”صِنف:
مکالمہ“
”عنوان:
شخصیتِ اقبال“
”مکالمہ نویس: محمد عثمان“
(علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے یومِ وفات پر باپ بیٹے کے درمیان مکالمہ)
باپ:
کیا بات ہے بھئی کن سوچوں میں گم ہو؟
بیٹا:
(سانس اندر کی جانب کھینچ کر چھوڑتے ہوئے) کچھ نہیں ہم تو بس ”اقبال شناسی“ کر رہے
تھے!
باپ:
اقبال شناسی! ویسے یہ ہر کسی کا کام تو نہیں!
بیٹا:
لیں جی اس میں کیا مشکل ہے؟ ہم تو کافی کچھ جانتے ہیں اقبال کے متعلق!
باپ:
پھر ہمیں بھی آگاہ کیجیے! آپ کیا جانتے ہیں ان کے متعلق؟
بیٹا:
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں ”شیخ نور محمد“ کے گھر پیدا
ہوئے۔ آپ کا نام محمد اقبال رکھا گیا۔ آپ نے میٹرک، ایف_اے، بی_اے اور ایم_اے کے امتحانات
امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور وکالت
کی ڈگری حاصل کی۔ واپس آ کر کچھ عرصے وکالت بھی کرتے رہے اور شاعری بھی شروع کر دی۔
آپ کو ”مصورِ پاکستان اور مفکرِ اسلام“ بھی کہا جاتا ہے۔ آپ قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں
میں سے تھے۔ اور ان کے جلسوں میں بھی جاتے تھے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو
”غفلت کی نیند “ سے بیدار کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ آپ نے جس پاکستان کا خواب دیکھا
تھا اسے پورا ہوتا ہوا نا دیکھ سکے اور 21 اپریل 1938ء یعنی آج ہی کے دن آج سے 86 سال
پہلے وفات پائی۔ لاہور میں آپ کا مزار ہے۔
(جیسے ہی بیٹا خاموش ہوا باپ جو اب بیٹے کے چہرے پر نظریں گاڑے ہوا
تھا ٹھنڈا سانس خارج کرنے کے بعد بولا۔۔۔)
باپ:
تو یہی ہے آپ کی اقبال شناسی؟ (انداز میں طنز)
بیٹا:
جی ہم نے یہی پڑھا ہے اور نصاب میں بھی اتنا ہی بتایا جاتا ہے۔
باپ:
یہی تو المیہ ہے بیٹا کہ! ہمیں اتنا ہی بتایا جاتا ہے(لہجے میں افسردگی لیے) کیوں کہ
یہ لوگ جو انگریز کی ”روحانی اولاد“ ہم پر مسلط ہیں جانتے ہیں کہ اگر اس قوم کو اقبال
کے متعلق بتایا یا پڑھایا گیا تو پھر ان کے ذہن غلامی سے آزاد ہو جائیں گے اور وہ دن
ہمارا آخری دن ہو گا۔!
بیٹا:
اباجی! کیا اتنی طاقت ور شخصیت ہیں اقبال؟
(چہرے پر واضح حیرانی)
باپ:
جی بیٹا! علامہ رحمۃ اللہ علیہ ایسی ہی جاندار شخصیت ہیں۔۔۔ جنھوں نے اقبال رحمۃ اللہ
علیہ کو پڑھا ہے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے انھوں نے ان کے متعلق کیا خوب کہا ہے۔۔
”اقبال کو دونوں قومیں ہی نہیں سمجھ سکیں ایک مسلم اور دوسری غیر مسلم؛ کیوں کہ! اگر
غیر مسلم اقبال کو سمجھ جاتے تو پھر اقبال کبھی بھی ”بسترِ مرگ پر نہ مرتے۔(انھیں یا
تو جلا دیا جاتا یا سولی پر لٹکا دیا جاتا) اور اگر مسلمان سمجھ جاتے تو آج دنیا بھر
میں ”ذلیل و رسواء نہ ہوتے۔(دنیا بھر میں ان کی عظمت و شان کا ڈنکا بجتا“)
بیٹا:
تو پھر، آپ ہمیں علامہ اقبال کی شخصیت کے متعلق بتائیں!
باپ:
چلو پہلے تم بتاؤ کہ شناسائی کسے کہتے ہیں؟
بیٹا:
جاننے کو۔۔۔ (مختصر جواب)
باپ:
ٹھیک۔۔۔ اور یہ جو آپ نے کہا اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے تو آپ کو معلوم ہے
وہ اعلیٰ تعلیم کیا تھی؟ جس کے حصول کے لیے اقبال کو انگلستان جانا پڑا۔!
بیٹا:
انھوں نے وہاں وکالت کی ڈگری حاصل کی تھی اور انگریزی۔۔۔ (بات کاٹ دی گئی)
باپ:
اونہوں! انگریزی تو وہ ہندوستان میں ہی پڑھ چکے تھے بل کہ بطورِ استاذ انگریزی پڑھاتے
بھی رہے تو پھر انگریزی کیسے۔۔۔؟
بیٹا:
تو پھر وکالت کی ڈگری تو حاصل کی ہی وہ بھی تو اعلیٰ تعلیم ہی ہوئی۔؟
باپ:
بیٹا دیکھو! اعلیٰ کہتے ہیں اونچے کو، بلند کو تو اعلیٰ تعلیم سے مراد ہوئی اونچی،بڑی،بلند
تعلیم تو اب بتائیں اعلیٰ تعلیم کیا ہے دنیا میں؟
بیٹا:
وہ تو دینی تعلیم اور ”علومِ قرآن“ ہی ہیں؟ (حیرت سے منہ کھلا رہ گیا) یعنی انگلستان
کا سفر اعلیٰ تعلیم کے لیے نہیں تھا؟ (بڑبڑاہٹ ہلکی بڑبڑاہٹ)
باپ:
بیٹا! اعلیٰ تعلیم (قرآن پاک، عربی، فارسی وغیرہ) تو انھوں نے بچپن میں ہی حاصل کر
لی تھی۔ اور انھوں نے اپنی زندگی میں صرف انگلستان کا ہی سفر نہیں کیا بل کہ کئی اور
ممالک کا بھی سفر کیا ہے۔
بیٹا:
وہ کون سے ممالک تھے، جن کا سفر اقبال نے کیا؟
باپ:
بیٹا! ہم آپ کو اقبال کے متعلق شروع سے کچھ بتاتے ہیں... ”علامہ صاحب اصل میں کشمیریُٔ
النسل ہیں۔ آپ کا خاندان ایک برہمن سپرو (سیفرو) خاندان تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے جدِبزرگ
”بابا لول حج یا لولی حاجی پندرھویں صدی عیسوی میں ”شیخ العالم نورالدین ولی رِشی کے
خلیفہ اور کشمیر کے مشہور صوفی بزرگ بابا نصرالدین رِشی کے مرید ہوئے اور اسلام قبول
کیا۔“
بیٹا:
یہ لول حج کا کیا مطلب؟
باپ:
بیٹا یہ ان کا لقب تھا(نام معلوم نہیں ہو سکا) جس کا معنی ہے ’حج کا عاشق‘ چوں کہ انھوں
نے 12 حج پاپیادہ کیے تھے اس لیے ان کا یہی لقب پڑا اور اسی سے مشہور ہوئے۔
بیٹا:
تو پھر یہ خاندان سیالکوٹ میں کیسے آیا؟
باپ:
سیالکوٹ (پرانا نام شاکل اور بعد میں شالکوٹ) میں ڈاکٹر صاحب کے دادا ”شیخ رفیق محمد“
عرف شیخ رفیقا ہجرت کر کے آئے اور یہاں کشمیری لوئی اور دھسوں وغیرہ کی تجارت شروع
کی اور یہیں ایک مکان (موجودہ اقبال منزل) لے کر رہنے لگے۔اور بازار چوڑیگراں (اقبال
بازار) میں خرید و فرخت شروع کی۔ یہیں اقبال کے والد شیخ نور محمد اور ان کے چچا شیخ
غلام محمد پیدا ہوئے۔ یہیں پر اقبال کی پیدائش ہوئی۔
بیٹا:
علامہ صاحب کے ”جدِ اعلیٰ“ ایک صوفی کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تو کیا یہ خاندان شروع
سے ہی علم دوست رہا ہے؟
باپ:
جی بیٹا بل کہ جو بزرگ مسلمان ہوئے وہ بھی اپنے مطالعے اور مشاہدے کی بنیاد پر ہی مسلمان
ہوئے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے پردادوں میں سے ایک صاحب تو ایک اللہ والے کے گدی نشین
بھی ہوئے ہیں جن کا ذکر خود اقبال کی تحریروں میں بھی ملتا ہے۔ ان کے والد شیخ نور
محمد کے پاس لوگ تصوّف کی کتب میں موجود مشکل الفاظ اور رموز کے حل کے لیے آتے تھے۔
بیٹا:
اب ہمیں پتا چلا اقبال کی شخصیت اتنی نکھری ہوئی کیوں تھی؟
باپ:
میرے بیٹے! اقبال کی شخصیت سازی میں ان کے والدین کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ اور بالخصوص
”مولوی سید میر حسن“ (جن کے متعلق خود علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ان کی زندہ تصنیف
میں ہوں) کا بڑا ہاتھ ہے۔ جنھوں نے اقبال کو صرف دینی تعلیم تک ہی محدود نہیں رکھا۔
بل کہ عصری تعلیم بھی دی اور مطالعے کی عادت بھی ڈالی۔ مولوی میر حسن خود بھی ایک منجھے
ہوئے انسان تھے اور انھوں نے اقبال کی تربیت بھی ایسے ہی کی۔
بیٹا:
تو پھر اقبال نے شاعری بھی انھیں سے سیکھی؟
باپ:
مولوی میر حسن صاحب کو اس زمانے کے کلام ازبر تھے اور خود بھی ذوق رکھتے تھے۔ اُردو
یا فارسی کے کسی شعر کی تشریح کرتے تو ”دسیوں مترادف اشعار“ کہہ ڈالتے۔ اقبال بچپن
سے ہی شعر کہتے تھے مگر نہ کبھی کسی کو سنایا نہ ہی لکھا۔ بس کاغذ پر لکھتے اور پھاڑ
ڈالتے۔
بیٹا:تو
پھر انھوں نے شاعری کب شروع کی؟
باپ:جب
وہ لاہور آئے اور ”بازار حکیماں“ میں منعقد مشاعروں میں شرکت کی۔ اور 1895ء میں باقاعدہ
اُردو شاعری کی تو ان کا چرچا ہوا۔
باپ:
اب آپ مجھے بتائیں آپ اقبال شناسی کر رہے تھے تو ان کی شاعری کس زبان میں ہے؟ ان کی
تصنیفات اور ان کے کلام کی جامع خوبیاں کیا ہیں؟
بیٹا:کافی
دیر سوچنے کے بعد شرم سے گردن جھکائے ”نہیں معلوم“ ہی کہہ سکا۔
باپ:
بیٹا! کہا تھا نا کہ اقبال شناسی ہر کسی کا کام نہیں.! میرے بیٹے!
”انھوں نے اپنی شاعری کا آغاز پنجابی زبان سے ہی کیا تھا۔ لیکن بعد
میں مولوی میر حسن صاحب کے کہنے پر اُردو میں کہنا شروع کیا اور فارسی میں بھی۔ ان
کے کلام میں الفاظ کے ”حسنِ انتخاب، روانی و برجستگی کے ساتھ ساتھ جدید طرز پر تنقید
بھی ملتی ہے۔ جہاں ان کی شاعری میں کلاسیکیت ہے وہیں رومانیت بھی موجود ہے۔ ان کی شاعری
رمز اور لب و لہجے کی شائستگی میں بھی بے مثل ہے۔ ان کی شاعری میں ”قافیہ و ردیف کے
حسنِ انتظام کے ساتھ ساتھ تلمیحات، استعارہ، تشبیہات، تضمینات کا مجموعہ بھی ملتا ہے۔“
الغرض یہ کہ ان کے کلام میں ادب، تہذیب و ثقافت، معاشرت، قرآن پاک اور احادیث کے مطالب
و مفاہیم اور تصوّف کو ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے اور یہی خوبیاں ان کو
دوسرے شعراء سے ممتاز کرتی ہیں۔
باپ:
اب بتاؤ ان کی شاعری سے ہمیں کیا درس ملتا ہے؟
بیٹا:
ہمیں اتنا ہی معلوم ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کی ذریعے ”امتِ مسلمہ“ کو جگانے کی کوشش
کی ہے۔ (ایک بار پھر شرمندگی۔۔۔)
باپ:
بیٹا سنو! ان کی شاعری سے ہمیں؛ ”توحید و واحدانیت، عشقِ رسالت، عقیدہ ختمِ نبوت، اخوت
و محبت، ایثار و قربانی، ہمدردی، بھائی چارے، احساسِ انسانیت، دردِ دل، علم و عمل،
فضل و کمال، جہاد و شہادت، قوت و توانائی کے مناسب استعمال، تفکر و تدبر، منقولات و
معقولات کے ساتھ ساتھ گم گشتہ ماضی کی راہوں پر چلنے، اپنی حیثیت و اہمیت منوانے، خودی،
اسرار خودی، رموزِ بے خودی جیسے گہرے اور عمیق دروس ملتے ہیں۔“
باپ:
جی تو اقبال شناس صاحب! اقبال کی تصنیفات کون کون سی ہیں؟
بیٹا:
بچے کی دعا، پہاڑ اور گلہری۔۔۔ (بات کاٹ دی گئی)
باپ:
یہ تو ان کی نظمیں ہیں تصنیفات تو نہیں! ان کی کتابوں کے نام بتائیے!
بیٹا:
ان کی کتابوں میں بالِ جبریل، بانگِ۔۔۔ بانگِ۔۔۔۔ د ۔۔ددد بانگِ درا۔۔۔ بس ہمیں اتنا
ہی معلوم ہے۔(مگر شرمندگی ایک بار پھر چہرے پر عیاں)
باپ:
بیٹا ان کی تصنیفات اُردو، انگریزی اور فارسی زبان میں ہیں۔ جن کے نام یہ ہیں؛ ”بانگِ
درا، بالِ جبریل، علمُ الاقتصاد، فلسفہ ایران، اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، پیام مشرق،
زبور عجم، ضربِ کلیم، مسافر، ارمغانِ حجاز، پس چہ باید کرد اے اقوامِ مشرق، منطق الطیر،
اُردو رامائن، فراموش شدہ پیغمبر کی کتاب، قرآن پاک پر ایک کتاب، اسلامی اصول فقہ کی
تجدید، تاریخ تصوّف، اسلام میرے نقطہ نظر سے۔۔۔“ (ان میں سے بعض ایسی بھی ہیں جو مکمل
نہ ہو سکیں)
بیٹا:
اب ہمیں ان کے سفروں کے متعلق بتائیے... آپ نے کہا تھا وہ صرف انگلستان نہیں گئے!
باپ:
انھوں نے اپنی زندگی میں جن ملکوں کے سفر کیے ان میں یورپ کے کئی ممالک ہیں(انگلستان،جرمنی،اٹلی،فرانس
وغیرہ) اور بیٹا! انھوں نے یورپ کا کئی بار سفر کیا ہے۔(مختلف مقاصد کے پیشِ نظر) اس
کے علاوہ انھوں نے اسپین، ایران، افغانستان وغیرہ ممالک کی سیر و سیاحت بھی کی ہے۔
بیٹا:
ان کی شخصیت کے متعلق جامع طور پر بتائیے!
باپ:
وہ توحید، نبوت و رسالت، ختم نبوت، معجزات، تقدیر، یوم آخرت پر کامل ایمان رکھتے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ اعمال و عبادات کے حد درجہ تک پابند تھے۔ قرآن پاک سے خصوصی لگاؤ تھا۔
نماز روزے اور تہجد کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ شب انگیزی بڑی مقبول تھی۔ حج کی ایسی تڑپ
کہ مرتے وقت یہی غم تھا۔ ہزار کوششوں کے باوجود سفر نہ کر سکے۔
بیٹا:
تو کیا ان کی عادات بھی عام انسانوں جیسی تھیں؟
باپ:
نہیں! بالکل بھی نہیں! وہ عام انسانوں سے بالکل ہٹ کر تھے۔ ان کا لباس سادہ، وضع قطع
عام سی، عادتیں درویشوں اور قلندروں جیسی تھیں۔ سخاوت بھی کرتے اور دل کے فیاض بھی
تھے۔ ریا کاری سے دور۔۔۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ملا تھے مگر ملائیت اختیار نہ کی، وہ
صوفی تھے مگر پیر نہ بنے، وہ فلسفی تھے مگر ان میں فلسفیانہ رنگ نظر نہیں آتا تھا، وہ مجاھد تھے مگر
اعلان گفتار کے غازی ہونے کا کرتے رہے، وہ عالم بھی تھے، عارف بھی تھے، وہ باعمل تھے
مگر خود کو چھپائے رکھا۔۔۔ خلیفہ عبد الحکیم صاحب کی سطروں کا مفہوم یہ ہے کہ.!
”وہ رند بھی تھے وہ مذہبی بھی تھے وہ سب کچھ تھے مگر ان صفات کا اطلاق
ان پر پوری طرح نہیں ہو سکتا۔۔۔“
بیٹا:
اباجی آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت سے کافی حد تک
شناسائی کروائی ہے۔ اب سے ہم ان کی کتابوں، ان کی شاعری اور تعلیمات کو سیکھنے کی کوشش
کریں گے اور انھوں نے جو ہمیں پیغام دیا ہے وہ سمجھ کر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔
باپ:
ان شاءاللہ تعالیٰ آپ ضرور ایسا کریں گے۔
بیٹا:ان
شاءاللہ۔
عمل
سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ
خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
*************
تمام شُد
Comments
Post a Comment