Beti article by Hafsa Umer
کالم
نگار: حفصہ عمر
عنوان:
بیٹی
آج
کل کے دور میں ایک بیٹی کا اپنی ماں سے زیادہ باپ سے لگاؤ ہوتا ہے۔ وہ اپنی بیشتر باتیں
ماں سے نہیں، باپ سے کرتی ہے۔ مگر میں اکثر سوچتی ہوں کہ بیٹیاں کتنی ماہر ہوتی ہیں—اپنا
دکھ چھپانے میں۔ وہ کس اذیت، کس کرب سے گزر رہی ہوتی ہیں، کسی کو اندازہ تک نہیں ہونے
دیتیں۔
پڑھائی،
گھر کے کام، دوسروں کی تلخ باتوں کو سہنا، اور پھر بھی کسی سے شکایت نہ کرنا—یہ سب
ایک کمال کا ہنر ہے۔ وہ لوگوں کی باتیں اور طنز برداشت کر لیتی ہے، اور پھر بھی دوسروں
کو دلاسہ دینے میں سب سے آگے ہوتی ہے۔
لوگوں
کے سامنے ایک درد بھری مسکراہٹ سجا لیتی ہے تاکہ اس کے والدین کو کوئی پریشانی نہ ہو۔
اپنا
غصہ، اپنی تھکن، اپنے آنسو—سب کسی اندھیرے کونے میں بہا دیتی ہے، اور باہر آ کر ایسے
ظاہر کرتی ہے جیسے وہ بہت مضبوط ہے۔
لیکن
حقیقت یہ ہے کہ "بیٹی" کا تخلص چاہے صنفِ نازک ہو، مگر وہ سخت جان ہوتی ہے۔
وہ
اپنے دکھ دوسروں سے نہیں، اپنے رب سے بیان کرتی ہے۔
اور
اگر وہ سارا دن کام کرے اور پھر اسے یہ سننے کو ملے کہ "تم کرتی ہی کیا ہو؟"
تو یہ اس کے دل کو چیر دیتا ہے۔
بیٹی
چاہے ہماری ہو یا کسی اور کی، وہ بیٹی ہی ہوتی ہے۔
اگر
کوئی اُسے بیٹی نہیں سمجھتا تو کم از کم انسانیت کا لحاظ تو کر سکتا ہے۔
اللہ
نے بیٹی کو رحمت بنا کر بھیجا ہے، اور نبی کریم ﷺ نے دو بیٹیوں کی کفالت کرنے والے
کو جنت کی خوشخبری دی ہے۔
تو
پھر ہمیں غرور کس بات کا؟
جبکہ
بیٹی تو صبر، برداشت، شرم، حیا اور محبت کا مکمل پیکر ہے۔
*************
Comments
Post a Comment