Masjood e malaik Article by Mirza Nigar Saif

"عنوان۔۔۔

مسجودِ ملائک"

"ازقلم۔۔۔مرزا نگار سیف"

"صنف۔۔۔کالم"

میرے ذہن میں یہ سوال اکثر اٹھتا تھا کہ...!

آخر انسان مسجودِ ملائک کیوں ٹھہرا…؟

جبکہ انسان تو اتنا کم مایا ہے کہ خدا باری تعالیٰ خود فرماتا ہے!

"• انسان بڑا کمزور ہے."

"• یہ بڑا بے بس ہے."

"• یہ بڑا جاہل ہے."

"• یہ اپنے رب کا بھی بہت نا شکرا ہے."

نہ صرف یہ سب باتیں کہیں بلکہ اکثر جگہوں پہ قسمیں بھی کھائیں۔۔۔

اور پھر انسان کی تخلیق، آہ!

انسان کی تخلیق ایک بڑا خوبصورت موضوع ہے اس کے پسِ منظر سے تو قریباً سب ہی واقف ہیں:۔

"اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا بے شک میں زمین میں ایک جانشین بنانے والا ہوں، انھوں نے کہا کیا تو اس میں اس کو بنائے گا جو اس میں فساد کرے گا اور بہت سے خون بہائے گا اور ہم تیری تعریف کے ساتھ ہر عیب سے پاک ہونا بیان کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ فرمایا بے شک میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔" (القرآن)

اب انسان کو "نائب/خلیفہ فی الارض" کہہ دیا گیا کیا یہ وجہ ہے اس کے مسجودِ ملائک ہونے کی…؟

جبکہ! سورہ روم میں اللہ فرماتا ہے!

"کیا انھوں نے کبھی اپنی ذات میں غور و فکر نہیں کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے نہیں پیدا کیا آسمانوں کواور زمین کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں مگر حق (یعنی درست تدبیر و حکمت ) کے ساتھ اور ایک وقت مقرر تک کے لیے ہی۔"

پھر سورۃ حج میں فرمایا!

’’اے لوگو! اگر تم (قیامت کے دن) جی اٹھنے سے شک میں ہو تو (سوچو) کہ ہم نے تمھیں (ابتداً) مٹی سے پیدا کیا، پھراس سے نطفہ بناکر، پھر اس سے جمے ہوئے خون کا لوتھڑا بناکر، پھر اس سے گوشت کی بوٹی بناکر صورت بنی ہوئی اور بغیر صورت بنی (ادھوری) تاکہ ہم تمھارے لیے ( اپنی قدرت) ظاہر کردیں اور ہم جس کو چاہتے ہیں (ماؤں کے) رحموں میں ایک مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر ہم تمھیں نکالتے ہیں بچے (کی صورت میں) تاکہ پھر تم اپنی جوانی کو پہنچو، اور تم میں کوئی (عمر طبعی سے قبل) فوت ہوجاتا ہے اور تم میں سے کوئی لوٹایا جاتاہے بدترین عمر تک تاکہ وہ (بہت کچھ) جاننے کے بعد بھی کچھ نہ جانے (یعنی ناسمجھ ہوجائے)، اور تو زمین کو دیکھتا ہے کہ خشک پڑی ہوئی ہے، پھر جب ہم نے اس پر پانی اتارا تو وہ تر و تازہ ہوگئی اور ابھر آئی اور وہ اگا لائی ہر قسم کے خوش منظر نباتات۔یہ اس لیے کہ اللہ ہی برحق ہے اور یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور یہ کہ وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘

(القرآن)

کہا جا رہا ہے کہ پہلے تمہیں مٹی سے بنایا (آدم)، پھر کہا جاتا ہے کہ تمہیں نطفہ یعنی پانی اور پانی بھی کون سا ٹپکتا ہوا اچھلتا ہوا پانی، جو نر  کے جسم میں  نطفہ (سپرم) ہے، جو نر اور مادہ کے جماع (intercourse) کرنے پر نر کا نطفہ، مادہ کے رحم (بیضہ) میں جاتا ہے اور فیمیل ایگ کو فرٹیلائز کرکے لاقحہ (Zygote) بناتا ہے، اس کے بعد پھر بنتا ہے ایمبریو۔ ایمبریو سے اگلا مرحلہ جنین اور پھر یہ حمیل بنتا ہے جو پیدائش تک رحم مادر تک ایک تاریک اندھیر جگہ پر قیام کرتا ہے۔

پھر آتا ہے "زچگی" کا مرحلہ، جس رستے انسان کی اس دنیا میں تخلیق کا سلسلہ شروع ہوا وہیں سے اس دنیا میں آنے کا راستہ۔۔۔!

پہلے نطفے سے جما ہوا خون (مادہ بیضہ) اور پھر اس جمے ہوئے خون سے بوٹی(ایمبریو) اور پھر اس کو اللہ چاہے تو ضائع کر دے اور جسے چاہے اک مدت کے بعد اس دنیا میں بچے کی صورت بھیج دے۔

یہ تو تھا انسانی تخلیق کا اوپری اوپری مختصر قصہ، "اللہ عزّوجل" نے اس کائنات میں کم و بیش اٹھارہ ہزار مخلوقات پیدا فرمائیں۔۔۔!

فرشتے جو کہ نوری مخلوق ہیں، نہ خواہشات رکھتے ہیں، نہ کمائی کی فکر، نہ سونے جاگنے کی، بس حکم کے تابع۔

شیاطین و جن جو کہ ناری مخلوق ہیں ، باغی و سرکش۔

حیوانات و چرند پرند جو کہ شعور و فہم سے خالی ہیں، حق و باطل کی تمیز سے عاری۔

ایسے میں انسان جس کو چھ بنیادی "حِسّوں" کے ساتھ روزی روٹی کی فکر، "نفس و شہوت" کی لذت کے ساتھ، "روحانی بیماریوں" کے ساتھ اور پھر 'شیاطین و جن' کو بھی اس پر کُھلی چھٹی دے دی کہ جاؤ لگا لو زور کرو گمراہ جو میرا ہے لوٹ کے میری طرف ہی آئے گا۔

پھر اس گمراہی سے نجات کو "پیغمبر، رسول، نبی" بھیجے۔

"انبیاء و مرسلین" کو کیوں بھیجا گیا۔۔۔؟

سلسلۂِ نبوت کیوں جاری کیا گیا۔۔۔؟ کیونکہ! "عہدِ الست" میں کیے گئے وعدے کی یاددہانی کے لیے۔۔!

"اور کہا یاد کرو اس عہد کو جو میں نے تم سے لیا،

کیا میں تمہارا رب نہیں؟

تب ہر روح نے کہا بے شک تیرے علاوہ کون ہے؟"

اور اس عِہد میں سب سے پہلے جس روح نے اقرار کیا، وہ تھی "روحِ محمدی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم،" پھر ان کے پیچھے "انبیاء" کی پھر "صدیقین،شہداء، صالحین، مومنین، مومنات، مسلمین، مسلمات" کی ارواح بولیں، حتیٰ کہ کفار کے گروہوں نے بھی اقرار کیا بے شک تو ہی تو ہے۔

روح کیا ہے؟

"یہ لوگ تم سے روح کےبارے میں پوچھتے ہیں! کہو یہ امر ربی ہے مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا۔" روح کی بات کو روکتے ہوئے پہلے دیکھتے ہیں انسان کی تخلیق کے متعلق کیا کچھ کہا جا رہا ہے۔۔!

پھر یاد کرو اس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ!

"میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں، جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔"

چناچہ تمام "فرشتوں" نے سجدہ کیا ، سوائے "ابلیس" کے کہ...! اس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا، اس نے کہا! میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اس بشر کو سجدہ کروں، جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے۔۔؟

آخر کیوں سجدہ کرتا ابلیس…؟ اس سوکھے گارے سے، مٹی سے پیدا کیے گئے انسان کو، جس نے خدا کی محبت کے لیے کچھ کیا بھی نہ تھا۔۔؟

وہ ابلیس جس کا ہدف تو اللہ کا سب سے مقرّب اور عبادت گزار بننا تھا، "جو پہلے آسمان پر عابد جانا جاتا تھا، دُوسرے پر زاہد، تیسرے پر عارف، چوتھے پر ولی، پانچویں پر تقی، چھٹے پر خازن اور ساتویں آسمان پر عزازیل تھا۔"

وہ جو فرشتوں کا 'واعظ' تھا، 'معلم' تھا، جس نے خدا کی محبت میں "تحتَ الثُریٰ" سے عرش تک چپے چپے پہ خدا کی عبادت کی تھی۔

کوئی ایسی مخلوق جو اس سے حقیر و پست تھی، جو کمزور تھی، وہ آئی اور اس پے فضیلت لے گئی…؟

آخر کیوں یہ فانی انسان مسجودِ ملائک ٹھہرا تھا…؟

کیونکہ!

اللّہ عزوجل نے اس میں اپنی روح (نور )سے اس میں کچھ روح (نور) پھونک دی۔ (اللہ اکبر کبیرا و الحمدللہ کثیرا)۔

"روح جو کہ امرِ ربی ہے جو نفیس و لطیف جوہر ہے وہ انسان میں داخل کر دیا گیا۔"

کیونکہ! انسانوں کے علاوہ یہ درجہ کسی کو حاصل نہیں۔

"وہ جب کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے فرماتا ہے، ’’ ہو جا‘‘ تو وہ ہوجاتی ہے۔"

یعنی مخلوقات کا وجود اس کے حکم کے تابع ہے اور جب خدا کسی چیز کو وجود میں  آنے کا حکم فرماتا ہے تو اسے لوگوں  کی طرح مختلف اَشیاء کی حاجت نہیں  ہوتی بلکہ خدا کے حکم پر ہر چیز "امرِ ِالٰہی" کے مطابق وجود میں  آجاتی ہے۔

مگر واحد یہ انسان ایسی ہستی ہے جس کو بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مکمل ایک پراسس طے کیا، پھر اس نے اپنی روح (نور) سے کچھ روح (نور)  پھونک کر کمال رتبہ عطا کیا۔

پس 'سلبِ آدم' سے لباسِ انسانی پہن کر "محبوبِ خدا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" اس دنیا میں تشریف لائے، انسانوں کو گمراہی سے نکال کر راہ نجات دینے والے۔۔۔!

یہ کم مایا انسان جہاں "بے بس، کمزور، جاہل، جھگڑالو، ناشکرا" جیسے 'القابات' سے پکارا گیا وہیں "اللہ عزوجل" نے فرمایا:

"ہم نے انسان کو احسن تقویم بنایا۔"

(سورۃ التین)

کیا ہم نے کبھی غور کیا کائنات کتنی وسیع ہے؟ اس جہان سے باہر کتنے جہان ہیں؟

چلیں باقی سب چھوڑیں یہ ہمارا ایک "سولر سسٹم" جانتے ہیں کتنا بڑا ہے؟ اور سولر سسٹم سےبڑے سسٹم بھی کائنات میں موجود ہیں مگر… مگر… مگر…! اس کائنات میں سب سے چھوٹی دنیا "ایٹم" کی دنیا ہے جو اس ساری دنیا میں کائنات میں موجود جاندار و بے جان اشیا کا بنیادی جزو ہے۔

"Atoms are extremely small and are made up of a few even smaller particles. The basic particles that make up an atom are electrons, protons, and neutrons. Atoms fit together with other atoms to make up matter"

جی ہاں اس کی بھی ایک دنیا ہے بالکل اس سولر سسٹم کی طرح اس میں بھی "الیکٹرون ، نیوٹرونز، پروٹون،" نیوکلس کے گرد طواف کرتے ہیں، جیسے ہمارے سولر سسٹم میں سیارے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔

اتنی بڑی کائنات میں ہمارا سورج بھی ایک ایٹم ہے جس سے مل کر کائنات بنی ہے، اس کے الیکٹران اور نیوٹران یہ سیارے ہیں یعنی ایٹم سے بھی چھوٹے زرے ہم جہاں رہتے ہیں وہ یوں سمجھ لیں یا تو نیوٹران ہے یا الیکٹران  اس میں بھی دیوہیکل مخلوقات موجود ہیں، زمین پہ 71 فی صد پانی ہے پھر جو 29 فیصد زمین ہےاس میں بھی جنگل، صحرا، پہاڑ اور نجانے کیا کیا اور پھر آتے ہیں انسان۔

جیسے ہم عام آنکھ سے ایٹم نہیں دیکھ سکتے کیوں کہ۔۔۔!

ہمارے مقابلے وہ بہت چھوٹا ہے ویسے ہی سوچیں اس پوری کائنات میں انسان جو ایٹم بھی نہیں بلکہ سب ایٹم کا بھی ایک جزو ہے اس زمین پر انسان کی حیثیت کیا ہو گی؟

وہی انسان جس کے بارے میں  اللہ فرماتا ہے!

"انسان سب چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے۔"

"وہ بہت ظالم اور بہت نادان ہے۔"

"وہ خدا کے بارے میں بہت ناشکرا ہے۔"

"جب انسان اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے تو سرکشی کرتا ہے۔"

"وہ کم ہمت پیدا کیا گیا ہے۔"

"اور انسان بڑا تنگ دل ہے۔" (القرآن)

لیکن جب فرشتوں نے کہا!

"کیا تو زمین میں اس کو پیدا کرے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟"

تب! اللہ نے فرمایا: "بے شک مجھے وہ معلوم ہے جو تم نہیں جانتے"

"اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھا دیئے (اسے تمام حقائق سے آشنا فرمایا) پھر ”ملکوتی مخلوق“ فرشتوں سے کہا: مجھے ان کے نام بتاؤ کہ کیا ہیں؟ وہ بولے: ہم کو معلوم نہیں مگر جتنا کہ تو نے ہمیں خود سکھایا فرمایا: اے آدم تو ان کو ان چیزوں کے نام سکھا دے اور آگاہ کر پھر اس نے سب چیزوں کے نام سکھا دیئے اور آگاہ کر دیا تو اللہ نے فرشتوں سے فرمایا: کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو خوب جانتا ہوں وہ بھی جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو" (القرآن)

اس انسان کو اللہ نے عقل و علم دیا، پھر اسے بولنا سکھایا، اور زمین و آسمان، چاند و سورج اور سیارے اسی انسان کے لیے ایک حساب میں مقرر کر دیے اور اس نے خلقت کے لیے زمین کو بچھا دیا، اور سمندر کوانسان کے لیے مسخر کردیا، چوپایوں کو انسان کے لیے مسخر کر دیا، اور اسی نے سبز درخت میں آتش گیر مادہ رکھ دیا۔

"واللہ"

اللہ کی تعریف تو کیا اس کی قدرت کی نشانیوں پہ ساری کائنات کی مخلوق لکھنا شروع کریں تو بیان کرنا نا مکمن ہے قصۂِ مختصر

انسان کی شان یہ ہے کہ!!!

"انسان کی پیدائش اتفاقی نہیں، اس کے لیے محض "کُن" نہیں کہا گیا بلکہ "اللہ عزوجل" نے ایک خاص 'مقررہ طریقۂِ کار' سے اس کی تخلیق کی اور پھر انسانی فطرت میں ان مادی عناصر کے علاوہ جو جمادات، نباتات اور حیوانات میں ہیں، ایک آسمانی اور روحانی عنصر بھی رکھ دیا، گویا انسان جسم اور روح (اللہ کے نور) کا مرکب ہے۔

شاید یہی تو وجہ ہے ناں جو انسان "مسجودِ ملائک" ٹھہرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"ختم شد"

Comments

  1. ماشاءاللہ تبارک و تعالیٰ۔
    اللھم زد فزد۔
    بہت بہت بہت خوب لکھا۔
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

    ReplyDelete

Post a Comment