Pakistan ya behanistan article by Hakeem Faryad Afzal Rana
پاکستان یا بحرانستان ۔۔۔۔۔۔۔۔!!
(حکیم فریاد افضل رانا )
پی
ٹی آئی نے 2018 میں حکومت سنبھالی تو پاکستان کو ایک شدید مالیاتی بحران کا سامنا
تھا۔ بیرونی قرضے بڑھ چکے تھے اور زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے تھے۔ اس
وقت حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں (IMF)
سے قرض لینے کا فیصلہ کیا اور معاشی استحکام کے لیے سخت فیصلے کیے۔ ان فیصلوں میں سبسڈی
کم کرنا، روپے کی قدر کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنا اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں
اضافہ شامل تھا۔معاشی استحکام کی کوششوں کے باوجود مہنگائی کی شرح دوہرے ہندسوں میں
پہنچ گئی، جو عوام کے لیے شدید مشکلات کا باعث بنی۔ مہنگائی کی بنیادی وجوہات میں روپے
کی قدر میں کمی، ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ، اور ٹیکس اصلاحات شامل تھیں۔پی ٹی آئی
حکومت نے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے دعوے کیے، لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف نظر
آئے۔ کورونا وبا کے دوران کئی کاروبار بند ہو گئے، جس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ
ہوا۔ تاہم، حکومت نے کامیاب جوان پروگرام اور احساس پروگرام کے ذریعے نوجوانوں اور
غریب طبقے کو سہارا دینے کی کوشش کی۔مہنگائی پی ٹی آئی دور کی سب سے بڑی شکایت رہی۔
عوامی سطح پر اشیائے خوردونوش، ایندھن، اور بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں بے
پناہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔ خاص طور پر چینی، گندم اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ عوام
کے لیے ناقابل برداشت بوجھ ثابت ہوا۔پی ٹی آئی کے دور میں صنعتوں کے حوالے سے ملے
جلے تاثرات سامنے آئے۔ ایک طرف حکومت نے ایز آف ڈوئنگ بزنس میں بہتری کے لیے اقدامات
کیے، تو دوسری طرف بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے
کئی صنعتیں بند ہو گئیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پی
ڈی ایم حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت پر معاشی بدحالی کا الزام
لگایا اور دعویٰ کیا کہ وہ معیشت کو بہتر بنائیں گے۔ تاہم، ان کے دور حکومت میں بھی
معاشی بحران مزید گہرا ہوا۔ IMF کے ساتھ سخت شرائط پر نئے معاہدے
کیے گئے، جن کے نتیجے میں عوام پر مزید بوجھ پڑا۔زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور بیرونی
قرضوں کی ادائیگی کے لیے حکومت کو مزید قرض لینا پڑا۔ روپے کی قدر میں مزید کمی دیکھنے
کو ملی، جس کی وجہ سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا۔پی ڈی ایم حکومت نے روزگار کی فراہمی
کے لیے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی۔ حکومتی اداروں میں اصلاحات اور نجکاری کے اقدامات
کی وجہ سے کئی ملازمین کو نوکریوں سے نکالا گیا۔ ان اقدامات نے بے روزگاری کی شرح کو
مزید بڑھا دیا۔پی ڈی ایم حکومت کے دور میں مہنگائی کی شرح نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ
دیے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں غریب اور متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہو گئیں۔ بجلی،
گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ عوام کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہوا۔صنعتی
شعبے کو پی ڈی ایم حکومت کے دور میں بھی سخت چیلنجز کا سامنا رہا۔ بجلی اور گیس کی
قیمتوں میں اضافے، غیر مستحکم پالیسیوں، اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث کئی صنعتیں
بند ہو گئیں۔ ٹیکسٹائل، چمڑے اور دیگر برآمدی صنعتوں کو خاص طور پر مشکلات کا سامنا
کرنا پڑا۔پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دونوں حکومتوں کے دور میں معیشت کو بحران کا سامنا
رہا۔ پی ٹی آئی نے معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سخت فیصلے کیے، لیکن عوامی سطح پر
ان کے اثرات منفی رہے۔ پی ڈی ایم نے معیشت کو سنبھالنے کے بجائے قرضوں پر انحصار بڑھا
دیا، جس سے بحران مزید گہرا ہوا۔دونوں حکومتیں بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے میں
ناکام رہیں۔ پی ٹی آئی نے نوجوانوں کے لیے کچھ پروگرام شروع کیے، لیکن پی ڈی ایم کے
دور میں روزگار کے مواقع مزید کم ہو گئے۔مہنگائی دونوں حکومتوں کا سب سے بڑا چیلنج
رہا۔ تاہم، پی ڈی ایم کے دور میں مہنگائی کی شدت زیادہ محسوس کی گئی کیونکہ عوام پہلے
ہی دباؤ کا شکار تھے۔صنعتی شعبہ دونوں ادوار میں متاثر ہوا۔ پی ٹی آئی کے دور میں
کچھ اصلاحات کی گئیں، لیکن پی ڈی ایم کے دور میں صنعتوں کی حالت مزید خراب ہو گئی۔پاکستان
کے عوام نے دونوں حکومتوں کے دور میں شدید مشکلات کا سامنا کیا۔ معیشت، بے روزگاری،
مہنگائی اور صنعتوں کی تباہی جیسے مسائل دونوں حکومتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بنے رہے۔
ان مسائل کے حل کے لیے طویل المدتی اور مستحکم پالیسیوں کی ضرورت ہے، جو سیاسی عدم
استحکام سے پاک ہوں اور عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھیں۔
************
Comments
Post a Comment