_*حق کی کسوٹی کردار حسین پر چلنے والے*_
قمرالنساء قمر
امام عالی مقام امام حسین کی ذات میں ایک
پورا انسٹیٹیوٹ ہے۔اس میں اسلام کا ہر سبق سارا نصاب،عملا پڑھایا جاتا ہے۔آپ کا مقام
شہادت بلند ترین آپ کا مقام عبادت عظیم ترین،اپ کا مقام سخاوت اعلی و عرفہ آپ کا مقام
شجاعت، عظمتوں کی بلندی پر آپ کا مقام صبر جمیل،اوج ثریا پر،اور ایسے عظیم صبر کے بعد
مقام شکر آفاق کی بلندیوں پر،آپ کا مقام ایثار و قربانی سبحان اللہ الفاظ آپ کی صفات
بیان کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ آپ کی عزیمت اور آپ کے عشق کی انتہا لکھنے کے لیے الفاظ
اور قلم دونوں ناکافی ہیں۔آپ کی ثابت قدمی اور ثابت قلبی، اپنی انتہا پر ہے۔
آپ حسین ہیں، آپ اور حق لازم و ملزوم ہیں۔جہاں
حسین ہیں وہاں حق ہے،اور جہاں حق ہے۔ وہاں حسین ہیں۔حق آپ کے ساتھ کیسے نہ ہو۔آپ صلی
اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔"الحسین منی وانا من الحسین،،میں حسین سے ہوں اور حسین
مجھ سے ہے۔ قرآن عظیم نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بہترین نمونہ قرار دیا
ہے۔اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نےفرمایا۔بے شک میں تم میں دو نائب چھوڑ کر
جارہا ہوں، اللہ تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجید) اور میرے اہل بیت۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا،
کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے،جب
تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔اور قرآن مجید رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ
وسلم کے حوالے سے فرماتا ہے،کہ آپ اپنی مرضی اور خواہش سے کچھ نہیں بولتے،یعنی آپ حق
کے سوا کچھ نہیں بولتے جو آپ کی زبان پر جاری کیا گیا ہے۔ ان تمام باتوں کی روشنی میں
یہ تو واضح ہے۔کہ حق کو پرکھنے کی کسوٹی حسین ہیں۔اب ایک بڑی اہم اور سمجھنے والی بات
ہے۔کہ جسے حق پر چلنے کی خواہش ہو وہ حسین کی سیرت پر چلے،اور جو حسین کی سیرت پر چلے
گا وہ یقینا حق پر ہو گا۔
آج ذرا غور کیجئے، کیا پوری دنیا میں کوئی ہے
جو سیرت حسین پر چل رہا ہو۔ جی نام ذہن میں آیا،بلکل اس وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حماس،
سیرت حسین کو اپنائے ہوئے ہیں۔آج غزہ کی عوام کردار حسین پر کھڑی ہے۔واللہ ایک بصیرت
سے محروم شخص بھی دیکھ سکتا ہے۔ایک ایک چیز میں کردار حسین پر عمل ہے۔سیرت حسین کے
نقش قدم پر قائم اس عظیم قوم پر لاکھوں سلام،جو ایک دن میں سو،سو بچہ ذبح کروا کر کہتے ہیں۔ ہم اللہ پر بھروسہ کرتے
ہیں وہی ہمارا مولی ہے،وہی بہترین کارساز ہے۔
آج اس دنیا میں کتنے ہیں جو سیرت حسین کو اپنائے
ہوئے ہوئے ہیں،یا صرف بات کی جاتی ہے،اور بات بھی صرف شہادت کی کی جاتی ہے۔وہ بھی صرف
ذکر شہادت، ۔جب کہ بات تو مکمل ہونی چاہیے،اہل محبت کو قولا بھی اور فعلا بھی،شہادت
حسین، عبادت حسین،شجاعت حسین،سخاوت حسین،استقامت حسین،امامت حسین، صداقت حسین، دعوت
حسین،عزیمت حسین،وصیت حسین،استقلال حسین،عشق حسین، وفائے حسین،رضائے حسین، دعائے حسین،
انکار حسین،، ایثار حسین،قیام حسین،توکل حسین، طریقہ حسین،کردار حسین کی عملی تفسیر
ہونا چاہئے۔
ہائے غافل مسلمان،شیطان نے تجھے کیسے جال میں
پھنسایا اور تو نام حسین،پر نفس کے خلاف لڑنے کی بجائے نفس کی خواہشات،پوری کرنے میں
لگ گیا۔ نذر و نیاز کے نام پر کھا پی کر،سمجھ لیا کہ محبت حسین کا حق ادا کر دیا۔نذر
و نیاز بری نہیں، مگر کیا پورا سال کردار حسین پر چلنا فلسفہ شہادت حسین ہے، یا پورے
سال میں دس دن، یاد حسین میں نذر و نیاز،شہادت حسینی کا مطلوب ہے۔نہ نماز نہ قرآن نہ
حکم قران پر عمل نہ جہاد، نہ ظلم کے خلاف آواز،نہ قربانی، ،جان و مال کی،اولاد کی،یہاں
تک کہ اپنے وقت کی بھی نہیں کچھ بھی نہیں۔یعنی جہاد حسین اور کردار حسین نہیں، بلکہ
سبیل حسین ماتم حسین،کو تم نے محبت حسین سمجھ لیا۔
سفر کرب و بلا کے دوران امام عالی مقام 14 مقدمات
پر رکے اور 14 مقامات پر یہی فرمایا کہ اسلام میں خرابی پیدا ہو گئی ہے۔یعنی آپ نے
اسلام کو نافذ کروانے کے لیے اتنی بڑی قربانیاں دیں۔کیا اب اسلام اس دنیا میں نافذ
ہے۔یا پھر نعوذ باللہ اسلام کو نافذ کرنے کا قرآنی حکم ختم ہو گیا ہے،یا دنیا سے یزیدی
کردار ختم ہو گیا ہے،ظلم ختم ہو گیا ہے۔کہ ہم نے کردار حسین کو عملا نہیں اپنایا۔
ہم نے صرف ذکر کیا وہ بھی،علامتی طور پر،وہ
بھی صرف محرم الحرم میں۔احکام شریعت قیامت تک کے لئے ہیں،تو مسلمانوں، پھر کیوں امریکی
اور اسرائیلی،یزیدی حکومتوں کے خلاف نہیں اٹھتے،کیوں یزید کے سامنے کلمہ حق بلند نہیں
کرتے،کیوں کردار حسین اپنانے والوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔ کیوں کوفی بن بیٹھے ہو۔
کیوں یزیدی فوج کی طرح کے اعتراض کرتے ہو۔کیوں حماس سے امریکہ اسرائیل کی بیعت کروانا
چاہتے ہو۔کیوں کہتے ہو حماس کو حملہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔کیوں 72 کی اتنی بڑی حکومت
سے ٹکر لینے،پر اعتراض کرتے ہو۔کیوں عرب اور مسلم
ممالک کی منافقت پر خاموش ہو،ان کے تعاون پر خاموش ہو، ابراہیمی معاہدے پر خاموش ہو۔کیوں اہل غزہ تک پانی
اور خوراک نہیں پہچاتے، کیوں نہیں صدا احتجاج بلند کرتے۔کیوں اپنی سبیلوں اور نذر و
نیاز کا رخ غزہ کی طرف نہیں کرتے کیوں،جلوس میں اہل غزہ کے لئے صدا احتجاج بلند نہیں
کرتے۔
سن لو اسلام کا حکم اٹل ہے۔اسلام ظلم کے خلاف
آواز اٹھانے اور خدا کی زمین پر خدا کے احکامات نافذ کرنے کا حکم دیتا ہے۔وہ ابراہیم
علیہ السلام کا نمرود، کے خلاف اتھنا ہو،موسی علیہ السلام کا فرعون کے خلاف کلمہ حق
بلند کرنا ہو، حضرت داؤد علیہ السلام کا ظالم بادشاہ طالوت کو قتل کرنا ہو، محمد عربی
صلی اللہ علیہ وسلم کا قریش اور قیصر و کسری،جیسی سلطنتوں کے خلاف صدا کلمہ توحید،
بلند کرنا ہو یا نواسا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یزیدی حکومت کے خلاف کلمہ حق بلند
کرنا ہو۔ یہ سب نہیں دیکھتے،کہ سامنے خدائی کا دعوے دار نمرود ہے،یا ظالم فرعون ہے۔سامنے
قیصر و کسری،کی عظیم الشان اور یزید کی بڑی سلطنتیں ہیں۔ یہ نمرود جیسے خدائی دعوے
داروں سے نہیں، خدا سے ڈرتے ہیں۔ان کا توکل یزید، امریکہ اور اسرائیل پر نہیں خدا پر
ہے۔ یہ راہ عزیمت کے مسافر ہیں یہ دنیا کو اپنے جوتوں کی نوک پر رکھتے ہیں۔ان کی محبت
حقیر دنیا سے نہیں،یہ خدا سے عشق کرتے ہیں۔یہ مادیت پرست نہیں یہ حق پرست ہیں۔یہ غلام
نہیں حر ہیں۔یہ یزیدی اور امریکی غلامی کے قائل نہیں کیوں کہ انہوں نے کلمہ توحید صرف
پڑھا نہیں دل سے قبول کیا ہے۔یکتا واحد کی غلامی قبول کرنے کے بعد اب کسی کی غلامی
انہیں قبول نہیں یہ مرد میدان، ہیں یہ مرد حر، ہیں یہ مرد عشق و وفا ہیں۔
مورخین سے پوچھا گیا کہ جب سب لوگوں نے بیعت کر
لی تو امام نے کیوں نہیں کی تو انہوں نے بڑا خوبصورت جواب دیا سوال یہ نہیں کہ سب نے
بیعت کر لی تو حسین نے کیوں نہیں کی بلکہ سوال یہ ہے کہ جب حسین نے بیعت نہیں کی،تو
باقی سب نے بیعت کیوں کی۔حق کی کسوٹی حسین ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ حماس نے امریکہ و اسرائیل اور
پورے عالم کفر کے خلاف ٹکر کیوں لی، سوال یہ ہے کہ آپ سب اہل حماس کے ساتھ اہل غزہ،کے
ساتھ اپنی جان مال اور اولاد کے ساتھ کھڑے کیوں نہیں ہیں۔حق کی کسوٹی امریکی و اسرائیلی
یزیدی طاقتیں نہیں، نہ ہی عرب و مسلم حکمرانوں کی کوفی خاموشی اور کوفی تعاون ہے۔بلکہ
حق کی کسوٹی تو کردار حسین پر چلنے والے ہیں۔
قمرالنساء قمر
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment