Zindagi jeeny ka asan formula by RabiaArshad Manj

زندگی جینے کا آسان فارمولا

تحریر: ربیعہ ارشد منج

چارلی چیپلن کہتا ہے!" زندگی ایک اندازہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سفر ہے".

ہنسی کا ہونا انسانی زندگی کا ایک ضروری حصہ ہے ۔ دوسروں کا خوش کرنا اور خود بھی خوش رہنا یقیناً مشکل ہے  مگر یہ کام بے حد راحت کا باعث بنتا ہے۔ آج کل کے ترقی یافتہ دور میں انسان بے حد الجھنوں کا شکار ہے ۔اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اکیلا ہے۔ کیونکہ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ خوشی کے اثرات قسمت سے ہی کہیں کہیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انسان کو خوشی کسی چیز میں نہ ملی تو اس نے پیسے سے عشق کر کے اس سے خوشیاں ڈھونڈنا شروع کر لی مگر سیانے کہتے ہیں کہ پیسے سے سب آتا ہے مگر خوشی پیسے سے خریدی نہیں جا سکتی ۔ میں کہتی ہوں سیانے غلط تھے آج کے اس آرٹیفیشل دور میں جہاں انسان خود نقلی ہے ۔ اس کی سوچ حتی کہ اس کی سانسیں بھی آرٹیفیشل ہیں۔ وہ پیسے سے سب کچھ خرید سکتا ہے خوشی بھی مگر شاید سکون نہیں۔ مگر سیانے نہیں مانیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی اندازوں سے نہیں گزاری جاتی بلکہ یہ تو ایک سفر ہے جہاں اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں چڑھاؤ آئے مگر اتار کہیں نہ آئے ۔ اگر اس سوچ سے انسان خوش رہتا ہے تو کسی کو کیا مسئلہ ہے۔ اسے خوش رہنے دو۔ اس کی سوچ ہے اور کچھ نہ بھی ہو سٹریس تو دور ہو ہی جائے گا۔ ہم 2001٫2٫3..... کی پیدائش والے لوگ جتنی پریشانیاں اور فکریں ہمیں ہیں۔ شاید ہی کسی دور میں کسی کو اتنی آئی ہوں ۔ ہمارے ہی دور میں  سائنس ،ٹیکنالوجی، مشینری کی ترقی ہوئی۔ مگر ہم جیسے غریبوں کے حالات نہ بدلے نہ ہی ترقی ہو سکی۔ ہم پیدا ہوئے تو 2005 میں آیا زلزلہ آیا کہ اس کے خطرناک جھٹکے آج بھی ہمارے اندر اثر رکھتے ہیں۔ ہم نازک دل کے بچے زرا سی بھی ٹینشن کی بات سنیں تو وہی جھٹکے جو کہیں سٹور ہو چکے تھے ایسے ایکٹیو ہوتے ہیں جیسے 2019 میں کرونا کے وائرس ایکٹیو تھے۔ آئیں جی ،جی آیاں نوں ۔۔۔۔ کرونا نے میرا تو کچھ نہ بگاڑا میرے اندر کا طالب علم مار گیا ۔ اللہ اللہ کر کے یونی ورسٹی والو نے رکھا ہوا ہے۔ اور اب یوں احساس دلاتے ہیں اور ایسے طعنے دیتے ہیں۔ کہ  کرونا قدرتی آفت نہیں بلکہ ہماری ذاتی پیداوار ہے۔ اب ڈگری جو ملنی ہے وہ بھی ایسے دیں گے جیسے ایک غریب اماں نے جوش میں آ کر زکوٰۃ نکالی ہو۔ اور پورے علاقے میں ڈھنڈھورا پیٹ کر اپنے ہی جیسے غریبوں میں وہ چند روپے بانٹ دے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہماری کوئی عزت ہی نہ ہو اور نہ قدر ہو۔ یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد ہمیں فکر ہوتی ہے کہ فیوچر سیٹ کر لیں اور گھر والوں کو ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھ پیلے کر کے شادی کا لڈو کھلا کر اپنی ذمہ داری سے بری ہو جائیں۔ ویسے شادی کا بھی اپنا ہی چاہ ہوتا ہے۔ اور کچھ نہ سہی چار روز عزت تو مل ہی جاتی ہے۔ مگر اس میں بھی سنا ہے کہ جلاد کی آمد آمد ہے۔ بھئ میرے سپنے تو وڑ گئے۔ نہ جھٹکوں سے جان چھوٹیں ،نہ کرونا کے خطرناک وائرس سے اور نہ جلاد صاحب سے۔ اتنی ساری فکریں ہیں مگر پھر بھی جتنے خوش اور  مطمئن ہم لوگ ہیں شاید ہی کوئی ہو۔۔۔ ٹینشن ہو تو سوشل میڈیا پر آ جاؤ یہ نت نئی ویڈیوز ڈرامے،فلمیں، یہ نیٹ فلیکس کی دھوم ،ادھر ذی فائف کے چرچے، یہ پاکستانی سپر ہٹ ڈرامے۔ ولاگ شلاگ،اب آپ خود بتائیں روپے 500 کے بیلنس سے اگر پریشانی ،سٹریس دور ہو رہا ہے۔ تو بھئ کیا حرج ہے۔ جینے دو ناں ہمیں ۔ خوش رہنا آسان ہے اگر انسان خود چاہے تو ۔ ایک راز کی بات بتاؤں ۔ ہنسنے سے

Endorphins

نام کے کیمیکل پیدا ہوتے ہیں جو دل کے لئے بے حد مفید ہوتے ہیں۔ اب خوش رہنے کے لئے جو بن سکا کریں گے۔ دل کے دورے سے بچ جائیں گے۔ خوش رہنا بھی ایک فن ہے۔ ایک طریقہ ہے۔ جو اس فارمولے کو جان گیا سمجھو زندگی اسے نہیں وہ زندگی کو جیے گا۔ ہر انسان کی کچھ خواہشات ہوتی ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے وہ محنت کرتا ہے اچھی بات ہے محنت کرنی چائیے ۔ اور کامیابی ملنے پر جو خوشی ملتی ہے تب انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ کیسے وہ دھرتی سے پرواز کرتا امبر پر  پہنچ جاتا ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہی جو محنت تو کر لیتے ہیں مگر کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اور مایوس ہو جاتے ہیں۔ اوو بھئ سمجھو بات کو۔ ہو سکتا ہے تم اس کے لئے بنے ہی نہ ہو۔ پہلے خود کو تلاش کرو۔ کہ تم کس لیے بھیجے گئے ہو۔ تمہارا مقصد کیا ہے۔ منہ کا ذائقہ نہاری والا ہو اور بندہ ٹینڈے کھائے اور وہ بھی بغیر رائتے کے کہ شاید یہی میری قسمت ہے۔ تو بھائی اس کا مطلب ہے کہ تمہیں معلوم ہی نہیں کہ تمہاری چیزیں کیسے بے چینی سے تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔ ٹینڈے کھا کر ہو سکتا ہے۔ کہ تم ظاہری طور پر خوش ہو جاؤ ۔ مگر یہ ظاہری خوشی باطن کو کیسے مطمئن کرے گی سوچو اس کے بارے میں۔ اور وہ راستہ ڈھونڈو اپنے لیے جو تمہارا ہے۔ آسانی پیدا کرو اپنے لئے آگے ہی تم جھٹکوں اور کرونا کی پیداوار ہو۔ خوش ہو جاؤ اور کھل کے ہنسو۔ پھر دیکھو تمہارے اندر کے معاملات کیسے درست ہوتے ہیں۔ یہ مسکراہٹ ہی ہے ۔ جب تم ایک بڑے میدان میں اپنی فل پاور کے ساتھ کھیل رہے ہو۔ مگر ہار جانے کا خدشہ ہے۔ اور سامنے والا بھی تمہاری ہار کا منتظر ہے۔تمہاری اس کے لئے ایک زبردست مسکراہٹ اسے فکر میں ڈال کر شکست دے دے گی اور تم جیت جاؤ گے انعام نہیں۔ بلکہ وہ اعتماد، خود کی پاور، اور خود پر بھروسہ۔ جو تمہیں خود پر ہونا چاہیے کہ تم ہار کر بھی جیتے ہو۔ تمہاری تسکین بھری ایک مسکراہٹ تمہاری روح کو راحت بخشے گی اور پھر تم دیکھنا جب تک تم خود سے نہیں ہارو گے کوئی تمہیں ہرا نہیں سکے گا چاہے تم دنیا کے جس مرضی مقام پر ہو یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔ تو زندگی گزارنے کا آسان فارمولا یہی ہے کہ خوش رہو۔ اب وہ خوشی تمہیں خود تلاش کرنی ہے چاہے کسی کی مدد کر کے،چاہے جیت کر ،چاہے محنت سے یا پھر 500 کے بیلنس سے۔ یا پھر خود کو تسلی دے کر بس خوش رہو اور خوشیاں بانٹو ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Comments

Post a Comment