سہارا
سہارا
یہ وہ چیز ہے جس کی ہر انسان کو کبھی نہ کبھی ضرورت لازمی ہوتی ہے۔پھر چاہے وہ کتنا
ہی بہادر اور مضبوط کیوں نہ ہو اسکا کبھی نہ کبھی تو محتاج ضرور ہوتا ہے ۔کبھی خوشی
میں تو کبھی غموں میں کبھی جیت میں تو کبھی ہار میں ۔مضبوط سہارے بھی کسی کسی کو ہی
میسّر ہوتے ہیں۔ آج کل کے مطلبی دور اور عصر زار میں جب مرہم ہی زخم کریدنے کا باعث
ہو تو پھر نمک کا کیا کرنا۔ انسان چاہے کتنا ہی بہادر اور مضبوط کیوں نہ ہو کبھی نہ
کبھی کسی نہ کسی حال میں کسی کندھے کا متلاشی ضرور ہوتا ہے اور پھر اسی حالت میں وہ
خود کو کھو دیتا ہے ۔سہارا ہر ایک کو کبھی نہ کبھی چائیے ہوتا ہے مگر سہارا بننے کا
موقع صرف اور صرف خوشنصبوں کو ہی ملتا ہے۔ بعض اوقات کچھ لوگوں کی آزمائش کے لیے اُنھیں
پرکھنے کے لیے اللّٰہ اُنھیں سہارا بننے کا موقع دیتا ہے مگر وہ اس رحمت کو عنایت سمجھتے
ہیں اور یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو خود بھی اسی طرح کے حالات سے گزرے ہوتے ہیں مگر یہ
کمظرف سہارا بن کے دوسروں کو بھی انہی حالات میں دکھیلتے ہیں۔ اور جب یہی ظالم لوگ
اپنی آزمائش میں پورا نہیں اتر سکتے اور اللّٰہ
کی چاہت پر اپنی چاہت کو ترجیح دیتے ہیں تو پھر یہی لوگ رسوا ہوتے ہیں اور جب
یہی لوگ تب بھی اپنی انا پر قائم رہتے ہوئے اپنی آزادی کا کوئی Back
Door ڈھونڈتے ہیں تو پھر وہ "عزازیل سے ابلیس' بن
جاتے ہیں۔ اور ابلیس کا کام ہی خلق خدا کو گمراہ کرنا ہے۔ یہ لوگ سہارے کے طور پر اپنا
کندھا تو پیش کرتے ہیں مگر اس پر سر رکھنے والے کو تباہ بھی کر دیتے ہیں۔ اور پھر وہ لوگ جو اس آزمائش کو
سر کر جاتے ہیں تو پھر وہ کہلاتے ہیں "شجر نخل" جو چاہے خود کتنا ہی کمزور
کیا نہ لگتا ھو مگر اپنے تھامنے والے کو بہادر
بناتا ہے۔ کوئی کوئی سہارا بننے کی آزمائش پر پورا اترتا ہے۔ دور حاضر میں بہادر سہاروں
کی نہیں مخلص سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ڈوبتے ہوئے انسان کو بچانے کا لیے پتھر
تو نہیں پھینکا جا سکتا ہے اسے بچانے کے لیے تو درخت کی ایک بیل ہی کافی ہے۔ جب سہارا
بننے کا شرف حاصل ہو تو پھر خود کو اُس بیل کی طرح بنانا چاہیے جس کو تھام کر انسان
دلدل سے نکل سکتا ہے۔ ناکہ خود کو وہ نازک پھول بنانا چاہیے جو پہلے کیڑے کو خود پر بیٹھنے پر مجبور کرتا ہے پھر خود
پر بیٹھنے والے اُس کیڑے کو خود ہی کہا جاتا ہے۔
از قلم
اریبہ خالد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment