Pendulum Article by Tayyaba Ibrahim Muhammadi

پینڈولم

از قلم طیبہ ابراہیم محمدی

آپ سب نے زندگی میں پینڈولم کے بارے میں سنا ہوگا ۔لیکن کیا آپ نے اس چھوٹے سے پینڈولم کا موازنہ خود سے کیا ہے ۔میں نے اس پینڈولم سے ایک چیز سیکھی کہ ہماری زندگی بھی اسی پینڈولم کی طرح ہے۔جس طرح ایک پینڈولم اپنی mean position کے آگے پیچھے move کرتا ہے۔ اسی طرح ہم انسان بھی تو اپنی زندگی میں oscillate کرتے ہیں۔اگر ہم سوچیں کے یہ پینڈولم ہم خود ہیں تو mean position ہوا ہمارا حال یعنی وہ لمحہ جس میں ہم اس وقت موجود ہیں۔پھر pendulum کے پیچھے جو position ہے وہ ہے ہمارا ماضی اور اسی طرح سے pendulum کے آگے کا point ہمارا future ہے۔ جس طرح ایک pendulum ہمیشہ کبھی آگے اور کبھی پیچھے move کرتا ہے اسی طرح ہم انسان اپنے ماضی اور مستقبل کے درمیان move کرتے ہیں۔

کبھی ہم پیچھے جاتے ہیں اپنے ماضی میں کبھی ہم آگے جاتے ہیں اپنے مستقبل میں اور ہم یہ سب اپنے حال میں رہتے ہوۓ کرتے ہیں۔ہم اس وقت اپنے حال میں موجود ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ہم انسان ایسا کرتے کیوں ہیں؟

اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایسا کرنا درست ہے ؟

کم و بیش ہر انسان اپنی زندگی میں اس phase سے گزرتا ہے۔ کبھی ماضی کے لمحات ہمیں جکڑ لیتے ہیں تو کبھی مستقبل کے خوف کے ساۓ ہمارے اردگرد منڈلانے لگتے ہیں۔

ہم انسان یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جو ماضی کے لمحات گزر گۓ ہم انہیں جا کر بدل نہیں سکتے ۔ہمارے پاس time machine نہیں ہے doremon کی طرح ۔ہمارے پاس وقت میں پیچھے جانے کا اختیار نہیں ہے۔ ہم قدرت کے بناۓ گۓ اصولوں میں جکڑے ہوۓ ہیں۔ ہم ان اصولوں کی خلاف ورذی نہیں کر سکتے۔ یے اختیار صرف رب کائنات کے پاس ہے ۔ انسان اس اختیار سے محروم ہے اور کیوں محروم ہے اس کے پیچھے بھی اس قائم ذات کی کوئی نہ کوئی حکمت چھپی ہے۔

ہم pendulum کی طرح آگے بھی move کرتے ہیں اور مستقبل کے خدشات ہمیں ڈرانے لگتے ہیں۔ ہم ماضی سے نکل کر مستقبل کے لمحات میں قید ہو جاتے ہیں۔ ہم کب جئیں گے اپنے حال کو ۔ کب ہم یہ oscillation ختم کریں گے یا ایک positive way میں اسے استعمال کریں گے؟

کیوں نہ جب ماضی کے لمحات ہمیں جکڑ لیں تو ہم اپنی غلطیوں پر غور کر کے ان سے سیکھنے کی کوشش کریں ۔

جب مستقبل کے خدشات ہمیں ڈرائیں تو ہم اپنے معاملے اپنے اللہ پر چھوڑ دیںں۔وہ تو  بہتریں سنبھالنے والا ہے ۔

جو چیز پریشان کر رہی ہے اسے اپنے اللہ پے چھوڑنا سیکھیں ۔

ماضی کے غم اور مستقبل کے خوف سے آزاد ہو کر اپنی زندگی گزارنا سیکھیں ۔ یہی تو ہمارے پیارے نبی(P.B.U.H) کی تعلیمات میں شامل تھا کے اپنے اللہ پر بھروسہ رکھو ۔وہ جو آسمان دنیا کو بغیر ستونوں کے تھامے ہوۓ ہے کیا وہ تمہے گرنے دے گا۔

کیا آپ نے carpe diem کی نظم کو پڑہا ہے جو ماضی کے غم اور مستقبل کے خوف سے آزار ہو کر اس پل کو جینے کا کہتی ہے جو موجود ہے۔

Be happy happy happy a

************

Comments