Dhaal aur deewaren article by Shayera saher


ڈھال اور دیواریں

 

دوپہر کی دھوپ تلوار کی طرح کڑک رہی تھی۔ گرمی اپنے عروج پر تھی۔ صحن کے پتھر تپ کر مرجھا چکے تھے، کھیتوں کی سبز لہلہاتی فصلیں سوکھ کر زردی اوڑھ چکی تھیں اور ندیوں کے کنارے پیاس کی لکیر کھنچنے لگی تھی۔ نیلے آسمان پر سفید بادلوں کے ٹکڑے کسی بوڑھے مسافر کی طرح تھکن اتار رہے تھے۔ گاؤں کی فضا پر سناٹا چھایا تھا، بس کبھی کبھار کسی پرندے کی آواز یا جھینگر کی ٹک ٹک اس خاموشی کو توڑ دیتی تھی۔

 

ظہر کی نماز کے بعد زیادہ تر لوگ کھانے کے بعد خوابوں کے سپرد ہو چکے تھے۔ میرا گھر بھی سکوت میں ڈوبا ہوا تھا۔ پانچ وسیع کمروں کے آخر میں کچن دھوئیں اور پسینے کی خوشبو سے آباد تھا، اور اس کے عین سامنے ایک دیہاتی سادہ سا لِونگ روم۔ گاؤں کی روایت کے مطابق بجلی نے بھی آج چھٹی کر رکھی تھی۔

 

ابا نرم گدے پر لیٹے کتاب کے صفحوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ دائیں طرف کے دروازے کے پار پھوپھو، دادی اور دیگر بزرگ بیٹھے باتوں میں مشغول تھے۔ کزن شور مچاتے اپنے کھیل میں مگن تھے، اور ان کے قہقہوں سے دیواریں تک گونج رہی تھیں۔ میں اور میری بہن ابا کے پاس بیٹھی تھیں مگر میرا دل کہیں اور اٹکا ہوا تھا۔

 

میری نظریں امی پر جا ٹھہریں۔ ایک باوقار عورت، درمیانی قد کی، جس کے بال جوڑے میں قید تھے مگر چند ضدی لٹیں آزاد ہو کر پسینے کی بوندوں کے ساتھ چمک رہی تھیں۔ اس کے چہرے پر چاندنی جیسی روشنی تھی اور بچوں جیسی معصومیت چھلک رہی تھی۔ تندور سے نکلتی روٹیوں کا دھواں اس کے رخساروں پر چھا رہا تھا۔ بیچ بیچ میں جب ہاتھ تپش سے جلتا تو وہ ہلکا سا چونکتی، مگر اگلے ہی لمحے مسکرا کر دوبارہ کام میں لگ جاتی۔ مہمان ابا کے تھے، رشتے ابا کے تھے، دعوت ابا نے دی تھی، مگر بوجھ سب امی نے اپنے شانوں پر اٹھا رکھا تھا—اور وہ بھی بغیر شکوے کے۔

 

میں نے ہچکچاتے ہوئے ابا سے پوچھا:

"ابا، جب میری شادی ہو جائے گی اور اگر مجھے بھی مہمانوں کی خاطر داری کے لیے پورا دن کچن میں گزارنا پڑا تو؟"

 

ابا میری عادت سے واقف تھے، وہ مسکرائے بھی نہیں، بس نرم لہجے میں بولے:

"ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ مہمان انکے ہوں گے تو خاطر داری بھی میں وہی کریں گے۔ ہوٹل سے کھانا منگوالیں گے، میری بیٹی کو کیوں کریں گے؟"

 

ان کے لفظ میرے دل پر چھاؤں کی طرح اتر گئے۔ میں نے مسکرا کر چہرہ جھکا لیا مگر دل میں ایک خلش رہ گئی۔ احساس ہوا کہ باپ کا وجود بیٹی کے لیے ڈھال ہے، ایک مضبوط قلعہ جو دنیا کے وار سے بچاتا ہے۔ میں نے شکر بھری نظر ابا پر ڈالی، مگر فوراً خیال آیا—امی کے پاس تو یہ ڈھال نہیں تھی۔

 

میری سوچوں میں ایک خلاء ابھرا:

"کاش، میرے نانا زندہ ہوتے… تو شاید آج امی اس جھلساتی گرمی میں کچن کی قید میں نہ ہوتیں۔"

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Comments