میں کسی کی
second choice ہوتے ہیں . ہم لاکھ اچھے سہی ، لاکھ sincere سہی مگر ساری زندگی ہمارا مقابلہ first choice سے ختم نہیں ہوتا . کیونکہ ہم ُ اس کی محبت نہیں ہوتے ۔ُ اس کے لیے ہم ُ اس کا stress release کرنے یا ٹائم پاس سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتے . ایسے شخص کے پاس محبت کے نام پر کوئی جذبہ دینے کے لیے ہی نہیں ہوتا
اور محبت کا یہ ُ اصول ہے کہ یہ بار بار نہیں ہوتی ہاں مگر دل لگی ہزار بار ہو سکتی ہے .کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی کی
second choice بھی نہیں ہوتے . اس لیے زندگی میں کبھی کسی کی چوائس نہیں بننا چاہیے ۔ .بنو تو محبت ورنہ ساری زندگی یقین
دلاتے تھک جاؤں گئے .
اور ذلقرنین بھی یہی کر رہا تھا کسی کو چوائس بنا رہا تھا کیونکہ محبت کا جذبہ تو کسی اور کے نام کر چکا تھا



اس نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی تھی وہاں دولت کی ریل پیل تھی . وہ دو لڑکوں کے بعد پیدا ہوئی تھی مگر پھر بھی اس کی پیدائش پر کوئی خاص خوش نہیں تھا . حویلی نما گھر جس میں دنیا کی ہر آسائش موجود تھی اس کے لیے سونے کے پنجرہ سے زیادہ حثیت نہیں رکھتی تھی . اس کی ماں ہر وقت سنجی سنوری رہتی مگر نجانے کیوں جس وقت اس کا باپ گھر آتا . اس کی حثیت گھر کی ملازموں کی طرح ہو جاتی . بس فرق اتنا تھا کہ ملازم زمیں پر بیٹھ کر ہاں میں ہاں ملاتے اور اس کی ماں باپ کے برابر بیٹھ کر اس کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملاتی .
ماں تو ماں ہوتی ہے جس کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے مگر ُ اس کے حصہ میں شاید آدھی ماں اور آدھی جنت آئی تھی . ماں اس سے محبت تو شاید کرتی ہو گی مگر اس محبت میں وہ شدت نہ تھی جو بھائیوں کے ساتھ محبت میں تھی . وہ اگر کبھی کبھی رو پڑتی تو بجائے ماں کے ملازمہ ُ اس کو چپ کرواتی .
اگر اس کو کبھی بھائی مارتا یا تنگ کرتا تو وہ شکایت لیکر جب اماں کے پاس جاتی تو وہ یہی کہتی چلو کوئی بات نہیں تمھارے بڑے بھائی ہے اگر وہ تم کو مار بھی لیتے ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں
اس سب نے ُ اس کو حساس نہیں بہت زیادہ حساس بنا دیا تھا اور بچپن کی اس کمی نے اس کے اندر احساس کمتری کے طور پر جنم لیا تھا
وہ جب رشیدہ خالہ کو دیکھتی کہ وہ کیسے اپنی نزہت سے دل وجان سے محبت کرتی ہے تو اس کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوتی کہ کاش رشیدہ خالہ اس کی ماں ہوتی . اور اس نے اس اپنی خواہش کا ذکر بھی کیا تھا ُ ان سے
رشیدہ کچن میں دلیہ پکا رہی تھی جب وہ کچن میں داخل ہوئی .
وہ پانی پی رہی تھی جب اس نے رشیدہ خالہ کو کسی سوچ میں ڈوبے دیکھا
کیا بات ہے رشیدہ خالہ آج آپ تھکی تھکی لگ رہی ہے اور پر یشان بھی . اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی پوچھ لیا
ہاں ُ پتر بس نزہت کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔کل ساری رات بخار میں رہی ہے .
آپ نے ُ اسے دوا لیکر دی کیا؟؟
ہاں ُ پتر میں ڈاکٹر صاحب کو لے کر گئی سی . میں نے ساری رات پٹیاں بھی کی ُ اس کے . پھر جا کر بخار کم ہوا ہے مگر میرے دل کو


سکوں نہیں مل رہا ُ پتر . میں ُ اس کو ایسے ہی بیماری کی حالت میں چھوڑ کر آ گئی ہوں
وہ خالہ کی بات سن کر عجیب سی کیفیت میں آگئی تھی . اسے یاد آ رہا تھا کہ ایک مرتبہ اس کو بھی بخار ہوا تھا مگر اس کی ماں صرف تھوڑی دیر کے لیے اس کے پاس بیٹھی اور ملازمہ اس کا خیال رکھنے کی ہدایت دے کر وہ کمرہ میں چلی گئی . تب اس کو لگتا تھا کہ بخار میں صرف دوائی ہی کام آتی ہے مگر آج اسے پتہ چلا تھا کہ دوا کہ علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے جو اہمیت رکھتا ہے .
اس کو یوں حیران دیکھ کر خالہ نے خود ہی ُ پوچھ لیا
تمہیں کیا ہوا ہے پتر ؟؟؟ تم کن خیالوں میں کھو گئی
آپ ساری رات نزہت کے پاس رہی خالہ ؟؟؟
تو اور کیا ُ پتر ۔ جب ُ اسے بخار ہو جاتا ہے نہ تو وہ بڑی ضدی بن جاتی ہے . اماں اماں کی ُ اس کی رٹ ہی ختم نہیں ہوتی .رشیدہ آپا نے ہنستے ہوئے بتایا
اس کے چہرہ پر بھی ایک پھیکی سی مسکراہٹ آئی تھی مگر ُ اس کے دل کو کچھ ہوا تھا . کسی کاش نے اس کے دل میں انگڑائی لی تھی مگر اس نے اپنے دل کی طرف توجہ نہ دی .
آپ یہ دلیہ بھی ُ اس کے لیے بنا رہی ہے ؟؟
ہاں ُ پتر ڈاکٹر نے کہا ہے ُ اس کو کچھ ہلکا پھلکا کھانے کو دو . اس لیے میں بیگم صاحبہ سے ُ پوچھ کر اس کے لیے دلیہ بنا رہی ہو ں . میں غریب بچاری کہاں سے دلیہ لے سکتی ہوں . رشیدہ نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا
ُآپ نزہت سے کتنا پیار کرتی ہے نا خالہ ۔ اس کے لہجے میں ایک حسرت تھی جو کوئی بھی محسوس کر سکتا تھا
لیں بھلا یہ کیا بات ہوئی . دھی ہے میری . میں نہیں پیار کروں گی تو اور کون کرے گا ۔ اور ُ پتر ماؤں کے دل تو اپنی اولادوں کے لیے ہی ہوتے ہیں .
کیا سب ماؤں کے دل ایسے ہی ہوتے ہیں ؟؟؟
ہاں ُ پتر سب ماؤں کے دل ایسے ہی ہوتے ہیں . رب سوہنے نے ماں کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے پناہ محبت رکھی ہے .اسی لیے تو ادھر اولاد کو کچھ ہوا نہیں اور ادھر ماں کا دل تڑپنے لگ جاتا ہے .
مگر میری ماں کا دل تو ایسا نہیں . اس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا
کچھ کہا کیا ُ تو نے پتر ؟؟؟ رشیدہ نے ُ اس کی بڑبڑاہٹ ُ سن لی تھی اسی لیے ُ اس نے ُ اس سے پوچھا
میں کہہ رہی تھی کاش میں بھی آپ کی بیٹی ہوتی اور آپ مجھ سے بھی ُ اتنا ہی پیار کرتی . ُ اس نے مسکراتے ہوئے کہا
لیں جھلی نہ ہو . کس طرح کی باتیں کر رہی ہیں . رشیدہ خالہ نے ہنستے ہوئے کہا
ویسے ُ پتر تو مجھے نزہت کی طرح ہی عزیز ہے . بڑی پیاری بچی ہے ُ تو . رشیدہ نے ُ اس کو پیار کرتے ہوئے کہا
اب ُ تو مجھے مزید باتوں میں نہ لگا یہی نہ ہو کہ میرا دلیہ نیچے لگ جائیں اور بعد میں مجھے بیگم صاحبہ سے باتیں ُ سننا پڑے .
خالہ آپ مجھے بھی دلیہ دے گئی ؟؟ اس نے رشیدہ سے ُ پوچھا
کیوں نہیں ُ پتر ۔ ُ تو اپنے کمرہ میں جا ۔ جیسے ہی یہ پکتا ہے میں ٹھندا کر کے تیرے لیے لیکر آتی ہوں .
وہ باہر آکر صحن میں جھولا جھولنے لگ گئی .
آج تو نزہت بھی نہیں تھی جس کے ساتھ وہ کھیل لیتی .



وہ عمر کے دسویں سال میں تھی .لیکن عام لڑکیوں کی نسبت وہ بہت احساس اور شاید احساس کمتری کا بھی شکار تھی . کوئی اونچی آواز میں بات بھی کرتا تو وہ ڈر جاتی تھی . بے جا روک ٹوک نے ُ اس کے اندر ایک محرومی کو جنم دے دیا تھا . اس وقت بھی نجانے وہ کن خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی جب ُ اس نے ایک لیڈی ڈاکٹر کو گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا ۔
ُُاس کے معصوم ذہن میں سوال ُ ابھرا کہ اب کون بیمار ہوا ہے ؟؟
اس سے پہلے وہ سوال کرتی اس نے رشیدہ خالہ کو ڈاکٹر صاحبہ کو گھر کے اندر لے جاتے ہوئے دیکھا ۔ وہ بھاگ کر اندر گئی مگر ڈاکٹر راشدہ بیگم کے کمرہ میں داخل ہو ئی اور کمرہ کا دروازہ بند ہو گیا .
وہ وہی لاؤنج میں صوفہ پر بیٹھ گئی . راشدہ بیگم کے کمرہ میں ڈاکٹر کے جانے سے وہ اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ اس کی اماں بیمار ہے مگر وہ حیران اس بات پر ہو رہی تھی کہ اس نے ابھی تھوڑی دیر پہلے تو اماں کو فون پر کسی سے ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھا تو وہ بیمار کیسے ہو گئی اچانک .
تھوڑی دیر بعد ُ اس نے کمرہ کا دروازہ کھلتے دیکھا اور ڈاکٹر کو اماں کے ساتھ باہر آتے دیکھا . ڈاکٹر اماں سے ہنس ہنس کر کچھ کہہ رہی تھی .
بس باجی اس مرتبہ اللہ کا کرم ہوا تو آپ کا بیٹا ہی ہو گا . مگر اس خوشی میں مجھے خوش کرنا مت بھولنا باجی .
کیسی باتیں کر رہی ہو کلثوم ۔ تم بس دعا کرو اللہ مجھے بیٹے کی نعمت سے نوازیں تو تمہیں مجھے کہنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی . راشدہ بیگم نے ُ مسکراتے ہوئے جواب دیا
ُُاس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو وہ سیدھا راشدہ بیگم کے پاس گئی
اماں آپ کو کیا ہوا تھا ؟؟ اور ڈاکٹر انٹی یہاں کیا کر رہی ہیں ؟؟ ُ اس نے کلشوم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو ُ اسی کو دیکھ رہی تھی .
میں آپ کو ایک چھوٹا سا پیارا سا بھائی دینے آئی ہوں منزہ . جواب راشدہ کی بجائے ڈاکٹر کلثوم نے دیا تھا .
ُ اس نے ڈاکٹر کلثوم کی طرف دیکھا اور بولی
ڈاکٹر انٹی مجھے بھائی نہیں چاہیے ۔ آپ مجھے ایک چھوٹی سی بہن لا دو جس کے ساتھ میں کھیل سکوں . بھائی لوگ تو مجھے تنگ کرتے ہیں
وہ میرے ساتھ نہیں کھیلتے . آپ پلیز مجھے ایک بہن لا دو ۔
ڈاکٹر کلثوم نے راشدہ بیگم کی طرف دیکھا جو کھا جانے والی نظروں سے منزہ کو ہی دیکھ رہی تھی .
رشیدہ ، اؤے رشیدہ بات سنوں ۔ رشیدہ جو کچن میں کام کر رہی تھی بیگم صاحبہ کی آواز پر بھاگم بھاگ آئی کہ پتہ نہیں ُ اس سے ایسی کیا غلطی ہو گئی جو بیگم صاحبہ ُ اس کو یوں غصہ میں آواز دے رہی ہے .
کیا ہوا بیگم صاحبہ .
لے کر جاؤ اس کو کمرہ میں . کچھ بھی منہ میں آئے بول دیتی ہے . پتہ نہیں کوں سا وقت قبولیت کا ہوتا ہے . اللہ نہ کرے مجھے دوبارہ بیٹی کی شکل میں اولاد ہو ۔
’’ کتنی بیوقوف ہوتی ہے عورت بیٹے کو جنم دے کر خود کو طاقتور سمجھتی ہے اور اپنی ہی جیسی عورت کو جنم دے کر خود کو بے بس ، مجبور
اور لاچار سمجھتی ہے حالانکہ دونوں کی پیدائش پر ایک جیسی تکلیف برداشت کرتی ہے . عورت کو طاقتور بیٹا یا بیٹی نہیں ُ اس کی تر بیت بناتی ہے اور بہت سی عورتیں بیٹوں کی تربیت کرنا بھول جاتی ہے کیونکہ ُ ان کا سارا زوا اپنی جیسی ہی عورت پر ہوتا . اور ایسی ہی طاقتور مائیں کبھی اولڈ ہاؤس میں تو کبھی سڑکوں پر بھیک مانگتی نطر آتی ہے ۔ ‘‘‘
راشدہ کی گرج برس سے وہ ہل کر رہ گئی ۔ ُ اس کی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئی.


رشیدہ ُ اس کو کمرہ میں لے آئی .
وہ ابھی بھی رو رہی تھی مگر ُ اس کے آنسو خاموش تھے بلکل کمرہ کی خاموشی کی طرح .
ُپتر ایسی باتیں نہیں کرتے . بھائی تو اللہ کی نعمت ہوتے ہیں ۔ رشیدہ نے ُ اس کو سمجھاتے ہوئے کہا
مگر وہ میرے ساتھ کھیلتے نہیں ہیں . بلکہ مجھے مارتے ہیں . اماں بھی ُ ان کو مجھ سے زیادہ پیار کرتی ہے . اگر ایک اور بھائی آ گیا تو وہ بھی میرے ساتھ یہی کرے گا . میں کس کے ساتھ کھیلوں گی ؟؟؟ اس لیے مجھے بھائی نہیں بہن چاہیے .
رشیدہ سب جانتی تھی مگر اس وقت ُ اس کو وہ کچھ سمجھا نہیں سکتی تھی . اس لیے ُ اس سے بولی
تم اپنا دل چھوٹا نہ کر اپنی نزہت ہے نا ُ تو اس سے کھیلا کر .

وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ گزر ہی جاتا ہے ۔ کسی کے لیے تکلیف دہ بن کر اور کسی کے لیے خوشیوں کا پیغام بن کر .
منزہ کے لیے بھی وقت گزر رہا تھا مگر کیسا وقت گزر رہا تھا ُ اسے اس بات سے لینا دینا نہیں تھا . کیونکہ وہ خواہشیں مار چکی تھی اور وقت کے ساتھ سمجھو تہ کر چکی تھی .
وقت کے ساتھ گھر کے ماحول میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ وہی گالی گلوچ ، وہی مار پیٹ جو اس طرح کے گھرانوں میں ضروریات زندگی کی طرح ضروری سمجھی جاتی ہے مگر راشدہ بیگم کا رعب ودبدبہ کم ہو گیا تھا پہلے سے . اس کا بس صرف گھر کے ملازموں یا منزہ پر چلتا تھا . باقی جن بیٹوں کی پیدائش پر وہ خود کو طاقتور سمجھتی تھی . ُ ان کے پاس اتنا بھی ٹائم نہیں تھا کہ وہ دو گھڑی ُ اس کے پاس بیٹھ سکے .
وہ زندگی کے
۸۱ سال میں تھی . جب ُ اس کو زندگی سے یک دم بہت پیار ہو گیا . ُ اس کو زندگی تمام رنگوں کے ساتھ محسوس ہونے لگی .
نزہت جو صرف ُ اس سے تین سال چھوٹی تھی اور سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتی تھی ُ اس کو بھی منزہ کی ذات میں آنے والی اس تبدیلی کی وجہ معلوم نہ ہو سکی .
منزہ کو لگتا تھا کہ ُ اس کی سب دعا ئیں رنگ لیں آئی ہیں مگر وہ شاید یہ بھول گئی تھی کہ محرومی ُ اس کی ذات کا حصہ ہے ۔ کوئی ُ اس کی محرومی سے فائدہ تو ُ اٹھا سکتا ہے مگر ُ اس کی محرومی کو دور نہیں کر سکتا ۔ چور راستوں پر اکثر ُ لٹیرے اور بہروپیے ہی بیٹھے ہوتے ہیں
ہمدرد اور غمخوار نہیں . مگر جب ُ اسے اس بات کی سمجھ آئی تب تک بہت دیر چکی تھی وہ سب کچھ کھو ُ چکی تھی ۔
***********************
باقی اگلے ماہ


CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING



Comments