Sakoot Article by Ayesha Munir

Sakoot by Ayesha Munir

آرٹیکل: سکوت

منصفہ : عائشہ منیر

 

انتساب:

اُن دلوں کے نام

جو خاموش رہتے ہیں،

کیوں کہ دنیا نے انہیں سکھایا ہے

کہ ذہنی صحت پر بات کرنا کمزوری ہے۔

 

تعارف:

"سکوت" ایک ایسی تحریر ہے جو ذہنی صحت جیسے نازک اور حساس موضوع کو  بیان کرتی ہے۔ یہ اُن دلوں کی ترجمانی ہے جو باہر سے مسکراتے ہیں مگر اندر سے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔ معاشرے کی بےحسی، والدین کی امیدوں کا بوجھ، نوجوانوں کا خاموش اضطراب، اور بچوں کے اندر پلتا خوف  یہ سب کچھ اس مضمون میں نہایت نرم انداز میں بیان کیا گیا ہے۔یہ تحریر صرف پڑھنے کے لیے نہیں، بلکہ محسوس کرنے کے لیے لکھی گئی ہے  تاکہ ہم سیکھ سکیں کہ خاموشی میں چھپی صدا کو کیسے سنا جاتا ہے، اور ٹوٹنے سے پہلے کسی نازک دل کو کیسے تھاما جاتا ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کبھی کبھی زندگی اتنی مصروف ہو جاتی ہے کہ ہم خود سے بھی بات کرنا بھول جاتے ہیں۔ ہم دن بھر دوسروں کے لیے دوڑتے ہیں، ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، لبوں پر مسکراہٹ سجاتے ہیں، بات چیت کرتے ہیں، اور پھر خاموشی سے تھک کر سوجاتے ہیں۔ مگر کیا کبھی ہم نے خود سے یہ پوچھا کہ ہم واقعی ٹھیک ہیں؟ یہ جو دل ہر دن تھکتا ہے، یہ جو دماغ ہر رات سوالوں سے بوجھل ہوتا ہے، کیا ہم نے اُسے کبھی غور سے سُنا ہے، شاید نہیں کیونکہ ہم نے سیکھا ہی نہیں کہ اپنے اندر کی آواز کو کیسے سنا جاتا ہے۔

 

ذہنی صحت۔۔۔ یہ وہ لفظ ہے جسے ہم اکثر معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہمارا خیال ہوتا ہے کہ اگر جسمانی طور پر ہم ٹھیک ہیں، تو سب کچھ درست ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ اصل تھکن، اصل درد، اور اصل بیماری اکثر اُس مقام پر چھپی ہوتی ہے جہاں ہم دیکھنا نہیں چاہتے ہمارے دل و دماغ کے اندر۔۔۔

 

آج کی دنیا میں ذہنی سکون شاید سب سے بڑی دولت بن چکا ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی اندرونی جنگ میں مصروف ہے۔ خاص طور پر بچے۔۔۔ جن کے چہروں پر معصوم مسکراہٹیں ہوتی ہیں، مگر دل کے اندر کہیں نہ کہیں ایک دھیمی اداسی جاگ رہی ہوتی ہے۔ ایک بچہ جو روز ماں باپ کی لڑائیاں سنتا ہے، جو رات کو یہ سوچ کر سوتا ہے کہ کل کا دن کیسا ہوگا دروازے پھر زور سے بند ہوں گے یا آوازیں آئیں گی؟ اُس کے دل میں آہستہ آہستہ ایک خوف بٹھا دیا جاتا ہے۔ اُس کی ہنسی مدھم ہو جاتی ہے، اور وہ سب کچھ جو کبھی خوشی دیتا تھا، بےمعنی لگنے لگتا ہے۔ ہم اُس سے کہتے ہیں "ہنسو، کھیلو، خوش رہو" مگر ہم یہ نہیں سوچتے کہ اُس کے اندر پہلے ہی شور کا طوفان برپا ہے۔ وہ کیسے سنے گا؟ کیسے مسکرائے گا؟

 

اسکول میں طنز، تمسخر، یا bulling سے گزرنے والے بچے اکثر خاموشی سے ٹوٹنے لگتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ کسی قابل نہیں، وہ دوسروں جیسے کیوں نہیں؟ اور یہی احساس اُن کی خودی کو دیمک کی طرح چاٹنے لگتا ہے۔ وہ ہنستے ضرور ہیں، مگر اندر ہی اندر وہ خود کو کھو بیٹھتے ہیں بدقسمتی سے بڑے اس دکھ کو "بچگانہ پریشانیاں" سمجھ کر ہنسی میں اڑا دیتے ہیں، مگر وہ نہیں جانتے کہ یہی نادیدہ زخم وقت کے ساتھ ناسور بن سکتے ہیں۔

 

نوجوانی ایک ایسا موڑ ہے جہاں انسان خواب بُنتا ہے، خود کو پہچاننے کی جدوجہد کرتا ہے، دنیا کو فتح کرنے کی تمنّا رکھتا ہے۔ مگر اسی عمر میں سب سے زیادہ دباؤ، سب سے زیادہ موازنہ، اور سب سے زیادہ سوالات اُس پر وارد ہوتے ہیں۔ "اتنے نمبر کیوں آئے؟" "دیکھو، فلاں کو نوکری مل گئی" "تمھیں کچھ کرنا بھی آتا ہے؟" یہ جملے انسان کو اپنی نظر میں چھوٹا کرنے لگتے ہیں۔ وہ سُننا چاہتا ہے، بولنا چاہتا ہے، مگر ہر طرف ایک دیوار سی کھڑی ہوتی ہے بےاحساسی کی، بےخبری کی۔۔۔

 

اور پھر وہ لوگ جنہیں ہم”’بڑے“ کہتے ہیں۔ مائیں، جو ہر کسی کا خیال رکھتی ہیں، مگر جب خود تھک جاتی ہیں تو کوئی اُن سے نہیں پوچھتا کہ "تم کیسی ہو؟" باپ، جو سارا دن محنت کرتے ہیں، مگر ان کے دکھ کو مردانگی کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ وہ سب کچھ اپنے اندر رکھتے ہیں درد، فکر، بوجھ اور آہستہ آہستہ اندر سے ٹوٹنے لگتے ہیں۔ وہ خاموشی سے جیتے ہیں، خاموشی سے روتے ہیں، اور پھر وہی خاموشی اُن کی پہچان بن جاتی ہے۔

 

کبھی ہم نے سوچا کہ ہر عمر، ہر انسان، کسی نہ کسی اندرونی چیخ کا قیدی ہے؟ ہم سب اپنی مسکراہٹوں کے پیچھے اداسی چھپاتے ہیں، ہم روز جیتے ہیں، مگر اندر ایک خلا سا محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ سننا کیسا ہوتا ہے، محسوس کرنا کیسا ہوتا ہے، اور سب سے بڑھ کر خود سے جُڑے رہنا کیسا ہوتا ہے۔

 

یہ ضروری نہیں کہ جو شخص ہنس رہا ہو، وہ خوش ہو۔ کبھی کبھی سب سے زیادہ مسکرانے والا، اندر سے سب سے زیادہ ٹوٹے ہوۓ ہوتا ہیں اور بعض اوقات جو چپ ہوتا ہے، وہ درحقیقت سب سے بلند آواز میں مدد مانگ رہا ہوتا ہے۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ کسی کی خاموشی کو سننا، کسی کے چہرے کی تھکن کو پڑھنا، اور کسی کے انداز میں چھپی بےبسی کو محسوس کرنا کیسا ہوتا ہے۔

 

کبھی کبھی صرف ایک جملہ، ایک نرم سا لمس، یا ایک سادہ سا سوال  "کیا تم ٹھیک ہو؟" کسی کے لیے زندگی بدلنے والا لمحہ بن سکتا ہے۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ تھک جانا کمزوری نہیں، بلکہ انسان ہونے کی دلیل ہے۔ مدد مانگنا شرمندگی نہیں، بلکہ بہادری کی نشانی ہے۔ اور اپنے دل کی سُننا۔۔۔ یہی اصل ہمت ہے۔

 

اگر آپ یہ سب پڑھ کر خود کو محسوس کر رہے ہیں، تو ایک لمحے کو رکیے۔ اپنی آنکھیں بند کیجیے، دل پر ہاتھ رکھیے، اور خود سے کہیے۔۔۔

"میں تمہیں سمجھتا ہوں... اور میں تمہارے ساتھ ہوں۔"

 

کیونکہ آپ کی ذات قیمتی ہے، آپ کا وجود صرف دوسروں کے لیے نہیں، بلکہ آپ کے اپنے لیے بھی ہے۔ اپنے دل، دماغ اور روح کو سنبھالیے کیونکہ حقیقی سکون، کامیابی میں نہیں بلکہ اندر کے توازن میں چھپا ہے۔

 

اگر آپ کے آس پاس کوئی ایسا ہے جو بدل گیا ہے، خاموش ہو گیا ہے، تو اُس کے قریب جائیے۔ اُس سے بات کیجیے اُس کے لیے وہ روشنی بن جائیے جس کی اُسے سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ کیونکہ ذہنی صحت وہ بنیاد ہے جس پر ہماری پوری زندگی کھڑی ہے۔

 

ہم ایک ایسی نسل کا حصہ ہیں جو بظاہر سب کچھ جانتی ہے، مگر خود سے انجان ہے۔ ہماری انگلیوں میں ساری دنیا کی معلومات ہیں، مگر دل کے اندر ایک خاموشی بسی ہوئی ہے۔ ہم ہر وقت کسی نہ کسی مقابلے میں مصروف ہیں نمبر کا، شکل کا، کامرانی کا، یا فالوورز کا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ہم مسلسل خود سے بھاگ رہے ہیں، اُس سکون سے جو شاید ہمارے اندر کہیں تھا، مگر وقت کے ساتھ کھو گیا۔

 

نوجوانوں پر دباؤ صرف نصاب یا ملازمت کا نہیں ہوتا۔ یہ دباؤ اُن خوابوں کا بھی ہوتا ہے جو اپنے نہیں، مگر پھر بھی جینے پڑتے ہیں۔ کبھی ماں باپ کی امیدیں، کبھی معاشرے کے معیار، کبھی دوستوں کی چمکتی زندگی کا عکس، جو اپنے اندر احساسِ کمتری کی آگ لگا دیتا ہے۔ ہم اکثر اس آگ میں جلتے ہیں، مگر بظاہر روشن دکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

 

کسی کمرے میں خاموش بیٹھے ہوئے نوجوان کی آنکھوں میں اگر دیکھو، تو وہاں بہت کچھ پوشیدہ ہوتا ہے۔ وہ صرف پڑھائی یا مستقبل کی پریشانی نہیں، بلکہ ایک ایسا سوال ہوتا ہے جو وہ خود سے بھی پوچھنے سے ڈرتا ہے۔۔۔"کیا میں واقعی کافی ہوں؟" یہ سوال خوداعتمادی کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے، اور افسوس کہ اکثر اِس سوال کا کوئی سُننے والا نہیں ہوتا۔

 

ہم نے ذہنی صحت کو آج بھی کوئی سنجیدہ بات نہیں بنایا۔ ہم کہتے ہیں کہ "سوچنا چھوڑ دو"

"یہ سب دماغ کی باتیں ہیں" "ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے" مگر ہم یہ نہیں سمجھتے کہ ہر انسان کا درد مختلف ہوتا ہے، ہر دل کی خاموشی کا مطلب الگ ہوتا ہے۔ اور یہی وہ کمی ہے جو نوجوانوں کو تنہا کر دیتی ہے، اکثر خود اپنے خلاف کر دیتی ہے۔

 

زندگی کی تیز رفتار میں ہم جذبات کو بوجھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہم رونا کمزوری، اور تھک جانا شرمندگی تصور کرنے لگے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ذہنی صحت صرف ”ٹھیک“ ہونے کا نام نہیں یہ خود کو قبول کرنے، خود سے محبت کرنے، اور خود کو سننے کا عمل ہے۔ جب ہم یہ سیکھ لیں کہ اپنے دل کو کیسے سنا جاتا ہے، تبھی ہم دوسروں کو بھی سمجھنے لگتے ہیں۔

 

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسل آگے بڑھے، تو ہمیں انہیں سنبھالنے کے لیے موجود ہونا ہوگا۔ بغیر تنقید کے، بغیر تقابل کے، صرف احساس اور ہمدردی کے ساتھ۔ کیونکہ جب ایک نوجوان سن لیا جاتا ہے، تو وہ سنور بھی سکتا ہے، اور سنوار بھی سکتا ہے۔

 

یاد رکھیے۔۔۔

ہم سب تھکے ہوئے مسافر ہیں، مگر اگر ہم ایک دوسرے کی تھکن کو بانٹ لیں، تو سفر آسان ہو جائے گا آئیے، خود سے اور دوسروں سے جُڑنے کا عہد کریں۔

"سکوت... وہ صدا جو سُن لی جائے، تو زندگی لوٹ آتی ہے۔"

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

تمت بالخیر ؟!

Comments