Hmari mojooda iqdar Article by Syeda Khadija Zahid

ہماری موجودہ اقدار

ہم اخلاقی اور تہذیبی اقدار میں تو بہت پسماندگی کا شکار ہیں ہی لیکن ہماری ذہنی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے ذہن غلامی میں اس قدر جکڑے جا چکے ہیں کہ ہم اپنی ہی حقیقت کو تسلیم کرنے سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں ہاتھ سے کام کرنا ہمارے لیے شرمندگی کا باعث ہے کسی کے سامنے ہم اس بات کو تسلیم کرنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں اپنے گھر کے کام ہم اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں گاؤں اور دیہات میں رہنے والے لوگ جب شہروں کا رخ کرتے ہیں تو اپنی اصلیت سے خود شرمندہ ہونے لگتے ہیں اگر کوئی بھی شخص کچھ عرصہ شہر میں گزار لیتا ہے اگر وہاں نوکری کرنے لگتا ہے تو نہ جانے کیوں وہ اس بات پہ شرمندگی محسوس کرے گا کسی کو یہ بتاتے ہوئے کہ وہ ماضی میں گھاس کاٹتا رہا ہے،اس کے گھر میں بھی بھینس اور بکریاں ہوا کرتی تھی وہ کسی بہت امیر خاندان سے تعلق نہیں رکھتا تھا بلکہ وہ بہت فخریہ انداز میں یہ بات کہے گا کہ اگلوں پہ ہم نے اس بات کا بہت رعب رکھا ہوا ہے کہ ہم نے کبھی ایسا کوئی کام کیا ہی نہیں اور کچھ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنی حقیقت کسی کو بتا دیں گے تو لوگ عزت ہی نہیں کریں مجھے تو لگتا ہے ایسے لوگ جو ہمارے رہن سہن اور مالی حیثیت کی بنا پر ہماری عزت کرتے ہیں ہم تو ان کی عزت اور توجہ کی بالکل کوئی ضرورت ہی نہیں ہونی چاہیے

ہم اپنے اقدار کو بھول چکے ہیں اپنی اصل سے ناواقف ہو چکے ہیں کیوں کہ اگر ہم یہ جان جاتے کہ ہماری حقیقت کیا ہے کس طرزِ عمل کو ہمیں اپنانا چاہیے تو آج ہماری ذہنیت ایسی نہیں ہوتی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک سے اپنے کام کیا کرتے تھے بکری کا دودھ خود نکال لیا کرتے تھے ۔۔۔۔ضرورت فقط اس امر کی ہے کہ ہم اپنی ذہنیت کو بدلیں کسی کے رہن سہن کو دیکھ کر اس کو judge نہ کریں ہمارے اقدار اعلیٰ ہونی چاہیئے ہماری سوچ معیاری ہونی چاہیئے بالکل ویسی ہی جیسی ہمیں سکھائی گئی ہے

سیدہ خدیجہ زاہد

****************

Comments