"نادان حسینہ"
از قلم:اریبہ خالد
بلوغت
کی عمر وہ عمر ہوتی ہے جب انسان کو اپنا وجود کسی تراشیدہ مجسمے سے کم نہیں لگتا ہے۔
خاص کر لڑکی اس عمر میں خود کو آسمان سے اُتری ہوئی حور سمجھتی ہیں۔ اور اسی عمر میں
وہ کہلاتی ہیں "نادان حسینہ" جو اپنی نادانی کو اپنی بربادی کا سبب بنا لیتی
ہے۔ وہ اپنی کچی عمر میں اردگر کی دنیا کو دیکھ کر تنہائیوں سے گبھرا کر منافق پیار
پیچھے خود کو ترازو میں تول دیتی ہیں اور خود ہی اپنا گھیرا تنگ کرتے ہوئے خود کو مایا
جال میں محصور کر کے کٹھ
پتلی بن جاتی ہے۔ اپنی کچی عمر کے فلسفے کے ہاتھوں مجبور
ہوکر وہ ناموس کا سودا کردیتی ہیں۔ اگر ہم
ریڈلائٹ ایریا کی بات کریں تو وہاں پر صرف 5 فیصد لڑکیاں اپنی مرضی سے بھوک اور غربت
کے ہاتھوں مجبور ہوکر آتی ہیں ۔ 5 فیصد سازش کے تحت آتی ہیں باقی 90 فیصد دھوکے سے
اور ادھوری محبت کے ہاتھوں رسوا ہوکر یہاں بیچی جاتی ہیں۔ لیکن اس میں قصور بھی صرف
انکا اپنا ہی ہوتا ہے۔ آجکل کے دور کے لڑکے اپنے اپنے دل کے دربار کی تفریح کے لیے
نادان لڑکیوں کو پھانستے ہیں اور یہ نادان لڑکیاں کسی کو بھی اپنا ہمدرد سمجھتے ہوئے
اس کے جھانسے میں آجاتی ہیں۔ پھر اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے چلتے پھرتے ایک مدھم مسکراہٹ
انکے ہونٹوں کا حصار کیے ہوتی ہے کہ وہ کسی کی زندگی میں بہار کا مقام رکھتی ہیں۔ اور
انھی باتوں سے وہ نامحرم اسے ٹریپ کرکے اسکے دماغ پر قفل لگانا شروع کر دیتا ہے۔ ایسے
میں ضمیر لاکھ مرتبہ جھنجھوڑتا ہے مگر اندھی محبت کی پٹی اور کچی عمر کا ذہن اس ضمیر
کی آواز کو دھکا مار کے کہیں دور پھینک دیتا ہے۔ پھر وقت آتا ہے جب دل پر مہر لگ جاتی
ہے۔ رات گئے ماں باپ کا اعتبار روندتے ہوئے دو نامحرم خود کو ایک دوسرے سے منسوب کر
رہے ہوتے ہیں۔ انھی نامحرم مردوں کی باتوں میں آ کر نادان حسینہ اپنے بیس بائیس دنوں
کے پیار کے پیچھے اپنے ماں باپ کا بیس بائیس سالہ پیار جھٹلا کر رات گئے اپنی حفاظت
کا حصار توڑ دیتی ہیں اور پھر کسی بند کمرے کی چار دیواری میں انکی چیپ محبت اپنی آخری
ہچکی لے رہی ہوتی ہے۔ اور اس انمول اور نام نہاد محبت کے تحفوں سے ایدھی سنٹر اور یتیم
خانے بھر جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 20 لاکھ بچوں کے والدین کے خانوں
میں عبد الستار ایدھی یا بلقیس ایدھی کا نام پایا جاتا ہے۔ اور پھر بعض اوقات محبت
کی انتہا دکھاتے ہوئے ان حسیناؤں کو ایسی جگہوں بیچ دیا جاتا ہے جہاں پر ان کو معاشرے
کے بھیڑیوں کے لیے نوالہ تر بنایا جاتا ہے۔ یہی نادان حسینائیں جو کبھی اپنے گھروں
کی زینت تھیں پھر ان کوٹھوں کی زینت بن جاتی ہیں ـ
اور اگر خوشقسمتی سے وہ وہاں سے نکل بھی جائیں تو کو کوئی انھیں قبول نہیں کرتا ہے
پھر انہیں اپنی ماندہ زندگی غلاظت میں ہی گزارنی پڑتی ہے۔ اور آخر میں ہمیشہ کی طرح
سارے کیے دھرے کی کالک قسمت کے ماتھے پر مل دی جاتی ہے لیکن قسمت بھی تو انسان خود
ہی بناتا ہے بھلا 70 ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا کیسے کسی کے نصیب میں برا لکھ سکتا
ہے اس سب کئے دھرے میں سب سے بڑا ہاتھ انھی نادان حسیناؤں کا ہی ہوتا ہے پھر وہ سڑکوں
پر یہ کہہ رہی ہوتی ہیں
ہم
نے کچی عمر کی نادانیوں میں آ کر فلزه
خود
اپنے ہی قاتل کو ہمراہ یار بنا لیا
لیکن
اگر یہی نادان حسینائیں آغاز میں ہی جذبات پر قابو پاتے ہوئے ایک مرتبہ اپنے بوڑھے
ماں باپ کا چہرہ دیکھ لیں تو پھر وہ خود کو کا مران بنا لیتی ہیں۔ اور دنیا اور آخرت
میں کامیاب ہوتی ہیں ان کی حفاظت خود الله کرتا ہے اور ان کے لیے جنت کے پتے مقرر کر
دیئے جاتے ہیں جن کو تھامنے والوں کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment