Teenage
نومہینے
ماں کی کوک میں رہنے کے بعد جب انسان دنیا میں آتا ہے تو وہ اس دنیا کے کسی شےسے واقف
نہیں ہوتا، کسی جزبے سے آشنا نہیں ہوتا لیکن
وقت کے ساتھ جب وہ بڑاہوتا ہےتو وہ نۓ
لوگوں سے ملتا ہے، نۓ
رشتوں سے متعارف ہوتا ہے۔ ماں باپ وہ واحد ہستی ہے جو اس دنیا کی بھیڑ میں کبھی ہم
سے جدا نہیں ہونگے۔ ماں باپ کے بعد دوستی وہ واحد رشتہ ہے جو حقیقتا توغم ہے مگر ہے
خوشی۔ دوستی اس دنیا میں مختصر مدت کے لیے اک سے قائم ہوتی ہے۔ پھر نئے لوگ آتے ہے
نئی دوستیاں ہوتی ہے تو دوست ہر موقع پر بدلتا ہے مگر دوستی قائم رہتی ہے۔ اس سب میں
وہ کچھ دشمنیاں بھی پالتا ہے۔ خیر ہم آج جس موضوع پر بات کرنے والے ہے وہ ہے ٹین ایج
۔
ٹین ایج عمر کا وہ حصہ ہے۔ جس میں انسان کے جسم میں ہارمونل چینجزآتے ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو خودپر حاوی کرتا ہے ، جس سے وہ اک زہنی کشمکش کا شکارہوجاتا ہے۔ اور یہ کشمکش دراصل ہمارے اندر کی بےسکونی ہوتی ہے۔ اس بےسکونی کو بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہوتے۔ یہ بےسکونی ہمیں خدا سے بھی دور کرتی ہے۔ ہمیں لگتا ہے خدا ہر چیز پر قادر ہے تو یہ بےسکونی بھی خدا کی طرف سے ہے یعنی ہم اک قسم کا خدا کی زات سے ناامید ہوجاتے ہے لیکن کبھی کبھار ہم جب بےسکونی کے موڑ پر تھک جاتے ہے تو ہم خدا کے حضور کھڑے ہوتے ہے مگر ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں ہوتے جس سے ہم خدا کو اپنا مسئلہ غم بتا سکے۔ اور سچ بات تو یہ ہے ہمیں مسئلہ نہیں ہوتا پر ہمیں سمجھ نہ آنے والا مسئلہ ہوتا ہے۔ہم اپنے ماں باپ سے اس کا زکر بھی کرتے ہے مگر انہیں لگتا ہے کہ بھلا اس عمر میں بچے کو کیا مسئلہ ہوسکتا ہے اور پھر یہ اکثر ٹین ایجرز کے لئے ماں باپ کی طرف سے اک طنز بن جاتا ہے۔ تو یہ ہمارے دل ودماغ میں اک جنگ کھڑی کردیتی ہے اک نہ ختم ہونے والی جنگ،دل اور دماغ کے بیچ نفس کی جنگ جس میں ہم بظاہر تو خاموش ہوتے ہے لیکن ہمارے اندر نامعلوم شور رواں ہوتا ہے۔ کہتے ہے دنیا امید پر قائم ہے تو اسی طرح ٹین ایجرز انجان لوگوں سے بہت جلدی امیدیں لگا لیتے ہے، اپنے دل کے راز بتانے لگتے ہے اور انہیں لگتا ہے وہ انکا رازدار ہے ،ساتھی ہے۔ حلانکہ ایسا نہیں ہوتا، جب ہم ہی کسی کے ساتھ مخلص نہیں ہے آج کے زمانے میں تو دوسروں سے مخلص ہونے کی امید کیوں رکھے۔ اسکے علاوہ جنسانی خواہشات بھی جنم لیتے ہے جسکی تکمیل کےلئے ٹین ایجرز سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہے یعنی آنکھوں کے زنا کو عام کئے ہوئے ہے۔ اسکے علاوہ ہم یہ چند لزت کی جھوٹی محبت کے کھیل میں اتنے فنا ہوجاتے ہے کہ ہم اسے اپنےسر پر سوار کرلیتے ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا دکھ اس دنیا کے ہر فرد سے زیادہ ہے کیا ہمارا دکھ بےآسراء،بے یارومددگار لوگوں سے زیادہ ہے کیا ہمارا دکھ بہرے،اندھے،گونگے لوگوں سے زیادہ ہے۔ ہر گز نہیں بلکہ ہمیں دکھ نہیں ہوتا بلکہ ہمیں بےسکونی ہوتی ہے جسے ہم دکھوں کا نام دیتے ہے۔ اسکے علاوہ ہم 'لوگ کیا کہیں گے'کے قاعدے میں قید ہے۔ دراصل ہم میں برداشت ختم ہوچکی ہے زرا سا کوئی شخص ہمیں کچھ کہ دے ہم اسے دل پے لے لیتے ہے ہم گھنٹوں پھر اس کے بارے میں سوچتے ہے کہ فلاں شخص نے ہمیں یہ کہ دیا ،اس نے ہمارے بارے میں یہ کہ دیا وغیرہ وغیرہ اسی طرح ہم باتوں کو گہرائی کی حد تک سوچتے ہے یار یہ دنیا ہے یہاں بات ہوگی آپ کے بارے میں۔ کوئی آپکو اچھے لفظوں میں یاد کرے گا کوئی آپکو برے لفظوں میں۔ اس لئے اس سوچ سے خودکوآزاد کرے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ میں مانتی ہوں کہ یہ مشکل ہے اور اس سے اک دم سے انسان خود کو آزاد نہیں کرسکتا مگر کوشش تو کرسکتے ہے اور کوشش تو کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے اکثر لڑکیاں چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل سے لگا لیتے ہے اور اسپر گھنٹوں روتے ہے تو میری بہنوں اسے معصومیت نہیں،بیوقوفی کہتے ہے۔ اور جو کچھ لڑکے خود کو اک کمرے تک محدود کردیتے ہے تو اسے مضبوط مرد کی نشانی نہیں،حقیقت سے منہ موڑنے والا مرد کہتے ہے جو مسائل سے بھاگنا ہی صرف جانتا ہے۔ نفس کی خواہشات سے جتنا بھاگو گے اتنا ہی پھیچے آئے گا اور پھر آپ نفس کے غلام بن جاؤگے۔
****************
Comments
Post a Comment