Eid milad un nabi(PBUH) aqeedat mein ehtdal ki zaroorat article Muqadas Chaudhray

عید میلادالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔

 عقیدت میں اعتدال کی ضرورت

تحریر مقدس چوہدری

 

 

بعض حضرات کے مطابق عید میلادالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم منانا جائز ہے اور بعض کے نزدیک ناجائز ہے۔ یہ لمبی بحث ہے جس میں ہمیں نہیں پڑنا۔ میری یہ تحریر ان کے نام ہے جن کے مطابق عید میلادالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو منانا جائز ہے۔

قرآن مجید کی سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 114 میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَۃً مِّنْکَ ۖ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ

ترجمہ:

"عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے اللہ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل فرما، جو ہمارے لیے ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید بن جائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو، اور ہمیں رزق عطا فرما، اور تو بہترین رزق دینے والا ہے۔"

سورۃ یونس کی آیت نمبر 54 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ۚ ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ

ترجمہ:

"کہہ دو: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر، پس اسی پر انہیں خوش ہونا چاہیے؛ یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔"

سورۃ الضحیٰ میں اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا:

وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ

ترجمہ:

"اور اپنے رب کی نعمت کا ذکر کرو۔"

حدیث مبارکہ میں موجود ہے:

نبی کریم ﷺ سے جب پیر کے دن روزے کی فضیلت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:

"ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَأُنزِلَ عَلَيَّ فِيهِ"

(صحیح مسلم: 1162) 

ترجمہ: ’’یہ وہ دن ہے جس میں میری پیدائش ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔‘‘

اگر صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے متعلق بات کریں تو حدیث میں ہے:

کہ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک مجلس میں تشریف لائے اور ان سے پوچھا:

"ما أجلسكم؟"

(تمہیں کس چیز نے یہاں بیٹھنے پر آمادہ کیا؟)

صحابہ نے عرض کیا:

"جلسنا نذكر الله ونحمده على ما هدانا للإسلام ومنّ علينا بك."

(ہم اللہ کا ذکر کر رہے ہیں اور اس کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی ہدایت دی اور آپ کو ہمارے لیے نعمت بنا کر بھیجا۔)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"آلله ما أجلسكم إلا ذلك؟"

(کیا واقعی تمہیں صرف یہی بات یہاں بیٹھنے پر آمادہ کر رہی ہے؟)

صحابہ نے جواب دیا:

"والله ما أجلسنا إلا ذلك."

(اللہ کی قسم، ہمیں صرف یہی بات یہاں بیٹھنے پر آمادہ کر رہی ہے۔)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"أما إني لم أستحلفكم تهمةً لكم، ولكنه أتاني جبريل عليه السلام فأخبرني أن الله عز وجل يباهي بكم الملائكة."

(میں نے تم سے قسم اس لیے نہیں لی کہ تم پر شک ہے، بلکہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس عمل پر فرشتوں کے سامنے فخر کر رہا ہے۔)

یہ حدیث سنن النسائی، صحیح مسلم، جامع ترمذی اور دیگر کتب حدیث میں موجود ہے۔

یہ وہ روایات ہیں جن سے عید میلادالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم منانے کی دلیل ملتی ہے۔ پہلے قرآن مجید کی آیات کریمہ ہیں پہلی آیت اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت نازل ہونے کے دن کو عید کہا گیا، دوسری آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت پر خرچ کرنے کا حکم تھا اور تیسری آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت یاد کرنے کا حکم ہے۔

اگر احادیث مبارکہ کی بات کریں تو واضح نظر آتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی پیدائش پر روزہ رکھا اور جب صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین ایک جگہ بیٹھ کر حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت پر اللّٰہ کا شکر ادا کر رہے تھے، تو اللّٰہ تعالیٰ فرشتوں کی جماعت میں ان پر فخر کر رہا تھا۔

یہ تھے دلائل۔۔۔ لیکن ان دلائل سے ایک سوال جنم لیتا ہے۔ آج کل جس طرح میلاد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم منائی جاتی ہے، اس کا حکم کہاں سے ملتا ہے؟ کوئی ایسی روایت جس میں لکھا ہو کہ میلاد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ڈھول بجانا چاہیے یا اس پر ناچنا چاہیے یا اپنی بہن بیٹی کو حور بنا کر اس کی نمائش کی جائے یا پھر کیک کاٹا جائے۔

ان سوالات کے جواب میں کہا جائے گا کہ اہل مدینہ نے حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا استقبال بھی ایسے کیا۔ مگر روکیے! کیا سچ میں؟ جب حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے کر گئے تو لوگوں نے ڈھول نہیں دف بجائے تھے۔ یہ دونوں الگ چیزیں ہیں۔ ایسا دف جس پر کوئی دھات لگی نہ ہو وہ جائز ہے مگر ڈھول نہیں اور ڈھول تو شادی بیاہ پر بجایا جاتا ہے(ادھر بجانا بھی جائز نہیں ہے)۔ مزید برآں یہ کہ خواتین نے چھتوں پر چڑھ کر استقبال کیا تھا، مردوں کے درمیان کھڑے ہو کر نہیں اور اس وقت آیت حجاب نازل نہیں ہوئی تھی۔ جہاں تک بات کیک کاٹنے کی ہے تو حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے لے کر تبع تابعین اور آئمہ کرام تک کسی نے کیک نہیں کاٹا۔ اکثر لوگ کہے گے تب کیک نہیں ہوتا تھا تو آپ غلط ہیں۔ قدیم مصر فرعونوں کی سالگرہ منانے کا ذکر ملتا ہے، مگر اس سے مراد ان کی تاجپوشی یا دیوتا بننے کا دن ہوتا تھا، نہ کہ پیدائش کا دن۔ اب خود دیکھیں وہ کس بنا پر کیک کاٹ رہے ہیں۔

تھوڑا سا غور کریں اور سوچیں آپ کدھر جا رہے ہیں؟ کیا اسلام اس کی اجازت دے رہا ہے؟ نہیں! السلام اس کی اجازت نہیں دے رہا۔ اس طریقہ کار میں بے حیائی اور فرعونیت کی جھلک نظر آتی ہے۔  عید میلاد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم منانی ہے تو منائے، جوش سے منائے مگر غلط رسومات کو چھوڑ کر۔ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی میلاد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو منایا مگر اس طرح نہیں جیسے آج ہمارے علماء کرام منا رہے ہیں۔ اگر دلائل پر غور کریں تو یہ عیاں ہوگا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے خرچ کا حکم دیا تو آپ حلال طریقے سے خرچ کریں، غرباء میں تقسیم کریں۔ حضورِ اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا تھا، صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین نے ذکر الہیٰ کیا اور شکر ادا کیا، اہل مدینہ منورہ نے گھروں سے نکل کر اور دف بجا کر استقبال کیا اور آئمہ کرام نے جلوس اور محفل کی شکل میں میلاد منایا لیکن کسی کا طریقہ جدید طرز کے مطابق نہیں تھا۔ خدارا سنبھل جائے! جب کے نقشہ قدم پر چلنے کے آپ دعوےدار ہیں ان کی سنت پر بھی عمل کریں۔ حرام چیزوں کو شامل کرتے وقت ایک چیز تو سوچیں کہ آپ میلاد منا کس کا رہے ہیں؟ وہ ہستی کون ہے؟ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو عظیم الشان ہستی ہیں کہ ان کی عظمت بیان کرنے لگوں تو الفاظ کا ذخیرہ ختم ہو جائے۔

‎*************

Comments