Sahafi, asatiza, doctors, ulmah ke naam article by Qamar un nisa Qamar
_*صحافی،اساتذہ، ڈاکٹرز، علماء، کے نام*_
قمرالنساء قمر
افسوس!
تاریخ کے اوراق پر ظلم کی سیاہ ترین رات چھائی ہوئی ہے، ظلم اپنی انتہاؤں کو چھو رہا
ہے۔
مگر
دنیا اپنے معمولات میں مگن ہے، بغیر اس خوف کے کہ ایسے ظلمِ عَظیم پر خاموش رہنے کے
جرم میں پہاڑ ان پر الٹا دئیے جائیں، یا پانیوں کا رخ ان کی طرف موڑ دیا جائے، یا زمین
کو ہلا دیا جائے—تو انجام دیکھنے کے لیے بھی شاید کوئی نہ بچے۔
اللہِ
کریم نے جب ظالموں اور نافرمانوں کا انجام بیان کیا اور ان پر آنے والے عذاب بتائے،
تو ساتھ ہی فرمایا کہ یہ ہم تمہیں اس لیے بیان
کرتے ہیں تاکہ تم ان سے عبرت حاصل کرو۔ جیسا کہ (اور یقیناً ہم نے تمہارے آس پاس کی
بستیاں تباہ کر دیں اور طرح طرح کی ہم نے اپنی نشانیاں بیان کر دیں تاکہ وہ رجوع کرلیں
)لیکن ہم نہیں سمجھتے خود قرآنِ عظیم نے فرمایا: مگر سمجھنے والے تھوڑے ہیں۔
خدا
ہمیں سمجھنے والوں میں شامل کرے۔ حکمران طبقے کے ظلم پر تاریخ گواہ ہے۔ ایسے ہی لوگوں
کے لیے کہا گیا ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے۔
لیکن
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے دلوں پر بھی مہر تو نہیں لگ گئی؟ جس ظلم پر غیر مسلم
بھی انسانیت کے ناطے آواز اٹھا رہے ہیں، وہاں مسلمان کیوں خاموش ہیں؟ نہ کوئی لائحۂ
عمل، نہ کوشش، نہ احتجاج، نہ آواز، کچھ بھی نہیں۔
مگر
وہ طبقہ جو دنیا کو علم دیتا ہے، روح کی تعمیر کرتا ہے، آدابِ معاشرت سے لے کر آدابِ
انسانیت تک سکھانے والے اساتذہ، وہ خاموش کیوں ہیں؟ وہ تمام اساتذہ جو غزہ کے لیے آواز
بلند نہیں کر رہے، ذہن نشین کر لیں کہ اگر آپ لوگوں کو انسانیت نہیں سکھا سکے تو آپ
ناکام ترین استاذ ہیں۔ آپ خود بھی محض پیسے کمانے کی مشین بن چکے ہیں۔
تمام ڈاکٹرز،مسیحا، اگر آپ اہلِ غزہ کے زخموں پر
مرہم نہیں رکھ رہے، ان کے لیے بول نہیں رہے، ہر وہ کوشش نہیں کر رہے جو آپ کر سکتے
ہیں۔تو اپنے اندر جھانکیں، انسانیت تو کب کی مر چکی ہے آپ کے اندر۔ آپ وہ کھوکھلے لوگ
ہیں، جو دوسروں کے زخموں کو کیش کر رہے ہیں۔
جو
صحافی خاموش ہیں، جو اہلِ غزہ کے لیے بول نہیں رہے، لکھ نہیں رہے، آواز نہیں اٹھا رہے،
آپ کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آپ نے صحافت کو تو کیا سمجھنا تھا،آپ کو انسانیت کا سبق
لینے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کے الفاظ اہلِ غزہ کے لیے آہ نہیں بھر رہے، آپ کی تحریر میں
صداے احتجاج نہیں ہے، آپ کے جملوں میں اہلِ غزہ کی گھٹی آہیں گردش نہیں کرتیں، آپ کے
کیمروں میں اہلِ غزہ کا دکھ سنایا نہیں جاتا، آپ کے اسٹوڈیو ان کی لحظہ بہ لحظہ تصویر
دکھانے سے قاصر ہیں—تو یاد رکھیے، چند ٹکے آپ کے ضمیر پر بھاری ہو گئے ہیں، وہ پتھر
آپ کے ضمیر کو دباتے ہوئے آپ کی آواز کو باہر آنے نہیں دے رہے۔
اور
طبقۂ علماء، جو انبیاء کے علم کے وارث ہیں، اگر آپ اس وقت خاموش ہیں اور علم کا حق
ادا نہیں کر رہے، تو خود فیصلہ کریں: کیا آپ وارثِ علمِ انبیاء ہیں یا آپ کی خاموشی
ظالم کی معاون ہے؟ ہمیں امریکہ کے ڈالرز اور ان کی طاقت کے اعداد و شمار نہیں چاہیے
ہمیں قرآنی فیصلے بتائیں۔ ہمیں بتائیں کہ زمین و آسمان اور عرش و کرسی کے رب کی قوت
کا اندازہ انسانی ذہن کی گنجائش میں نہیں۔ ہمیں بتائیں مومن کی معراج کیا ہے؛ ہمیں
بتائیں اسلام کی عظمتِ جہاد کیا ہے۔
ہمیں
تاریخِ اسلام کے قصے سنائیں، بدر سے خندق تک، طائف کے زخموں سے احد کے زخموں تک، خیبر
سے خیبر شکن تک کی داستان،حرف بہ حرف پڑھائیں۔ قریش کے ظلم سے فتحِ مکہ تک کی روداد
سنائیں، مدینہ سے اٹھنے والے چند مجاہدین کی فتوحات کس طرح شرق و غرب تک پہنچیں، یہ
سب ہمیں بتائیں۔ حمیتِ دینی کا مفہوم واضح کریں، مومن کا بھروسہ، عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی
کسوٹی، سیرتِ مصطفیٰ ﷺ، یہ سب ہمیں سکھائیں۔ قرآن نے کس کو "نمونہ" کہا،
لا الہ الاللہ کا مطلب کیا ہے، "نہیں کوئی معبود مگر اللہ" اس کے حقیقی مفہوم
پر روشنی ڈالیں۔
امریکہ
و اسرائیل کو استثنا قرار دینے والی سوچ کہاں سے آتی ہے؟ کیا کلمے کا مفہوم یہ ہے کہ
حقیقی خالق کو فراموش کر کے ان کی نام نہاد قوتوں کے آگے جھک جانا چاہیے؟ وہی امریکہ
جسے روس کے مقابلے میں افغانستان کے مسلمانوں کی ضرورت تھی، وہی امریکہ جو افغانستان
سے نیٹو فورسز کے ساتھ ذلیل ہو کر نکلا، وہی امریکہ و اسرائیل جو کم و بیش 24 ماہ سے
اپنی ساری طاقت استعمال کر کے بھی حماس کے مجاہدین سے غزہ کا ایک انچ بھی حاصل نہ کر
سکے۔ ان کے جدید ہتھیار،یہاں تک کہ مرکاوا ٹینک، تک بھی مجاہدین کے سامنے بے بس ہیں۔ان
کے میزائل صرف مظلوم فلسطینیوں پر گر رہے ہیں۔
خدا
کے لیے بتائیں: پورا عالمِ کفر اور اس کے ساتھ عالمِ اسلام کا خاموش تعاون—بشمول عرب
ممالک کے مشترکہ تعاون کے، صرف چند ہزار مجاہدین کو شکست نہ دے سکا؛ اب تک چند انچ
زمین بھی ان سے حاصل نہ کی جا سکی۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اہلِ غزہ کا لا الہ الا اللہ
پر ایمان بول رہا ہے، یہی ایمان انہیں پہاڑوں سے زیادہ ہمت دے رہا ہے۔ 24 ماہ کے محاصرے
میں کائنات کا سب سے بڑا ظلم آزمایا گیا، اس کے باوجود غزہ کی ایک بچی کی آواز تھی:
"ہم یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے!" اور وہ آواز پوری کائنات کے خوف کو شکست
دے گئی۔ ایک بچی کی للکار نے ستاون ممالک کے حکمرانوں کی بزدلی کو بے نقاب کر دیا۔
یاد
کیجیے، چودہ سو سال پہلے جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے دریا میں گھوڑے ڈال دیے
تھے۔تو ایرانی چیخ اٹھے: "دیو آمدند!" آج اسرائیلی فوجی افسران بھی کہتے
ہیں کہ ہمارا مقابلہ کسی اور مخلوق سے ہے۔ ہاں، ان کا مقابلہ ایسی ایمان والی مخلوق
سے ہے جو پوری دنیا پر بھاری ہے، جن کے ایمان پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط ہیں؛ جو بھوکے،
پیاسے، ظلم کے سامنے سینہ سپر کھڑے ہیں؛ جو بکتے نہیں، جھکتے نہیں۔
اگر
دنیا آج بھی خاموش رہی تو انجام کیا ہوگا؟ انہیں بتا دیجیے کہ خدائی سنت کیا ہے؛ ظلم
پر خاموشی کی سزا کیا ہے۔
یہ
چار طبقے، اساتذہ، ڈاکٹرز، صحافی اور علماء کرام—اگر اب بھی خاموش رہے تو انسانیت اپنے
اوپر منہ چھپا کر روئے گی۔ آپ کا بولنا وقت کا تقاضا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب قوم بے
ضمیر ہو جاتی ہے تو تباہی اس کا مقدر ہوتی ہے۔ شریعت کا اصول ہے کہ جس وقت کوئی حکم
مقدم ہو وہ بیان کیا جائے—اور اس وقت وہی بیان کریں جو مقدم ہے۔
بقولِ
اقبال:
یہ
جملہ لکھ دیا کسی شوخ نے محرابِ مسجد پر،
ناداں
سجدے میں گر گئے جب وقتِ قیام آیا
**********
Comments
Post a Comment