Article by Ghulam e Sahaba Ikram RA

اماں جان رحمتہ اللہ علیہا نے اس طرح سے زندگی گزاری کہ ان کی زندگی کے جس پہلو کو بھی دیکھا جائے،جانچا جائے ، وہ بے مثال ہے۔ وہ ایک مثالی بیوی، مثالی ماں تھیں۔ دین کے پانچ شعبے ہیں: عبادات، عقیدہ، معاملات، معاشرت اور اخلاق۔ ان پانچوں چیزوں کا جس قدر اہتمام تھا، وہ ہر خاتون کے لیے رہنمائی ہے۔ تقویٰ بھی نہایت کمال کا تھا۔ ایسی ایسی باریک چیزوں کا دھیان تھا کہ عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ سوچا کہ ان کے اخلاق، معاشرت، عبادات اور تقویٰ کے کچھ واقعات تحریر کروں جس سے اور بہنیں بھی سبق حاصل کریں اور ان کے لیے صدقہ جاریہ بنے۔ ان شاء اللہ!

* ماسیوں کے حقوق میں خواتین بہت کوتاہی کر جاتی ہیں۔ ہمیشہ سے یہ دیکھا کہ ڈانٹنا تو درکنار، انہوں نے کبھی ماسی کو گھوڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ اُن کی ایک ایک ضرورت کا اہتمام کرتیں۔ دل کھول کر مدد کرتیں۔ ان کے انتقال پر دونوں ماسیاں روئے جارہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ باجی نے ہمیشہ ہمیں بہنوں کی طرح رکھا۔ ماسی ہونے کا فرق بھی کبھی نہیں کیا۔ اگر طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی تھی تو کام سے سختی سے منع کر دیتیں کہ تمہاری طبیعت نہیں ہے، تم آرام کرو۔ گھر جاؤ........ہر کوئی تعریف کر رہا تھا۔ دوسری ماسی بھی رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ ان کے جانے کا یقین ہی نہیں آتا، وہ روز میرے خواب میں آکر مجھ سے باتیں کرتی ہیں۔ میرے گھر لائٹ نہیں تھی تو مجھے سولر لگوا کر دیا تھا۔ ماسیوں سے ان کے ایسے اخلاق تھے کہ ماسیاں ملنے ہسپتال میں آئیں۔ اماں جان اس وقت کومے میں چلی گئی تھیں۔  دونوں کے آنسو مسلسل بہتے رہے۔ اتنے واقعات مجھے یاد ہیں کہ سارے لکھ بھی نہیں سکتی۔ دل سے دعائیں لیتی تھیں ماسیوں کی۔ سردیوں میں دونوں کو الیکٹرک ہیٹر خرید کر دیے۔ سولر لگوایا۔ ڈاکٹر کو دکھانا ہوتا تو اس کا خرچ دیتیں۔ ایک ماسی کی بچی ہوئی تو اس کو کیری کوٹ اور سوٹ ہدیہ دیا۔کہنے لگیں کوئی فضول چیز  نہیں دوں گی ،منفرد اور اچھی چیز ہدیہ دوں گی تاکہ وہ خوش ہو کہ باجی نے دیا ہے!

اور یہ نہیں کہ پرانی خراب چیزیں اُٹھا کر دے دیں۔ اچھی چیزیں دیتی تھیں۔ جب کھانا خود بناتی تھیں صحت میں تو روز کھانا اور وقتا فوقتا فروٹ دیتی تھیں....یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ دوسری ماسی کی بیٹی کی شادی تھی۔ اس کو نیا جوڑا خرید کر، جیولری سیٹ اور جوتے ہدیہ کیے،باقاعدہ گفٹ ریپر میں ڈال کر،ہمیں بھی یہی سکھایا ،کر کے دکھایا،ماسی کا امتیاز تھا ہی نہیں انکے اندر،بلکہ کبھی  کبھی میں جب چھوٹی تھی اور کام پھیلاتی تھیں تو انکا جملہ مجھے اچھی طرح یاد ہے،کہتی تھیں ماسی ، نوکر تو نہیں ہے!...........عید کے موقع پر بھی ہدیے ضرور دیتی تھیں۔ کیک کبھی، مٹھائی.....جس کی چھوٹی بچی ہے  اس کو بچی کے لیے کھلونے اور بسکٹ کینڈی وغیرہ۔ ابھی اسی عید الفطر کی بات ہے، اس وقت حالت اتنی بگڑی نہ تھی، خود ماسی کو اس کی بچی کے لیے عید پر چیزیں ہدیہ کیں۔ ماسیوں کو بھی سوٹ خرید کر دیے۔

کرونا کے زمانے میں ایک ماسی کو کرونا ہو گیا۔ اس کے لیے پورے تین شاپر نجانے کیا کچھ خرید کر دیا۔ چکن تاکہ یخنی بنا سکے، شہد،اور بھی بہت کچھ۔

ہمیشہ سے کھانا خود بناتی تھیں مگر جب کھڑے ہونے کی ہمت نہ رہی بیماری میں  تو ماسی کو کھانا بنانے کی ذمہ داری دے دی۔ ماسی جب کھانا بناتی تو:حالت بہتر ہوتی تو خود سختی کرتیں کہ اپنے گھر کے لیے لے کر جاؤ ورنہ میں نہیں بنواؤں گی تم سے....اور یہ بالکل آخری دنوں کی بات ہے، آخری دو ہفتوں میں  جب حالت بہت ہی نازک اور تکلیف دہ تھی تو بہن اور کاموں کی وجہ سے ماسی کو کھانا نکال کر دینا بھول جاتی تھی .اس حالت میں جب کسی چیز کا ہوش فکر نہیں ہوتی تھی تو بہن کو  ڈانٹتی تھیں ،ناراض ہوتیں کہ  پہلے اس کے لیے نکالو - ابھی جاؤ تم بھول جاؤ گی۔ اور نکال کر مجھے بتاؤ۔ کئی بار یاد دھانی کرتیں،جب تک بہن بتاتی نہیں فکر لگی رہتی....

قصہ مختصر، ماسیوں سے تو ان کے اخلاق مثالی تھے۔ شاید ہی کوئی اور خاتون اس طرح سلوک کرتی ہو۔ اچھا سلوک تو بہت سے لوگ کر لیتے ہیں مگر جس طرح مدد کرتی تھیں اور ماسی کا امتیاز ہی نہ کرتیں وہ حیرت انگیز تھا۔

* ایک مرتبہ پڑوسیوں سے کوئی تکلیف پہنچی۔ ان کی طرف سے زیادتی تھی، ہم نے  کہا کہ اماں ان کو فون کریں گی تو سختی سے کہہ دیں گی کہ آپ نے زیادتی کی ہے۔ اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا۔ شام کو ان کا فون آیا اور الٹا اماں کو سنانے لگیں۔ اور ہم اماں کے اخلاق پر انگشت بدنداں رہ گئے کہ بجائے کہ ان کو کچھ کہیں، الٹا معذرت کرنے لگیں۔

فون بند ہوا تو ہم نے کہا یہ آپ نے کیا کیا انہوں نے زیادتی کی اور الٹا آپ معافی مانگنے لگیں۔ تو کہا کہ بیٹا پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے۔ انہوں نے زیادتی کی ہے کہ نہیں۔ میں نے تو بس اس دین کے حکم پر عمل کرتے ہوئے نرمی سے بات کی ہے ...کیا ہوگیا اگر انکی غلطی تھی بھی....پڑوسیوں سے تو حسن سلوک ہی کرنا چاہیے..........۔

* تقوی میں ایسے بے مثال تھیں کہ جب دو ہزار سولہ میں ہم اپنے نئے گھر میں شفٹ ہوئے تو اوپر والے پورشن کے لیے کرائے دار ڈھونڈنے تھے۔ بہت سے لوگ آئے، اچھے کرائے کی آفر کرتے، ایک بار این جی اوز  والے بھی آئے مگر اماں جان کی شرط تھی کہ ٹی.وی نہ ہو ..سب کو ریجیکٹ کرتے رہے،کافی عرصہ ہوگیا،بابا سمجھاتے بھی،فتوی بھی بتایا کہ رکھ سکتے ہیں ٹی وی والے کرائے دار،آپ کو نہ آواز آئے گی نہ پتا چلے گا، مگر فتویٰ سے زیادہ تقویٰ کی فکر کرتی تھیں۔ کہنے لگیں کہ میں برداشت نہیں کر سکتی کہ میرےگھر میں کوئی ٹی وی دیکھے ،اللہ کی نافرمانی ہو۔ اپنی فکروں اور دعاؤں کی برکت سے پھر  بہترین نیک لوگ ملے جن کے گھر میں ٹی وی نہیں تھا۔                                                                                                                                   * وہ ایسی منفرد خاتون تھیں کہ دو ہزار پچیس کی صدی میں جن کے پاس اینڈرائیڈ نہیں بلکہ سادہ بٹنوں والا فون تھا۔ اللہ نے بہت کچھ دیا تھا مگر چونکہ ہمارے شیخ حضرت شاہ فیروز عبدللہ میمن صاحب دامت برکاتہم کو اس سے سخت نفرت ہے تو انہیں بھی بہت نفرت تھی۔ ایک مرتبہ بابا کو آفس سے ملا موبائل تو انہوں نے اماں کو دے دیا۔ اماں نے رکھ لیا۔ مشکل سے دو ہفتے استعمال کیا ہوگا کہ واپس بند کرکے رکھ دیا کہ میں گناہوں کے اس آلے کو اب استعمال نہیں کروں گی۔ میں اس میں بہت مشغول ہوگئی ہوں۔ حالانکہ نہ عبادات میں، نہ گھر والوں کے حقوق میں ذرہ برابر فرق آیا تھا، نہ گناہوں میں  مشغول ہوئی بلکہ صرف اتنا تھا کہ فارغ اوقات میں کھانا پکانے کی ریسپیز دیکھنے میں وقت زیادہ دینے لگی تھیں۔ اس وجہ سے اس سے بھی چھٹکارہ پا لیا۔ اس میں ان خواتین کے لیے بھی سبق ہے جنہوں نے موبائل فون کو اپنا معبود بنا لیا ہے( أرأيت من اتخذ إلهه هواه) اور اس کی وجہ سے عبادات، اخلاق، حقوق ہر چیز سے بے پرواہ ہوگئی ہیں۔ جب والدہ نے ساری زندگی اس کے بغیر گزار لی تو کوئی اور کیوں نہیں گزار سکتا؟ وہ بھی تو دوسری خواتین کی طرح انسان ہی تھیں۔ ان کی بھی خواہشات تھیں مگر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے انہیں قربان کر کے دکھا دیا کہ زندگی ایسے بھی گزرتی ہے!۔

* ایک مرتبہ قریبی تعلق والی دو خواتین بیٹھی تھیں، والدہ سے ایسی بات کر دی جو اگر بہت غور کریں یا باریکی سے دیکھیں تو وہ غیبت لگتی ہے۔ اس کے بعد وہ خواتین تو چلی گئیں مگر والدہ ایسی پریشان ہو گئیں کہ ہم گھبرا گئے۔ چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں کہ بیٹا میں نے غیبت کر دی، اب کیا کروں۔ ان کو بہت سمجھایا کہ اس قدر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آپ سے غلطی ہوگئی، اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والے ہیں۔ آپ توبہ کر لیں۔ مگر ان کو اطمینان نہ ہوا.اس غلطی پر ایسی بے چین رہیں کہ کافی دنوں تک رونے والی ہوتی تھیں کہ میں نے غلطی کردی۔اگلے ہفتے پھر خواتین سے ملاقات ہوئی تو جن کی غیبت کی تھی، ان کے حق میں بات کی۔ پھر اطمینان ہوا ............. خواتین ایسی بھی ہیں جو گھنٹوں غیبت کرتی ہیں اور ان کے لیے ایسے ہے جیسے ناک سے مکھی اُڑادی! اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچی توبہ کی توفیق دے۔ آمین۔                                                                                               *غم کے موقع پر تو سب ہی اللہ تعالیٰ کو یاد کرلیتے ہیں۔ اصل کمال یہ ہے کہ خوشی کے موقع پر اسے یاد رکھا جائے۔ والدہ نے ڈیڑھ سال قبل بڑی بہن  کی شادی کی۔ شادی کیا سادی تھی۔ اس خوشی کے موقع پر ایک ایک سنت، ایک ایک حکم  الہی کا لحاظ رکھا۔ ایک حکم شریعت کا الحمد للہ پامال نہیں ہوا۔ بہن کو بیوٹی پارلر نہیں بھیجا بلکہ گھر پر ہی بیوٹشن سے تیار کروایا۔ شادی کے لباس کا جو جوڑا تھا اس کا دوپٹہ ریشمی تھا۔ اس کے لیے الگ ڈوپٹا لیا اور پہلے وہ سر پر رکھ کر پھر اوپر سے جوڑے والا اوڑھا...... گو کہ مسئلہ معلوم کیا تھا کے عورتوں کے ہی سامنے بال ظاہر ہوں تو برا نہیں مگر والدہ کا تقوی!اسی طرح شرارہ اور غرارہ چونکہ ہندوؤں کی مشابہت ہے اسلیے اسے پسند نہیں کرتی تھیں،اگر چہ دلہن کے لیے اجازت ہے مگر میکسی ہی خریدی دلھن کے لئے،کہ ایک ذرہ برابر بھی کوئی کام کراہت والا نہ ہو ....... جمعے کے دن بعد عصر مسجد میں نکاح ہوا۔ مرد حضرات گئے۔ بہن تیار ہوئی تو اماں بابا خود گاڑی میں نئے گھر چھوڑ آئے۔ اگلے دن ولیمہ تھا۔ نہ بارات نہ شادی ہال نہ تصویریں نہ میوزک نہ بے پردگی۔ الحمد للہ.....انہوں نے مثال بنا کر دکھائی......صرف باتیں نہیں کی بلکہ کرکے دکھا دیا کہ بیٹیوں کی شادی اس طرح بھی ہو جاتی ہے اور بہت برکت والی ہوتی ہے!۔ کسی کی فکر نہیں کی کہ لوگ کیا سوچیں گے کیا کہیں گے!فلاں کیا کہے گا! لوگوں کی ملامت کی پروا تو ان کو  تھی ہی  نہیں نا۔ پردہ،یونیورسٹیکی تعلیم سے حفاظت، غیر شرعی تقریب میں شرکت نہیں، سب کرکے دکھایا اور کسی کی ملامت کی فکر نہیں کی..اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھاتی تھیں کہ جو یہ سب کر رہے ہیں انکو حقیر بھی نہیں سمجھنا،یہ بھی گناہ ہے!..........................۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بہن جو دلہن بنی۔ اسکی کوئی تصویر نہیں لی کہ تصویر حرام ہے۔ میں یہ گناہ نہیں کروں گی۔اللہ نے خوشی دی ہے تو اسے کیوں ناراض کروں! ایک تصویر نہ انہوں نے لی نہ  کسی اور نے الحمد لله۔ لوگ بابا سے کہتے کہ آپ نے بڑی ہمت  والا بڑا زبردست کام کر کے دکھایا  اس طرح سے شادی کر کے!اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ہمت اور توفیق دے۔ در اصل تو اس کے پچھے والدہ کی محنت ہی  تھی!!چچی بتا رہی تھیں انکے انتقال پر کہ اب تک  بیٹھتی ہوں،جس طرح انہوں نے شادی کی شریعت و سنت سے ،وہ سب کو بتاتی ہوں.......                   * دین کی بات دوسروں تک پنچانے کی بہت تڑپ تھی۔ خاص طور سے گھر میں کام کرنے والیوں کے لیے...........ان کو بلکل قرآن کریم نہیں پڑھنا آتا تھا....الحمدللہ  قاعدہ قرآن کریم پڑھایا.......اور ساتھ میں مہینوں کی مناسبت سے رمضان ذالحج اور اگر کوئی موقع نہ ہو تو ایسے ہی کچھ دیر مسائل اور ملفوظات کی تعلیم بھی دیتی تھیں .......والدہ کو ان کے دین کی بہت زیادہ فکر ہوتی تھی کہ یہ ہمارے ماتحت ہیں....ان کے بارے میں مجھ سے سوال ہوگا  ......ہر وقت کوئی نہ کوئی دین کی بات مسائل بتاتی رہتیں تھیں....ہمیں بھی یہی سیکھایا ...میموری کارڈ والا سپیکر دلوا کر اس میں بیانات اور تلاوت ڈال کر دیتی تھیں ........الله تعالیٰ کی رحمت اور والدہ رحمتہ الله علیھا کی فکر سے  انکو بھی دین پر چلنے کی بہت فکر ہوئی الحمدللہ....اسی طرح انتقال سے پندرہ دن قبل ہاسٹل میں داخل ہوئیں تو جو نرس ڈیوٹی پر تھی اس سے  بات چیت ہوئی تو اس نے بتایا میں  چترال سے آئی ہوں، اس کو تلقین کی اور سمجھایا کہ تم یہ کام کیوں کر رہی ہو۔ مردوں سے اتنی انٹریکشن ہے....اپنے علاقے میں ہی کہیں اسکول وغیرہ میں پڑھا لو ۔ اس نے کہا آپ نے بہت اچھی باتیں سمجھائی  ہیں۔ میں آپ سے فون پر بات کروں گی۔ اس کا نمبر لے لیا۔ مگر اس کے پندرہ دن بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا!

*بندوں سے اچھے تعلق کے ساتھ ساتھ عبادات کا بھی بہت اہتمام تھا...ہم گھر والے باتیں  کر رہے ہوتے مگر اذان سے بھی پہلے جونہی نماز کا وقت ہوتا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نماز کے لیے چلی جاتیں۔ اللہ کے خوف اور ان کی محبت میں بہت روتی تھیں۔ بابا نے بتایا ہے کہ جہاں نماز پڑھتی تھی وہاں جائے نماز کے نیچے ٹشو کا ڈھیر لگا ہوتا تھا۔!اس رمضان بیماری کی وجہ سے تراویح نہ ادا کرسکیں تو شدید غمگین تھیں،چہرے سے حزن و ملال کے آثار ظاہر ہوتے مگر زبان سے پھر بھی شکوہ نہیں،اللہ کا شکر!اسی طرح پہلا روزہ رکھنے کے بعد رات کو حالت بہت خراب ہوگئی،بابا نےسمجھایا طبیعت ٹھیک نہیں ہے،اجازت ہے ،آپ صرف آدھے روزے چھوڑدیں آدھے رکھ لئے گا،مگر نہیں مانی،بہت افسردہ اور کبیدہ خاطر ہوئیں،باب کے سمجھانے پر مان گئیں....مگر طبیعت ایسی بگڑی تیزی سے،ظاہر سی بات ہے کینسر کا لاسٹ اسٹیج تھا کہ آخری جمعے کا روزہ رکھنے کی بہت خواہش تھی وہ بھی نہ رکھ  سکیں.....رمضان میں کئی بار ہاسپٹل ایمرجنسی میں جانا پڑا مگر زبان سےہمیشہ شکر سنا......                                                                       *عورتیں اکثر اپنے شوہروں کے دل میں شوہر کے رشتہ داروں کی نفرت ڈالتی رہتی  ہیں۔ان سے دور  کرنے کی فکر کرتی ہیں،مگر ان کا معاملہ عجیب تھا۔ ہمیشہ دیکھا کہ جب دادی حیات تھیں تو بابا کو روز کہتیں، بار بار کہتیں کہ امی کو فون کر لیں، وہ فون کا انتظار کر رہی ہوں گی۔

بابا مصروفیت کے باعث کام میں دیر کرتے رہتے تھے مگر والدہ بہت پیچھے پڑی رہتیں ،کبهی بہت دن ہوجاتے تو ناراضگی کا بھی اظہار کرتیں دادی کو فون نہ کرنے پر۔ اسی طرح جب دادی کا انتقال ہو گیا تو یہ فکر رہتی کہ فلاں بہن کو فون کریں، فلاں کو فون کریں۔ آپ کو فون کرنا چاہیے بہنوں کو۔آپ بڑے بھائی ہیں....

ہمیشہ یاد دہانی کراتی رہتیں۔بابا کے رشتہ داروں میں سے کسی کا کوئی مسئلہ ہو، مالی تنگی وغیرہ، تو وہ بھی مستقل بابا کو یاد دلاتی رہتیں کہ  فلاں کا یہ مسئلہ ہے، فلاں کا یہ معاملہ ہے، فلاں کی مدد کر دیں ،وغیرہ۔

چھوٹے چاچا کا بھی مجھے یاد ہے، بہت کہتی رہتی تھیں کہ اس کو فون کر لیں، اس سے حال پوچھ لیں، کوئی مسئلہ وغیرہ تو نہیں ہے۔ اللہ ان کو جنت نصیب کرے۔جب چاچا کے جگر کا مسئلہ ہوا تو ٹرانسپلانٹ کی بات چل رہی تھی، اس میں بہت فکر مند رہیں کہ آپ بڑے ہیں، کچھ کریں،ڈاکٹر کے پاس لے کر جایئں ، بہن بھائیوں سے بات کریں۔اور مجھے یاد ہے کہ اس وقت خود ان کے کینسر کی تشخیص ہو چکی تھی مگر اپنی بیماری چھوڑ کر چاچا کی فکر میں رہیں۔جب چاچا کا انتقال ہوگیا تو بابا ملتان گئے۔ اس وقت اپنی حالت بھی کافی خراب تھی۔یہ بات ان کے انتقال سے دو ماہ پہلے کی ہے۔ بابا کو فون کر کے کہا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔جتنے دن رہنا ہے سکون سے رہیں۔ چاچا کی چھوٹی بیٹی ہے، پانچ چھے  سال کی۔ اپنے انتقال سے دو  ہفتہ قبل خود بیڈ پر لیپ ٹاپ منگوا کر اس کے لیے پسند کرکے چیزیں آرڈر کیں کہ بچی ہے، اداس ہوتی ہوگی۔ کھلونے، کپڑے،چاکلیٹس سب کچھ خرید کر گئیں۔ اس معاملے میں ان کا رویہ مثالی تھا۔وہ بہت عظیم ہونے کے ساتھ ساتھ عجیب بھی تھیں....حق تعالیٰ انکی مغفرت کرے....عجب انسان تھیں!عجب باتیں تھی !عجب ہی معاملات تھے!شاید ہی سو میں سے کوئی خاتوں اس طرح کی ہو....لوگ خاک میں سونا ڈھونڈتے ہیں!ہم نے سونا سپرد خاک کردیا! ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے بہت مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا!

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Comments