Lafzon ki hurmat Article by Aneesa Amir
عنوان:
لفظوں کی حرمت
تحریر: انیسہ عامر
قلم
یہ محض ایک آلہ نہیں۔ یہ وہ چراغ ہے جو اندھیروں میں راستے دکھاتا ہے۔ مگر افسوس، آج
لفظوں کا وزن صرف اُن لوگوں کو محسوس ہوتا ہے جن کے دل ابھی تک وقت کے شور میں گونگے
نہیں ہوئے۔ باقی دنیا تو چمک دمک، شہرت اور تالیاں دیکھ کر ہی کسی کی عظمت کا فیصلہ
کر دیتی ہے۔ قلم کار کے پاس نہ زر ہوتا ہے، نہ زور… پھر بھی وہ سچ لکھتا ہے، وہ بھی
اس زمانے میں جب سچ بولنا جرم اور سننا گناہ ٹھہرا۔کہا جاتا ہے کہ لکھنے والے بس چند
جملے جوڑ لیتے ہیں۔ جیسے الفاظ کی دنیا کوئی بچوں کا کھیل ہو، جیسے خیال اور فکر کہیں
فٹ پاتھ پر بکھرے پڑے ہوں۔ لوگ یہ نہیں جانتے کہ ہر سطر کے پیچھے شب کی تنہائی، دل
کا درد، اور سوچوں کی جنگ ہوتی ہے۔ قلم خون سے بھرا جاتا ہے، صرف سیاہی سے نہیں۔ اور
جس معاشرے میں ذہن کو محنت نہیں سمجھا جاتا، وہاں لفظوں کا رزق ہمیشہ کم ہوتا ہے۔ہم
نے اپنے اہل قلم کو ہمیشہ زخم دیے۔ زندہ ہوں تو طنز ملتا ہے، مر جائیں تو تمغے۔ زندگی
میں پابندیاں، موت کے بعد واہ واہ۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں شاعر کو خواب دکھانے والا
سمجھا جاتا ہے، حقیقت دکھانے والا نہیں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جب تخت لرزے، جب زمانے
کا رخ بدلا، تو سب سے پہلے آواز کاغذ سے اٹھی تھی، کسی تلوار سے نہیں۔یہ مان لو کہ
ہر لکھنے والا کوئی ستارہ نہیں، کوئی فرشتہ نہیں۔ وہ بھی انسان ہے، تھکتا ہے، ٹوٹتا
ہے، مگر گرتا نہیں۔ کیونکہ اس کے لفظ اس کا ایمان ہیں۔ وہ کردار اور ضمیر کے درمیان
جنگ لڑتا ہے۔ وہ زمانے کے شور میں اپنے دل کا سچ سننے کی ہمت رکھتا ہے۔اور سچ یہ ہے
کہ قلم والوں کی عزت کرنا ہم نے ابھی سیکھنی ہی نہیں۔ ہم نے کبھی یہ نہیں سمجھا کہ
لفظ روشنی بھی بنتا ہے، انقلاب بھی۔ کتابیں محض کاغذ نہیں ہوتیں، نسلوں کی سانسیں ہوتی
ہیں۔ کبھی فرصت سے پڑھنا، تو جان لوگے کہ اصل شہنشاہ وہ نہیں جو تخت پر بیٹھتا ہے۔
اصل بادشاہ وہ ہے جو قلم سے دلوں پر حکومت کرتا ہے۔ یہ قلم جب چلتا ہے ناں تو زمانے
بنتے ہیں۔لفظوں کا سفر آسان نہیں ہوتا۔ راستے میں ٹھوکریں بھی ہیں، تماش بین بھی، اور
وہ لوگ بھی جو قلم کو صرف فن نہیں، فنکاری سمجھ بیٹھتے ہیں۔ مگر قلمکار پھر بھی لکھتا
ہے، کیونکہ اس کے لیے لکھنا عبادت ہے۔ وہ جانتا ہے کہ سچ کی قیمت ہمیشہ زیادہ ہوتی
ہے، اور جھوٹ کے سکے ہر بازار میں چلتے ہیں۔ لیکن وہ بازاروں کا سودا نہیں کرتا، ضمیر
کی گلی میں جیتا ہے۔کبھی سوچا ہے، لفظ خاموش کیوں نہیں رہتے؟ کیونکہ انہیں پتہ ہوتا
ہے کہ خاموشی بھی کبھی کبھی ظلم کے برابر ہوتی ہے۔ اور قلمکار وہ ہے جو اس ظلم کے سامنے
کھڑا ہوتا ہے، چاہے اس کے ہاتھ میں تلوار نہ ہو، مگر لفظوں کا زخم زیادہ گہرا ہوتا
ہے۔ وہ دلوں میں اُترتا ہے، روحیں جگاتا ہے، نظریں بدلتا ہے۔ہم نے دنیا کو چیخیں مارتے
دیکھا، مگر جب قلم نے چیخ ماری، تو تاریخ بدل گئی۔ کسی نے کہا تھا کہ انقلاب کتابوں
میں جنم لیتا ہے اور پھر سڑکوں پر چلتا ہے۔ یہ سچ ہے۔ آج بھی اگر دنیا میں کوئی بیداری
باقی ہے تو وہ انہی قلم کے سپاہیوں کی وجہ سے ہے، جو اپنے لفظوں کو زندہ رکھتے ہیں۔لیکن
افسوس، ہم نے ان سپاہیوں کو کبھی وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ حقدار تھے۔ ہم نے انہیں
بھوک دی، تنہائی دی، جملے دیے، طعنے دیے، مگر پھر انہی کے لکھے ہوئے نغموں پر جشن منایا۔
انہی کے اقوال لگائے، انہی کی کتابیں سینے سے لگائیں، اور انہی کے لفظوں پر فخر کیا۔بہت
عجیب لوگ ہیں ہم۔
زندہ
چراغ بجھا دیتے ہیں، بجھے چراغوں پر دیئے جلا دیتے ہیں۔
کبھی
کسی لکھنے والے کے دل میں جھانک کر دیکھو۔ وہاں کرب بھی ہے، دعا بھی ہے، درد بھی ہے
اور امید بھی۔ اس کے لفظ کسی درخت کے پتے نہیں جنہیں ہوا اڑا لے جائے، یہ وہ بیج ہیں
جو مستقبل میں جنگل بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔قلم کبھی مرا نہیں کرتا۔ لکھنے والا مر بھی
جائے تو اس کے الفاظ صدیوں تک سانس لیتے ہیں۔ تہذیبوں کی بنیادیں، قوموں کے نظریات،
انسانیت کے سبق، سب لفظوں کے کندھوں پر کھڑے ہیں۔اس لیے لفظوں سے دشمنی مت رکھو۔ یہ
تمہارے زمانے کے گواہ بھی ہیں اور تمہاری آنے والی نسلوں کے رہبر بھی۔ قلم والوں کو
جتنی عزت دو گے، اتنا ہی اوپر اُٹھو گے۔ کیونکہ جس قوم کے ہاتھ میں کتاب ہو، وہ وقت
کی غلام نہیں بنتی، وہ تاریخ بناتی ہے۔یاد رکھو، جب قلم بولتا ہے تو زمانہ سنتا ہے۔
اور جب زمانہ بدلتا ہے تو سب جانتے ہیں کہ آگ کہیں نہ کہیں کسی سطر میں بھڑکی تھا۔لفظ
محض آواز نہیں ہوتے۔ یہ روح کی گواہی اور دل کی گہرائی ہوتے ہیں۔ اور جب قلم حرکت میں
آتا ہے تو خیال وجود پاتا ہے، سوچ شکل اختیار کرتی ہے، اور انسان اپنے مقصد کو پہچاننے
لگتا ہے۔ یاد رہیں پہلا حکم جنگ کا نہیں تھا، حکومت کا نہیں تھا، مال کا نہیں تھا،
بلکہ علم کا تھا۔"اقرأ" کہہ کر رب نے انسان کو بتایا کہ روشنی وہیں سے پھوٹتی
ہے جہاں قلم احترام پاتا ہے۔قرآن خود قلم کی عظمت پر گواہ ہے۔ ایک پوری سورت “القلم”
کے نام سے نازل ہوئی۔پروردگار نے قلم کی قسم کھائی۔اور جس بات پر رب قسم کھا لے، وہ
معمولی نہیں رہتی۔علم، قلم، اور خیال یہ سب رب کی امانتیں ہیں۔ اور جو لوگ ان امانتوں
کے امین بنتے ہیں، وہ دنیا بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مگر کتنے دکھ کی بات ہے کہ معاشرہ
اب بھی ان چراغوں کو بھجانے پر تلا رہتا ہے۔ لکھنے والا تھکے تو کوئی کندھا نہیں دیتا،
آواز بلند کرے تو اسے بغاوت کہا جاتا ہے، اور جب سچ لکھے تو اسے الزاموں میں گھیر دیا
جاتا ہے۔پر قلم رکتا نہیں۔خاموش ہو جائے مگر مر نہیں جاتا۔کیونکہ لفظ کبھی دفن نہیں
ہوتے، یہ نسلوں کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتے رہتے ہیں۔جسمانی محنت کو قدر مل جاتی ہے،
مگر ذہنی مشقت کو اکثر مذاق سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ بدلنی ہو گی۔ تخلیق کار، شاعر، قلمکار
یہ وہ لوگ ہیں جو معاشروں کے دل میں دھڑکنیں بسا دیتے ہیں۔ ان کے لفظ امید بن کر ابھرتے
ہیں، احتجاج بن کر گونجتے ہیں، اور کبھی کبھی انقلاب بن کر پلٹ آتے ہیں۔قلم والوں کی
محنت وہ نہیں جو ہاتھوں میں دکھ چھوڑے بلکہ وہ ہے جو دلوں میں روشنی جگائے۔ یہی وجہ
ہے کہ تاریخ نے شہسواروں سے زیادہ شاعروں کو یاد رکھا، سلطنتوں سے زیادہ کتابوں کو
محفوظ کیا، اور جنگوں سے زیادہ لفظوں کو امر کیا۔اور اقبال کی پکار کتنا سچ تھی:
نوائے
سوزِ دل ہے نالهٔ بیدل کی تاثیر
نہیں
محکومِ تقدیر وہ قوم، جو خود تقدیر لکھتی ہے
ایک
اور سطر، میرے دل سے:
لفظ
وہ تلوار ہیں جن کی دھار نہ ماند پڑتی ہے
قلم
وہ لشکر ہے جس کی جنگ کبھی ہار نہ پڑتی ہے۔قلم کو اس کا مقام دیں۔کیونکہ قومیں تب ہی
مرتی ہیں جب ان کے لکھنے والے خاموش ہو جاتے ہیں۔اور قومیں تب ہی زندہ رہتی ہیں جب
ان کے لفظ جاگتے رہتے ہیں۔اللہ کرے ہم لفظ کی حرمت سمجھ جائیں،اور قلم کو اس کی اصل
جگہ دل اور ضمیر کے تخت پر بٹھا دیں۔قلم والے جب لکھتے ہیں ناں، تو صرف جملے نہیں بنتے؛
روحیں جاگتی ہیں، ذہن بیدار ہوتے ہیں۔ وہ الفاظ کو کاغذ پر نہیں بکھیرتے، وہ انہیں
دلوں میں بو دیتے ہیں۔ اور دل جب بیدار ہو جائے تو پھر کوئی طاقت اسے غلام نہیں رکھ
سکتی۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ قلم کا سفر تنہائی سے شروع ہوتا ہے۔ محفلوں میں جس کی بات
رد ہو جاتی ہے، وہ اپنے کمرے کی خاموشی میں آواز بنتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں: ’’وقت ضائع
کر رہے ہو، زندگی حقیقت ہے، لفظ نہیں۔‘‘ اور جانے کیوں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ حقیقت
بھی کبھی کسی شاعر کی سطر، کسی فلسفی کی سوچ اور کسی حریت پسند کے جملے سے ہی شروع
ہوئی تھی۔ہمیں لفظوں کی طاقت پر یقین کرنا پھر سے سیکھنا ہوگا۔ یہ یاد رکھنا ہوگا کہ
کوئی بھی قوم تب تک نہیں بکھرتی جب تک اس کے قلم زندہ رہیں۔ قومیں ہتھیاروں سے نہیں،
نظریات سے بنتی ہیں۔ اور نظریات سیاہی اور سوچ کا تحفہ ہیں، خون اور گولیوں کا نہیں۔لیکن
یہاں کیا ہوتا ہے؟ہم لفظوں کو شکوے سمجھ لیتے ہیں، مشورے کو تنقید، اور سچ کو گستاخی۔
ہم اپنے اہل قلم سے وہی رویہ رکھتے ہیں جیسا اندھے آئینے سے رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں
کہ وہ ہمیں خوبصورت دکھائے، ہماری خامیاں چھپائے، ہماری غلطیوں پر پردہ ڈالے۔ مگر یاد
رکھو، سچا قلم خوشامد نہیں کرتا، وہ آئینہ دکھاتا ہے۔ چاہے اس میں ہمارا چہرہ تھوڑا
بگڑا ہی کیوں نہ نظر آئے۔کتنی عجیب بات ہے۔ جب لفظ تھپڑ مارتے ہیں تو برا لگتا ہے،
مگر وہی لفظ جب تعریف بن کر آتے ہیں تو سینے پر تمغے کی طرح لگتے ہیں۔ ہم یہ سمجھ ہی
نہیں پائے کہ قلم کا کام صرف واہ واہ نہیں، تنبیہ کرنا بھی ہے۔ لفظ محبت بھی ہیں اور
انقلاب بھی۔اج دنیا کتابوں سے دور ہے مگر انجام اسی کا ہوگا جو ہمیشہ ہوا:جب تماشے
تھک جائیں گے،جب شور تھم جائے گا،جب دکھ دل پر بھاری ہو جائیں گے،تو لوگ پھر حرف کی
پناہ میں آئیں گے۔فانی دنیا کے تماشے سب بھلا دیتی ہے۔ مگر لفظ نہیں بھولتے۔ وہ پتھروں
پر نہیں روحوں پر لکھے جاتے ہیں۔قلم کار جیتنے نہیں نکلتا، جگانے نکلتا ہے۔ اس کا مقابلہ
دنیا سے نہیں، اندھیرے سے ہوتا ہے۔ اور یقین کرو، روشنی ہمیشہ کم ہوتی ہے مگر جیت ہمیشہ
اسی کی ہوتی ہے۔تو اے لفظوں کے مسافر لکھتے رہنا۔دنیا بدلنے کا کام کبھی بھی زیادہ
لوگوں نے نہیں کیا۔ہمیشہ چند بے چین دل، کچھ تھکی ہوئی آنکھیں، اور ایک ضدی قلم ہی
تاریخ لکھتا آیا ہے۔
قلم
والے کی مشکل یہ نہیں کہ اسے لفظ ڈھونڈنے پڑتے ہیں، مشکل یہ ہے کہ اسے لفظوں کا حق
ادا کرنا ہوتا ہے۔ وہ لکھنے سے پہلے کئی بار اپنے دل کو پرکھتا ہے کہ کہیں اس کے قلم
سے کسی کا حق نہ مارا
جائے، کسی سچ پر پردہ نہ پڑ جائے، کسی باطل کو سہارا نہ مل جائے۔ لفظ جب
مقدس ہو جائیں، تو لکھنے والا ان کا محافظ بن جاتا ہے۔دنیا کے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔
آج جو تالیاں بجا رہے ہیں، کل وہی پتھر بھی اٹھا سکتے ہیں۔ مگر قلم والا ان تالیاں
اور پتھروں سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کی دنیا وسیع ہے، اس کا آسمان اونچا ہے۔ وہ انسانوں
کے شور میں نہیں جیتا، وہ اپنے اندر کی صداؤں میں رہتا ہے۔ اور جو دل کے اندر کی آواز
سنتا ہے، وہ کبھی غلام نہیں بنتا۔اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ’’لفظوں سے بھلا کیا بدلتا ہے؟‘‘انہیں
نہیں معلوم کہ جنگیں ختم ہونے کے بعد بھی جو کتابیں زندہ رہتی ہیں، وہی اصل فتح ہوتی
ہیں۔ توپوں کے دھماکے وقتی ہوتے ہیں، مگر ایک سچّا جملہ صدیوں تک گونجتا ہے۔ دنیا کی
سب سے بڑی فتوحات تلوار سے نہیں، قلم سے لکھی گئیں۔ انسانیت کا سب سے بڑا دشمن جہالت
تھا، اور اسے شکست کسی سپاہی نے نہیں، ایک معلم، ایک شاعر، ایک مفکر نے دی۔قلم والے
کا دل عجیب سا ہوتا ہے۔ وہ اپنی ذات کو جلتا دیکھتا ہے، مگر روشنی دوسروں تک پہنچانے
کی ضد نہیں چھوڑتا۔ وہ خود زخمی ہوتا ہے، مگر شعور بانٹتا ہے۔ وہ اکیلا ہوتا ہے، مگر
پوری دنیا کے درد لکھتا ہے۔ لوگ اسے دیوانہ کہتے ہیں، اور وہ مسکرا کر کہتا ہے کہ ہاں،
میں دیوانہ ہوں سچ کا، فکر کا، انسانیت کا۔ اور شاید اسی دیوانگی میں اس کی عظمت چھپی
ہے۔لیکن سنو، قلم والوں سے اتنی بے حسی بھی ٹھیک نہیں۔اگر ہم انہیں تھوڑا سا سنے، تھوڑا
سا سمجھے، تو شاید زمانہ اتنا بے رحم نہ ہو۔ اس معاشرے کو اہلِ علم کی ضرورت ہے، صرف
مشہور لوگوں کی نہیں۔ چاہے وہ استاد ہو، شاعر ہو، کالم نگار ہو یا کوئی خاموش لکھنے
والا دنیا انہیں نہیں جانتی، مگر وقت انہیں پہچانتا ہے۔اور وقت کبھی غلط نہیں پہچانتا۔آخری
بات، دل سے لکھنے والوں کے لئے:اپنے لفظوں پر ناز کرو۔تم دنیا کے شور سے بڑے ہو،تم
وقت کے فیصلوں میں شامل ہو۔لوگ آئیں گے، جائیں گےمگر تمہارے لکھے ہوئے خیالات، نظریات
اور سچ نسلوں تک سفر کریں گے۔
اپنا
سفر جاری رکھو۔
قلم
کو تھامے رکھو۔
دنیا
شاید آج نہ سمجھے،
مگر
آنے والا کل انہی لفظوں پر کھڑا ہوگا۔
Comments
Post a Comment