Mere yaqeen ka hasil novel by Ayesha Habib Episode 1

Mere yaqeen ka hasil novel by Ayesha Habib Episode 1

"میرے یقین کا حاصل"
از
"عائشہ حبیب"
قسط نمبر 1
سی وی پر لکھے نام کو دیکھ کر ذلقرنین حیدر کو ایک پل کے لیے یوں محسوس ہوا جیسے دنیا رک گئ ہو.پاکیزہ طاہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے نام کو کئ مر تبہ پڑھا اور گلاس ونڈو کے پار بیٹھی ہو ئ لڑکی کو دیکھا مگر نام کی مماثلت چہرہ ایک نہ کر سکی.اس لڑکی کے چہرہ
پر واضح کشمکش موجود تھی کہ اس کی سی وی اس کو انٹرویو کا اہل بنا تی ہے یا نہیں مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا نام کسی کے لیے 
کرب کا با عث بنے گا . کسی کو ماضی کی ان یادوں میں پھینک دے گا جو تکلیف کے سوا کچھ نہیں۔ایک آواز نے اس کو اپنے سحر میں
جھکڑا.
حادی جتنی محبت کا دعوی تم مجھ سے کرتے ہو،اگر کبھی میں تمھاری زندگی سے چلی گئ تو کیا اتنی ہی محبت کا دعوی کسی اور سے بھی 
کرو گے؟؟؟؟؟؟
ہاں بالکل ................تم نے وہ بات نہیں سنی کہ عورت کی الماری میں نیو ڈریس کی اور مرد کے دل میں دوسری عورت کے لیے ہمیشہ جگہ 
رہتی ہے . حادی نے اس کو آنکھ مارتے ہوئے کہا. اس کا جواب سن کر وہ مسکرا دی تھی.
مگر میں جا نتی ہو ں مسٹر حادی تمھاری زندگی میں عورت تو دوسری آ سکتی ہے مگر تم اس کو پاکیزہ طاہر کی جگہ کبھی بھی نہیں دے سکو گے
اتنا یقین ہے کیا مجھ پر؟؟؟؟؟حادی نے اس کے چہرے کو نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے پوچھا.
تم پر نہیں...... خود پر اور اپنی محبت پر یقین ہے حادی صاحب ، قسمت پر کسی کا بس نہیں چلتا. اگر میں تمھاری زندگی سے چلی بھی گئی تو 
بھی میری محبت تمھا رے ساتھ رہے گی جو کبھی بھی تمہیں مکمل طور پر کسی اور کا ہونے نہیں دے گی

ایک کھلکھلاتی ہوئی ہنسی ذلقرنین حیدر کے کا نوں میں گونجی تھی. ایک ہنستا ہوا چہرہ اس کی نظروں کی قید میں آیا تھا مگر یہ ہنستا ہوا چہرہ اس 
کے چہرہ کی سنجیدگی کو بڑھا گیا تھا. نجا نے یہ سنجیدگی تھی یا وہ کرب جس سے پچھلے پانچ سالوں سے وہ لڑ رہا تھا..
ان پانچ سالوں میں بہت کچھ تبدیل ہوا تھا اگر وقت کچھ تبدیل نہیں کر سکا تو وہ پاکیزہ طاہر کی محبت کو تبدیل نہیں کر سکا.

نجانے وہ کتنی دیر تک ما ضی میں رہتا اگر مسلسل بجنے والی موبائل کی رنگ ٹون نے اس کی توجہ اپنی طرف نہ کھینچی ہوتی. سکرین پر جگمگاتے
ہوئے نمبر کو دیکھ کر اس نے یس کا بٹن دبایا.
السلام علیکم ماما................
وعلیکم السلام...

وہ آفس سے نکل رہا تھا جب سیکٹری نے اس کو لڑکی کے متعلق یاد کرو ایا جو کہ اپنی با ری کا انتظا ر کر رہی تھی۔ذولقرنین نے اس کو سر سے پاؤں ایک نظر دیکھا اور پھر یہ کہ کر افس سے نکل گیا کہ آپ ان سے معذرت کر لیں ۔ہم ان کو جاب نہیں دے سکتے..وہ اس کی اھل نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیکٹری ذولقرنین کے اس رویہ پر خود بھی حیران تھی مگر جب اس نے یہ بات پاکیزہ کو کہی تو وہ ہتھے سے ہی اکھڑ گئی۔
کیو ں نہیں ہوں میں اس جاب کے قابل؟؟ میری qualification آپ کی requirement کے مطابق ہے۔مجھے تجربہ بھی ہے کام کا. مگر آپ لوگوں نے انٹرویو لیے بغیر مجھے ریجکٹ کر دیا. اگر reject ہی کرنا تھا تو اتنی دیر انتظار کیوں کروایا؟؟؟؟؟

میم دیکھیے یہ تو سر کو پتہ ہو گا کہ انہوں نے آپ کو کیوں ریجکٹ کیا ہے؟؟ مگر آپ پلیز یہاں شور مت کریں.باقی لوگ بھی ڈسٹرب
ہو رہے ہیں۔۔
کوئی سفارشی کال آگئی ہو گی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟؟؟؟ کہتے سب یہی ہیں کہ ہم میرٹ کو پرموٹ کرتے ہیں مگر ہر جگہ nepotism کا راج ہے۔
میم پلیز.....................سکیٹری نے ایک مرتبہ اس کو پھر سے ُ پرسکون ہونے کے لیے کہا۔
اپنی سی وی اٹھا تے ہوئے ُ اس کی نظر اپنے نام کے ارد گرد لگے ُ ہوے سرکل پر پڑی ۔اس سے پہلے وہ اس پر غور کرتی ۔اس نے کھا جانے والی نظر سے سیکٹری کو دیکھا، مگر اس مرتبہ کچھ کہ بغیر آفس سے نکل گئی۔

آج اس کو یو نیوڑسٹی سے نکلتے دیر ہو گئی تھی جس کی وجہ سے اس کی بس بھی چھو ٹ گئی۔اس لیے اس نے آٹو (auto) لیکر گھر جانے
کا فیصلہ کیا مگر اس کی قسمت کے اس کو کوئی آ ٹو والا بھی نہیں مل رہا تھا تو اس نے پیدل ہی چلنا شروع کر دیا۔
یک دم اس کو اپنے سر پر سایہ محسوس ہوا . اس نے نظر گھما کر دیکھا تو ذولقرنین حیدر کو چھتری پکڑے دیکھا۔
تم میرا پیچھا کر رہے تھے؟؟؟؟ لڑکیوں کا پیچھا کرنا کب سے شروع کر دیا؟؟؟؟؟
میں پیچھا نہیں تمھاری حفاظت کر رہا تھا؟؟
حادی کا جواب سن کر اس کے چہرہ پر نا سمجھی کے تاثرات اُبھرے۔
تم یو نیورسٹی سے اس وقت نکلی ہو جب تمھاری بس نکل گئی اور تمہیں آٹو والا بھی نہیں ملا۔میرا چھوڑنا تمہیں پسند نہیں ہوگا۔مگر میں یہ بھی 
گوارہ نہیں کرسکتا کہ تم اکیلے اس وقت کٹری دھوپ میں سڑکوں پر خوار ہو۔
اس کی دلیل پر وہ مسکرا کر رہ گئی وہ جانتی تھی کہ وہ اس کے لیے کیا اہمیت رکھتی ہے۔
ویسے university میں اتنی دیر کیوں ہو گئی؟؟؟
شما ئیلہ کی birthday تھی ۔اس کو celebrtae کرتے ہوئے وقت کا پتہ ہی نہیں ٖچلا.
اچھا سہی۔۔۔۔
تمھاری بائیک کہاں ہے؟؟؟ اور تم پیدل کیوں آئے؟؟؟؟
بائیک تو university ہی ہے ۔ویسے بھی اگر لے آتا تو تم نے کون سا بیٹھ جانا تھا۔۔ایویں میرا پٹرول بھی ضا ئع ہوتا؟؟؟
تو تم پیدل جاؤ گئے واپس؟؟؟ اس نے مڑ کر واپس دیکھا۔وہ کافی فاصلہ طے کر چکے تھے۔۔
ظاہر سی بات ہے۔۔۔
اس کا جواب سن کر وہ خاموش ہو گئی۔
اس کی خاموشی دیکھ کر وہ مسکرا دیا۔
سنو پاکیزہ ۔محبت میں تاوان ادا کرنا پڑتا ہے.. اور جانتی ہو محبت کا تاوان کیا ہے؟؟
محبت کا تاوان ہے اپنی ذات کو فراموش کر دینا۔بہت سے لوگ یہ نہیں کر پاتے تو محبت بھی ُ ان کو نہیں اپناتی۔
میں یہ تو دعوی نہیں کرتا کہ تمھارے لیے یہ کروں گا وہ کروں گا کیونکہ دعوے جھوٹے لوگ کرتے ہیں ۔مگر یہ بات ذہن میں رکھنا ۔تم ذولقرنین حیدر کی عزت اور محبت ہو۔اور میں اپنی عزت اور محبت کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا،، چاہے وہ دنیا کی بھیڑ میں ہو یا تپتی ویران سڑک پر۔
اتنے میں auto wala ان کے پاس ُ رکا۔گھر کا ایڈرس بتا کر جب وہ سوار ہو ئی . وہ اس کو کچھ کہنا چاہتی تھی مگر اپنی فطری جھجک کے باعث وہ اس کو کچھ نہ کہ سکی مگر اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی اور آنکھوں میں ایک نمی سی ٹھر گئی۔
ُعورت زندگی میں محبت کرنے سے نہیں ڈرتی مگر وہ غلط انسان سے محبت کرنے سے ڈرتی ہے جبکہ مرد محبت کرنے سے ڈرتا ہے ۔اس کو غلط یا صحیح کی پرواہ نہیں ہوتی۔اگر اس کو محبت ہو جائے تو ایک طوائف کو بھی عزت کے درجے پر لے آئے اور اگر نہ ہو تو اسکے 
نزدیک کھلونے اور عورت میں فرق نہیں ہوتا۔
اور وقت نے یہ دیکھا تھا کہ کیسے ذولقرنین حیدر نے اپنی محبت کا تاوان ادا کیا تھا.
کیا خوب اذیت دیتا ہے
خوابوں کا خواب رہ جانا


گھر داخل ہوتے ہی اس کو عجیب سی گہماگہمی کا احساس ہوا۔ڈرائینگ روم سے آتی آوازوں سے وہ ابھی اندازہ کر رہی تھی کہ کون آیا ہوگا؟؟ کہ اس کو اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا . اس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تو واجد مراد کو دیکھ کر اس کا حلق تک کڑوا 
ہو گیا. کیا بتمیزی ہے یہ؟؟؟؟؟؟ تمہیں کتنی مرتبہ کہا ہے کہ فا صلہ پر رہ کر بات کیا کرو ....
کیا ہو گیا کزن اتنا غصہ .. کزن ہے ہم اور یہ سب کیچھ تو چلتا ہے۔
چلتا ہوگا مگر تمہارے سرکل میں ہمارے ہاں نہیں ۔آ خری مرتبہ کہ رہی ہوں اس کے بعد تمہیں کہوں گی نہیں ۔
اچھا تو دھمکی دے رہی ہو؟؟؟ واجد نے اس کے غصہ سے محظوظ ہوتے ہوئے پوچھا۔
دھمکی تو کمزور لوگ دیتے ہیں واجد مراد ۔جن میں کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اور پاکیزہ کمزور نہیں ہے ۔اس لیے اپنے آپ کو آگے سے limits میں رکھنا۔
بہت غرور ہے نا تم میں پاکیزہ ۔اگر کسی دن تمھارا یہ غرور خاک میں نہ ملایا تو واجد مراد میرا نام نہیں ۔مگر اس وقت اس نے اپنے ذہن 
میں ابھرتی سوچوں پر قابو پایا اور آگے بڑھ گیا۔
پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو .. چائے کے لیے پانی رکھتے ہوئے اس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا ...
کون خود کو کیا سمجھتا ہے بھئی؟؟؟؟ نزہت آپا جو کچن میں ہی موجود تھی( مگر وہ اپنے غصہ کی وجہ سے انہیں نہ دیکھ سکی) اس کی بڑبڑاہٹ سن کر استفسا ر کرنے لگی۔۔
آپا میں نے آپ کو کتنی مرتبہ کہا ہے کہ جب تایا کی فیملی نے آنا ہو تو مجھے inform کر دیا کرے میں university سے ہی لیٹ آیا کروں۔
کیوں چڑتی ہوں تم اتنا ان سے؟؟؟؟ سب تم کو اتنا پیار کرتے ہیں؟؟؟ْ
بہت اچھے سے جانتی ہوں میں ان کی اس بے قرار محبت کا مطلب مگر مجھے اس ظاہری دکھاوے میں کوئی interest نہیں ہے اور نہ ہی میں ان لوگوں کی محبت کے لیے مری جا رہی ہوں
یہ سب تم واجد کی وجہ سے کہ رہی ہوں نا ؟؟؟ میں جانتی ہوں دیکھا ہے میں نے ابھی سب کچھ۔۔۔
وہ تو ہے ہی لفنگا اور آوارہ ۔اس کو تو موقع ملنا چاہیے اپنی کمینگی ظا ہر کرنے کا۔۔اس سے پہلے وہ واجد کی شان میں مزید کچھ کہتی۔تائی اماں کی آمد نے اس کی زبان پر قفل ڈال دیا۔۔۔
اتنا تھک گئی میری بیٹی کہ اپنی تائی سے سلام لینا بھی بھول گئی ۔دیکھو مجھے جیسے پتہ چلا کہ تم گھر آ گئی ہو میں تم سے خود ملنے آگئی
نہیں میں بس آ ہی رہی تھی یہ تو نزہت آپا نے آواز دی تھی تو میں کچن میں آ گئی۔۔
اچھا چلو چھوڑو۔۔آؤ میرے پاس بیٹھو۔ دیکھو پڑھ پڑھ کر کیا حال بنا لیا ہے اپنا
وہ جانتی تھی کہ اب تائی اماں کی چاہت کا دریا ایسا بہہے گا کہ وہ چاہ کر بھی اس پر پل نہیں باندھ سکے گی مگر اس کے چہرہ پر موجود 
بیزاری نزہت آپا سے چھپ نہ سکی تھی۔ ایسی ہی بیزاری آج سے پچس سال پہلے کسی کی آنکھوں میں دیکھی تھی اور پھر سب کچھ ختم 
ہو گیا تھا .... تو کیا مکافات عمل شروع ہو گیا؟؟؟ اور اس کے لیے پاکیزہ کو ُ چنا گیا کیا؟؟؟؟؟ یہ سوچ کر ہی وہ دہل گئی تھی۔۔
آنسووں سے بھری ان دو آنکھوں کو وہ ذہن سے جھٹکنا چاہ رہی تھی مگر وہ بار بار اپنی اس کوشش میں ناکام ہو رہی تھی۔


ذلقرنین پہلے سے زیادہ سنجیدہ ہو گیا ہے۔ مزاج میں بھی ایک ٹھہراو پیدا ہو گیا ہے؟؟؟
جی آپا۔۔۔۔۔
سنو تم نے ذولقرنین کی شادی کے متعلق کیا سوچا ہے؟؟ اب تو اس واقعہ کو کافی عرصہ ہو گیا ہے.... اب تک تو وہ اس کے دل و دماغ
سے نکل چکی ہو گی۔۔
کاش آپا ایسا ہی ہوتا۔۔ مگر اس لڑکی کی محبت نے ایسا نفرت کا بیچ بویا ہے اس کے دل میں کہ اس کو دنیا کی ہر عورت ہی جھوٹی لگتی ہے.. میں نے ہزاروں لڑکیاں دکھائیں ہیں مگر دیکھے ملے بغیر ریجکٹ کر دیتا ہے۔۔۔ اب تو مجھے ایسا لگتا ہے اس کی شادی کی حسرت لیکر ہی میں نے مر جانا ہے۔۔۔۔
نہیں ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔تم فکر نہ کرو میں کچھ سوچ کر ہی افشاں کو اپنے ساتھ لیکر آئی ہوں...
میں سمجھی نہیں آپا۔۔۔۔ افشاں کا ذولقرنین کی شادی سے کیا تعلق ہے؟؟؟؟
دیکھو نصرت مجھے تمھارا بیٹا بہت پسند ہے اور اب تو اس کا سلجھا ہوا انداز اور بھی پسند آیا ہے۔اسی لیے میں نے اس کو افشاں کے لیے سوچا ہے۔۔ ویسے تو میری بیٹی میں کو ئی کمی نہیں ہے مگر پھر بھی تمیں کوئی اعتراض ہے تو مجھے ابھی بتا دو۔ کیونکہ یہ صرف ابھی میرا
ہی خیال ہے ۔ میں نے افشاں یا اس کے پاپا سے ابھی کوئی بات نہیں کی۔۔۔۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے.. افشاں میری اپنی بچی ہے۔میرے لیے اس سے زیادہ کیا خوشی کی بات ہو گئی کہ میری اپنی بھانجی میری بہو بنے ۔مگر کیا آپ کو نہیں لگتا کہ افشاں اور ذلقرنین میں عمر وں کا کافی فرق ہے اور اگر ذلقرنین نہ مانا تو؟؟؟؟
عمر کو چھوڑو اتنا تو فرق چلتا ہے ویسے بھی مرد اگر mature ہو تو وہ رشتے کو کافی اچھے سے لیکر چلتا ہے اور رہی بات ذولقرنین کی تو وہ بھی مان جائے گا۔
ؑ عورت کے حسن میں مرد کو زیر کرنے کی کافی طاقت ہوتی ہے۔مرد کا دل کوئی دوسری عورت تب ہی جیت پاتی ہے اگر وہ اس طاقت سے مالا مال ہو اور اوپر سے اگر اس کو مرد کے زخم پر مرہم رکھ کر قابو کرنا آتا ہو تو پہلی عورت کی جگہ لینا مشکل نہیں ہوتا۔۔۔۔
نصرت بیگم اپنی بہن کی بات سن کر صرف سر ہلا کر رہ گئی مگر وہ جانتی تھی کہ ذلقرنین حیدر وہ مرد نہیں جس کو حسن لبھاتا ہو۔۔
حسن ہر مرد کی کمزوری نہیں ہوتا۔۔۔افشاں حسن کی دیوی ضرور ہے مگر وہ پاکیزہ طاہر نہیں ہے اور یہی سب سے بڑا فرق ہے ۔جس کو وہ مٹا نہیں سکتی۔۔اور کچھ زخم کبھی بھی نہیں بھرتے اور ان کو بھرنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ یہ زخم ہی ہوتے ہیں جو آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ کہاں غلط تھے ؟؟؟ اور ذلقرنین کا زخم ان کو یاد دلاتا تھا کہ کس طرح کسی نے خود کو گرا کر ان کی عزت ان کے بیٹے کی 
نظر میں بچا لی تھی۔۔
کچھ لمحے کے لیے ان کے سامنے وہ روتا ہوا چہرہ آیا۔مگر نصرت بیگم کو کیا پرواہ تھی اس وقت۔۔
ضمیر کی ایک عادت بہت ُ بری ہے اگر یہ جاگ جائے تو انسان کو سونے نہیں دیتا اور وہ تو پھر ایسے آنسو تھے جو بے بسی کی انتہا پر بہہ تھے ۔وہ رائیگاں کیسے جا سکتے تھے؟؟؟؟
*********************
جاری ہے


CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING'


Comments