Sakoon Article by Hafiza Tehreem Shahzadi

سکون

ماہ رمضان میں روزے کی حالت میں شدید بخار اور سر درد سے نڈھال جسم کے ساتھ بستر پر لیٹے چھت پر نظریں ٹکائے خود کو بہت بے بس محسوس کرتے فتیحہ فاطمہ کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت میں گرتے اس کے  رخساروں کو تر کر رہے تھے باقاعدہ سسکیوں سے روتے ہوئے اس صورتِ حال میں اس کی  زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے

1: یا اللہ تو اپنی رحمت سے مجھے معاف کردے

2: یا اللہ تو اپنی رحمت سے مجھے سکون عطا فرما

یہ دو جملے اس نے نیم بے ہوشی کی حالت میں نا جانے کتنی دفعہ بولے اسے کا انداذہ نہیں ہوا لیکن متواتر اس کی  زبان پے جاری تھے پھر روزہ افطار کرنے کے بعد اس نے دوا لی اور خود کو پر سکون محسوس کرتے ہوئے نیند کی وادیوں میں اتر گئی

جب اس کی آنکھ کھلی تو زبان سے یکلخت الحمدللہ نکلا  اس نے خود کو بالکل تندرست اور پر سکون محسوس کیا ۔ جیسے ہی لفظ سکون  دوبارہ ذہن میں آیا وہی سارا منظر آنکھوں میں گھومنے لگا کے کیسے میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہوئے اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ سے سکون مانگ رہی تھی ۔ اچانک زہن میں لفظ*سکون*آیا تو یہ سوچنے لگ گئی کے سکون لفظ سے کیا مراد ہے ؟ اس کا معنی کیا ہے؟ پھر میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے لگ گئی ۔

لفظ سکون کا لغوی معنی:-

آرام،اطمینان،قرار، چین،ٹھراو، قیام ، جمادوغیرہ ہے

اس کا اصطلاحی معنی:-

دنیاومافہیا کے خیالات سے بالکل ہٹ کر یادِ الٰہی میں محو ہو جانے کی کیفیت

جب مجھے اس لفظ کے پیچھے چھپی خوبصورت کہانی کا پتا چلا کے میں نے رب سے کیا مانگا ہے تو میرا دل شکر الہیٰ سے سرشارہو گیا

 اور اگر بات کی جائے موجودہ دور کی توموجودہ دور میں ہر شخص سکون کی تلاش میں ہے اور ہر شخص کے لئے سکون کا زریعہ مختلف ہے کچھ لوگوں کو اپنے پسندیدہ لوگوں کے ساتھ گفتگو کر کے ان کے ساتھ وقت گزار کے سکون ملتا ہے، کچھ لوگوں کو اپنے من پسند سونگز سن کر سکون ملتا ہے، کچھ لوگوں کو تنہائی سے سکون ملتا ہے، کچھ لوگوں کو آؤٹنگز سے سکون ملتا ہے ، کچھ لوگوں کو ماں باپ کے پاس بیٹھ کر ان سے میٹھی میٹھی باتیں کر کے سکون ملتا ہے ، کچھ لوگوں کو قدرت کے حسین مناظر دیکھ کر ان پر غوروفکر کر کے سکون ملتا ہے ، کچھ لوگوں کو رب کے حضور سجدہ کرنے سے سکون ملتا ہے اس کے ذکرو شکر سے سکون ملتا ہے اور خوش قسمت تو وہ لوگ ہیں جن کو سکون اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ کے ذکر سے ملتا ہے ۔

اور کیا ہی بات ہے  ان خوش نصیبوں کی جن کو سکون ذکرِ الٰہی سے ملتا ہے ، اور وہ لوگ کتنے لاڈلے ہوں گے جن کا ذکر اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم پر نازل ہونے والی کتاب میں کیا ہے:-

ارشادِ باری تعالیٰ ہے

الا بذکر اللہ و تطمئن القلوب

ترجمہ:-

"بے شک دلوں کا سکون اللّٰہ سبحانہ وتعالی کے ذکر میں ہے"

 

اوپر بیان کیے گئے باقی تمام ذرائع مجھے کھوکھلے لگتے ہیں کیونکہ کے یہ عارضی سکون کے زرائع ہیں کیونکہ مستقل سکون تو یادِ الٰہی میں ہے ذکرِ الٰہی سے ہی اللّٰہ سبحانہ وتعالی اور انسان کا تعلق مضبوط ہوتا ہے اور پر سکون زندگی کے حصول کا ذریعہ بن جاتا ہے

پھر ذہن اس سوال پے اٹک گیا کے ذکر الٰہی اور پر سکون زندگی ؟ پھر اس کا جواب تلاش کرتے کرتے میں اس نتیجے پر پہنچی کے اللّٰہ کا ذکر وہ واحد سہارا ہے جس سے انسان کی زندگی خوشگوار اور پر سکون ہو جاتی ہے ۔ اس لیے کے انسانی نفسیات ہے کہ جس سے وہ محبت کرتا ہے ہر دم اس کا خیال اسے تروتازہ اور خوشگوار رکھتا ہے ۔ اپنے محبوب کی یاد ہونٹوں پر مسکراہٹ اور دلی سکون کا باعث بنتی ہے ۔ اسی طرح جب انسان ہر دم اللّٰہ سبحانہ وتعالی کا ذکر کرتا رہے گا تو اس کا اللّٰہ سبحانہ وتعالی سے رابطہ بڑھتا رہے گا جتنا رابطہ بڑھے گا اتنی ہی اس کی زندگی خوش حال اور پر سکون ہوتی جائے گی۔ یادِ الٰہی کے بغیر انسان کی زندگی پژمردگی( کملایا ہوا، مرجھایا ہوا ، افسردہ یا رنجیدہ) کا شکار رہے گی بظاہر تو وہ شخص چلتا پھرتا دکھائی دیتا ہے لیکن اس کی زندگی بے رونق ہوتی ہے ۔ اس سے متعلق صحیح بخاری کی حدیث ہے

اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہی اور جو نہیں کرتا ہے زندہ اور مردہ کی سی ہے

اس سے یہ واضح ہوتا ہے کے ذکر الٰہی روح کی غذا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے ذکر الٰہی کے زرائع کون کون سے ہیں ؟

جواب:- ذکر الٰہی کے  مختلف زرائع درج ذیل ہیں ۔

زبانی ذکر، عملی ذکر، قلبی ذکر

وضاحت:-

 

1: زبانی ذکر

زبانی ذکر میں مختلف اذکار، عمومی دعائیں ، خصوصی دعائیں ، تلاوتِ قرآن پاک ، تسبیحات ، اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرنا وغیرہ

2: عملی ذکر

عملی ذکر میں نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج اور دیگر شرعی احکامات شامل ہیں

نماز کے باری میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

(سورہ طہ: 14)

واقم الصلوتہ لذکری

ترجمہ:- اور میرے ذکر کے لیے نماز ادا کرو

3: قلبی ذکر

اس سے مراد اللّٰہ سبحانہ وتعالی کی نعمتوں کا ذکر کرنا، اس کی عظمت بیان کرنا، کبریائی بیان کرنا، کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت کی نشانیوں پر غوروفکر کرنا وغیرہ ۔

اور جو زبان اور دل کو ذکرِ الٰہی سے تر رکھتے ہیں وہ دنیاوآخرت میں فلاح پا جاتے ہیں

ارشادِ باری تعالیٰ ہے

وَاذْكُرُوا اللّـٰهَ كَثِيْـرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (سورہ انفال: 45)

ترجمہ: اور میرا ذکر کثرت سے کرو تاکہ تم فلاح پاسکو

 

(حافظہ تحریم شہزادی)

**********

Comments