Moashra article by Malaika Mahi

Moashra article by Malaika Mahi

عنوان

"معاشرہ "

لکھاری:ملائکہ ماہی

 

گہرے سناٹے اور ان سناٹوں کو چیرتے کچھ الفاظ تھے ، کھڑکیاں ،دروازے بند کر لینے سے یا کانوں پر ہاتھ رکھنے سے دل کے شور تھم تو نہیں جاتے ۔

"دکھ پاتال میں   گل سڑ بھی رہے ہو تو چنگاریاں روح جھلسانے  دوزخ سے بھی آ جاتی ہیں "

وہ اکیلی بیٹھی تھی ،جامد ،یک ٹک رات کی تاریکی میں  جب ہر ذی روح نیند کی وادیوں میں خراٹے مارتی ہے وہ خود کو سوالیہ نشان بنائے کسی نقطے کی مرکوزیت پر پہرے دار تھی ۔

کچھ بازگشتیں اس کے آنکھوں کو بھگو رہی تھیں

" تم بد کردار ہو"

"تم تو جسم فروش ہو"

"کتنے لڑکوں کے ساتھ یارانے رہے تھے ؟"

بازگشتیں تو تیر برسانے کے در پر آ گئ

وہ رونے لگی  ، ہچکیاں لیتے ، بال نوچتے

  اپنے زخمی وجود کو گھسیٹتے دیوار قد آئینے میں دیکھتی وہ ہذیاتی انداز میں  اپنا منہ نوچنے لگی ۔

تم ، تم قصوروار ۔۔۔  منہ نوچتے وہ چلائی ۔۔  ناخن نے جلد اکھیڑ ڈالی ۔ سینے پر تھپڑ مارتی وہ روتی جاتی اور چینختی جاتی ۔۔۔ 

کسی نے مجھ پر ترس نہیں کھایا اللہ !  میری نادانیوں کو میرے وجود سے باندھ کے میری شخصیت کو بد کردار بنا دیا؟؟   وہ اوندھے منہ گری زمیں پر۔۔۔

میں نے ہاتھ اٹھا اٹھا کے معافیاں مانگی تھیں! میں نے سب بھلایا مجھے لگا میں شفاف ہو جاؤں گی  پر کہاں ؟؟؟  گرتے ہوئے بھی چپ نا ہوئی!

پر میری غلطیوں کا بوجھ کیا اتنا تھا جو میری زات حقیر ہو جاتی؟

زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے  میں سہے نہیں سکوں گی ۔۔۔۔۔ آنسوؤں تواتر سے بہتے رہے ۔۔

وہ کچھ دیر کو چپ ہوئی اس کی نظروں کے سامنے وہ لوگ آئے جن سے اسے محبت تھی  جتانے کو محبت پرست وفا شناس پھر جب اس کی زات پر انگلیاں اٹھی وہ بھی تو اسے چھوڑ گے ۔۔

تم تو ایسی تھی " تمہیں تو مر جانا چاہیے تم تو عورت زات پر دھبہ"

سسکی حلق سے برآمد ہوئی ۔۔۔۔۔ اس نے اپنا چہرہ ٹانگیں سمیٹ کے گھٹنوں کے گھیرے میں لے لیا ۔۔۔۔۔ درد حد سے بڑھ نکلا وہ روتی رہی جیسے آج دل کا سارا دریا بہے نکلے گا۔۔۔ پھر اچانک وہ چپ ہوگئی اور کتنے ہی لمحات خاموشی کے نزر ہو گے ۔۔۔ وقت گزرنے لگا وہ نہیں ہلی ۔۔ گھنٹہ ۔۔۔ دو گھنٹہ ۔۔۔۔ تین گھنٹے ۔۔۔۔ فجر کی اذانیں فضا میں بلند ہوئی پر وہ ٹس سے مس نا ہوئی ۔۔۔

ساتھ والے گھر میں مرغے کی بانگ اتنی تیز تھی کہ آدھا محلہ جاگ جاتا پر وہ نہیں جاگی!

دروازہ کھلنے کی آواز پر بھی وہ نہیں ہلی ۔۔۔  دروازہ کھولنے والی اس کی بہن تھی  ۔۔۔

وہ لمحہ بھر کو دیکھ کر حیران ہوئی محبت سے پکارتی اس تک آئی ۔۔۔

چندا...  یہ کیا ہے ؟؟؟ وہ اس کے آس پاس سے بکھری چیزیں سمیٹنے لگی !

تمہیں کیوں کرتی ہو ایسے کیوں گندگی ڈالتی ہو پتا تو ہے اماں ناراض ہوتی ہیں ۔۔۔ وہ متانت سے کام کرتے سمجھا رہی تھی پر کوئی رسپانس نہیں آیا بہن متفکر ہوئی ۔ چلتی چلتی اس تک آئیں ۔۔۔  اٹھو ۔۔۔ بچے ۔۔۔۔

میری جند ؟؟ کیا ہوا ؟؟؟ اب کی بار بہن نے فکری میں اسے  جھنجھوڑا ۔۔۔

ایک چیخ کمرے سے نکلتی ہوئی قہر میں تبدیل ہوئی ۔۔۔  آسمان جیسے سر پر ٹوٹ کر آ گرا۔۔۔

وہ ڈھلکتی ہوئی زمین پر جا گری ۔۔۔  چیخ و پکار صدمے میں قید ہوگی

زمین پر اُسکی وہی لاش تھی جو معاشرے کی سنگ دلی کی بھینٹ چڑھ چکی تھی ۔۔

زخمی چہرہ ، آدھ کھلی آنکھیں اور  بے دم  وہ۔۔۔۔

کب؟؟ کس وقت زخمی روح نے وجود سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ اذیت سے کیا ہوگا  ؟؟؟ کوئی نہیں جان سکا ۔ کوئی کیوں جان پاتا لوگ اس کی اندرونی کیفیت سے کہاں واقف تھے۔

انسان کو انسان ہونے کا مارجن دینا چاہیے   زندگی میں ہی اچھے اور برے اعمال کا ترازو بنا لینے سے نا حق خدا تو ہر کوئی بن جاتا ہے  پر خدائی صفات عطا کبھی نہیں ہوتیں ۔۔۔

وہ چلی گئ  وہ ٹھیک کہتی تھی وہ سہے نہیں سکے گی اور شائد اللہ نے اس کی برداشت تک اسے آزما بھی لیا تھا ۔۔۔۔۔

************

Comments