"نور کے قدموں کا سراغ"
تحریر: شنیلہ جبین زاہدی
کچھ
نام صدیوں کی دھول میں نہیں بجھتے۔ وہ اذان کی آواز میں، کسی روتی ہوئی ماں کی آہ میں،
یا سجدے میں گرے ہوئے عاشق کے آنسوؤں میں محفوظ رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک نام ہے بابا
فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کا ہے ۔ یہ صرف ایک بزرگ کا نام نہیں، یہ ایک صدیوں پر محیط
فیض کی لَے ہے، ایک ایسا روحانی ترنم ہے جو آج بھی سننے والوں کے دل کی دیواروں کو
نرم کر دیتا ہے۔
تاریخ
کے اوراق گواہ ہیں کہ آپ کی والدہ ماجدہ نے بچپن میں جب نماز کے بعد آپ کو شکر دیا،
تو اس لمحے صرف زبان نہیں، روح بھی میٹھی ہو گئی۔
اور
یوں "مسعود" وقت کے ساتھ فرید بنا ، اور پھر "فرید" صرف نام نہ
رہا، محبت کا ذائقہ، روح کی مٹھاس، اور رب کی خوشبو بن گیا۔
بچپن
سے ہی تنہائی سے محبت تھی۔ وہ تنہائی جو مایوسی کا سایہ نہیں، بلکہ وصال کی تمہید بنے۔
ایک
بار ماں نے دیکھا کہ فریدؒ کمرے میں اکیلے سجدے میں رو رہے ہیں۔
پوچھا:
"بیٹا، کیا چاہیے؟"
کہا
"ماں،
بس وہ چاہیے جو سب کو دے دیتا ہے۔"
یہی
وہ طلب تھی جس نے دہلی تک پہنچایا، قطب الدین بختیار کاکیؒ کی نگاہِ ولایت میں جگہ
دی، اور پھر دنیا کو ایک چپ چاپ، روتے رہنے والے ولی اللہ سے آشنا کر دیا۔
آپ
جب پاک پتن آئے تو یہ ایک عام سا قصبہ تھا۔
لیکن
جب فریدؒ نے وہاں آنکھیں بند کر کے ذکر کیا، تو زمین جاگ گئی، ہوائیں مہک گئیں، اور
وقت نے ادب سے سر جھکا دیا۔
پاک
پتن کا ہر ذرہ آج بھی گواہی دیتا ہے کہ یہاں وہ ہستی رہتی تھی جو چپ رہ کر بھی ہزاروں
دلوں کو بولنا سکھا گئی۔
فریدؒ
کا فقر صرف خالی پیٹ رہنے کا نام نہ تھا، یہ تو دل کو خدا کے حضور جھکا دینے کا نام
تھا۔
مہینوں
فاقہ ہوتا، مگر کوئی سائل آ جائے تو اپنا کپڑا بیچ کر کھانا دے دیتے۔
پوچھا
گیا: "آپ کیوں اتنا دیتے ہیں؟"
فرمایا
"کبھی
رب کے خزانے ختم ہوتے دیکھے ہیں؟ پھر فرید کیوں ڈرے؟"
ایک
جگہ فرماتے ہیں:
فریدا،
روٹی میری کَٹّی، چُپ نہ رہے کھاءِ
جیڑا
کھائے چپ کر کے، سَو منّاں دے
یہاں
صرف بھوک کی بات نہیں، یہاں ظلم پر خاموشی، حق پر چپ سادھنے والوں کے لیے نوحہ ہے۔
بابا
فریدؒ نے عورت کو عزت کی اس سطح پر رکھا جہاں صدیوں بعد بھی معاشرہ پہنچ نہ سکا۔
فرمایا:
"جتھے
ناری روندی، اوتھے رب وسدا اے۔"
(جہاں
عورت روتی ہے، وہاں اللہ بستا ہے)
یہ
اس فقیر کا پیغام تھا جس کی نظر میں عورت کمزور نہیں، دعاؤں کی آنکھ ہے۔
ایک
بار حضرت بابا فریدؒ کے حجرے میں رات کا سناٹا تھا۔
چراغ
مدھم ہو چکا تھا،
مگر
آپ کی آنکھوں میں ذکر کی چمک
اور
لبوں پر نالۂ دل کی ہلکی سرگوشی تھی۔
آپ
چپ تھے، مگر دل شور مچاتا تھا۔
ایک
مرید نے عرض کی:
"بابا
جی! آپ تو خاموش ہیں،
پھر
یہ فضا کیوں رو رہی ہے؟
یہ
دیواریں، یہ رات، یہ ہوا…
یہ
سب نالہ کیوں کرتی ہے؟"
بابا
فریدؒ نے آنکھیں بند کیے ہوئے جواب دیا۔
"فرید
کی خاموشی ذکر ہے ۔
اور
فرید کا نالہ نور ہے۔"
"جب
زبان رک جائے
اور
دل رب سے بات کرے، تو آواز نہیں نکلتی، روشنی نکلتی ہے۔"
یہی
وہ لمحہ تھا جب فضا بوجھل ہو گئی ۔
نور
کی مہک نے حجرے کو گھیر لیا۔
اور
مرید سمجھ گئے کہ
کبھی
نالہ صدا نہیں کرتا،
دل
میں چپکے سے سجدہ کرتا ہے۔
ایک
بار کا واقعہ ہے کہ
ایک
شب، جب ستارے سو چکے تھے
اور
آسمان کے پردے پر سناٹا پھیل چکا تھا
حضرت
بابا فریدؒ مراقبے میں بیٹھے تھے۔
آنکھیں
بند، دل بیدار۔
ذکر
کرتے کرتے، دل کی زبان خاموش ہو گئی، اور ایک نورانی کیفیت میں آپ کو نیند آ گئی۔
خواب
میں دیکھا:
ایک
چمکتا ہوا میدان ہے۔
سفید،
نرم روشنی ہر سمت پھیلی ہے۔
نہ
کوئی سایہ، نہ دیوار، نہ در۔
بس
ایک نور ہے۔ جس کی چمک آنکھوں کو نہیں، دل کو منور کرتی ہے۔ اسی نور میں ایک صدا گونجی۔
"فرید!
تم مجھے کہاں ڈھونڈتے ہو؟
میں
اُس روٹی میں ہوں جو تُو بھوکے کو دیتا ہے،
میں
اُس آنسو میں ہوں جو تُو نماز میں بہاتا ہے،
اور
میں اُس دل میں ہوں،
جسے
تُو ہر رات میرے لیے خالی کرتا ہے۔"
بابا
جی چیخ مار کر رو پڑے، اور خواب سے جاگ گئے۔
آنکھیں
نم، زبان پر صرف یہی تھا۔
"اب
فرید کو رب مل گیا
اب
تلاش کی نہیں، شکر کی راتیں ہیں۔"
664
ہجری میں جب آپ نے اس فانی دنیا سے پردہ فرمایا، تو ایسا لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔
مگر
مزار پر آج بھی وہی نور ہے، وہی خامشی، وہی سکوت، جس میں سننے والا اپنی روح کی آواز
سنتا ہے۔
بابا
فریدؒ کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ خاموشی عبادت ہو سکتی ہے، فقر بادشاہی ہو سکتا
ہے، اور محبت خدا تک لے جا سکتی ہے۔
ان
کی درگاہ پر جانے والے آج بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتے، کیونکہ وہاں صرف دعا نہیں، تعلق
بٹتا ہے — رب سے، خود سے، اور خلقِ خدا سے۔
آئیے،
اپنے دل کو فریدؒ کے مزار کے برابر رکھ کر سنیں
شاید
ہمیں بھی اندر سے کوئی آواز دے
"آ
جا، میرا رب تجھے بھی اپنا بنا لے!"
٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment