عنوان
"ناکامی کا ڈر" fear of failure
آرٹیکل
سویرا انصاری کے قلم سے
!!!اسلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!!!
آج
کے دور میں جہاں ہم جی رہے ہیں ہم سب کو یہ بات سمجھنےکی اشد ضرورت ہے کہ ناکامی کا
بھی ایک وجود ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس بات کو کوئی حقیقی حیثیت حاصل نہیں کہ ناکامی
کا بھی وجود ہوتا ہے۔۔ کہا جاتا ہے کہ کامیاب ہونا ہے۔ والدین اپنی اولاد کو کامیابی
کا سبق ہی پڑھاتے ہیں۔۔ فلاں کا بچہ کامیاب ہے تو بس تمہیں اس کے جیسا بننا ہے۔۔کیوں
۔۔۔؟ ہمیں اس بات کو حقیقی بنانا چاہیۓ
کہ جہاں کامیابی ہوتی ہے وہاں ناکامی بھی وجود رکھتی ہے، یا اگر یوں کہا جاۓ "ناکام ہوجانے کے عمل سے ہی آپ کی کامیابی
کا دور شروع ہوتا ہے" تو یہ غلط نہ ہوگا۔
انسان کو اگر کامیابی مل جاۓ
تو اسے ناکامی کا ڈر رہتا ہے۔ اس کے برعکس وہ شخص جو ناکامی کے عمل سے گزر کر کامیابی
کی راہ لیتا ہے اس کے اعصاب مضبوط ہوتے ہیں وہ جانتا ہے ہار جانے کے عمل سے کس طرح
جیت نکالنی ہے۔۔۔
ہمارا
معاشرہ اس بات کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے، ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہیں
معاشرے میں کوئی کردار نبھانے سے پہلے ناکامی کا ڈر لاحق ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں یہ
ڈر ہمارے خود کے کہیں اندر بہت اندر موجود ہے۔ جیسے۔۔۔اگر ہم نے یہ کام کیا اور کامیاب
نہ ہوسکا تو ہم فیلئیر (ناکام) کہلائیں گے۔۔ معاشرہ ہمیں کیا کہے گا۔۔
معاشرہ
۔۔۔۔آہ یہ سارے مسئلے ہی معاشرہ سے شروع ہوتے ہیں۔۔فساد ہی معاشرہ سے شروع ہوتا ہے۔۔آخر
یہ معاشرہ کیا ہے۔۔؟ کی حقیقت ہے اس معاشرے کی؟؟؟
"معاشرہ" معاشرہ
افراد سے مل کر بنتا ہے۔۔ہم سے، آپ سے، اور بھی بہت لوگوں سے جو ہمارے ارد گرد موجود
ہوتے ہیں۔۔
اور
ہم ہی مل کر معاشرہ کو تشکیل دیتے ہیں۔۔پھر مطلب یہ ہوا کہ ہمیں خود کو بدلنے کی کوشش
کرنی چاہیۓ۔۔
ہار جانے والوں کو کندھا دینا چاہیۓ
ناکہ زخمی الفاظ۔۔ ناکام ہوجانے والوں کو حوصلہ دینا چاہیۓ
کامیابی کے حصول کا طریقہ سکھانا چاہیۓ
نا کہ اپنی برتری سامنے رکھنی چاہیۓ۔
جیسے
: والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ پوزیشن ہولڈر بنے۔۔ جیسے فلاں کا بچہ ہے۔۔ لیکن کیوں؟
ان کے صرف اچھے گریڈز ہی کیوں ہمیں مطمئن نہیں کرتے۔؟
پھر
کچھ دوسرے قسم کے والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کی تیسری پوزیشن کیوں سیکنڈ یا فرسٹ
کیوں نہیں۔۔؟
اگر
دوسری ہے تو فلاں بچے کی طرح پہلی کیوں نہیں؟ حالانکہ پوزیشن ہولڈر ہونا بہت بڑی بات
ہے چاہے تیسری ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ دوسرے بچے تو اس تیسری پوزیشن کے لیۓ
بھی ترستے ہیں۔۔
دراصل
ہمیں خوش رہنا اور شکر کرنا نہیں آتا۔۔ ہم اپنے ان بچوں کو جو کہ معاشرے کا حصہ ہیں
اگلی نسل کی وہ ہی پرورش کریں گے۔۔ ان بچوں کو حوصلہ نہیں دیتے۔۔ بچے بڑے ہر شخص کو
میرے ، آپ کے، ہم سب کے حوصلہ کی کندھے کی ضرورت ہے۔۔ہر شخص دوسرے شخص سے مختلف ہوتا
ہے۔۔ اچھا اچیو کرنا، یا اس کی خواہش رکھنا غلط بات نہیں۔۔ لیکن جو ہے اسے چھوڑ کر
،،، دل دکھا کر کسی کے اچھے بھلے کام کو بھی ناکام بنا کر اس کے سامنے پیش کرنا تو
یہ غلط ہے ۔
ہمیں
ناکامی کے ڈر سے نکلنا ہوگا۔۔ یہ ناکامی کا ڈر ہمارے اندر کے بہت سے احساسات کو مار
دیتا ہے۔۔ ہمیں گلٹی بناتا ہے۔۔احساسِ کمتری ہم میں پرورش پاتی ہے۔۔
ہمیں
یہ یاد رکھنا چاہیۓ
کہ "ایک شخص کو اصل کامیابی ہی ناکامی
کے ملنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔۔"
جن
کے دل میں ناکامی کا ڈر ہو ان کے حوصلے کبھی بلند نہیں ہو پاتے۔ اور ڈگمگاتے حوصلے
یا فیصلوں سے کامیابی نہیں ملا کرتی۔۔
"کامیابی صرف پختہ فیصلوں سے ملتی ہے۔۔ "
"کامیابی ناکامی کے ڈر کو ہرا دینے سے ملتی ہے۔۔"
"کامیابی کے لیۓ
خود کے اعصاب کو مضبوط کرنا پڑتا ہے۔۔"
"کامیابی کے لیۓ
کان بند کرنے پڑتے ہیں۔۔"
"کامیابی کا عمل ناکامی کے عمل سے شروع ہوتا ہے۔۔"
"ہر ناکام شخص ہی جانتا ہے کہ اسے کیسے کامیاب ہونا ہے۔۔"
کامیاب
بزنس مین ہو یا کامیاب طلبہ، استاد، ڈاکٹر۔۔ یا کوئی بھی فیلڈ کے کامیاب شخص کو دیکھ
لیں ۔۔۔سب ایک ایسے دور سے گزرے ہوں گے جہاں یقینا انھیں ہاتھ رکھتے ہی کامیابی نہیں
ملی ہوگی۔۔ناکامی کا سامنا ہر شخص کو کرنا پڑتا ہے ۔۔ہاں لیکن وہ ہار نہیں مانتے۔۔انتھک
کوشش کرتے ہیں۔۔جانتے ہیں کہ معاشرہ اگر خود کامیاب نہیں تو ہمیں بھی حوصلہ نہیں دے
گا۔۔۔ لہذا وہ کانوں میں روئیاں ڈالتے ہیں۔۔ اور وہ سب ناکامی کو ہرا کر ہی اس کامیابی
کے دور کو جی رہے ہیں۔۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں۔۔۔وہ جانتے ہیں کہ ناکامی کس کس مل سے
ملنی ہے۔۔ یا مل سکتی ہے۔۔ کیونکہ وہ اس دور سے دورِ زمانہ، سے گزر چکے ہوتے ہیں۔۔
بہت
کم لوگ ہیں جو قسمت کے کھیل سے بےخبر کامیابی جی رہے ہیں۔۔ لیکن جب وہ ہارتے ہیں تو
انھیں وہ ناکامی برداشت نہیں ہوتی۔ پھر وہ ہم جیسے عام لوگوں کے لیۓ
کم ہمت حوصلہ لوگوں کے لیۓ
بھی وہ کندھا نہیں بن پاتے جو ہمیں چاہیۓ
ہوتا ہے۔۔۔
آخر
میں ۔میں صرف اتنا کہوں گی۔۔
ہم
سب اپنے معاشرے سے یہ ناکامی کے ڈر کو نکلنا پھینکنا چاہیۓ۔۔
معاشرہ ہم سے ہے۔۔ اس لیۓ
تبدیلی ہمارے اندر رونما ہوگی تو معاشرہ اپنے آپ تبدیل ہوگا۔
ہمیں
اپنی اولاد کو یہ نہیں کہنا کہ کامیاب ہی کو کر لوٹنا۔۔بلکہ کہنا کہ۔۔ کوشش پوری کرنا۔۔کامیاب
ہو یا ناکام ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ بس محنت اور کوشش کے بعد اچھا سبق لے کر آنا۔۔
ناکامی
کا ڈر صرف ہمارے دلوں میں گردش کرتا ہے۔۔حالانکہ کوشش کرنے والے جانتے ہیں کہ ، کوشش
کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی۔۔۔
ہر
چیز ناکامی کے آگے ہے اگر ہم اس ناکامی کے چھوٹے سے دریا کو پار نہیں کریں گے، تو پھر
کامیابی کے سمندر کو اس کی حقیقت کو کبھی حاصل نہیں کرسکتے۔۔
جانتے
ہیں کیوں؟ کیونکہ ناکام ہو کر کامیاب ہونے والے شخص کے پاس تجربہ زیادہ ہوتا ہے۔
بس
خدارا یہ اچھا سبق اپنی اولاد کو ضرور دیں ان کے لیۓ
آپ وہ کندھا بنیں جو انھیں سہارا دے سکے۔۔ناکہ معاشرہ میں سر اٹھا کر ان کے جینے کا
حوصلہ چھین لیں۔۔
ان
سے کہیں کہ تم کسی دوسرے کے جیسے مت بننا اپنے آپ میں ایک اچھی مثال بننا۔۔جیسی کبھی
کوئی مثال نہ ہو۔
تم
اپنے آپ میں ایک "منفرد" شخصیت ہو۔۔
تم
سب سے مختلف "ہنر مند" شخصیت ہو۔۔
تم
بغیر پہچان کے بھی ایک "عظیم" پہچان ہو۔۔
کیونکہ
تم خود میں ایک شخص نہیں "شخصیت" ہو۔۔۔
تمہارے
حوصلے ہمیشہ بلند رہنے چاہیۓ۔۔
جزاک
اللہ۔۔
آپ
سب کی اتنی محبتوں کی قرضدار۔۔
آپ
سب کی بے انتہا شکرگزار۔۔ مصنفہ
"سویرا انصاری"
******************
Comments
Post a Comment