Hazoor (PBUH) ki wiladat article by M A Hanjrah

Hazoor (PBUH) ki wiladat article by M A Hanjrah

حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت کے دن کو عید کی طرح منانا یانہ منانا

رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت امت مسلمہ کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ تاہم یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت کے دن کو عید کی طرح منانا یا اسے خصوصی دن کے طور پر منانا جائز ہے یا بدعت؟ اس مضمون میں اس مسئلے کو قرآن، حدیث اور علماء کی آراء کی روشنی میں پرکھا گیا ہے۔

تمہید

اسلام میں صرف دو عیدیں (عید الفطر اور عید الاضحیٰ) مقرر ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ نے خود امت کو عطا کیا۔ (سنن ابی داؤد: 1134)۔ تاہم صدیوں سے ربیع الاول کی 12 تاریخ کو یومِ ولادتِ رسول ﷺ (میلاد النبی) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دن شرعی طور پر "عید" کے طور پر منانا جائز ہے یا نہیں؟

قرآن کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 "قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا ۖ هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ" (یونس: 58)

ترجمہ: کہہ دو کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہو جاؤ، یہ اس سے بہتر ہے جو تم جمع کرتے ہو۔

مفسرین نے "رحمت" سے مراد رسول اللہ ﷺ کو لیا ہے (تفسیر ابن کثیر، تحت آیت مذکورہ)۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کی آمد پر خوشی منانا جائز اور باعثِ ثواب ہے۔

حدیث کی روشنی میں

1.     عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ:

سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ، فَقَالَ:"ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدتُّ فِيهِ، وَأُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ"

(صحیح مسلم: 1162)

ترجمہ

حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پیر کے دن کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:

"یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل کی گئی۔"

🔹 یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی ولادت کے دن کو عبادت (روزے) کے ذریعے یاد فرمایا، نہ کہ کسی تہوار یا جشن کی صورت میں۔

2.      عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ:

"قَالَ رَسُولُ الله ﷺ:"إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُّهْدَاةٌ"

(صحیح الجامع: 2345)

ترجمہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"میں تو محض ایک رحمت ہوں جو ہدیہ کی گئی ہے۔"

عید اور میلاد میں فرق

عی د: شریعت نے دو دن (عید الفطر اور عید الاضحی) کو "عید" قرار دیا ہے۔ ان کے علاوہ کسی دن کو عید بنانا شرعی طور پر ثابت نہیں۔

میلاد: نبی ﷺ کی ولادت پر خوشی کا اظہار، نعت خوانی، صدقہ و خیرات اور سیرت بیان کرنا، یہ جائز اور باعثِ ثواب عمل ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی حرام یا غیر شرعی کام شامل نہ ہو۔

 علماء کی آراء

 جواز کے قائل

امام جلال الدین سیوطیؒ (م 911ھ) فرماتے ہیں:"میلاد النبی ﷺ میں اجتماع کر کے قرآن کی تلاوت اور آپ ﷺ کی ولادت کا ذکر کرنا بدعتِ حسنہ ہے۔"

(الحاوی للفتاویٰ، ج1، ص190)

امام ابن حجر عسقلانیؒ (م 852ھ):"میلاد النبی ﷺ کی تاریخ میں اجتماع اور صدقہ خیرات کرنا نیک عمل ہے، کیونکہ اس دن آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی کا اظہار ہے۔"

(فتاویٰ ابن حجر، ص129)

امام احمد رضا خان بریلویؒ (م 1921ء):"یومِ ولادت النبی ﷺ پر خوشی منانا جائز بلکہ باعثِ ثواب ہے، اگر اس میں شریعت کے خلاف کوئی چیز شامل نہ ہو۔"

(فتاویٰ رضویہ، ج21، ص561)

 اختلاف کرنے والے

 

امام ابن تیمیہؒ (م 728ھ):"میلاد کا دن نہ صحابہ نے منایا، نہ تابعین نے۔ اگرچہ اصل میں یہ عمل بدعت ہے، لیکن اگر کوئی خلوص سے محض محبتِ رسول ﷺ میں کرے تو اللہ سے اجر کی امید ہے۔"

(اقتضاء الصراط المستقیم، ج2، ص619)

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ:"میلاد کو عید کی طرح منانا ثابت نہیں، مگر اگر اس موقع پر سیرت النبی ﷺ کو اجاگر کیا جائے تو یہ نیک کام ہے۔"

(خطبات مودودی، ج3، ص76)

نتیجہ

اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں، اس لیے ولادتِ رسول ﷺ کو "عید" کا نام دینا درست نہیں۔

مگر نبی کریم ﷺ کی ولادت پر خوشی منانا، قرآن و حدیث کی روشنی میں جائز ہے۔

شرط یہ ہے کہ اس میں بدعاتِ سیئہ (ڈھول، ناچ گانا، اسراف وغیرہ) شامل نہ ہوں، بلکہ تلاوتِ قرآن، نعت خوانی، سیرت بیان اور صدقہ و خیرات ہوں۔

Comments