ہماری موجودہ اقدار
ہم
اخلاقی اور تہذیبی اقدار میں تو بہت پسماندگی کا شکار ہیں ہی لیکن ہماری ذہنی پسماندگی
کا یہ عالم ہے کہ ہمارے ذہن غلامی میں اس قدر جکڑے جا چکے ہیں کہ ہم اپنی ہی حقیقت
کو تسلیم کرنے سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں ہاتھ سے کام کرنا ہمارے لیے شرمندگی کا باعث
ہے کسی کے سامنے ہم اس بات کو تسلیم کرنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں اپنے گھر کے کام
ہم اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں گاؤں اور دیہات میں رہنے والے لوگ جب شہروں کا رخ کرتے
ہیں تو اپنی اصلیت سے خود شرمندہ ہونے لگتے ہیں اگر کوئی بھی شخص کچھ عرصہ شہر میں
گزار لیتا ہے اگر وہاں نوکری کرنے لگتا ہے تو نہ جانے کیوں وہ اس بات پہ شرمندگی محسوس
کرے گا کسی کو یہ بتاتے ہوئے کہ وہ ماضی میں گھاس کاٹتا رہا ہے،اس کے گھر میں بھی بھینس
اور بکریاں ہوا کرتی تھی وہ کسی بہت امیر خاندان سے تعلق نہیں رکھتا تھا بلکہ وہ بہت
فخریہ انداز میں یہ بات کہے گا کہ اگلوں پہ ہم نے اس بات کا بہت رعب رکھا ہوا ہے کہ
ہم نے کبھی ایسا کوئی کام کیا ہی نہیں اور کچھ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنی حقیقت کسی
کو بتا دیں گے تو لوگ عزت ہی نہیں کریں مجھے تو لگتا ہے ایسے لوگ جو ہمارے رہن سہن
اور مالی حیثیت کی بنا پر ہماری عزت کرتے ہیں ہم تو ان کی عزت اور توجہ کی بالکل کوئی
ضرورت ہی نہیں ہونی چاہیے
ہم
اپنے اقدار کو بھول چکے ہیں اپنی اصل سے ناواقف ہو چکے ہیں کیوں کہ اگر ہم یہ جان جاتے
کہ ہماری حقیقت کیا ہے کس طرزِ عمل کو ہمیں اپنانا چاہیے تو آج ہماری ذہنیت ایسی نہیں
ہوتی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک سے اپنے کام کیا کرتے
تھے بکری کا دودھ خود نکال لیا کرتے تھے ۔۔۔۔ضرورت فقط اس امر کی ہے کہ ہم اپنی ذہنیت
کو بدلیں کسی کے رہن سہن کو دیکھ کر اس کو judge
نہ کریں ہمارے اقدار اعلیٰ ہونی چاہیئے ہماری سوچ معیاری ہونی چاہیئے
بالکل ویسی ہی جیسی ہمیں سکھائی گئی ہے
سیدہ
خدیجہ زاہد
****************
Comments
Post a Comment