Psychoanalysis
(تحلیل نفسی)
از قلم: طیبہ ابراہیم محمدی
تحلیل
نفسی ایک طریقہ علاج ، شخصیت کا ایک نظریہ اور مکتبہ فکر ہے۔ اس کے بانی Austrailiaکے
مشہور Neurologist سگمنڈ فرائیڈ تھے۔
Psychoanalysis
میں مریض کو اس کی اندرونی میکانیت اور اصلیت جاننے میں
مدد
دی جاتی ہے اور اس کا اعتماد بحال کر کے اسے اس قابل بنایا جاتا ہے کے وہ اپنے مسائل
خود حل کرنے کے قابل ہو جاۓ۔
Psychoanalysis
means the analysis of internal and primary unconscious pscological forces.
اور
کیا آپ جانتے ہیں کے دیلڈ مین نے اپنی کتاب "نفسیات فہمی " (2005) میں تحلیل
نفسی کو "انر کے شخص" (inner person) کے مطالعے کا نام دیا ہے۔
تکلیل
نفسی کے ماہرین کے نزدیک:
آپکا
کردار یعنی آپکا رویہ(behaviour)،
آپکا(action)، آپکا (cognition)، آپکی (choices) سب آپکی اندرونی قوتیں متحرک کرتی ہیں۔جن پر فرد کا کنٹرول بہت کم
ہوتا ہے۔
اور
دلچسپ بات یہ ہے کے آپکے خواب اور زبان کی لرزشیں
ان قوتوں کے indicators ہوتے ہیں۔
ایک
اور نظریے کے مطابق تحلیل نفسی سے مراد وہ مکتبہ فکر ہے جو انسانی کردار کے نفسیارتی پہلو پر زور دیتا ہے اور
فرد کی شخصیت کی تعمیر میں بچپن کے واقعات اور جنس کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ یعنی آج جو
بھی ہمارا رویہ،سوچنی کا انداز، کردار ، عمل ہے ہم اس سب کی وجوہات جان سکتے ہیں۔ بس
ہمیں خود کو اپنے بچپن کے دور سے جوڑنا ہے۔
ہماری
لا شعوری خواہشات ہمارے کردار کو کنٹرول کرتی ہیں اور انسان کو جتنے بھی ذہنی مسائل
ہوتے ہیں ان کی وجہ بھی یہی ہوتی ہیں۔ اگر ہمیں اپنے ذہنی مسائل سلجھانے ہیں تو ہمیں
انہیں شعور کی سطح پر لا کر ان کو تحلیل کرنا ہوگا تاکہ ہماری ذہنی الجھنیں دور ہو
جائیں گی۔
پرانے
دور میں psycoanalysis کے لیے Hypnosis
کا طریقہ استعمال ہورا تھا بعد میں تلازم اختیاری (free
association) اور تحلیل خواب وغیرہ جیسے طریقے استعمال کرنے
لگے۔
Free
association میں مریض ہر اس خیال کا اظہار
کرتا ہے جو اس کے ذہن میں آتا
ہے۔
فرائیڈ
کے نزدیک: ہمارے بیشتر کرداروں (behaviour) کو نامعلوم محرکات(hidden motives) اور لاشعوری خواہشات (unconscious
impulses) کنٹرول کرتی ہیں اور بالغوں کے بیشتر مسائل
کا تعلق بچپن کی نا آسودہ جنسی خواہشات سے ہوتا ہے،جنہیں زبردستی لاشعوری بنا دیا جاتا
ہے۔ یعنی بچپن کی کوئی ایسی خواہش جسے اس وقت پورا نا کیا گیا ہو۔
میں
آپکو ایک مثال سے سمجھاتی ہوں۔ایک ایسا بچہ جس کی بچپن میں اس کو کھیلنے کے لئے کھلونے
نہ ملے ہوں، جس نے کھانے کی کمی دیکھی ہو اور کبھی پیٹ بھر کر نا کھایا ہو۔ جس کے والدین
نے اسے توجہ نہ دی ہو، جس نے دوسرے بچوں کے پاس وہ ساری چیزیں دیکھی ہوں جو اسے نہیں
مل سکیں ، جس کی اس نےخواہش کی پھر بھی اسے نہ ملی جبکہ کسی دوسرے کو وہ بن مانگے مل
گئی ہوں۔ آپکو کیا لگتا ہے وہ جب بڑا ہوگا تو کیا بنے گا؟
وہ
اپنی ہر محرومی، اپنی ہر ادھوری خواہش کے لئے یا تو اپنے والدین کو قصوروار ٹھہراۓ
گا یا معاشرے کو ۔
اور
پھر یہں بچہ معاشرے میں اپنا کردار جانتے ہیں کیسے ادا کرے گا ؟
وہ
خودغرض بن جاۓ
گا وہ اپنی خواہشات کے حصول کے لیۓ
ہر حد تک جاۓ
گا۔پھر وہ انسانیت بھول جاۓ
گا۔پھر یہی بچہ آپکو چوری کی وارداتوں اور ہر طرح کے جرائم میں ملوث ملے گا۔ہم معاشرے
میں ہونے والے جرائم پے اپنی راۓ
دینے میں تو پیش پیش ہوتے ہیں۔ ہم چوروں کو ہر طرح کے القابات سے بھی نوازتے ہیں۔ لیکن
کیا میں نے آپ نے ان جرائم کی وجہ جاننے کی
کوشش کی ہے؟
ہم
نے کبھی نہیں سوچا کے ایک انسان پیدائشی چور نہیں ہوتا ۔اس کے پیدا ہونے کے بعد وہ
جو حالات اپنے اردگر دہکھتا ہے وہ حالات و واقعات اسےایسا انسان بنا دیتے ہیں اور اس
میں کہین نہ کہیں کچھ نہ کچھ قصور ہمارا بھی ہے۔ اگر ہم معشرا میں ہونے والے ظلم کے
خلاف بروقت آواز اٹھائیں تو ایسا کبھی ہو ہی نہ جس معاشرے میں انصاف ہو وہاں جرائم
کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ مسئلہ یہی ہے کے ہم اپنے دین کی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں۔
ہم نے کبھی پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی کے حضرت عمر کے دور میں شیر بکریاں چرایا کرتے
تھے۔ ایسا انصاف قائم تھا کے جانور بھی خلاف ورزی نہیں کرتے تھے ۔آج ہم جانے کہاں نکل
آۓ ہیں۔
شاعر
نے کیا خوب کہا ہے
وہ
زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور
تم خوار ہوۓ
تارک قرآں ہو کر
تحریر
لمبی ہو رہی ہے اور بہت کچھ ابھی باقی ہے تو ان شاء اللہ ہم اس کے part
2 میں باقی پڑھیں گے ۔ اس کے متعلق اگر آپکا کوئی بھی
سوال ہو وہ آپ کر سکتے ہیں۔
****************
ہم
بات کررہے تھے تحلیل نفسی کی ایسی خواہشات جن کا تعلق آپکے بچپن سے ہے، وہ خواہشات
جنہیں پورا نہیں کیا گیا وہ لاشعور میں باقی رہتج ہیں اور جب انسان وقت کے ساتھ بڑا
ہوتا جاتا ہے تو وہ خواہشات شعور کی سطح پر آکر تسکین پذیر ہونا چاہتی ہیں لیکن شعور
انہیں ایسا کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔اس طرح شعور اور لا شعور میں تصادم ہو
جاتا ہے۔جس سے تشویش اور خوف پیدا ہوتا یے اور انسان ذہنی الجھنوں کا شکا ہو جاتا ہے۔
آپنے
سنا ہوگا کے جس نے اپنے آپ کو جان لیا اس نے اپنے رب کو جان لیا۔
میرا
یہ سب لکھنے کا مقصد یہں ہے کے میں اور آپ پہلے خود کو جانیں اور پھر خود سے خدا تک
کا سفر طے کریں۔
ایک
اور دلچسپ چیز جو میں نے psycoanalysis
پڑھتے ہوۓ
جانی وہ یہ ہے کے ہمارے دماغ میں بھی ایک سڑک موجود ہے اور آپ کو یہ جان کر حیرانی
ہوگی کے وہ سڑک ہمارا لاشعور کو شعور سے جوڑتی ہے۔ اس سڑک کا نم پتا ہے کیا ہے ؟
اس
کا نام ہے : خواب
یہ
ہمارے بچپن کے خواب ہی ہیں جو بڑے ہو کر ہمارا عمل بنتے ہیں۔
ہماری
خواہشات ہی ہمارا خواب بنتی ہیں، وہی خواب پھر ہمارا لاشعور بنتے ہیں اور پھر لاشعور
سے خواب نامی سڑک یماری خواہشات کو شعور تک لاتی ہے۔ پھر انسان کے اندر ان خوابوں کو
پورا کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ کتنا دلچسپ ہے نا ہمارا یہ خواہش سے خواب تک کا سفر۔
میں اکثر سوچتی تھی کے میں کسی بھی کام کو کیوں کرتی ہوں؟
کون
ہے میرے ہی اندر جو مجھے مجبور کرتا ہے کے میں
لاشعور سے اپنی خواہشات کو خاب ببا کر اپنے شعور میں لاؤں اور انہیں عملی جامہ
پہناؤں۔
جواب
سالوں بعد ہی صحیح مگر ملا ہے۔اور جب ملا ہگ جب میں نے اپنی ذات کو سمجھنے کا سفر شروع
کیا ہے۔
فرائیڈ
کے نزدیک ہماری شخصیت کی تمام خرابیوں کی وجہ آسودہ لاشعوری جنسی خواہشات ہوتی ہیں۔
ان لاشعوری خواہشات کی حقیقت کو جاننے کے لیۓ
خوابوں کی تحلیل کی جاتی ہے۔خواب ہی وہ روشن دان اور شاہراہ ہیں جو شعور اور لا شعور
کو جوڑتی ہیں۔
فرائیڈ
کے نزدیک شخصیت کی تکمیل میں 3 عناصر شامل ہیں۔
1:ID
(لا ذات)
2:Ego
(انا)
3:super ego
(فوق الانا)
فرائیڈ
کے نزدیک دو جبلی قورتیں ہیں جو آپکا کردار مضبوط کرتی ہیں۔
1: Eros
( زندگی کی تحریک)
2:Thanatos
(موت کی تحریک)
الفریڈ
ایڈلر Alfred Adler نے احساس کمتری( inferiority
(complex اور بہن بھائی کی اقابت (sibling
Rivalry) کے تصورات اور ان کے انسانی شخصیت پر اثر کو
بیان کیا۔
ایڈلر
کے نزدیک:
انسانی
زندگی کو متحرک کرنے والی قوت اس کی حقیقی یا تخیلاتی کمزوریوں کے ساتھ ڈیل کرنا یے۔
ایڈلر
کے نزدیک قوت ارادی یعنی will
power انسان کے احساس کمتری کو کم کر سکتی ہے۔
ایرک
فروم نے فرد کی تنہائی isolation کا تصور پیش کیا۔ اس نے کہا
کے evolution کے ساتھ نسک انسانی قدرت سے
آزاد ہوتی گئی ۔اس طرح انسان تنہائی اور عدم تحفظ محسوس کرنے لگا۔
**************
Comments
Post a Comment