رمضان دسترخوان اور غزہ کے متعلق ہماری ذمہ داریاں ایک ذمہ دار تحریر شاہد مشتاق کے قلم سے
رمضان دستر خوان اور غزہ
کالم نویس : شاہد مشتاق
غزہ
کے موجودہ حالات اس قدر دردناک ہوچکے ہیں کہ کسی بھی نارمل انسان کے لئے ان کا تصور
ہی روح فرسا ہے ، ایسی ایسی لرزہ خیز تصاویر ہیں جنہیں دیکھ کر کسی بھی ذی روح کا تڑپے
بغیر رہنا ممکن نہیں ، مگر کیا کیجئے کہ وہ امت جسے جسد واحد سے تشبیہ دی گئی تھی اپنے
فلسطینی بہن بھائیوں کو مکمل طور پہ اسرائیل اور اس کے ساتھیوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ
چکی ہے۔
کوئی
بے حسی سی بے حسی ہے کوئی بزدلی سی بزدلی ہے ؟ جس کا جتنا ماتم کیا جائے کم ہے ۔
ہمارے
دستر خوان انواع و اقسام کے کھانوں سے بھرے ہوتے ہیں، ہم میں سے غریب سے غریب کے گھر
میں بھی رمضان المبارک میں تین چار قسم کی چیزیں کھانے میں ضرور موجود ہوتی ہیں مگر
ہمارے دل پھر بھی ناشکرے ہیں ، ہماری زبانیں اور قلوب شکر کی دولت سے محروم ہیں ۔
ہم جس نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سے محبت کے دعویدار ہیں اگر وہ چاہتے تو پوری دنیا کے خزانے ان کے قدموں میں ڈھیر کر
دئیے جاتے مگر ان کی ساری سیرت سے سحری و افطاری
میں صرف تین چیزیں ثابت ہیں ۔ " کھجور ، چھوہارا ، یا پانی " ۔ جی ہاں صرف
کھجور ، چھوہارا اور پانی ۔
سب
سے پہلے کھجور پیش کی جاتی اگر وہ نا ہوتی تو چھوہارے پیش خدمت کئے جاتے اور اگر وہ
بھی نا ہوتے تو کائنات کی سب سے عظیم ہستی پانی سے سحری و افطاری کر لیتے ۔
ہماری ماں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں "دو دو چاند ہمارے گھروں میں چولہا نہیں جلتا تھا
"۔
خادم خاص سیدنا انس رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں " ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے سحری طلب کی ، میں
نے چند کھجوریں اور پانی پیش کیا" آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "انس جاو کسی اور کو بھی ڈھونڈ کر لاو جو ہمارے
ساتھ اس کھانے میں شامل ہوسکے" ۔
امت
کے رہبر و راہنما ، اللہ کے سب سے محبوب بندے اور یہ بے سر و سامانی اور اس میں بھی
کوشش یہ کہ کوئی مہمان بھی ہمارے ساتھ کھانے میں شامل ہوجائے ۔
صرف
چند گناہ ہیں (شاید سات یا آٹھ )جن کے مرتکب کے بارے میں رسول رحمت نے فرمایا
" ان کا کرنے والا ہم میں سے نہیں "۔ فرمایا " وہ شخص جو خود تو پیٹ
بھر کھائے ، اور اس کا پڑوسی بھوکا سوئے وہ ہم میں سے نہیں " ۔(جب ایک بھوکے کو
اس کے حال پہ چھوڑنے والا مسلمانوں میں سے نہیں رہتا تو پورے بھوکے ، ننگے ، نہتے غزہ
کے کو طاقتور درندوں کے حوالے کر کے کیا ہمارا ایمان سلامت رہ پائے گا ؟ )
اسی
بے مثال تربیت کا نتیجہ بھی دیکھئے ، وہ عظیم لوگ جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم سے براہ راست تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا کریمانہ اخلاق میں وہ بھی کسی سے کم
نہیں تھے ان میں سے ایک کے گھر کہیں سے بکرے کا ایک سر بطور تحفہ پہنچا ، اسے اپنے
ہمسائیوں کے حالات پتہ تھے اس نے وہ گوشت کا ٹکڑا انہیں بھیج دیا ، وہاں سب ایک جیسے
تھے ضرورت مند ، نادار مگر رحمدل اور اپنوں کا خیال رکھنے والے، انہوں نے آگے بھیج دیا اور انہوں نے بھی آگے بھیج دیا ، گھومتے
گھماتے چالیس گھروں سے ہو کر وہ بکرے کا سر پھر اسی پہلے والے گھر پہنچ گیا کہ سب سمجھ
رہے تھے ہمارے ہمسائے شائد ہم سے ذیادہ اس ہدئیے کے ضرورتمند ہیں ۔
اللہ کی قسم ایسے بہترین اخلاق
کے حامل کریم نبی کی امت ہونے کا شرف اللہ نے ہمیں بخشا ہے جس کا جتنا شکر ادا کریں
کم ہے ۔
آہ
یہ رمضان ہمارے لئے اگر عافیت میں گزر رہا ہے تو امت کا ایک بڑا حصہ دکھ ، کرب اور
ازیت میں اسے گزار رہا ہے ہمیں اپنی ہر سحری افطاری میں انہیں یاد رکھنا چاہئیے ،جب
ہمارے دستر خوان پر ہماری بھوک سے زائد اشیاء
موجود ہوتی ہیں تو ہمیں بھوک سے بلبلاتے غزہ کے مظلوم بچوں کا بھی خیال آنا چاہئے ، بقول حافظ عبدالروف صاحب "جب ہم افطاری کے
وقت پکوڑے کھا رہے ہوتے ہیں تو بہت سارے لوگ ظالموں اور غاصبوں کے کوڑے کھا رہے ہوتے
ہیں ،
جب
ہمارے ہاتھوں میں لذیذ خوشبودار گوشت کے ٹکڑے ہوتے ہیں تو کشمیر و فلسطین میں بے شمار
لوگوں کے ہاتھوں میں ان کے بچوں کے کٹے پھٹے ٹکڑے ہوتے ہیں ، اور جب ہم روح افزاء اور جام شیریں کا سرخ شربت پی رہے ہوتے
ہیں تو بہت سارے مسلمان مظلوموں کا سرخ سرخ لہو بہہ رہا ہوتا ہے" ۔
یہ
عافیت ، آزادی یہ نعمتیں سب اللہ کی دین ہیں ہم اگر آزاد پر امن ملک کے باسی ہیں تو
یہ ہماری نیکیوں کا اعجاز نہیں اور اگر امت مسلمہ کا ایک بڑا حصہ لہو لہان ہے بھوک
سے بدامنی سے تڑپ رہا ہے تو یہ ان کے گناہوں کی سزا نہیں ؟ ، عین ممکن ہے انکی پریشانیاں
دراصل ہماری آزمائشیں ہوں۔
اللہ کی قسم کشمیر کے حریت پسند ، القدس کے بے خوف لڑنے والے نہتے
شیر ، بے شمار اور بے مثال قربانیاں دینے والے
شہری ہم بے حسوں ، بزدلوں سے لاکھ درجے اچھے
مسلمان ہیں وہ جانی و مالی قربانیاں دیکر سرخرو
ہورہے ہیں جبکہ انکے لئے ہماری بے حسی ہمارے لئے شرمناک اور جہنم کا دروازہ کھولنے
والی ہے ۔
غزہ
پچھلے پانچ ماہ سے عملاً مسلسل حالت جنگ میں ہے پوری دنیا کی طاقتور ترین غیر مسلم
ریاستیں مٹھی بھر لوگوں کو کچل دینے کے لئے پورے وسائل سے متحد ہیں ، جنگ ، بدامنی
اور بھوک نے برا حال کر دیا ہے ۔ایسی ایسی لرزا خیز تصاویر سامنے آ رہی ہیں جنہیں کمزور
دل کا مالک دیکھنے کی سکت نہیں رکھتا مگر آفرین ہے ان مجبوروں بے بسوں کے ایمان پر
پھر بھی استقامت سے اپنے اپنے محاذوں پر ڈٹے
ہوئے ہیں ۔
مسلمان
ممالک پہ قابض بے حس ، بیغیرت اور بے ایمان حکمرانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی
، ان کی مسلح افواج ، ایٹمی میزائلز کو زنگ کھا رہا ہے مگر کیا مجال ہے یہ کسی مسلمان
کے دفاع کے لئے استعمال ہوں ۔
ہم
جیسا عام آدمی سوائے تڑپنے ، بلکنے اور رونے کے کیا کر سکتا ہے شائد اس احساس میں بھی
ہم ڈبل مائنڈڈ ہیں ،کہ ہماری دعائیں تو مظلوموں کے لئے ہیں مگر ہماری جیبیں صرف اپنے
بچوں اپنے گھر والوں کے لئے ، یا پھر مساجد اور مدارس کی بلا ضرورت تزئین و آرائش کے
لئے ہیں ، صرف چند نمازیوں کے لئے کروڑوں روپے مساجد کی سجاوٹ پہ لگا دئیے جاتے ہیں
جبکہ اس بارے ہمارے نبی کا حکم کیا ہے کوئی نہیں جاننا چاہتا ۔
رحمت
اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی صرف دو کاموں کے لئے لوگوں سے چندہ مانگا
ایک جہاد اور دوسرا خدمت خلق کے لئے مگر آج مسلمان ان دونوں اہم کاموں کو فراموش کرچکا
ہے ۔
الجزیرہ
ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ہم پاکستانیوں کے لئے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ غزہ میں سب سے بڑا امدادی کیمپ ہمارے پاکستان کی الخدمت
فاؤنڈیشن چلا رہی ہے یقینا کچھ اور تنظیمیں
اور لوگ بھی اس مقدس مشن میں سرگرم عمل ہونگے بڑی اچھی بات ہے ۔
آئیے
! اس بار عید سے زرا کچھ دن پہلے اپنے فطرے
، صدقات اور زکوات ان لوگوں تک پہنچائیں جو واقعی فلسطینی مسلمانوں کےلئے کچھ عملاً
کر رہے ہیں ، کچھ عرصے کے لئے عشروں سے غیر ضروری تعمیر ہوتی مساجد اور موٹے موٹے پیٹوں
والے مولویوں کے مدارس کا چندہ روک کر اپنے حقیقی مستحق اور مظلوم بہن بھائیوں کے لئے
کچھ کریں شائد ہماری تھوڑی سی کوشش سے فلسطین کا کوئی مسلمان بچہ بھوکا مرنے سے بچ
جائے شائد ہمارے تھوڑے سے پیسے کسی زخمی کی مرہم پٹی کا سامان کر دیں شائد ہمارا تھوڑا
سا مال غزہ کے کسی اجڑے گھر کی خوشیوں کا سامان کردے ۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment