" پیاری اماں جانی کے آخری دنوں کے کچھ قابل رشک حالات و واقعات!
"♥️🥀💦💔 اماں جان
کے زندگی کے
اتنے واقعات ہیں
جو لکھے جایئں
تو ضخیم کتاب
تیار ہوجاۓ،ابھی اسکا
موقع نہیں سو
آخری دنوں کے
اور وفات کے بعد
کے کچھ قابل
رشک حالات ملاحظہ
ہوں:! . *اماں جانی
نے دنیا میں
اس طرح وقت
گزارا ہے کہ
اس پر پورا
اترتی تھیں"کن
فی الدنیا کانک
غریب او عابر
السبیل"...ایک مسافر
اور راہ چلتے
کی طرح انہوں
نے زندگی گزاری
ہے.....ہمیشہ دیکھا
کہ اللہ نے
اتنا دیا تھا
مگر کسی چیز
کی محبت لالچ
ہوس دل میں
نہیں تھی....اس
زمانے میں دنیا
سے ایسے ہاتھ
جھاڑ کر گئی
ہیں کہ ایک
پیسہ انکی ملکیت
میں نہیں تھا....وراثت تقسیم
ہی نہیں کرنی
پڑی،ایک روپے نہیں
ملا ہمیں....انکی
عادت تھی جہاں
سے پیسے آتے
فورا صدقه کر
دیتیں غزہ وغیرہ
میں.....اسکے علاوہ
جتنا سامان زیور
وغیرہ تھا،سب کا
مالک ابو کو
بنادیا تھا......*سنتوں سے
اتنی محبت تھی،لاشعور
میں سنتیں ایسے
رچ بس گئی
تھیں کہ آخری
بار جب ہاسپٹل
ایڈمٹ ہوئیں تو
حالت بہت خراب
تھی،آکسیجن ماسک لگا
ہوا تھا،ہوش بھی
نہیں تھا ،مگر
جب نرس ہاسپٹل
ڈریس چینج کرنے
لگی و اسکو
تاکید کی کہ
سنت کے مطابق
سیدھی طرف سے
پہناؤ........ہر معاملے
میں سنت استخارہ
کرنے کی ایسی
عادت تھی کہ
آخری دنوں میں
چھوٹا سا کتابچہ
بھی نہیں پکڑا
جاتا تھا،کتاب ہاتھ
سے گر جاتی
تھی مگر پھر
بھی ہر کام
میں استخارہ کرتی
تھیں دوا وغیرہ
کے معاملے میں...انتقال سے
قبل انکے سامنے
بات کر رہے
تھے جس ہاسپٹل
جایئں تو مجھ
سے استخارے کی
کتاب مانگی..... *اماں جانی
کی بیماری انتقال
سے چھے ماہ
قبل تشخیص ہوئی
اور شدید تکلیف
ایک ماہ سے
تھی....،اس قدر
تکلیف اور بے
چینی تھی کہ
ہم سے دیکھا
نہیں جاتا تھا.....اور میں
اللہ کو گواہ
بنا کر اس
بات کی گواہی
دے سکتی ہوں
کہ ایک دن،ایک
لفظ انکی زبان
سے ناشکری اظہار
کا نہیں سنا.....حتی کہ
بابا ناراض بھی
ہوتے تھے پریشانی
میں کہ کچھ
تو بتائیں کیا
ہورہا ہے،کدھر تکلیف
ہے ،ہم
بھی پوچھتے تھے
تو ناراض ہوتی
تھیں کہ کیوں
زبردستی مجھ سے
سننا چاہ رہی
ہو؟میں نہیں بتانا
چاہتی نا... کبھی
اماں نے نہیں
بتائی اپنی تکلیف......حتی کہ
اپنے عزیز و
اقارب ابو بھائی
بہن کو بھی
بتانے کی اجازت
نہ دی تھی
کہ مصیبت کے
اخفاء میں اجر
ہے....وفات سے
دو دن قبل
حالت بہت خراب
ہوگئی تو ہم
نے ان سے
پوچھے بغیر ہی
رشتہ داروں کو
اطلاع دے دی.....ورنہ اس
وقت بھی انکار
کر دیتیں......*وفات سے
چار دن قبل
دو بہت انوکھی
باتیں ہوئی...بہن
منیزہ کو بلا
کر کہنے لگیں
منیزہ مجھے تیار
کردو ...وہ حیران
رہ گئی کہ
مما کل ہی
آپکے کپڑے بدل
کر تیار کیا
ہے آپ بلکل
صاف ہیں...بہت
بے چینی سے
کہنے لگیں نہیں
جلدی مجھے تیار
کردو جلدی کرو،بہن
نے دوبارہ اطمینان
کرانا چاہا تو
کہنے لگیں اچھا
پھر زنیرہ سے
کہو میرے بال
بنادے..... اسی طرح
ایک دن کہنے
لگیں ہمیں بلا
کر کہ کھڑکی
بند کردو،روشنی آرہی
ہے....ہم حیران
رہ گئے کیونکہ
رات کا وقت
تھا.کھڑکی پر
پردے بھی تھے،روشنی
کہاں سے آسکتی
تھی؟ہم نے کہا
مما کوئی روشنی
نہیں آرہی آپ
پریشان نہ ہوں
تو کہنے لگیں
نہیں آرہی ہے
روشنی...ہم نے
انکی تسلی کے
لیے پھر دوبارہ
پردے ڈال دیے......*وفات سے
ایک دن قبل
آنکھیں کھلی ہوئی
تھیں آسمان کی
طرح اٹھی ہوئی....اس وقت
ہم بہت حیران
ہوئے کہ یہ
کیسی بے ہوشی
ہے جس میں
آنکھیں آسمان کی
طرف اٹھی ہوئی
ہیں....وہ تو
بعد میں نشر
الطیب میں پڑھا
کہ میت کی
آنکھیں آسمان کی
طرف اٹھی ہوئی
ہوتی ہیں،وہ اپنی
روح کو اوپر
چڑھتا دیکھ رہا
ہوتا ہے....ہم
گھبرا کر آنکھیں
بند کرتے تو
خود بخود دوبارہ
کھل جاتیں.....*انتقال سے
چند لمحے قبل
والد صاحب بہت
پریشان ہو کر
ڈاکٹر کو بار
بار کہتے رہے
کہ کچھ کریں
کچھ کریں انکی
سانس بحال کریں....اسکی وجہ
والد صاحب نے
یہ بتائی بعد
میں کہ میں
دیکھ رہا تھا
کہ انکے ہونٹ
ایسے ہل رہے
تھے جیسے کوئی
کچھ بول رہا
ہو ،اسلیے
میں ڈاکٹر کو
یوں کہہ رہا
تھا کہ یہ
تو زندہ ہیں
انکی سانس بحال
کریں.......بعد میں
یہ علم ہوا
کہ وہ سو
فیصد کلمہ طیبہ
کا ورد کر
رہی تھیں،اس بات
کی گواہی انکے
ہاتھ نے دی
کہ جب غسل
دے رہے تھے
تو دیکھا کہ
تشہد کی حالت
کی طرح انکی
انگلی اٹھی ہوئی
تھی......اللہ اکبر!!*اماں جانی
کا جنازہ جن
امام صاحب نے
پڑھایا وہ شاہ
فیصل مسجد کے
امام و خطیب
ہیں...اپنا اسکول
مدرسہ اور مسجد
ہے..........انہوں نے
جنازہ سے پہلے
اعلان فرمایا کہ
ابھی ایک بہت
نیک عورت کا
جنازہ ہے اور
ان کے جنازہ
میں شرکت کرنا
بذات خود بہت
بڑی سعادت اور
بخشش کی بات
ہے ........بابا کہہ
رہے تھے کے
میں نے کبھی
ان سے مما
کا کوئی ذکر
نہیں کیا،نہ ان
کے کسی بھی
گھر والوں سے
ہمارا کسی قسم
کا ملنا جلنا
یا تعلق ہے
................لوگوں
نے یہ سن
کر جلدی جلدی
صفیں بنائیں اور
لوگ بھی جو
جا رہے تھے
فورا شریک ہوگئے
.......بہت
بڑا مجمع تھا
جنازہ میں...........امام صاحب
کی اس بات
سے بابا بھی
بہت حیران ہوۓ کیونکہ
ان سے بابا
نہ کبھی ایسی
کوئی بات نہیں
کی،بیماری کا بھی
بس آخری بار
ہی بتایا جب
ہسپتال میں ایڈمٹ
تھیں......*ہم لوگ
اماں کی بیماری
میں دن رات
انکے ساتھ تھے....کبھی اپنی
بیماری یا تکلیف
کی وجہ سے
وہ نہیں روئیں.....ایک ہی
مرتبہ بہت زیادہ
آنسوؤں سے روئیں
انتقال سے چودہ
دن قبل اس
بات پر کہ
نجانے مرنے کے
بعد میرا کیا
بنے گا؟اللہ تعالیٰ
میرے ساتھ کیا
معاملہ کریں گے؟!اس خوف
آخرت کو لے
کر روتی رہیں.....*انتقال سے
چار ماہ قبل
ختم نبوت کورس
بہت شوق و
محبت سے شروع
کیا،دو ماہ ہی
جاسکیں پھر طبیعت
زیادہ ناساز ہوگئی....انتقال کے
بعد مجھے الماری
سے اماں جان
كا وہ پرس
ملا جسے وہ
ختم نبوت كلاس
میں لاتی تھیں...اس میں
پرنٹ كراۓ ھوئی
كاپی جو ختم
نبوت والی باجی
نے بھیجی تھی
گروپ پے،نوٹس والی
ڈائری جس میں
اماں نے خود
لكھا ھوا تھا،مولانا
رفیع عثمانی رحمہ
اللہ كی كتاب
علامات قیامت و
نزول مسیح اور
اك قلم موجود تھا،گویا كہ
انكی پوری تیاری
تھی كلاس میں
آنے كی. مگر
آ نہ سكیں...میں نے
انكا پرس ایسے
ھی ركھا ھے
كہ یہ گواھی
رہے گی..ختم
نبوت كلاس كے
ذكر پر انكی
آنكھوں میں عجیب
چمك آتی تھی
اور وفات سے
پہلے كہا تھا
كہ باجی سے
كہنا مجھے فون
پر كلاس سنادیا
كریں.میرے اسباق
نكل رھے ھیں....*پردے کا
ایسا اہتمام اور
فکر تھی کہ
شاید ہی کسی
کو ہو....صرف
چہرے کا پردہ
نہیں بلکہ آواز
کے پردے کی
بھی فکر تھی.....آخری بار
ہسپتال جاتے ہوئے
کہنے لگیں مجھے
برقع پہناؤ حالانکہ
حالت بہت خراب
تھی اس دن....پہلے دن
آئی سی یو
میں کچھ ہوش
تھا تو ہم
دونوں بہنیں آپس
میں بات کر
رہی تھیں تو
ہمیں گھوڑ کر
کہنے لگیں آہستہ
بولو،آواز کا پردہ
کرو،باہر مرد ہیں..اسی طرح
شیشے کا دروازہ
تھا تو باہر
میل اسٹاف اپنی
ڈیوٹی کا کام
کرتے نظر آرہے
تھے،تو بڑی مشکل
سے کچھ اشاروں
اور کچھ بول
کر کہا کہ
انکو ادھر سے
ہٹائیں!......پھر جب
غنودگی کی سی
کیفیت میں چلی
گئیں تو بولنا دشوار
ہوگیا تھا،انکی آنکھوں
کے اشارے سے
یوں لگتا کہ
میل اسٹاف کی
وجہ سے بہت
پریشان ہورہی ہیں....میل اسٹاف
کو سختی سے
منع کرتےتھے آنے سے
کہ مریض پریشان
ہورہا ہے مگر وہ
نہیں بات مانتے
تھے.....پچھلی دو
مرتبہ جس ہاسپٹل
میں ایڈمٹ تھیں
ادھر تو انکے
اصرار پر روم
کے باہر لکھ
کر لگوادیا تھا
"میل
اسٹاف ناٹ الاؤڈ……….باتیں تو
بہت ہیں،ظاہر سی
بات ہے اس
مضمون میں سمیٹنا
ممکن نہیں،لہذا اسی
پر اکتفا کرتی
ہوں.........للهم اغفر
لها، وهب لها
من أجرك ما
لا يحصى ومِن
غفرانك عفواً لا
يفنى، اللهم إنا
ودعناها في رحمتك
ونعلم أن رحمتك
بها أوسع مما
يتوارد في أذهاننا،
اللهم ارحمها وجميع
موتانا و موتى
المسلمين يارب العالمين
..💔💔♥️♥️🌹🌹🥀🥀💦💦💖💕💞💓میری ماں
مجھ کو ہر
لمحہ ستاتی ہیں
تیری یادیں
صبح
ہو شام ہو
مجھ کو رولاتی
ہیں تیری یادیں
بہت
بے چین کرتا
ہے مجھے شب
بھر غمِ فرقت
ذرا
سی آنکھ لگنے
پر جگاتی ہیں
تیری یادیں
مجھے
بچپن میں تو
جیسے اٹھاتی تھی
محبت سے
ابھی
سوتا ہوں تو
آ کر اٹھاتی
ہیں تیری یادیں
💔💔💔💔💔💔💔💔💔🥀🥀🥀🥀🥀🥀
Comments
Post a Comment