Hadood e dilkashi by Areeba Khalid

حدودِ دلکشی

از قلم : اریبہ خالد

اُس نے صحرا میں قدم رکھے دشت کو بخت لگی ریت پہ گُل بن گیا۔ دنیا کا سب سے خطرناک کھیل قسمت کا کھیل ہوتا ہے جس میں جیتا نہیں جاتا صرف ہارا جاتا ہے ۔سب کو سب نہیں ملتا ،کچھ لوگ آپکے مقدر میں نہیں ہوتے پھر آپ جادو کریں یا دعا وہ آپکو نہیں مل سکتے ۔مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہوتا کہ آپکو کچھ بھی نہ ملے بعض اوقات سہارے بہت اہم ہوتے ہیں ، مگر کھوکھلے سہاروں کا کیا؟

کچھ لوگ مرہم کی طرح ہوتے ہیں مگر دورِ حاضر میں تو مرہم ہی زخم کریدنے کا باعث بنتی ہے تو نمک کا کیا کرنا۔

کچھ لوگ جو آپکے پسندیدہ ہوتے ہیں انکا ساتھ بہت اہم ہوتا ہے جیسے تپتی دھوپ میں صحرا میں پانی کا تالاب مگر بعض اوقات تو وہ بھی ایک سیراب ہوتا ہے۔

صندل اپنے آپ کو تکلیف دینے والے کو بھی مہکا دیتی ہے۔ ہر چیز آپکے نہیں ہوتی بعض اوقات وہ لوگ جو آپکے لیے بہت اہم ہوتے ہیں جو حرفِ دعا میں ہوتے ہیں وہ آپکے سامنے کسی کو بغیر مانگے مل جاتے ہیں مگر اس خوشبخت کو کسی دوسرے کی طلب ہوتی ہے ۔

اور پھر آپکا پھول کسی کے قدموں کی دھول بن جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ

حسن خدا نے دیا مسحور ہم ہو گئے، نصیب کسی اور کا تھا اور طلب گار ہم بن گئے۔کوئی کتنا ہی مخلص اور خوبصورت کیوں نہ ہو کسی نا کسی کا ٹھکرایا ضرور ہوتا ہے۔ بات تعلقات کی نہیں ہوتی انہیں نبھانے کی ہوتی ہے تعلق قائم کرنے میں صرف 1 منٹ کا وقت لگتا ہے مگر اسے توڑنے میں شاید وہ 1 منٹ بھی نہیں لگتا ۔

تعلق بننے سے تعلق ٹوٹنے تک کے سفر کو زندگی کہتے ہیں۔ تعلق رہے نا رہی بھرم ضرور رہنا چاہیے ۔

ہر کسی کی آنکھ میں حسن مصور نے رکھا ہے ۔

کسی کو کوئی دھول لگتا ہے تو کسی کو گلاب کا پھول۔

مصور جہاں چاہے دلکشی کی حدود کو ختم کر سکتا ہے ۔

جب کوئی پسند آتا ہے نہ تو وہ کسی بات پہ پسند نہیں آتا وہ اللّٰہ کی طرف سے آپکے دل کو عطا کردہ نعمت ہوتی ہے پھر اُس پہ دلکشی کی حدود ختم ہو جاتی ہے اُس کہ بعد کچھ نظر نہیں آتا ہے پھر اُسکے نین نقش میں دنیا دکھتی ہے اُسکی آواز سے آپ سننا سیکھتے ہیں اُسکے تکنے سے بولنا سیکھتے ہیں غرض یہ کہ انسان کا کسی کو پسند کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اللّٰہ جسکو چاہے جسکے دل کا مرضی حکمران بنا دے۔

اور پھر جس پھول پہ دلکشی کی حدود ختم ہوتی ہے اُس وہ بکھر جاتا ہے پنکھڑی پنکھڑی ہو جاتا ہے ۔

کچھ لوگ بہت خاص ہوتے ہیں جو پہلی اور آخری محبّت ہوتے ہیں جو بچپن سے بڑھاپے تک کا عشق ہوتے ہیں انکو چاہ کر بھی بھلایا نہیں جا سکتا جب ترکِ اُلفت کی دعاؤں میں دل سے زبان کا ساتھ نہ دے تو پھر دلوں کا مالک کن کیسے کہے ؟

ایسے لوگ آنکھوں میں اپنا عکس اور دماغ میں اپنا نقش چھوڑ جاتے ہیں ۔

الغرض یہ کہ حدودِ دلکشی کے بعد ہی انسان دیکھنا سیکھتا ھے بولنا سیکھتا خود کو پہچانتا ہے اپنا وقار بناتا ہے ۔

***************

Comments