سلسلہ
وار کالم
حبک فلسطین
از ایمان زارا
”ماؤں نے تو انھیں آزاد جنا تم نے انھیں غلام کیسے بنا لیا؟“
(حضرت عمر بن خطاب)
اسرائیل
اور امریکا نے ہمیں غلام کیسے بنا لیا؟
ہم
اپنے وطن میں رہتے ہوئے آزاد نہیں ہیں؟
ہم
مسلمان ہوتے ہوئے بھی مسلمان کی تکلیف نہیں سمجھ سکتے؟
ہم
اللہ سے مال حاصل کرکہ اللہ کی راہ میں ہی نہیں دے سکتے؟
ہم
آزاد ملک میں رہتے ہوئے بھی فلسطین کا نام لینے سے کیوں ڈرتے ہیں؟
ہم
دنیا میں اپنی دنیاوی زندگی میں سکون پانے آئے تھے؟
ہم
آرام کے لیے آئے تھے؟
ہم
جانتے ہیں ہم سب نے مر جانا ہے۔پھر آج ناحق قتل ہونے والے مسلمانوں کے لیے کیوں نہیں
بول رہے ہم؟
کیا
ہماری نمازیں کافی ہیں ہمیں جنت میں لے جانے کے لیے؟
کیا
اللہ ہمیں ان ننھے معصوم فلسطینی بچوں کے سامنے، جن کو قتل ہوتے دیکھ کر ہم یہ کہتے
تھے کہ ہم کر ہی کیا سکتے ہیں جنت میں بھیج دے گا؟
کیا
ہم روزِ قیامت اپنے نبی کو منہ دکھا سکتے ہیں؟
ہم
سب جانتے بوجھتے بھی خاموش کیوں ہیں؟
کیونکہ
ہم قید میں ہیں۔
اپنے
نفس کی قید میں۔
فلسطین
کے لیے بولنا مشکل کام ہے؟ کیا یہ اس کام سے زیادہ مشکل ہے جو فلسطینی کرتے ہیں؟
کیا
آپ اپنے چھوٹے بچوں کو کرتا دیکھ سکتے ہیں؟
کیا
آپ اپنی اس بہن کو جو پردہ کرتی ہے کافروں کے سامنے بے پردہ دیکھ سکتے ہیں؟
کیا
آپ اپنے ماں باپ کو روتا دیکھ سکتے ہیں؟
کیا
آپ اپنے باپ کو اپنے بھائی کی لاش اٹھائے روتا دیکھ کر یہ کہ سکتے ہیں کہ میں کر ہی
کیا سکتا ہوں؟
آپ
مسلمان نہیں ہیں؟
مسلمان
تو وہ ہے جو اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
تو
کیا آپ کو قبول ہے ایسی زندگی جیسی اہل فلسطین گزار رہے ہیں؟
نہیں۔۔
ہرگز نہیں۔۔
فلسطین
کے لیے بولیں۔
فلسطین
کو ڈونیٹ کریں۔
اسرائیلی
مصنوعات کا بائکاٹ کریں۔
فلسطین
کے لیے دعا کریں۔
فلسطین
کے لیے لکھیں،پڑھیں،بولیں،سنیں۔
تاکہ
آپ خود کو مسلمان کہ سکیں۔
فخر
سے سر اٹھا کر کہیں یہ حبک فلسطین
مجھے
فلسطین سے پیار ہے۔
آپ
کو اللہ نے تکلیف اٹھانے والوں میں نہیں چنا آپ کو اللہ نے تکلیف میں موجود لوگوں کی
مدد کرنے کے لیے چنا ہے!
فلسطین
ہمارے لیے کیا ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
( جاری ہے)
Comments
Post a Comment