Beriyan article by Shumaila Zaib


Beriyan article by Shumaila Zaib


از قلم : شمائلہ زیب   

(  بیڑیاں)

 

"بیڑیاں" یہ لفظ پڑھتے ہی آپ کے ذہن میں زنجیروں کا خیال آیا ہوگا ۔جب کہ یہ وہ بیڑیاں ہیں جو نہ تو کھل سکتی ہیں نہ خود کھولی جا سکتی ہیں۔ یہ وہ پیڑیاں ہیں جن کی پکڑ بہت مضبوط ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی لیکن بہت ہی تکلیف دہ اور اذیتوں بھری ہوتی ہیں۔ جن سے آپ چھٹکارا پانا چاہیں تو آپ پا نہیں سکتے ہیں۔

 

 لیکن جس معاشرہ میں ہم رہتے ہیں زندگی بسر کرتے ہیں۔ سب کے انداز الگ، رواج الگ، خیالات الگ ،سب کچھ جدا۔

اور پھر دیکھا جائے تو ہم اپنا معاشرہ خود بناتے ہیں۔ یہ معاشرہ ہم سے ہے ہم ہی رہنے والے لوگ ہیں تو کیوں ہم دوسروں جیسا بنے؟ کیوں ہم وہی کریں جو لوگ کر رہے ہیں؟ یہاں بات آ جاتی ہے لوگوں کی اب لوگ تو ہر طرح کے ہیں اس معاشرے میں جس نے جیسے چاہا معاشرہ بنایا اپنی دنیا اپنے مطابق بنائی.

پھر دوسرے درجے میں یہ کہنے والے کہ معاشرہ خراب ہے دنیا خراب ہے واقع ؟

مجھے تو ایسا نہیں لگتا ہر انسان نے اپنے مطابق دنیا اور اپنا معاشرہ بنایا اور اپنے رواج اپنے خیالات سجائے۔

جو برے لوگ تھے انہوں نے اپنی دنیا اپنا ،معاشرہ بنایا اور ایک عجیب رسم و رواج میں مبتلا ہو گئے اور رہ رہے ہیں۔وہی جاہلانہ باتیں وہی انداز وہی رہن سہن۔

نہ حلال حرام کی تمیز نہ کوئی خوف خدا۔

اس کے برعکس اسی طرح اچھے لوگ تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں خوف خدا رکھا اور ہر بات کا خیال رکھا انسان کو انسان سمجھا اور ترجیح دی ،احساس والے لوگ جنہیں یاد رہے کہ انہوں نے دنیا سے جانا ہے کوئی بھی آب حیات پی کر نہیں آیا۔

جانے کیوں لوگ اپنی آخرت کو بھول چکے ہیں ہاں انہیں اگر آخرت یاد رہتی تو شاید ان کے دلوں میں رحم اور ان کے لہجوں میں نرمی ہوتی۔

خیر یہ تو سرسری سی معاشرے پہ میں نے نظر ڈالی بات آتی ہے بیڑیوں کی ان زنجیروں کی تو یہ ایک ایسی پکڑ ہے کہ اس کے نشان جسم پر نہیں روح پر اثر کرتے ہیں۔

 

لکھتے لکھتے اپنی آنکھ سے دیکھا منظر ذہن میں تازہ ہوگیا۔ نرمین نامی پچی میری محلے میں رہتی تھی۔ بہت ہی حساس پیار کرنے والی چنچل نادان سی لڑکی۔ وہ گھر کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی تھی۔

اچانک ایک دن میں نے نرمین کی شادی کی خبر سنی اور میں حیران رہ گئی۔ اس کی شادی اس کے چچا کے بیٹے سے ہو رہی تھی۔ میرے حیران ہونے کی وجہ صاف تھی کہ وہ ابھی کافی چھوٹی ہے۔ خیر شادی ہوئی بڑی دھوم دھام سے سنا ہے وہ سرخ لباس میں کسی گڑیا سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ بے حد خوبصورت لیکن ہائے نصیب! کہتے ہیں نصیب والے جیت جاتے ہیں اور خوبصورتی ہار جاتی ہے نصیبوں والوں کو ہی تخت نصیب ہوتے ہیں ۔

نرمین کے ساتھ بھی کچھ یوں ہوا اس کی خوشی صرف اس سرخ لباس تک ہی رہ گئی اس بیچاری کی خوشیوں کو جیسے نظر ہی لگ گئی۔ کھیل تو اصل تب شروع ہوا جب اس نے نکاح کے تین بول کہے اور اپنا آپ سونپ دیا۔

نرمین کی خوشی اس لال جوڑے میں قید ہو کہ رہ گئی اور اسی وقت پاؤں میں بیڑیاں پڑ گئی جن کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ وہ چاہ کے بھی خود کو آزاد نہیں  کر سکی ۔۔۔

شادی کو لے کر جو خواب دیکھے تھے وہ سب آہستہ آہستہ اس کی آنکھوں کے سامنے ختم ہو رہے تھے ۔

آنکھوں میں بسے خوابوں کا قتل ہو گیا جیسے۔

 

اس کو لگا کہ دو بول سے اس کی زندگی نکھر جائے گی لیکن اس کی سوچ کے برعکس بکھر کے رہ گئی تھی۔ ایک دن میری نرمین سے ملاقات ہوئی تو اس کا چہرہ روتا ہوا، آنکھیں بولتی ہوئی اور لب خاموش دیکھ کر دل اداس ہوگیا۔ وہ لاڈلی جیسے بہت پیچھے رہ گئی اب کی بار نئی نرمین سے سامنا ہوا جو بالکل ہی پہلی والی سے مختلف تھی۔اس کی آپ بیتی سنی اور میرے ہوش اڑ گئے۔ میرے پیروں تلے جیسے زمین ہی کھسک گئی۔

ایک لڑکی جو اپنا گھر ،ماں باپ سگے رشتے چھوڑ کر ایک اجنبی کو اپنا آپ سونپ دیتی ہے ،اس کی تو قدر کرنی چاہیے ۔

جبکہ ایک بیٹا اپنا گھر کیا ماں باپ سے دسترخوان بھی الگ نہیں کر سکتا ،اور نا یہ بات سننا پسند کرتا ہے ۔

تو پھر کیسے ایک مرد عورت پر اس قدر ظلم زیادتی کر سکتا ہے ۔

کیا عورت کی قربانی کچھ بھی نہیں ؟

ایسا کیوں آخر؟

 

مرد کو تو محافظ بنا کر بھیجا گیا ہے تو پھر کیسے وہ تکلیفیں دے سکتا ہے ۔

کہتے ہیں ضمیر زندہ ہو تو دوسروں کا درد بھی اپنا لگتا ہے اور دوسروں کا درد سن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں۔ دل دہلا دینے والی باتیں سنی جو کبھی ذہن و گمان میں نہ تھی۔

اللہ ایسی بیڑیوں کی گرفت سے بچائے آمین۔

ایک لاڈلی کو اپنی مرضی اپنی پسند سے لوگ بیاہ  کر لے جاتے ہیں اور پھر ظالمانہ سلوک کرتے ہیں ۔نرمین کے بقول اس کی ساس نہایت نفسیاتی مریضہ تھی۔ وہ میں اور انا کی پکڑ میں جکڑی ہوئی خاتون، جو صرف اپنی انگلیوں پہ لوگوں کو نچانا جانتی تھی اور انسان کو انسان نہیں بلکہ پاؤں کی جوتی سمجھتی تھی۔

بظاہر نماز تلاوت اور دینی باتیں کرنا اور محفلوں میں انسانیت عزت اخلاقیات کے فلسفے جھاڑنا ان خاتون کا پیشہ تھا ۔ اس کا  سسر جو اپنی بیگم کی ہاں میں ہاں ملاتا، چاہے وہ حق ہو یا نہ حق۔ دونوں ہی نماز گزار اور بڑی باتیں کرنے والے منافق۔

اگر میں اخلاقیات کے مترادف بات کر رہی ہوں تو ہاں میں انہیں منافق کہنا بہتر سمجھتی ہوں۔

منافق بھی تو یہی کرتے ہیں یہاں نمازیں پڑھتے ہیں دینی محفلیں لگاتے ہیں ہر وقت تسبیحات میں اور عمل اسکے برعکس ہوتے ہیں۔

کسی نے صحیح کہا تھا ایک عورت گھر بناتی بھی ہے اور اجاڑتی بھی ہے اور حق پر نہ بولنے والا اور غلط کا ساتھ دینے والا اتنا ہی گنہگار ہے جتنا کہ کرنے والا۔

بہرحال اس کی ساس نے شادی کی اگلی صبح ہی اپنے رنگ روپ دکھانے شروع کر دیے ۔جبکہ وہ سگی چاچی تھی لیکن کہتے ہیں نا کہ انسان ہمیشہ قریبی مورچے سے لگتا ہے ۔اپنوں کی مار سے بڑی تکلیف اور کوئی نہیں۔ میں اس بات پر اتفاق کرتی ہوں کہ اپنوں سے غیر اچھے ان کی آنکھوں میں شاید پھر بھی حیا ہوتا ہے لیکن اپنوں کی آنکھیں نہیں شرماتی، بہت کم ایسے ہو گے جو آپ کو عزت دیں گے، جو آپ کو سمجھیں گے ،آپ کا ساتھ دیں گے اور آپ کی خوشی اور  غم میں شریک ہوں گے۔

اس بھولی لڑکی کو لگا تھا اپنے گھر کی ہی بات ہے وہ سب کے ساتھ اچھے سے رہنے لگی۔ شادی کی اگلی صبح ہی رویے بدل گئے اور پہلی صبح ہی کچن میں قدم رکھا اور اپنے کام خود کرنے لگی۔

اگر آپ میری رائے جاننا چاہتے ہے  تو مجھے لگتا ہے لڑکی کو کچھ وقت مہمانوں کی طرح سجا کر رکھنا چاہیے اور اسے سمجھنا چاہیے۔ چاہے اپنی ہو یا پرائی سب کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے ۔

 

"بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں اپنی ہو یا غیر کی ۔"

 

خیر  ہر روز گھر والوں اور ساس سے بے عزت ہوتی رہی، کبھی تانے سننا، کبھی طنز و مزہ کا شکار۔ وہ چپ چاپ سنتی رہی۔

نرمین نے سب حالات سے مائکے والوں کو ناواقف رکھا تاکہ انہیں تکلیف نہ ہو اور یہ بھی کہ شاید تبدیلی آ جائے اسے لگا تھا حالات ایک جیسے نہیں رہیں گے ۔ رد و بدل حالات میں ہوتے رہتے ہیں اور ہر بات کو نارمل لینے لگی ۔کیونکہ  ہر جگہ یہی سلسلہ چل رہا ہے۔ ساس کے طعنے ،شوہر کی بد مزاجی اور نندو کا ہر معاملے میں مداخلت یہ ایک معمولی سی بات سمجھی اس نے اور سب کچھ سہتے ہوئے بس یوں ہی خاموش رہی۔

نرمین کچھ ہی دنوں میں بہت بڑی ہو گئی معاشرے نے بنا دیا اور یاد ہے نا معاشرہ تو ہم ہی بناتے ہیں۔

 آہستہ آہستہ اس کا شوہر تجمل بھی اس کے ساتھ برا ہوتا گیا ۔ تربیت کا اثر رونما ہونے لگا اس کی پرورش کی جھلکیاں عیاں ہونے لگی۔ بات بات پر اسے باتیں سنانا اس کا سکون خراب کرنا۔

 

"عمل سے ہی تربیت رونما ہوتی ہے۔"

 

وقت کے ساتھ ساتھ وہ گلاب مرجھا گیا جو اپنے گھر کے آنگن میں مہکتا تھا۔ وہ قدم جو اسے پہلے اٹھانا چاہیے تھا اب اٹھایا، آخر حالات سے تنگ آ کر نرمین نے اپنے گھر والوں کو سارے حالات سے واقف کیا اور یہ کہ وہ کیسے زندگی بسر کر رہی ہے۔

کچھ لوگ بظاہر نظر کچھ آتے ہیں اور ہوتے کچھ ہیں اور کچھ انسانوں میں انسانوں والی نہیں جانورں  والی خصلتیں پائی جاتی ہیں۔

اس نئے رشتے میں نرمین کے پاؤں جکڑے ہوئے تھے۔

کچھ لوگ زندگی میں ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ نہ ان سے پیچھے ہٹا جا سکتا ہے اور نہ ان کے ساتھ چلا جا سکتا ہے لیکن  ہاۓ مجبوری!  مائکے والوں نے اپنی بیٹی کے لیے آواز اٹھائی اور اسے حوصلہ دیا۔ ایک ماں باپ اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ بیٹیوں کی شادی آباد کرنے کے لیے کی جاتی ہے اجاڑنے کے لیے نہیں۔

خیر نرمین کی تو کہانی سن کر میرا تو اس حسین رشتے سے اعتبار ہی اٹھ گیا۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ اللہ نے تو میاں بیوی کو قران میں ایک دوسرے کا سکون کہا ہے۔

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"تمہارا ہم سفر ہی تمہارا سکون ہے "  

   

کہتے ہیں اگر شوہر کا ساتھ ہو وفا ہو تو دنیا سے بھی عورت لڑ جاتی ہے۔

 

"روح زخمی ہو جائے تو جسم بے جان ہو جاتا ہے"

 

جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ ان بیڑیوں سے  چھٹکارا پانا چاہے بھی تو نہیں پا سکتے۔

اللہ نے شوہر کو مجازی خدا ضرور بنایا ہے لیکن کسی کا حاکم نہیں حاکم وقت ضرور بنایا لیکن خدا نہیں۔

یہاں ہر کوئی صرف اپنے مطابق، اپنی مرضی کی، اپنے مطلب کی احادیث سناتا لیکن عمل زیرو۔۔۔ہاں وہی منافقت سب جان کر بھی آنکھیں بند کر لینا۔

پرانے دور کے لوگ بہت اچھے تھے اخلاق و آداب اثر و رسوخ والے ۔یہاں تک ایک تھالی میں لگا کر کھانے والے تھے ۔ہر کسی سے یہی سنا کہ پہلے کا دور اچھا تھا۔

ہاں ہوگا لیکن میں اس بات سے خاص اتفاق نہیں کرتی۔

چھوٹی عمر کی لڑکیوں کی شادیاں اور ان پر ڈھیروں ڈھیر ذمہ داریاں اور پھر بچے شوہر اور شوہر کے گھر والوں کی ذمہ داری اور گھر صرف ایک لڑکی کے سپرد۔

کیونکہ پرانے وقت کے لوگوں کا کہنا ہے کہ لڑکیاں گھر بسانے اور کاموں کے لیے بنی ہیں۔  لڑکی بس چولحا سیکھنا جھاڑو پوچے کے لیے بنی ہے اور پرانے لوگوں نے کیا بھی کچھ یوں۔

اب وہی پرانے لوگ اپنی روایات اور اپنے طور طریقے اپنا دین اپنی بہوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ آج کے دور اور پہلے کے دور میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جتنے بھی بڑے بزرگ ہیں سب اپنے دور کو واپس لانا چاہتے ہیں وہی سب دوہرانا چاہتے ہیں جو پہلے دیکھ چکے یا کر چکے ہیں۔ حالانکہ پہلے دور کی لڑکیاں باشعور نہیں تھی انہیں احادیث اور اپنے دین کے بارے میں علم نہیں تھا ۔علم کی کمی کی وجہ سے پرانی عورتیں خاموش رہتی تھی ۔

جس نے جو کہا کیا چپ چاپ سن لیا اور عمل کیا اور ایسے زندگی بیت گئی۔

اور ظاہر سی بات ہے اب کے بڑوں نے یہ بات تو کہنی ہے کہ پہلے کا دور اچھا تھا کیونکہ ان کی چلتی تھی حق نا حق ،حلال حرام ، نا انصافی جو من کیا وہ کیا اور کروایا۔

لیکن آج کی لڑکی باشعور ہے، پڑھی لکھی ہے اور اگر کم پڑھی لکھی بھی ہو تو اچھے سے دین  اور دنیا دونوں جانتی ہےاور قانون بھی۔کس کا کتنا حق ہے، کس کو کہا  حق دینا ہے، کہاں آواز اٹھانی ہے، کس وقت کون سا فیصلہ کرنا ہے، کس کے کیا حقوق ہیں،کون سے فرائض  ہیں اور کہاں خاموش رہنا ہے؟

یہ سب آج کل ان پڑھ لڑکی کو بھی پتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا کا اہم کردار ہے یہاں کہتے ہیں نا اچھے کے لیے اچھا اور برے کے لیے برا۔

عالم مفتی ہر طرح کے بیانات دے رہے ہیں جن کا علم بھی نہیں تھا اس سوشل میڈیا کے ذریعے سب کے علم میں اضافہ ہو گیا ۔

افسوس ہے اس کے باوجود بھی لوگوں نے منافقت نہ چھوڑی۔یہ وہی کرتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں جو پہلے کر چکے ہیں اور کرتے آ رہے ہیں صاف لفظوں میں کہا جائے تو میں اور انا میں ڈوبے ہوئے لوگ۔

 

"ارشاد باری تعالی ہے"

"جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو اواز دے جو پکارا اور اواز کے سوا کچھ سن نہ سکے یہ بحریں ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں (کچھ) سمجھ ہی نہیں سکتے"

                                         سورہ بقرہ ایت 171

 

پھر ایک اور پہلو ذہن میں تازہ ہوا کہ اگر کوئی ان بیڑیوں کو توڑ کر خود کو آزاد کر لے تو  معاشرہ بڑا سخت ہے طلاق یافتہ بیٹی کو قبول تو کر لیتا ہے لیکن کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا ہے۔ لیکن وہ نہیں دیکھتا جو اس پر حالات گزرے ،واقعات گزرے اور کیسے اس نے زندگی گزاری اور وہ ایام گزارے جو نہایت تکلیف دے اور اذیت ناک تھے۔

ان رشتوں کی بیڑیاں اتنی مضبوط ہیں کہ ان کی اذیتوں سے بچا نہیں جا سکتا بس سہ کر گزارا جا سکتا ہے ۔

کچھ گزار رہی ہیں کچھ گزار چکی ہیں۔

یہ معاشرہ مری ہوئی بیٹی کو قبول کر لیتا ہے لیکن طلاق یافتہ نہیں کیونکہ یہ بہت بڑا دھبہ ہے۔

 لیکن دعا ہے کہ ہر بیٹی کا نصیب خوبصورت کو اور ہر بیٹے کا بھی اور اللہ تعالی طلاق جیسی لعنت سے محفوظ رکھے سب کو آمین۔

میری اس معاشرے کے لوگوں سے التجا ہے مہربانی کریں اپنی بیٹیوں کو پڑھائیں انہیں کسی قابل بنائیں تاکہ وہ آنے والے وقت کا اکیلے سامنا کر سکیں ۔چاہے حالات جیسے بھی ہوں کیونکہ حالات ایک جیسے نہیں رہتے ۔ ہمیں ہر حالات کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ یہ زندگی ہے اور زندگی کے ہر موڑ پر اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ والدین ہمیشہ اپنی بیٹیوں کے لیے واپسی کا دروازہ کھلا رکھیں ۔

اپنے بچوں پر ظلم  زیادتی نہ کریں جو جہاں کام کرنا چاہتا ہے انہیں خوشی سے کرنے دیں۔ یہ ہمارے دین میں ہے اللہ کے حکم کی پیروی کریں جہاں تک ہو سکے حلال کے اڑے نہ آئے اور اپنے بیٹے اور بیٹیوں دونوں کو ترجیح دیں ۔

 

حلال کے درمیان دیوار بنیں کھڑے ہیں تبھی آج کے نوجوان حرام کاموں میں مبتلا ہیں اور گناہ پہ گناہ کئے جا رہے ہیں ،اور ہم اپنی ہی نسلوں کو برباد ہوتے دیکھ رہیں ہیں اور ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔

لہذا اپنے بچوں کے دوست بن کے رہیں اور ان کو حلال کی ترغیب دیں اور ان کا ساتھ دیں تا کہ وہ محفوظ رہیں ۔

 

میں ہر ماں باپ سے کہوں گی کہ بیٹی کو سکھائیں کہ کیسے گھر بسانا ہے، کیسے عزت و احترام کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے، چاہے کم ہو یا زیادہ شوہر سے وفا ہر حال میں نبھانی ہے تھوڑے پر خوش رہنا ہے،ظلم اور زیادتی نہیں سہنی ،اور یہ نہیں کہ شوہر امیر تو میرا اور غریب تو غیر کا۔

اپنے ہاتھوں گھر خراب نہ کریں دولت آنے جانے کی چیز ہے وفا عمر بھر کا ساتھ اور آخری سہارا ہی شوہر ہوتا ہے ۔

اور بیٹوں کے حوالے سے کہوں گی کہ انہی سے نسل آگے چلتی ہے اور انہیں اتنا شعور دیں کہ وہ کسی بیٹی کو طلاق کا ڈراوا نہ دے اس کی زبان سے کیا اس کی سوچ میں بھی ایسے الفاظ کا تصور نہ ہو اور اور بیٹیوں پر نظر رکھنے کے بجائے کچھ نظر بیٹوں کی طرف بھی رکھے تا کہ وہ کسی کی بیٹی کی زندگی سے نا کھیلیں اور انھیں حقیر نا جانیں ۔

 انہیں اس قابل بنائیں کہ وہ فیصلے کرنا جانتا ہو۔ خود مختار ہو کون سچا ہے، کون جھوٹا، کون کہاں غلط ہے ،کون کہاں صحیح ا اور عورت کی عزت ،احترام جانتا ہو ۔

شادی کرتے وقت یہ ضرور دیکھیں کہ کیا آپ کا بیٹا ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہے بھی یا نہیں ۔

حق اور ناحق کی پہچان ہے یا نہیں، کیا وہ خود فیصلے کر سکتا ہے یا نہیں، اب بھی وہ ماں کی انگلی پکڑے ہوئے شادی کر رہا ہے اگر ایسا ہے تو کسی بھی بیٹی کی زندگی خراب نہ کریں ۔ جب وہ واقعی شادی کی قابل ہو تب کروائے صرف ضروری نہیں کہ معاشی طور پر وہ خود مختار ہو اور اور ویل سیٹلڈ ہو صرف ویل سیٹل نہیں ہونا ہوتا دماغی طور پر بھی ویل سیٹل ہو،دیکھنے والی آنکھیں اور سنے والے کان ہوں۔

وہ دماغی طور پر بھی اس قابل ہو کہ وہ کسی کی بیٹی کو خوش رکھ سکے، پرسکون رکھ سکے، صرف پیسا دولت ہی سکون نہیں ہوتا۔جو لڑکا ماں کا پلو پکڑ کر شادی کرتا ہے وہ شادی 50 پرسنٹ ناکام ہی ہوتی ہے۔کیونکہ وہ بسنے نہیں دیتی ۔

نہ کوئی ماں باپ کی جگہ لے سکتا ہے نہ کوئی بیوی کی اور نہ ہی بچوں کی لیکن یہ زما لڑکے کے کندھوں پر ہوتا ہے۔ انصاف سے چلا جائے تو کچھ بھی مشکل نہیں اور اگر میں کی بنا پر گزاری جائے تو کبھی کوئی خوش نہیں رہ سکتا۔

میری گزارش ہے ہر ماں باپ سے کہ آپ نے جتنا جینا تھا جی لیا اپنے بچوں کو اپنی خوشی اور اپنی مرضی سے  زندگی گزارنے دیں ۔ جہاں غلط ہوں انہیں روکیں باقی میں اور انا کا ساتھ چھوڑ دیں۔بہت سے نوجوانوں نے اپنی زندگی شاید اپ لوگوں کے رویو اور میں اور انا کی ضد میں آ کر گوا دی اور کچھ ایسے ہیں جو زندہ رہ کر بھی زندہ نہیں بس زندگی گزار رہے ہیں۔ سو لہذا انہیں اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے دے کیونکہ زندگی انہوں نے گزارنی ہے وہ کیا ہے کہ  اپنے کیے گئے فیصلوں پر  انسان نہیں کوستا خود کو لیکن دوسروں کے کیے گئے فیصلوں کو ضرور کوستا ہے۔

کسی کو یہاں تک  معلوم نہیں اپنوں کا آخری دیدار بھی نصیب ہوسکے گا یا نہیں۔جو آج ہیں ان کی قدر کریں، ان سے پیار کریں، انہیں سمجھیں، انہیں وقت دیں۔

اصل دولت ہی قریبی رشتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر محبت،اعتبار، عزت، وقت اور وفا ۔

زندگی گزار دینے کا نام نہیں جیے جانے کا نام ہے جیے اور جینے دیں۔

                           ختم شد

**************

Comments