پیغام:
ہم وقت اور اُمید
میں ایک راستے سے ایک بار گزری تو وہاں دور دور تک کُچھ
دیکھائی نہیں دیتا تھا
لیکِن پھر کُچھ وقت گزرا میرا وہاں سے ایک بار پھر گزر
ہوا تو دیکھا کہ اکا دکا مقام بن گئے تھے
لیکِن پھر ایک عرصہ بیت گیا اور میں دوبارہ وہاں سے
نہیں گزری لیکِن وقت گھومتا پھرتا ہے نہ تو ایک دن ایسے ہی پھر سے وہاں سے گزر ہوا
تو دیکھا میں نے لیکِن میں تو بہت حیران رہ گئی تھی اور اُس جگہ کو پہچاننا مُشکل
تھا میرے لیے کیونکہ اُس جگہ پر اِتنی آبادی پھیل چُکی تھی اور ہر چیز اِس قدر
تبدیل ہو چُکی تھی کہ بیاں نہیں کر سکتی میں...
تو اب آپ لوگوں سوچیں گے کہ میں نے اِتنا سب کیوں لکھا؟
میرے لکھنے کا مقصد آپ لوگوں کو یہ بات سمجھنا ہے...
کہ آپ کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا
آپ
کُچھ وقت بعد اُس راستے سے گزرے یا صدیوں بعد گُزرے وہاں سے کوئی فرق نہیں پڑتا
کیونکہ لوگ آپ کے لیے نہیں روکتے لوگ چلے جاتے ہیں دِل بس جاتے ہیں کل جہاں آپ تھے
آج وہاں ایک ہجوم ہے...
اور ہجوم میں کہاں کوئی آپ کو ڈھونڈ پائے گا۔
تو خود تک محدود رہیں لوگوں سے اُمیدیں وابستہ نہ رکھیں
توقعات نہ رکھیں کہ وہ آپ کی جگہ ہمیشہ آپ کے لیے ہی خالی رکھے چھوڑیں گے نہیں
ایسا بِلکُل بھی نہیں ہے اِس غلط فہمی سے جتنا جلدی ہو سکے نکل آئیں۔
اپنے اللّٰہ تعالیٰ کو راضی کریں اُن کے حکم کو تسلیم
کریں اُن کی رضا کو ہی زِندگی کا مقصد بنالیں،آپ لوگ جانتے ہیں نہ جب ایک بچہ اپنی
ماں کی ہی بات مانتا ہے اور اُسے یقین ہوتا ہے کہ اب اُس کی ماں بھی اُس کی خواہش
کو پورا کرے گی تو پھر اللہ تعالیٰ تو ستر ماؤں سے بڑھ کر چاہتا ہے تو پھر وہ اپنے
بندوں کو کیوں نہیں سنے،کیوں اُس کے مانگنے پر اُسے عطا نہیں کرے گا۔
تو آج سے ابھی سے اِس جدوہد میں لگ جائیں۔
لوگوں کو لوگ مِل ہی جاتے ہیں کبھی ہم سے بہتر تو کبھی
بہترین اور ہم کہیں دور ایک بھولی بسری یادیں بن کر رہ جاتے ہیں جو یاد
آئیں گے بھی تو شاید کبھی کسی ٹوٹے خواب بن کر
یہ دُنیا دھوکہ بھی ہے اور موقع بھی ہے،تو جو کرنا ہے
ابھی کرنا ہے کیونکہ ابھی موقع ہے۔لیکِن اِس دُنیا کی رنگینیوں میں اِتنا بھی نہیں
کھونا چاہیے کہ ہم اپنے ربّ العزّت کو بھول جائیں۔
ہم ہر وقت یہیں کہتے ہیں کہ ابھی بھی وقت ہے لیکِن وقت
نہیں ہے جو بھی ہے آج ہے ابھی ہے زِندگی آگے بڑھ نہیں رہی بلکہ زِندگی ختم ہو رہی
ہیں ہر گزرتا لمحہ ہمیں موت کے قریب لے کر جا رہا ہے تو ابھی کرلو جو بھی کرنا ہے
اسے پہلے کہ آپ موت کو گلے لگالیں اور سب ختم ہو کر مٹی کا ڈھیر بن کر رہ جائے۔۔
از قلم گُل گنڈاپور
Comments
Post a Comment