Gaza ki pukar Article by Aammara Abid

عنوان:- "غزہ کی پکار"

از قلم: عمارہ عابد

 

 

اے غزہ!

میرے الفاظ میں وہ تاثیر نہیں

جو تیرا کرب بیاں کرسکیں

اے غزہ!

کہاں سے تیرے لیے وہ جذبات لکھوں

جو امت کی سوئی ہوئی روح جھنجوڑ ڈالیں

اے غزہ!

تجھ پر جاری ظلم پر

 بہت سوچ کر لکھتی ہوں

مگر جو لکھتی ہوں

شاید وہ کسی پر

اپنا اثر نہیں چھوڑتا

اے غزہ!

تیرا درد کیسے لکھوں ؟

میرے پاس وہ الفاظ نہیں

اے غزہ!

میں شرمندہ ہوں

ہاں! میں شرمندہ ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 غزہ فلسطین کا ایک علاقہ ہے جس کی سرحد مصر سے ملتی ہے۔ اس علاقہ کو اسرائیل نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور اس کی تجارت اور خارجی معاملات بھی آزاد نہیں۔ اس علاقے میں اسرائیل نے 38 سال قبضہ کرنے کے بعد چھوڑا تو اس کے بعد ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا۔ 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ اور اس کے گردونواح میں دوبارہ اسرائیلی جارحیت جاری ہے۔ یہ انبیاء علیہم السلام کی پاک سر زمین ہے اس میں ہم مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس مسجد اقصیٰ ہے جس کی حفاظت ہم مسلمانوں کا ذمہ ہے بیت المقدس کے لیے ہم اپنی جان بھی قربان کردیں تو شاید کم ہی ہوگا۔ اسرائیلی جارحیت میں اب تک تیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں بچے، نوجوان، بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ گولہ باری کی وجہ سے گھر مکمل راکھ بن چکے ہیں لوگ سڑکوں پر پناہ گرین ہیں اور کچھ نقل مکانی کرتے ہوئے دوسروں ملکوں میں سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہسپتال خون سےلت پت فلسطینوں سے بھرے ہوئے ہیں، کہیں کوئی باپ اپنی بیٹی کو بانہوں کے حصار میں چھپائے روتا نظر آرہا ہے، تو کہیں کوئی ماں اپنے بیٹے کے لیے بلک رہی ہے۔ ایک وقت میں کتنے لوگوں کو لحد میں ایک ساتھ اتارا جارہا ہے جسے دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے۔ بھوک پیاس سے نڈھال ہر طرف بچے پھیلے ہوئے ہیں مگر پھر بھی "اللہ اکبر" کی صدائیں بلند ہیں۔ آخری سانس لیتا ہوا انسان بھی اپنے رب تعالیٰ کی حمد و ثناء کررہا ہے مصحف کو سینوں سے لگائے ایمان کی مثال قائم کیے ہوئے ہیں۔ فلسطینی مجاہدین بیت المقدس کو محفوظ رکھنے کے لیے جنگ لڑرہے ہیں۔ اپنا گھر، مال اور اپنے پیاروں کی پرواہ کیے بغیر رب کی راہ میں خود کو قربان کررہے ہیں۔ غزہ کو ہماری مدد کی ضرورت ہے وہ سب سے زیادہ امید پاکستان کی حکومت سے لگائے ہُوئے تھے مگر پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک صرف زبانی کلامی ان کی مدد کا اعلان کررہے ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ مدد کے نام پر آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔

اگر ہمارے بچے یوں بھوک پیاس سے تڑپ رہے ہوتے تو ہم زمین آسمان ایک کرکے ان کے لیے کھانے کی تلاش نہ کرتے؟ ہماری بہن بیٹی یوں سڑکوں پر پناہ گزین ہوتی تب بھی ہم ایسے ہی خاموش بیٹھے تماشا دیکھتے رہتے؟ کیوں نہیں ہم اپنی فوج کو مدد کے لیے بھیجتے؟ کیوں نہیں ہم بائیکاٹ کررہے؟

آج ہم سب لوگ رمضان المبارک میں اپنی سحری اور افطاری میں دسترخوان کو مختلف لوازمات سے سجاتے ہیں اور روزے کی لذت محسوس کرتے ہیں۔ جب کہ فلسطینیوں کے پاس ادویات سے لے کر کھانے کا تک سامان موجود نہیں ہے۔ کیا کبھی آپ لیموں سے روزہ افطار کریں گے؟ کیا آپ نے اپنی زمین سے پھوٹتی ہوئی گھاس سے روزہ افطار کیا ہے؟ نہیں ہم نے یہ سب نہیں کیا ہے۔ تو کیوں نہیں ہم اپنے دسترخوان میں یہودیوں کی بنائی ہوئی چیزیں استعمال کرنے سے خود کو روک پاتے ہیں ؟ کیوں افطاری کے وقت ہمیں غزہ والے یاد نہیں آتے ہیں ؟ ہم اس قدر بے حس کیوں ہوگئے ہیں ؟ کیا ہم انسان ہیں؟ کیا ہمارا دل میں ان کے لیے درد موجود ہے؟

 اگر ہم سب متحد ہو جائیں تو ان یہودیوں پر غالب آجائیں مگر ہم مصروف ہیں کیونکہ ہم اپنے گھروں میں محفوظ ہیں، ہمارے بچے سکولز، کالجز آسانی سے جا رہے ہیں، ہم تین وقت کا بھر پیٹ کھانا کھارہے ہیں پھر بھی شکر ادا نہیں کرتے ہیں۔ جو مظلوم فلسطینی تن تنہا ان یہودیوں کا مقابلہ کررہے اور بیت المقدس کی حفاظت کررہے ہیں اگر ہم مسلمان ان کے ساتھ متحد ہو جائیں تو اسلام غالب آجائے۔ فلسطین میں گولہ باری ہورہی ہے اور فلسطینوں کی چینخ و پکار انسانی وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دے مگر ہم دھوم دھام سے شادیاں کررہے ہیں اور سوشل میڈیا پر اپنی خوشیاں مناتے ہوئے ویڈیوز اپلوڈ کررہے ہیں۔ ذرا سوچیے! کہ اگر یہ سب ہمارے ساتھ ہورہا ہوتا تو کیا فلسطینی ہماری مدد کو نہ آتے؟ ضرور آتے لیکن ہم بے حس بن چکے ہیں۔ جس ذہنی تناؤ سے وہ گرزتے ہیں اگر ہم ایک دن بھی وہ سب دیکھ لیں تو فوراً ان کی مدد کو پہنچ جائیں۔ بروز محشر جب یہ فلسطینی ہم سے سوال کریں گے کہ کیوں نہیں ہماری مدد کو آئے؟ تو ہم کیا کہیں گے کہ ہم صلاح الدین ایوبی کے منتظر تھے یا پھر ہمیں امام مہدی کے آنے کی امید تھی اس لیے ہم نہ پہنچ پائے۔ تو خود پر افسوس کریں جب ہم خود اسلام سے ناآشنا ہیں تو کہاں سے صلاح الدین ایوبی پیدا ہوں گے؟ ہم جنت میں جانے کی امید رکھتے ہیں مگر غزہ کی مدد نہیں کرسکتے یا یوں کہیں اپنی زندگی میں اس قدر مگن ہوگئے ہیں کہ ہم ان کے حق میں آواز بلند ہی نہیں کررہے ہیں۔

اپنے قلم سے غزہ کے لیے آواز بلند کریں، سوشل میڈیا پر غزہ کی بات اٹھائیں، بائیکاٹ کریں اگر یہودیوں کی بنائی ہوئی چیزیں نہیں کھائیں گے تو کونسا مرجائیں گے۔ الغرض ہر وہ طریقہ اپنائیں جس سے امت مسلمہ کے سوئے ہوئے حکمران ان یہودیوں کی غلامی سے نکل کر فلسطینیوں کی مدد کے لیے پہنچ پائیں۔

غزہ کے لوگ ہمیں پکارہے ہیں، وہ ننھے ننھے سے چراغ جو آنکھوں میں جینے کی امید جگائے ہوئے ہیں وہ ہمیں پکاررہے ہیں۔ مجاہدین اقصیٰ بیت المقدس کی حفاظت کے لیے ہمیں پکاررہے ہیں۔ اے امت مسلمہ کے نوجوان! اتنے بے حس مت بنو کہ غزہ کی پکار تمہارے کانوں میں نہ پہنچ پائے خود کے مردہ ضمیر کو جگاؤ اور غزہ کے لیے آواز بلند کرو۔ قبلہ اول بیت المقدس کی حفاظت کے لیے متحد ہو جاؤ۔ اپنی آزادی کے لیے اکھٹے ہو جاؤ کیونکہ ہم آزاد ملک کے رہنے والے یہودیوں کے غلام باشندے ہیں اور فلسطینی ملکی طور پر آزاد نہیں مگر وہ ہر لحاظ سے ہم سے آزاد ہیں اور آزاد رہیں گے۔ اپنی دعاؤں میں غزہ والوں کو یاد رکھو، بے شک! دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ غزہ کی بات کرنا مت چھوڑو کہیں یہودی اس بات پر ہی خوش نہ ہو جائیں کہ امت مسلمہ خواب غفلت کی چادر اوڑھ کر سوگئی اب جس قدر ظلم ہوسکتا ہے ہم غزہ والوں پر کریں گے۔

وقت رہتے جاگ جاؤ اور غزہ کی پکار سن لو!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے غزہ! ہم تجھ سے شرمندہ ہیں

تیری پکار ہم سن نہیں سکتے ہیں

 وہ بچوں کے بلکتے ہوئے وجود

ہماری روح کو جھنجوڑ نہیں پاتے

اے غزہ! ہم بے حس ہوچکے ہیں

ماؤں، بہنوں کی عظمتیں لٹتی رہیں

ہم خاموش تماشائی بنے سب دیکھتے رہے

وہ مدد کی منتظر راہ تکتی آنکھیں

اب انہیں کون سمجھائے گا؟

کہ ہم بائیکاٹ بھی نہیں کرسکتے

اے غزہ! کیا کہنا تیرے مجاہدین کا؟؟

کرتے ہیں جہاد بھی بہادروں کی طرح

بیت المقدس کی حفاظت سب کا ذمہ ہے

مگر ہم آنکھیں موندے سب دیکھ رہے ہیں

ہمت نہیں ہے باطل کے خلاف آواز اٹھانے کی

ہمت نہیں ہے غزہ کی مدد کو جانے کی

 صلاح الدین ایوبی کے منتظر ہم لوگ

آس لگائے بیٹھے ہیں جنت میں جانے کی

اے غزہ! ہم شرمندہ ہیں

اے غزہ!ہم شرمندہ ہیں

(ختم شد)

Insta ld:- writer _ammara

Comments