Tareef ke do chehry article by Hafsa Umer
کالم نگار: حفصہ عمر
تعریف کے دو چہرے
ایک
سوال جو مجھے کئی دنوں سے پریشان کر رہا تھا:
کیا
بچوں کی کامیابی پر ان کی حوصلہ افزائی کرنا بہتر ہے یا نہیں؟
آج،
کئی دنوں کے بعد، میں نے اس پر خود سے کچھ جواب تلاش کیے ہیں۔
دیکھا
جائے تو اس سوال کے کئی پہلو نکلتے ہیں اور ہر والدین کا اس بارے میں نظریہ مختلف ہوتا
ہے۔
ایک
پہلو یہ ہے کہ کچھ والدین بچوں کی کسی کامیابی پر ان کی تعریف یا حوصلہ افزائی کرنے
سے کتراتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اگر بچے کی تعریف زیادہ کر دی تو وہ "اوور
کانفیڈنٹ" نہ ہو جائے۔ یا یہ نہ سمجھے کہ بس اتنی سی کامیابی کافی ہے۔
ایسے
والدین عموماً بچوں کو دوسروں کی مثالیں دیتے ہیں — "دیکھو، فلاں کے زیادہ نمبر
آئے ہیں" یا "تمہیں تو ابھی اور محنت کرنی ہے۔"
بظاہر
وہ سخت نظر آتے ہیں، لیکن دل سے وہ بھی خوش ہوتے ہیں۔ بس ان کا انداز مختلف ہوتا ہے۔
لیکن
بچے ہمیشہ والدین کے دل نہیں دیکھتے، وہ الفاظ کو سنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات
بچے خود کو کم تر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
کچھ
بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو والدین کی تنقید کو چیلنج کے طور پر لیتے ہیں اور مزید محنت
کرتے ہیں، لیکن ہر بچہ ایسا نہیں ہوتا۔
دوسرا
پہلو یہ ہے کہ بعض والدین بچوں کی ہر چھوٹی کامیابی پر بہت بڑا جشن مناتے ہیں۔
ہر
بار تحفے، ڈنر، نئے کپڑے اور جوتے بچوں کو یہ سکھا دیتے ہیں کہ کامیابی صرف انعام کے
لیے ہے، مقصد کے لیے نہیں۔
اس
حد سے زیادہ لاڈ پیار کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ احساسِ شکرگزاری اور صبر کھو دیتا
ہے۔
لہٰذا،
ضروری ہے کہ والدین حوصلہ افزائی ضرور کریں، لیکن اعتدال کے ساتھ۔
محبت
کا اظہار کریں، تعریف بھی کریں — لیکن بچوں کو یہ بھی سکھائیں کہ کامیابی صرف دوسروں
کو خوش کرنے کے لیے نہیں، بلکہ خود کو بہتر بنانے کے لیے ہے۔
*******
Comments
Post a Comment