**بےرحم زندگی **
تحریر نگار اقراءرشیدعارفوالا.
زندگی اکثر مقامات پر مجھے بے رحم لگی۔نوکری کے حصول
کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر دھکتے ہوئے میں نے زندگی کے وہ اسباق سیکھے جو تعلیمی
میدان میں ہائی گریڈز کے بعد بھی مجھے سمجھ نہیں آئے تھے۔
نوکری
کے حصول کے لیے دھکے کھاتا ہوا نوجوان مجھے اس معاشرے کا سب سے مظلوم انسان لگا۔ وہ
نوجوان جس کے مڈل کلاس والدین اپنا سارا اثاثہ
اور جمع پونجی اپنی اولاد کی تعلیم پر لگا دیتے ہیں۔
ہم
مڈل کلاس گھروں میں ہمارے ماں باپ بچوں کو اعلی تعلیم دلوانے کے لیے خود پر دو وقت
کی روٹی کمانے کے بوجھ کے ساتھ ساتھ اولاد کی تعلیم کے لیے قرض کا بوجھ بھی اٹھاتے
ہیں اور کسی گھر میں ماں اپنی اولاد کو یونیورسٹی میں بھیجنے کے لیے اپنی ماں کی آخری
نشانی یعنی اپنا زیور تک بیچ دیتی ہے ۔
ہمارے
مڈل کلاس والدین کے خواب بہت چھوٹے ہوتے ہیں کہ ان کی اولاد پڑھ لکھ کر ان کے مقدر
کا ستارہ چمکا دے گی۔اور وہ باپ اس لئے اپنی دوائیاں نہیں خریدتا کیوں کہ اسے اپنے
بچوں کی اکیڈمی کی ، کالج کی فیس دینی ہے۔ کسی بچے کے ہوسٹل کے ڈیوز کی آخری تاریخ
قریب ہے تو دوسرے بچے کی سمیسٹر کی فیس ادا کرنی ہے۔
مجھے
واقعی اب ان ماں باپ کے دکھ کا اندازہ ہونے لگا ہے جو صرف اولاد کی تعلیم کے لیے اپنا
طرز زندگی بدل لیتے ہیں۔ مہنگے کپڑے پہنتے والا باپ ایک سستہ سوٹ خریدنے کو ترجیح دینے لگتا ہے تاکہ اس کی اولاد
کے تعلیمی اخراجات کی بروقت ادائیگی ہوسکے۔
روزگار
کے حصول کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر دھکتے ہوئے مجھے سب سے زیادہ بھاری ان ڈگریوں
کا پلندہ لگا جن پر ہمارے ماں باپ نے ہمارے اچھے کل کے لیے اپنے آج کا سکون برباد کیا
ہوتا ہے صرف اس امید پر کہ کم از کم ہماری اولاد خود کے ہی قابل ہوجائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment