21 nikati piece plane ki aar mein bara dhoka Article by Qamar Un Nisa Qamar
_21 نکاتی پیس پلان کی آڑ میں بڑا دھوکہ_
21 نکاتی پیس پلان جو ٹرمپ نے پیش کیا ہے اسے پیس
پلان کی بجائے دہشت گردی پلان، کہنا زیادہ مناسب ہے۔
کچھ
نکات مندرجہ ذیل ہیں دیکھیں اور خود فیصلہ کریں۔
1۔ حماس
کو غزہ سے بے دخل کر دیا جائے۔) تاکہ ہم با آسانی غزہ پر قبضہ کر سکیں)
حماس کو سرنڈر کرنا ہو گا اور غزہ سے نکلنا ہو
گا۔
2۔دونوں
طرف کے یرغمالی رہا کئے جائیں گے۔( یعنی ہمارے یرغمالی جو ہم اپنی پوری ٹیکنالوجی کا
زور لگا کر اور ظلم کے پہاڑ توڑ کر نہیں لے
سکے رہا کئے جائیں۔ اور آپ کا کیا ہے حماس کو نکال کر پورا غزہ ہی ہمارا ہو جائے گا)
3۔ مسلمان
ممالک کی فوج بنائی جائے گی جو خطے کو کور کرے گی۔دس سے 15 ہزار فوج امن قائم کرے گی۔2028
کے الیکشن میں بھی حماس حصہ نہیں لے گی۔
4۔غزہ
کی تعمیر نو کی جائے گی جس پر 100بلین ڈالر لگے گے اور یہ مسلمان ممالک کروائیں گے۔( یعنی جو عمارات امریکہ
و اسرائیل نے تباہ کیں وہ مسلم ممالک تعمیر کروائیں گے)
اللہ اللہ یہ نقطہ ذرا غور سے،
5۔فوجیں
اپائنٹ ہو گی تو اسرائیل کے پاس حق ہو گا کہ وہ ہوائی حملہ کر سکتے ہیں۔( یعنی حماس
کو نکال کر اسرائیل جب چاہے گا کوئی بھی بہانہ بنا کر حملہ کر دے گا)
برطانیہ کا سابق وزیراعظم ٹونی بلئر انتظام سنبھالے
گا۔
اگر مختصر بات کی جائے تو امریکہ ٹونی بلیر، کو
غزہ کا گورنر بنانا چاہتا ہے۔جس نے عراق تباہ کر دیا تھا اور دنیا جانتی ہے۔ ٹونی بلیر
ماضی میں کیا کچھ کرتا رہا ہے۔مزید امریکہ حماس کو غزہ سے بے دخل کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ
وہ کامیابی جو اسرائیل اور امریکہ کو دو سال تک غزہ پر چاروں طرف سے آگ برسا کر نہیں
ملی، وہ نام نہاد پیس پلان کے ذریعے حاصل کر لی جائے۔کیونکہ اسرائیل کے جنرل بھی اعتراف
کر چکے ہیں کہ حماس کو شکست دینا ممکن نہیں ہے۔
اور اس 7 اکتوبر کو دو سالہ جنگ مکمل ہو جائے گی
تاہم اس ظلم و بربریت کے باوجود ناجائز ریاست غزہ کی ایک انچ زمین پر قبضہ نہیں کر
سکی۔اور یہ سب حماس کی وجہ سے ممکن ہے۔
یعنی یہ اتنا بڑا دھوکہ ہے کہ تاریخ پر نظر رکھنے
والے اسے بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ماضی میں جب کبھی کسی قوم نے ایسے کسی دھوکے میں آ کر
ہتھیار ڈالے ہیں تو انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔
ساتھ ہی امریکہ ان نکات کی آڑ میں یہ چاہتا ہے کہ
اسرائیل کو تسلیم کروا لیا جائے۔اور ابراہیمی معاہدے کی راہ ہموار کی جائے۔ دراصل اس
نے 8،مسلم ممالک کے سامنے اپنے اور نیتن یاہو، کے وہ مطالبے رکھے ہیں،جو وہ غزہ پر
جنگ مسلط کرنے کے باوجود، حاصل نہیں کر سکے۔حماس کو شکست نہیں دے سکے، تو اب ایسے نام
نہاد پیس پلان، کے ذریعے وہاں سے حماس کو بے دخل کر کے اپنا غزہ پر قبضہ یقینی بنانا
چاہتے ہیں ۔
دوسری
طرف نام نہاد مسلم حکمران ٹرمپ جیسے دہشت گرد کے ساتھ تصاویر بنوا کر ہاتھ ملا،کر فخر
کرتے ہوئے وہاں سے بنا کوئی غزہ کے لئے ٹھوس مطالبہ کئے،واپس آ گئے ہیں۔ٹھوس مطالبہ
تو کجا بلکہ اس کی ہاں میں ہاں ملا کر، اس کے یکطرفہ فیصلے پر دستخط کر کے لوٹے ہیں۔اور
ہمارے وزیر اعظم صاحب تو سونے پر سہاگہ ٹرمپ
جیسے دہشت گرد کو نوبیل انعام کا حقدار بھی قرار دیا ہے۔
خیال کہا جا رہا ہے کہ پاکستان ابراہم اکارڈ کا
حصہ بننے جا رہا ہے۔ یعنی اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے۔یا کچھ اہل دانش کے نزدیک ایسا ہو چکا ہے۔دو ریاستی حل پر دستخط کرنے کا صاف
مطلب تو یہی ہے اسرائیل کو تسلیم کرنا۔اگر عوام نے آواز نہ اٹھائی تو باقاعدہ طور پر
بہے کچھ کر لیا جائے گا۔
اس لئے تمام اساتذہ، ڈاکٹرز، علماء، صحافی، اور
طلباء،کسان،امام مساجد، الغرص ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اس پر بھرپور آواز اٹھائیں۔
محمد علی جناح اور علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ نے ناجائز ریاست کو مسلمانوں کے سینے
میں چھرا قرار دیا تھا ہم اسے کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ کسی قیمت پر پاکستانی عوام
دہشت گرد ناجائز ریاست کو قبول نہیں کرے گی۔
ماضی
میں بھی امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ناجائز ریاست،اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں
کئی پرکشش آفرز ہوئی ہیں۔جو کہ یہ کہہ کر ٹھکرا
دی گئیں کہ ہماری روحیں برائے فروخت نہیں ہیں۔ یعنی ہم ڈالرز کے بدلے نہیں بکے گے اور
اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔جیسا کہ قائد و اقبال کا فیصلہ تھا۔
بہتر ہو گا
اس وقت اہل مغرب کی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے حکومت پاکستان صمود فلوٹیلا کی حفاظت کو یقینی بنائے۔۔پاکستان
مسجد اقصی کی حفاظت کے لئے فوجیں بھیجے۔ اہل غزہ نسل کشی کے آخری مراحل میں ہے۔ اگر
یہ نسل کشی نہ روکی گئی تو یاد رکھیں اس کا نتیجہ بہت بھیانک ہو گا۔
بہتر ہے دہشت گردوں کو نوبیل انعام کا حقدار کہہ
کر جہنم کے حقدار نہ بنیں۔مسلمانوں کی نسل کشی میں معاونت چھوڑ دیں۔تمام مسلم نام نہاد حکمران جان لیں کہ ظلم کا انجام بہت
بھیانک ہے۔اس لئے ظلم کا ساتھ نہ دیں۔دوسری صورت میں خدا کا عذاب تو آپ کا مقدر ہو
گا ہی۔آپ کی ان حکومتوں اور بادشاہتوں کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔
عوام
ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں جتنا ہو سکے اس ظلم پر لکھیں اور بولیں آپ سب کی بے حسی اور
خاموشی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج غزہ کی عوام کی بوٹی بوٹی کرنے والے نوبیل انعام کے حق
دار سمجھے جا رہے ہیں۔اور حماس جیسے مجاہدین اسلام، جن کی تعریف و توصیف پر قران و
حدیث نے کلام فرمایا ہے۔ اور جن مسلمانوں سے اللہ نے جنت کے اور اپنی رضا کے وعدے کئے
ہیں۔انہیں دہشت گرد کہا جا رہا ہے۔
خدا را مسلمانوں جاگ جائیں اور آپ باذن اللہ جاگے
گے اگر آپ کے اندر رتی برابر بھی ایمان باقی ہے۔ تو آپ ضرور جاگے گے آپ نبی رحمت صلی
اللّٰہ علیہ وسلم کی امت ہیں اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے 20 لاکھ
لوگوں کی نسل کشی پر کیسے راضی ہو سکتے ہیں۔ اپ کو نظر نہیں آ رہا آپ دیکھ نہیں رہے،کہ
آپ کے منافق حکمران عوام کو 22 ماہ تک صرف مذمت کا لولی پاپ دیتے رہے۔جب کہ اسرائیل کا دہشت گرد وزیراعظم
کہتا ہے۔کہ مسلمان حکمران ہمارے ساتھ ہیں۔عوام کے سامنے مذمت کرتے ہیں۔کیا اب بھی ان
کے اس ساتھ میں کوئی شک باقی ہے۔دنیا پر واضح ہے کہ اب بھی یہ سب غزہ کے لئے کوئی ٹھوس
مطالبہ تو دور کی بات ان تک امداد پہچانے تک کا مطالبہ نہیں کر سکے۔بلکہ انہوں نے اسرائیل
اور امریکہ کے 21 نکاتی ایجنڈے پر دستخط کر دئیے ہیں۔یعنی جو امریکہ اور اسرائیل جنگ
سے جیت نہیں سکا وہ انہوں نے 21 نکات کی صورت پیش کر دیا ہے۔ اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں
نے اس پر ہاتھ باندھ کر تائید کر دی ہے۔
جو غزہ کو ایک بوند پانی نہ پہنچا سکے،انہوں باقاعدہ
ایسے ایجنڈے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے جس کو تسلیم کرنے کا مطلب ہے،غزہ کو امریکہ
و اسرائیل کے حوالے کرنا اور دوسری صورت میں یہ نسل کشی جاری رہے گی اور مزید تیز ہو
جائے گی۔اگر کسی کو دو سال میں ان منافقین عرب و عجم کے نام نہاد مسلمانوں کا چہرہ
نظر نہیں آیا تو وہ اب بنا کسی پردے کے دیکھ سکتے ہیں۔
اب ساری بات عوام کی ہے آپ دیکھ لیجیے آپ نے حکمرانوں
کے ساتھ کھڑے ہونا ہے یا قرآن و حدیث کے احکامات کے ساتھ امید ہے آپ اپنے لئے بہتر
فیصلہ کریں گے۔چار دن کی دنیا نہیں آخرت کو ترجیح دیں گے۔
قمرالنساء قمر
*******************
Comments
Post a Comment