Nasal saaz Article by Qandeel Fatima
بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم
شُروع اَللہ کے پاک نام سے جو بڑا مہر بان نہايت رحم والا
ہے۔
نسل ساز
ازقلم قندیل فاطمہ
انتساب!!
نسلِ نو کی تر بیت کے نام
!!
نسلِ نو کی صحیح تربیت ایک قوم کا روشن مستقبل یقینی بناتی
ہے۔ اولاد انسان کی سب سے قیمتی امانت ہے، جس کی اخلاقی، دینی اور ذہنی تربیت والدین
کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس مضمون میں ہم اسی عظیم فریضے پر روشنی ڈالیں گے۔
نسل ساز ازقلم قندیل فاطمہ
والدین نسل ساز ادارے ہیں، جو صرف اولاد کو نہیں بلکہ
مستقبل کے کرداروں کو تراشتے ہیں۔بچوں کی تربیت انسان کی زندگی کی سب سے اہم اور
نازک ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ ایک بچہ صرف ماں باپ کا بیٹا یا بیٹی نہیں ہوتا
بلکہ وہ آنے والی نسل کا نمائندہ، معاشرے کا رکن اور امتِ مسلمہ کا مستقبل ہوتا
ہے۔ اولاد نعمت ہے جو ہر جوڑا شادی کے بعد
پانے کی دعا کرتا ہے،لیکن جب انہیں اولاد دی جاتی ہے تو کافی اس نعمت کی ناشکری کرتے ہیں پھر وہی دعاؤں اور
منتوں سے مانگی اولاد ان کے لیے زحمت بھی
بن جاتی ہے۔اولاد کی قدر پھر وہی جانتے ہیں جو اس
نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔آج کل کے دور میں جہاں ہم سب جانتے ہیں قیامت اب کہ
نزدیک ہے ہماری آنے والے نسلوں کی تربیت ایسی ہو کہ اسلام مخالف قوتیں لرزے ان سے۔
اپنے بچے کی ایسی تربیت کرو کہ وہ حضرت مہدی علیہ السلام کی فوج کا سپاہی بننے کے
قابل ہو جائے۔ اس کے دل میں ایمان ایسا ہو کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے جھکا نہ سکے،
اس کا عمل ایسا ہو کہ اللہ اور رسول ﷺ کی خوشنودی حاصل کر سکے، اور اس کی زبان،
کردار اور سوچ میں سچائی، صبر اور قربانی کی جھلک ہو۔ اسے قرآن سے محبت ہو، سنت سے
لگاؤ ہو، باطل سے نفرت ہو اور حق کا ساتھی
اور بول بالا کرنے والا ہو۔
یہ آرٹیکل "نسل ساز"ان کے لیے جنہوں
نے آگے بچوں کی تربیت کرنی ہے اور ان کے لیے بھی جن کے بہن بھائی،بیٹایا بیٹی دس
سال سے کم عمر ہیں۔۔کیونکہ اگر بچہ دس سال سے اوپر چلا گيا ہے تو اسے اب اس دور
میں سمجھانا مشکل ہے کیونکہ وہ اب پر
یٹیکل لائف میں آگيا ہے وہ خود اپنی آنکھوں سے اب دنیا کو جانچ رہا ہے ۔۔اس کے لیے
اب کےباتوں کو سمجھنا مشکل ہے۔لیکن یہ بھی یاد رکھیں۔۔ بچوں کو سمجھانے کی عمر صرف دس سال نہیں بلکہ پورے بچپن اور
نوجوانی کا عرصہ ہوتا ہے۔لیکن ابتدائی دس سال ان کی شخصیت کی بنیاد ہوتے ہیں، اس
لیے اس دور میں دھیان، توجہ اور محبت سب سے زیادہ ضروری ہے تاکہ آگے کا سفر آسان ہو۔
آج سے کچھ دن پہلے میرے سامنے سے ایک پوسٹ گزری جس نے میرے دماغ کےدریچوں پر شدت
سے دستک دی۔پتہ ہے وہ پوسٹ کون سی تھی۔آپ کو عجیب لگے گا۔۔لیکن میرے لیے شاکڈ کر
دینے والا تھا۔
وہ ایک ایسی پوسٹ تھی جس میں چینی بچوں کو مختلف ایکٹیوٹی
کروائی جارہی تھی۔کڑھائی کرنا۔۔پینٹنگ کرنا۔۔گارڈنینگ ۔۔وغیرہ ۔مطلب جیسے جیسےبچوں
کے شوق تھے وہ ویسےہی ایکٹیوٹی کر رہے تھے۔
جس چیز نے میرے اندر جوش بھرا وہ یہی تھا کہ اللہ پاک جب
مجھے اولاد جیسی نعمت عطا کرے گا تو انشا
اللہ ء میں بہترین تربیت کرو ں گی۔(ہاں ہاں یہ بری بات نہیں ہے ہم سب شادی کے خواب تو دیکھتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے
آگے چل کے بچوں جیسی عظیم ذمہداری
بھی سنبھالنی ہے ۔کبھی سوچا ہےکیسی
تربیت کریں گے۔۔۔) ۔۔خیر جیسے ہی میں نے سوچا۔۔ایک سوال نے میرے دماغ کو جھنجھوڑ
دیا۔۔اور وہ کیا سوال تھا۔۔
کیا میں اس معاشرے میں اپنی اولاد کی اچھی تربیت کر سکتی
ہوں؟؟
جس میں اس کے حما
یتی شاید پچھلی سوچ رکھنے والے دادا،دادی،نانا،اور نانی یا باپ ہو۔۔۔ اگر میں اسے
ڈانٹ کر کسی بری چیز سے روکوں اور یہی لوگ
اس کے سامنے مجھے بے عزت کردے۔۔اور کہے کہ بچہ ہے کر رہا ہے تو کیا ہے؟؟؟ یہی بات
آج کل کے ہمارے بچوں کو "کوکو لالا" بنا دیتی ہیں۔۔ہاں "کوکو لالہ
"وہی بچے جنہیں پانچ سال کی عمر میں بھی کھانا ،فضول کھیلنا ،گھر کو گندا کرنا اور ماؤں
کو ذلیل کرنے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔۔
سوری اگر آپ کو یہ لگ رہاہے کہ میں بچوں کے خلاف ہوں ۔۔تو پلیز
کان پکڑیں اور توبہ کریں ۔۔بچے تو فرشتوں کی مانند ہوتے ہیں ۔۔خوبصورت پھول جیسے ،تو
کیا ہمارا فرض نہیں ہے انہیں ایسے بنا ئےجو ہمیشہ مہکتے رہے اور اپنے ارد گرد کو معطر کرتے رہیں۔۔ایسے نہیں کہ
انہیں ہم مرجھا کر رکھ دیں۔۔تو جی ادھر میں بات کر رہی ہو بجوں کی تربیت کی۔۔۔ان کی
نسل سازی کی۔۔اگر آپ کو یہ آرٹیکل فضول لگ رہا ہے
اور اگر ایسا لگ رہا ہے ہماری تو ابھی اولاد نہیں تو پلیز اپنے ارد گرد
دیکھے۔۔اپنے بہن بھائیوں کو۔۔بھانجےبھانجیوں کو۔۔بھتیجے بھتیجوں کو۔۔کزنوں
کو۔۔وغیرہ۔
بچے والدین کا آئینہ ہے جیسے والدین ہونگے ویسا ہی اولاد ان کا عکس ہو گی۔
ایک چیز جو مجھے ہمیشہ تنگ کرتی ہے وہ یہ ہے ،آج کل سب نہیں
،کچھ تو الحمداللہ بہت معصوم بچے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر لگتا ہے ان کےماں باپ
یقینا بہت عظیم کام (تربیت ) کر رہے ہیں۔
لیکن کچھ ایسے بچے۔۔۔ایک بات میری ذہن میں رکھے۔۔یہاں قصور
بچوں کا بلکل بھی نہیں ہے قصور ہے ان کے والدین کا۔۔والدین میں بھی خاص طور پر ماں
کا۔۔۔اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ باپ کا
قصور بھی نہیں۔۔آئیں اس چیز کو سمجھتے ہیں۔۔میں پہلے ہی ایک بات کہہ دوں یہ میری
ذاتی رائے ہیں اگرکسی کی دل آزاری وہ تو میں معذرت خواہ ہوں۔
کچھ بچے تو ایسے ہوتے ہیں جن سے محفل میں بات کرنے سے بھی
بندہ ڈرے کہی یہ سب کے سامنے ہمارے بال نہ کھینچ لے اور کہی دو تھپڑ ہی نہ بلش کے
طور پر ہمارے چہرے پر لگ جائے۔۔یا چینخنے نہ لگ جائے۔۔جی جی وہی بچے جو سوری ٹو سےلیکن مجھے کہنا پڑے گا ماؤں کے کپڑے بھری
محفل میں اوپر نیچے کرتے یا روتے نظر آتے
ہیں یا پھر گلی میں بیٹھے جانور (کتے،بلی،گائے۔۔وغیرہ) کو چھیڑتے نظر آتے ہیں یا
میزبان کی ناک میں دم کرنے والے اور تو
اور صبح صبح سکول جانے کے نام
پر پورے محلے کی نیند حرام کرنے والے۔۔اور
بھی سنےکاپی پر کام لکھنے کی بجائے انھیں
پھا ڑنے والے۔۔۔اپنے جتنے معصوم بچوں کو مارنے والے۔۔۔(آگے آپ بھی جانتے ہو نگے)وغیرہ
وغیرہ
اور ان لوگوں کا تو
اللہ ہی حافظ ہے جو کہتے ہیں کجھ نہیں ہوتا بچہ ہے معصوم ہے ۔۔بچہ نہیں کرے گا تو
کون کرے گا بھئی۔۔سوری ٹو سے لیکن آپ کا
بچہ انتہائی بدتمیز ہے۔یہ وہی بچہ ہے جو بڑے ہوکر آپ کا بھی احترام نہیں کرےگا۔
1:
بچوں کی دینی تر بیت اور جسمانی تر بیت کرے:
چلے سب سے پہلے ان بچوں کی طرف آتے ہیں ۔۔سکرین بچے۔۔۔دنیا
میں موبائل اور دیگر جدید ایجادات کرنے والے سائنسدانوں نے بچوں میں صلاحیتوں کو
پروان چڑھایا، تخلیقی سوچ کو فروغ دیا، اور انہیں مسائل حل کرنے کا ہنر
سکھایا۔لیکن ہمارے ہاں، بچوں کو ان ٹیکنالوجی کے غلام بنا دیا گیا ہے، جہاں موبائل
صرف تفریح اور وقت ضائع کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔
سکرین بچے وہی جو
ابھی پیدا ہی ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں موبائل جیسی فتنہ چیز کو پکڑا دیا جاتاہے۔۔میں آج کل جب کہی محفلوں میں جاتی ہوں تو حیران ہوکر چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھتی ہوں جو کرسی تک بھی
بمشکل آتے ہیں یا چلتے بھی بمشکل سہارا لے
کر ہیں۔لیکن انہیں موبائل کے ہر فیچر زکا اندازہ ہے، اسے چلانا کیسے ہیں ،بیک کیسے
کرنا ہے۔۔نیز سب کچھ۔۔
بھئی ہم تو وہ بچے
تھے جو بچپن میں اماں ابا سے رو رو کر دھوم مچالے والے فون کی فرمائش کرتے
تھے لیکن ہمیں یہ کہہ کر منا کر دیا جاتا تھا بچہ موبائل ہے، گانے ہیں ،ذہن خراب کر دے گا۔۔اب ان سے پوچھے
کوئی۔۔آج کل کے موبائل کیا معجزے ہیں جو
ہمارے چھوٹے بہن بھائیوں کو دئیے گئے ہیں۔خیر۔
پلیز والدین یہ کہنا چھوڑ د ے۔۔آج کا دور ہے سب کرتے
ہیں ہمارا بچہ چالا ک ہوگا۔۔اور سلام ہے ان کی ماؤں پر جو
بچوں کو موبائل جیسی چیز تھما دیتیں ہیں۔۔آج اگر ان سے پوچھ لو تو یہی کہیں گیں ہم نے سب سے
بڑی غلطی کی اسے موبائل دینے پر ،اب تو یہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتا۔۔سو بچے کو کوسنا
بند کرے خود پر نظر ثانی کریں پلیز۔۔ ایک
سوال۔کام کیا زیادہ ضروری ہے بچے کی تربیت سے؟؟
موبائل گیمز اور ویڈیوز میں ایسی
ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے جو بچے کے دماغ میں ڈوپامین ریلیز کرتی ہے (خوشی کا
ہارمون)، جس سے موبائل ایک نشے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ویڈیوز، گیمز اور سوشل میڈیا کی
وجہ سے بچے کا ذہن سست اور غیر مستقل ہو جاتا ہے۔ان میں غصہ، چڑچڑاپن، تنہائی پسندی
جیسے عادات پیدا ہوتی ہیں۔ سماجی تعلقات
کمزور پڑ جاتے ہیں، بچے حقیقی دنیا سے کٹنے لگتے ہیں۔اور دوسری چیز انٹرنیٹ پر موجود فحش، بے حیائی
اور تشدد پر مبنی مواد تک رسائی بہت آسان ہے، جو بچے کے اخلاق کو تباہ کر دیتا
ہے۔بچہ قرآن، نماز اور اسلامی تعلیمات سے غافل ہو جاتا ہے۔ عبادت کی طرف رغبت کم
ہو جاتی ہے۔مسلسل موبائل استعمال کی وجہ سے بچے میں ضد، نافرمانی، اور بداخلاقی آ
جاتی ہے۔موبائل پر گھنٹوں ضائع کر دینے والا بچہ زندگی میں نظم و ضبط اور ذمہ داری
جیسی عادات سے محروم ہو جاتا ہے۔
اگر والدین یہ کہہ کر با ت کو ٹال
دیتے ہیں کہ اب بچہ نہیں مانتا تو سہی با
ت ہے اب وہ نہیں مانے گا۔۔یہ بات آپ
کو تب سوچنی چاہیے تھی جب آپ ایسی چیز اس کے حوالے کر رہے تھے۔ یہاں والد
کا بھی رول آتا ہے کہ وہ کیوں اپنے چھوٹے
سے بچے کے لیے ٹیبلٹ یا موبائل خرید رہا ہے۔
اپنے بچوں کو ویڈیو گيم کھلنے کی بجائے حضرت محمد ﷺ ،حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ، حضرت عمر بن خطابؓ، حضرت
علیؓ، حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت جعفر طیارؓ، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ، حضرت طارق بن
زیادؒ، حضرت صلاح الدین ایوبیؒ، اور محمد بن قاسمؒ جیسے جو عظیم اسلامی مجاہدین ہیں ان کی کہانیاں انہیں
سنا ئیں تاکہ ان کے دل میں دین،
قربانی، اور شجاعت کی سچی روشنی پیدا ہو۔ یقین کریں بچے وہ نہیں ہے جو اذان ،تلاوت
یا اسلامی ریلز آنے پر فورا سکلرول کر دیتے ہیں۔
اونہوں ان کا دماغ معصوم ہے انہیں
گانے پر لگائیں گیں تو وہ ان کو پسند کرے گا انہیں نعتیں،اسلامی واقعات سنائیں گیں وہ اس میں
دلچسپی لیں گے۔اکثر بچے باپ کے پاس بھی سوتے ہے رات کے وقت ان کے باپ کو چاہیے وہ
اسے اسلامی واقعات سنائے۔
ہاں ۔۔میں یہ بھی بات مانتی
ہوں۔۔آج کل کے دور میں اگر آپ اپنے بچے پر صرف دینی دباؤ ڈالے گے تو وہ باغی ہوگا
کیونکہ وہ باہر نکلنے والا بچہ ہے جو اپنے ہم عمر بچوں کو دیکھتا ہے جن کےپاس
موبائل ہوتے ہیں۔۔ انہیں دیکھ کر وہ چڑچڑ ے پن کا شکار ہوتے ہیں اور والدین کے حوالے سے بدگمانی دل میں بسا لیتے
ہیں۔۔اگر آپ بلکل ہی سختی کرو گے تو یقینا
نہ وہ دنیا کا رہے گا اور نہ ہی دین کا۔۔سو دین اور دنیا کو متبادل لے کر
چلے۔۔یقینا آج کے دور میں تربیت آزمائش سے بڑھ کر ہے۔
"میں طوطا میں طوطا
"سنانے کی بحائے جسمانی ایکٹیوٹی کروائے جس سے وہ بچپن سے محنتی،ہوشیار اور
مضبوط بنے۔فٹبال ، والی
بال ،کرکٹ ،باسکٹ بال جسمانی فِٹنس، دوڑ،وغیرہ برداشت اور ٹیم ورک سکھاتے ہیں۔
شریعت میں ان کھیلوں کی اجازت ہے، بشرطیکہ لباس باپردہ ہو اور وقت پر نماز نہ
چھوٹے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
(مسند احمد) "تم اپنے بچوں کو تیر اندازی اور گھڑ
سواری سکھاؤ"
گھڑ سواری سنتِ نبوی ﷺ ہے۔ توازن، بہادری اور کنٹرول سکھاتی
ہے۔ تیر اندازی ،تیر کمان ، نشانہ با زی سنتِ نبوی ﷺ ہے۔ جو فوکس،
صبر اور حوصلہ سکھاتی ہے۔ چڑھائی (Climbing), دوڑ (Running), سائیکلنگ جسمانی
طاقت اور مقابلے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ بچے باہر نکل کر قدرت سے جُڑتے ہیں۔🤝 اجتماعی اسلامی کھیل (مثلاً سیرت کوئز،
اسلامی بورڈ گیمز) بچوں کو سیرت النبی ﷺ، صحابہؓ، اور قرآن سے واقف کرانے والے
گیمز۔ ۔اس سے ان کے دینی شعور اور علم میں
اضافہ ہوگا۔ پلیز اس دور میں سب کچھ میسر ہے تو یہ نہ کہیں کہ ہم کہا سے لا کر دیں
وہی موبائل جس پر ویڈیو گیم کھیل رہا ہے وہاں یہ ہیں چھوٹے بچوں کے لیے اسلامی
سرگرمیوں پر مبنی چند معروف ویب سائٹس: زَکی (One 4 Kids)، مسلم کڈز ٹی
وی (Muslim Kids TV), نور کڈز (Noor Kids), اسلامک پلی
گراؤنڈ (Islamic Playground), لرن وِد زکریا (Learn with Zakaria), تربیہ انٹرنیشنل - کڈز سیکشن (Tarbiyah International – Kids Section), اور مسلم کڈز کارنر (Muslim Kids Corner – YouTube Channel)۔
والدین کی ذمہ داری: "کلکم راعٍ و کلکم مسئول عن رعیته" (صحیح
بخاری)
ترجمہ: "تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس
کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔"
یعنی والدین اگر اولاد کی تربیت میں کوتاہی کرتے ہیں، تو
آخرت میں اس کا حساب لیا جائے گا۔
2:
ماں باپ کی بے جا لڑائی بچے کی اعتماد اور
شخصیت کو مسخ کرنے میں موئثر ثابت ہوتی ہے۔یاد رہے بچہ نافرمان بنتا نہیں بنایا
جاتا ہے۔
ماں باپ کا رشتہ کسی بھی
خاندان کی بنیاد ہوتا ہے۔ اگر اس بنیاد میں دراڑ ہو تو پورا خاندان عدم
توازن کا شکار ہو جاتا ہے، اور سب سے زیادہ متاثر وہ معصوم بچے ہوتے ہیں جو ان
اختلافات کے گواہ بن رہے ہوتے ہیں۔ والدین کی آپس کی بے جا لڑائیاں بچوں کی اعتماد
سازی اور شخصیت سازی کو نہایت نقصان دہ انداز میں متاثر کرتی ہیں۔
🔹 دینی تجزیہ: اسلام میں خاندان کو ایک مقدس
ادارہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید اور سنتِ نبوی ﷺ میں شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے
کے ساتھ رحم، محبت، اور حکمت کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
"وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ" (النساء:
19)
"اور ان
(بیویوں) کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو۔
مزید حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور اپنی رعیت
کے بارے میں جواب دہ ہے" (صحیح
بخاری)
بچوں کے سامنے والدین کی جھگڑالو روش، ان کے دلوں میں خوف،
عدم تحفظ اور کڑواہٹ پیدا کرتی ہے۔ یہ والدین کی تربیتی ذمہ داری کی خلاف ورزی ہے
جو دین اسلام میں نہایت سنگین بات ہے۔
سائنسی یا نفسیاتی تجزیہ:
جدید سائنس اور نفسیات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ گھر کا
ماحول بچے کی شخصیت پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
ایسے بچے جن کے والدین مسلسل جھگڑتے ہیں، وہ اپنے آپ پر
یقین کھو بیٹھتے ہیں اور غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔یہ بچے یا تو ضرورت سے زیادہ خاموش
اور سہمی ہوئی شخصیت کے حامل ہوتے ہیں یا بہت جارح اور باغی بن جاتے ہیں۔ماہرینِ
نفسیات کے مطابق، یہ بچے آگے جا کر ڈپریشن، اینگزائٹی، یا پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس
آرڈر (PTSD) جیسے مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔
بچے والدین کے رویے کو اپناتے ہیں۔ وہ جھگڑالو ماحول کو
"نارمل" سمجھ کر اپنی زندگی میں بھی ویسا ہی رویہ اختیار کر لیتے
ہیں۔والدین کا فرض ہے کہ اپنے اختلافات کو بچوں کے سامنے لانے سے گریز کریں، اور
ان کے ذہن و دل کو پر سکون ماحول فراہم کریں تاکہ وہ ایک مثبت، پر اعتماد، اور
متوازن شخصیت کے حامل بن سکیں۔ماں باپ اگر لڑتے ہیں تو بچے یعنی بہن بھائی بھی
اکثر آپس میں لڑتے ہی پائے جاتے ہیں۔
اور سلام ہو ان میاں بیوی پر جو شادی کو مذاق سمجھے ہوئے
ہیں لڑائی کے نام پر ایسے مغلظات بکتے ہیں کہ
اللہ کی پناہ۔۔پھر جب بچے تلخی سے پیش آتے ہیں تو انہی کی رٹ ہوتی ہے پھر
اولاد نافرمان ہوگئی۔
خدارا بچوں کے سامنے برےالفاظ استعمال کرنے سے گریز برتے!!
3:
بچوں کا موازنہ کرنا:
اسلام ہمیں انصاف، محبت اور انفرادی صلاحیتوں کی قدر سکھاتا
ہے، نہ کہ بچوں کا موازنہ۔رسول اللہ ﷺ نے کبھی اپنے بچوں یا صحابہ کا موازنہ کر کے
کسی کو کمتر نہیں سمجھا۔موازنہ بچوں کے دل میں احساسِ کمتری، حسد اور نفرت کو جنم
دیتا ہے۔نفسیاتی تحقیق کے مطابق، بار بار تقابل سے بچے کا اعتماد کمزور ہوتا ہے۔
ہر بچہ مختلف ہوتا ہے،اس کی پہچان اس کی اپنی خوبیوں سے
ہونی چاہیے، دوسروں سے نہیں۔ اگر فلا جاننے والے کا بچہ وہ کام کر رہا ہے تو وہ اس
کی پہچان ہے آپ کے بچے کی نہیں۔۔اس کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہیں اس کو پرکھے۔
4: ہر وقت ڈانٹا اور تنقید کرنا اس بنا پر کہ آ پ اس میں کچھ
عقل لانا چاہتے ہیں:
ہر وقت بچے کو ڈانٹنا اور تنقید کا نشانہ بنانا، چاہے نیت
اصلاح کی ہی کیوں نہ ہو، اس کے ذہن پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ایسا رویہ بچے کے اعتماد،
خودی اور سیکھنے کے جذبے کو کمزور کر دیتا ہے۔اسلام ہمیں نرمی، حکمت اور محبت سے
اصلاح کا حکم دیتا ہے، نہ کہ مسلسل ملامت سے۔سائنس بھی کہتی ہے کہ بار بار کی
تنقید دماغ میں خوف، ضد اور احساسِ ناپسندگی کو جنم دیتی ہے۔بچے کو سمجھانے کا
مؤثر طریقہ مثبت رویہ، اچھا اندازِ گفتگو اور مثال سے سکھانا ہے۔
یاد رکھیں مسلسل ڈانٹ سے عقل نہیں آتی، دل ٹوٹتا ہے اور
تعلق کمزور ہوتا ہے اور بچے کے دل میں
بدگمانی کا پودا پروان چڑھتا ہے۔بچے کی تربیت میں اعتدال، اخلاق اور سادگی کو اہم جگہ
دیں۔اسے میانہ روی سکھائیں تاکہ وہ فضول خرچی، اسراف اور تکبر سے دور رہے۔اچھی
عادات جیسے سچ بولنا، شکر ادا کرنا، صفائی، صبر اور وقت کی پابندی کو اس کی روزمرہ
زندگی کا حصہ بنائیں۔اسے بری عادتوں جیسے جھوٹ، حسد، غیبت، اور چوری سے دور رکھیں،
مگر نرمی اور حکمت سے۔
بچے کو صرف "کیا نہ کرو" نہ سکھائیں، بلکہ
"کیا اور کیسے کرنا ہے" بھی سمجھائیں۔
5:بچے کو بولنے کا حق دے صرف اپنی نہ منوائیں : اگر والدین صرف اپنی بات منوائیں اور بچے کو سننے کا موقع
نہ دیں، تو وہ دباؤ، الجھن اور بےاعتمادی کا شکار ہو جاتا ہے۔اسلام نے بھی مشورہ،
رائے اور نرمی سے بات سننے کو اہمیت دی ہے۔۔۔خواہ
چھوٹے ہوں یا بڑے۔بچے کی بات سننا اسے اہمیت، محبت اور تحفظ کا احساس دیتا
ہے۔
یاد رکھیں، جو بچہ گھر میں بولنے سے ڈرتا ہے، وہ باہر دنیا
کے سامنے بھی کبھی خوداعتماد نہیں بن پاتا۔
6:بیٹوں
اور بیٹیوں کو بیٹھنے ،اٹھنے کا طریقہ سمجھائے شروع سے ہی۔
اگر آپ بچے کو بچپن میں ان چیزوں کے بارے میں نہیں سکھاتے
اور جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تب سکھاتے ہیں تو کافی بچے سیکھ جاتے ہیں لیکن کافیوں کی
پھر دل آزاری ہوتی ہے جب پختہ عمر میں انہیں اس چیز کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔کیونکہ
بڑے بچوں کی کردار سازی کرنا پھر مشکل ہے ایسے جیسے تنے ہوئے درخت کو اکھاڑ پھینکنا۔
ہمارے ہاں بیٹیوں کو تو چلو بچپن سے ہی بیٹھنے ،اٹھنے اور
اوڑھنے کا بتایا جاتا ہے لیکن بیٹوں کو نہیں۔۔وہ جیسے اٹھے بیٹھے۔۔بھئی لڑکے
ہیں۔۔برا مت منائیےگا۔لیکن جب ایسے ہی بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو وہ وہی مرد
بنتے ہیں جنہیں لڑکیوں کے سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹی کے باہر کھڑنے ہونے ،بے جا
ہاتھوں کا غلط استعمال کرنے،(خارش کرنے ) اور
غلط دیکھنے کا اندازہ ہی نہیں ہوتا
۔حتی کہ کسی مارکیٹ،پارک یا رش والی جگہوں
پر ان پر نفس اتنا غالب آتا ہے کہ انہیں چھوٹی چھوٹی
معصوم بچیوں،بر قہ پہنے عورتوں کا بھی خیا ل نہیں آتا۔یہ اس قدر نفس کے
پجاری ہوجا تے ہیں۔جہاں ماں باپ کو چاہیے، بیٹی کی تربیت کے ساتھ بیٹے کی
تربیت پر بھی غو رو فکر کریں
اور بتائے انہیں آنکھیں کیسے جھکا کر رکھنی ہیں ۔۔ ماں بہن کے کمرے میں
جانے سے پہلے اجازت لینی ہے۔۔یہاں تک کہ
بہنوں کے سامنے بیٹھنے کا سلیقہ نہیں ہوتا ان میں ۔۔کسی دوسرے کے گھر بنا
بتائے نہیں جانا یا دروازے سے جھانکنا نہیں ہے۔۔خدارا یہ کہنا بند
کرے۔عورت کی طرف دیکھنا مرد کی فطرت ہے ان مردوں کو بدنام نہ کرے جن کی انکھوں میں
دنیا کی ہر عورت کے لیے عزت اور حیا نظر آتی ہے۔
7: بچوں کی نگرانی
کریں۔
ہمارے ہاں اکثر بچوں کی نگرانی میں یہ بات زیادہ غور و فکر کی حامل ہے کہ وہ موبائل زیادہ استعمال کر رہا ہے یا غلط استعمال کر رہا ہے۔۔بلکل ہمیں اپنے چھوٹے
بہن ،بھائيوں ،بچوں کے موبائل ہسٹری ،گلیری ،واٹس ایپ وغیرہ کا جائزہ لیتے رہنا
چاہیے۔
لیکن جو بات میں کرنے جارہی ہوں،یہ ٹوپک نازک ہے لیکن میں
بات کروں گی۔ والدین کو چاہیے وہ اپنے بچوں پر بھی غور کریں۔ان کی عادات ،خصلت
وغیرہ کا۔بہن بھائی ،کزن وغیرہ کے رشتے کو واضح کریں۔آج کل کے دور میں چھوٹیں
چھوٹیں بچے موبائل کے ذریعے ہر شے تک رسائی پارہے ہیں۔وہ معصوم ہے انہیں رشتوں کی
پہچان نہیں ۔انہیں واضح کریں ۔ان پر شیطان
باآسانی حملہ آور ہوسکتا ہے۔
آج کل کے بچوں کا بالغ ہونے کا دورانیہ جلد ہے۔ماں باپ کو
چاہیے اپنے بچوں کے کمرے کو علیحدہ کر دیں۔۔کوئی جواز ہی
نہیں بنتا اس بات کا کہ دس سال
یا سات کی عمر کے بعد بہن بھائیوں کو اکیلے ایک ہی کمرے میں رہنے کی اجازت دی جائے۔۔ہاں
مڈل کلاس گھرانو ں کی بات اور ہے ان سب ہی
رہائش شاید ایک ہی کمرے میں ہوتی ہے ۔یا
ماں لازمی سوتی ہے بچوں کے ساتھ۔
اور ماؤں کو چاہیے
کہ وہ بیٹیوں کو بتائے کہ کزن اور بھائی میں فرق ہے کزن کے ساتھ لگ کر نہیں بیٹھنا،اس سے ہاتھ نہیں ملانا ،فلا رشتے جیسے خالہ کا
شوہر،بابا کے کزن ،ماں کے کزن، اور ان کے اپنے کزن لڑکے وغیرہ سے صرف سر پر ہاتھ پھروانا ہے۔۔اور
رکشے یا وین والے کو سلام پیچھے فاصلے پر رہ کر صرف زبان سے کرنا
ہے۔
اور بیٹیوں کو قرآن
کی تعلیم عورت استانی اور بیٹوں کو مرد استاد سے ہی حاصل کروائے۔۔انہیں بیڈ ٹچ اور گڈ ٹچ کے بارے
میں بتائے۔۔یہ کوئی عارکی بات نہیں ہے۔۔خدانخواستہ آپ کی لا پروائی کی وجہ سے پھر
جب وہ برے مراحل سے گزرتے ہیں تو تکلیف اور درد آپ کو بھی ہوتا ہے۔پلیز یہ اپنے
معصوم بچوں کو ان کے بالغ کزنوں کے ہاتھوں میں دینا چھوڑ دیں جو محبت اور
پیار کے نام پر وہ چومی چاٹیاں کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ کی
پناہ ۔میرے لیے یہ منظر دیکھنا اپنی زندگی کا سب سے کٹھن مرحلہ ہے۔ پلیز اپنے
بچوں،بہن ،بھائیوں کی حفاظت خود کریں ان کی نگرانی کریں۔۔انہیں اکیلےکزن،پرائے رشتہ دار کے
ساتھ مت چھوڑیں۔
8:
ان کی ہر ناجائز خواہش کو پورا نہ کریں۔
والدین کوچاہیے کہ بچے
کی ہر خواہش کو پورانہ کریں بشرطیکہ خواہش جائز ہو۔لیکن پھر بھی مارجن رکھیں کم
ازکم دو دن تین دن ۔۔فورا سے ہی چیز ان کی گود میں نہ رکھیں اگر چہ شے اگر بہت
زیادہ ضروری ہے تو اسی وقت دے۔۔تاکہ اسے ہر شے کو پانے کے پیچھے صبر کرنا آنا چاہیے۔اگر بہت جلد ان کی خواہشات پوری ہوئیں جیسے ناجائز بھی تو وہ اس نہج پر جائیں گےجہاں آپ نے سوچا بھی نہیں ہو گا ۔ وہ چیزوں
کو پانے کے لیے ہر حد کو پار کریں گے۔ان ماؤں سے درخواست ہے جو بچوں کا تھوڑا رونا
دھونا برداشت نہیں کرسکتیں اور اسی وقت وہ چیز اس کے قدموں میں دھر دیتیں ہیں
آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کتنا خود سر بنا
رہئیں ہیں آپ اسے۔ وہ ہر شے کو پانے کی تمنا کریں گے کیونکہ انہیں پتا ہے
تھوڑا سا رونے سے وہ چیز انہیں باآسانی مل جائے گی۔ پھرجب وہ پرٹیکل زندگی میں آتے
ہیں تو وہ چیز جو ا نہیں میسر نہیں آتی
اسے حرام یا غلط کام جیسی حدوں سے بالا تر
ہو کر حاصل کرتے ہیں۔
خدارا محبت بھی کریں ،تھوڑی سی سختی یا نرمی بھی کریں صرف اس زمرے میں کہ وہ کیا
چیز مانگ رہاہے۔
پیارے والدین!!
آپ کا ہر عمل، ہر لفظ، ہر رویہ۔۔ آپ کے بچوں کا مستقبل
تشکیل دے رہا ہے۔
یہاں اور بھی بہت سے پوائنٹ پر بات ہوسکتی ہے لیکن فلحال
یہی کافی ہے ہضم کرنے کو۔۔
ہم نے ہر طرف یہ تو سنا والدین کی قدر کرو لیکن یہاں بہت کم
ہی بات ہوتی ہے اولاد کی تربیت پر۔۔
والدین کی قدر بھی کرنی ہے ہمیں اسلام بتاتا ہے کہ ان کے
سامنے"اف" بھی نہ کرو۔۔والدین سے بھی گزارش ہے وہ ایسے حالات پیدا نہ
کرے جو بچے تلخی پر اترے۔
"والدین نسل ساز ادارے ہیں، جو صرف اولاد کو نہیں بلکہ
مستقبل کے کرداروں کو تراشتے ہیں۔"
اللہ نگہبان۔۔۔۔۔ اگر کسی بات سے دل آزاری ہوئی ہو تو پھر
سے معذرت خواہ ہوں۔ اپنی اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجئیے گا۔
ختم شد۔۔۔
Comments
Post a Comment