Mujhe lene waly aa gaey hain article by Shahid Mushtaq

عبدالرحمن مکی بارے خراج تحسین پیش کرتی تحریر‎:


"مجھے لینے والےآگئے ہیں"

کالم نویس : شاہدمشتاق

 

عبدالرحمن مکی صاحب کو پہلی بار مریدکے اجتماع 1999 میں سننے کا موقع ملا پھر ستمبر 2001 میں اکیس روزہ دورہ صفہ کے آخری دن ہم نے مرکز طیبہ مریدکے کے مرکزی گیٹ سے باہر ان کو پہلی بار اتنے قریب سے دیکھا ۔

وہ بہت غصے میں پیدل مرکز سے نکل رہے تھے ان کے گارڈز اور گاڑیاں پچھے پیچھے آرہے تھے ہم سامنے سے کچھ لڑکے ننگل ساہداں گاؤں کی طرف سے مرکز آرہے تھے ہمیں دیکھتے ہی ان کے مجاہد گارڈز مسکرائے جس کی وجہ بھی ہمیں فوراً سمجھ آگئی مکی صاحب نے ہمیں دیکھتے ہی بری طرح سے ڈانٹا , تب سے یہ احساس ہمیشہ کے لیے دل میں بیٹھ گیا کہ یہ بہت سخت مزاج انسان ہیں ۔

تب سے اب تک انہیں درجنوں بار سامنے بیٹھ کر سننے کا موقع ملا ان کی بے شمار آڈیو اور ویڈیو تقاریر سماعت کیں , سچی بات ہے کہ استاذالعلماء و المجاہدین شیخ الحدیث عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ اور ہر دلعزیز ہمارے محسن  استاذ محترم نصر جاوید حفظہ اللہ( اللہ کریم انہیں صحت و عافیت والی طویل عمر عطا فرمائے آمین) کے بعد  وہ میرے تیسرے پسندیدہ ترین مقرر تھے جنہیں  امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز ، حالات حاضرہ عالمی سیاست ,جنگی تواریخ اور جہاد پر گہری دسترس حاصل تھی وہ مصلحتوں کے  ہرگز قائل نہیں تھے جب بولتے تو کسی کی پرواہ نا کرتے جرنیلوں اور سیاستدانوں سب کو رگڑ دیتے , اپنے موضوع اور حق گوئی کی پوری پوری لاج رکھتے بلا شبہ وہ ایک کمال شخصیت تھے جو سننے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی۔

لمبے عرصے بعد آخری بار چند ماہ ہوئے پاکستان مرکزی مسلم لیگ وزیرآباد کے ایک پروگرام میں انہیں اور ڈاکٹر ناصر ہمدانی صاحب کو سننے کا شرف حاصل ہوا وہ جب ہال میں لاٹھی ٹیکے داخل ہورہے تھے تو لگا شیر بوڑھا ہوگیا ہے اب شائد وہ پہلے والی للکار باقی نا رہی ہو مگر یہ خیال بس خیال ہی رہا ۔

عارضہ قلب کے باوجود وہ گھنٹہ بھر خوب گرجے وہی للکار وہی ہمیشہ کی طرح پرجوش انداز خطابت , وہ اپنے جملوں میں عربی روایات اور انگریزی اصطلاحات کا استعمال بڑی خوبصورتی اور روانی سے کرتے تھے  ۔۔۔۔۔

مجھے یاد ہے انہوں نے کہا " میں جب یہاں آرہا تھا تو بھائی شعیب اللہ اور عبدالواحد بھائی فکر مند چہروں کے ساتھ رستے میں مجھے سمجھا رہے تھے مکی صاحب حالات خراب ہیں یہ عوامی پروگرام ہے یہاں ن لیگ اور تحریک انصاف کی کئی مقامی اہم شخصیات تشریف لا رہی ہیں "آپ ہتھ ہولا رکھئے گا" مگر انہوں نے ہمیشہ کی طرح اپنا وہی بے باک , جرات مندانہ انداز اپنائے رکھا اور انہیں سننے والے بھی تو اسی انداز کے  دیوانے تھے ۔

محترم سیف اللہ قصوری صاحب بتا رہے تھے کہ پوری جماعت میں یہ اعزاز صرف ان کے پاس تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں سب سے ذیادہ ان کے زمیل(گارڈز) شہید ہوئے۔

انہیں جاننے والے بہت سارے  دوست پورے پاکستان سے ان کے بارے میں بہت کچھ لکھ سن اور کہہ کر اپنی محبتوں کا اظہار کر رہے ہیں سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی نے کہا" وہ بڑے مجاہد آدمی تھے جاوید ہاشمی کے طلباء تحریک میں ساتھی رہے اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے میں بھی ان کا بڑا ہاتھ تھا" وہ اپنی سخت طبیعت کے باوجود ہر دلعزیز قائد تھے مقبوضہ کشمیر کی عوام نے جس طرح سے ان کے ساتھ اپنی محبتوں اور اسلامی اخوت کا اظہار کیا ہے وہ بھی خوب ہے ۔

پروفیسر حافظ عبد الرحمٰن مکی  10 دسمبر 1954 کو بہاولپور، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد، حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ معروف سلفی عالم دین  اور علی گڑھ مسلم

یونیورسٹی کے فاضل تھے۔

حافظ عبد الرحمٰن مکی نے ابتدائی تعلیم بہاولپور میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے سعودی عرب کی جامعہ ام القریٰ سے سیاسیات میں ڈگری حاصل کی۔

وہ جماعت الدعوۃ کے شعبہ سیاسی و خارجہ امور کے سربراہ اور نائب امیر کے عہدوں پر فائز رہے,2012 میں امریکا نے ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر 2 ملین ڈالر انعام کا اعلان کیا۔

مولانا امیر حمزہ صاحب حفظہ اللہ نے انکی وفات پر ایک ویڈیو کلپ جاری کیا ہے جس میں ان کی موت کی پوری تفصیل بتائی گئی ہے

" اپنی وفات کے روز وہ ہسپتال میں ایڈمٹ تھے ہائی شوگر اور دل کا مرض کافی بڑھ چکا تھا ڈرپس اور آکسیجن ماسک چڑھا ہوا تھا اچانک انہوں نے سب کچھ اتار دیا اور گھر جانے پر اصرار کرنے لگے , انہیں جاننے والے جانتے ہیں جب وہ کسی بات کا اردہ کرلیتے تو انہیں روکنا ناممکن ہوتا تھا ڈاکٹر علاج پر بضد تھے مگر وہ نہیں رکے ۔

مسلم میڈیکل مشن کے سربراہ ڈاکٹر ناصر ہمدانی حال ہی میں غزہ کا دورہ کر کے لوٹے ہیں وہ گاڑی میں ان کے ساتھ تھے "مکی صاحب ان سے بار بار کہہ رہے تھے وقت بہت کم ہے "۔

انہوں نے گھر جانے کے بجائے گاڑی جوہر ٹاؤن کی طرف موڑنے کا حکم دیا جہاں ان کے محبوب امیر , بہنوئی اور ماموں زاد بھائی محترم حافظ محمد سعید حفظہ اللہ اپنے گھر میں اسلام اور پاکستان سے بے لوث محبت کے جرم میں نظر بند ہیں ۔

حافظ صاحب نے انہیں گھر کے اندر آنے کی دعوت دی مگر ان کا جواب تھا " اتنا وقت نہیں ہے مسجد چلیں یا یہیں گاڑی میں آجائیں" ۔

قریباً پندرہ سے بیس منٹ انہوں نے اپنے امیر سے گفتگو کی وصیتیں اور نصیحتیں کیں ساتھ کلمہ توحید کا ذکر بھی کرتے رہے ۔

ان کے آخری الفاظ تھے " ہمدانی صاحب مجھے لینے والے آگئے ہیں" ۔ اس کے بعد " لا الہ الا اللہ " پڑھا ۔ ساتھیوں نے ہلا کر دیکھا تو وہ  جہان فانی چھوڑ چکے تھے ۔

حافظ عبد الرحمٰن مکی 27 دسمبر 2024 کو لاہور میں وفات پاگئے  نماز جنازہ مریدکے میں آپ کے بھانجے حافظ طلحہ سعید نے پڑھائی، اور  مرکز طیبہ کے کے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

علماء صلحاء اور شہداء کے قائد عبد الرحمن مکی نے شاندار اور بھرپور تحریکی زندگی گزاری , ساری زندگی اللہ کی توحید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی ترویج و اشاعت کا کام کیا بلاشبہ جہاں ان کی زندگی قابل رشک تھی وہیں ان کی موت بھی اہل ایمان کے یقین میں اضافے کا باعث بنی ہے ۔

اللہ کریم عبد الرحمن مکی رحمہ اللہ کو انکی احیاء دین کی کوششوں کا بہترین انعام دے , ان کی حسنات قبول کرے اور سیئات سے درگزر فرمائے ۔ آمین

************

Comments