Hub Allah aur is mein istiqamat Article by Hafiza Tehreem Shahzadi

حب اللّٰہ اوراس میں استقامت

 ایک دن بیٹھے بیٹھے میرے ذہن میں یہ سوال آیا کیا میں اللّٰہ سبحانہ وتعالی سے محبت کرتی ہوں ؟ کیا میری محبت اتنی سچی ہے جتنی ہونی چاہیے ؟ کیا میری جو اللّٰہ سبحانہ وتعالی سے محبت ہے میں اس کے تمام تقاضے پورے کرتی ہوں ؟ ان سب سوالوں کے جواب تلاش کرتے کرتے میں ایک اور سوال پر پہنچ گئی کے لفظ محبت ہے کیا؟ پھر میں نے لفظ محبت پہ سوچنا شروع کردیا

لفظ محبت تو اپنے معنی و مفہوم کےاعتبار سے اپنے دامن میں بہت وسعت اور جامعیت رکھتا ہے لفظ محبت کا لغوی معنی الفت، چاہت، پیار لگن، اور انس کے ہیں ۔

عام اصطلاح میں لفظ محبت سے مراد کسی کی جانب مائل ہونا ہے

اور حب اللّٰہ سے مراد انسان کا اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب مائل ہونا اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات کو سب پر ترجیح دینا ،فوقیت دینا وغیرہ

اس کا جواب ملتے ہی میرا ذہن دوبارہ اس سوال پر اٹک گیا کہ:

کیا تحریم تمھیں اللّٰہ سبحانہ وتعالی سے محبت ہے ؟ کیا تمہیں اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ سے اتنی انسیت ہے جتنی ایمان والوں کو ہوتی ہے؟ اور ہاں اگر اللّٰہ سبحانہ وتعالی سے محبت ہے تو کیا تم وہ تقاضے پورے کرتی ہو؟

اس کے بعد میرے ذہن میں یہ سوال گھومنے لگا کے اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ سے محبت کی تقاضے کیا ہیں ؟

جواب: اللّٰہ سبحانہ وتعالی سے محبت کے تقاضے

*اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ سے محبت کا تقاضا تو یہ ہے نا کے اس کے تمام احکامات کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے (ان احکامات میں نماز قائم کرنا، زکوٰۃ اداکرنا، پردہ کرنا، ماں باپ کا احترام کرنا، قرآن کریم کو باقاعدگی سے پڑھنا، مشکل حالات میں صبر کا دامن نا چھوڑنا نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کرنا، خرچ کرتے وقت میانہ روی اختیار کرنا، انصاف پسندی کا مظاہرہ کرنا، حرام چیزوں سے خود کو دور رکھنا، مخلوق خدا سے محبت کرنا، نا محرم سے دور رہنا، صدقہ ادا کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔

* اللّٰہ سبحانہ وتعالی سے محبت کا تقاضا صرف اس کے احکامات کو دل و جان سے تسلیم کرنا ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان میں استقامت اختیار کرنا بھی ہے

ان سب سوالوں کے جواب پانے کے بعد میں نے اپنا محاسبہ شروع کر دیا اور اس کے بعد میں یہ جان پائی کے میں ان سب پر عمل پیرا ہونے کی کوشش تو کرتی ہوں لیکن استقامت والی سیڑھی سے لڑکھڑا جاتی ہوں ۔ میرے اعمال میں استقامت بہت کم ہے۔ میری بھرپور کوشش کے بعد بھی میں اس لیول کو نہیں پہنچ سکی جو مومنین کا ہوتا ہے۔ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کے اعمال میں استقامت کیسے اختیار کی جائے؟ میں نے اس کے لئے مختلف کام کیے جیسے:

میں نے دینی علوم کا مطالعہ شروع کردیا، ڈراموں کی دنیا سے دوری اختیار کر کے دیکھی، اپنی گیدرننگ کو بدل کردیکھا، نماز کے بعد سجدے میں استقامت کی دعائیں مانگ کے دیکھیں، اسلامک لیکچرز لینے شروع کر دئیے لیکن پھر بھی استقامت کا وہ لیول نا حاصل کر سکی۔ ایک دن ٹیوشن پڑھانے کے دوران ایک بچے سے اسلامیات کا سبق سننے کے بعد میرے سامنے  ایک آیت آئی جو یہ تھی

ادعو ربکم تضرعاو خفیہ

ترجمہ: اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چھپ کر پکارو

پھر اس پر سوچتے سوچتے میں اس حتمی نتیجے پر پہنچی کے میں نے تو کبھی اللّٰہ سبحانہ وتعالی سے ایسے کبھی دعا نہیں مانگی کبھی گڑگڑا کر نہیں مانگا اور عموماً چھپ کر بھی نہیں مانگا تو پھر میرا میری دعاوں کے قبول نہ ہونے پر رب سے شکوہ کرنا تو بنتا ہی نہیں ؟ اس دن کے بعد میں نے دعا مانگنے کا طریقہ اس آیت کے مطابق کیا پھر میرے دل میں روزانہ یہ جستجو ہونے لگی کہ کچھ قرآن پاک سے اور سیکھا جائے پھر میں نے قرآن پاک کی رینڈم  آیات کو ترجمے سے پڑھنا شروع کردیا اس کی مناسبت سے اپنی ذات کو پرکھنا شروع کردیا اور ان کو عملی ذندگی میں شامل کرنا شروع کردیا مجھے اپنی زندگی میں واضح فرق نظر آنے لگا پھر اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ سے محبت بھی بڑھنے لگی اعمال میں پختگی آنے لگی۔ پھر میری ذات میں تقویٰ نشوونما پانے لگا۔ پھر میرا دل اللّٰہ سبحانہ وتعالی سے محبت کی گواہی دینے لگا۔ پھر اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ سے میری محبت بڑھنے لگی۔ پھر میرے ذہن میں یہ آیت آئی:

والذین آمنوا اشد حبا للہ

ترجمہ: اور ایمان والے سب سے زیادہ محبت اللّٰہ سبحانہ وتعالی سے کرتے ہیں

کیونکہ کے اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ سے محبت ایمان کا تقاضا بھی ہے۔ ایمان کی تکمیل حب اللّٰہ کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ اور جس عمل میں محبت شامل نہ ہو وہ کھوکھلا اور بے توفیق ہوتا ہے۔ اور اللّٰہ سے محبت اتنا آسان کام نہیں یہ وہ محبت ہے جس میں انسان کو ہر لمحہ اپنے نفس سے لڑنا پڑتا ہے ۔باقی دنیاوی محبتوں پے تو شیطان راضی ہوتا ہے کیونکہ دنیاوی محبتیں انسان کو راہِ راست سے/ اللّٰہ سبحانہ وتعالی سے دور کر دیتی ہیں

اور جب اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ سے محبت کسی وجود میں گھر کر جاتی ہے نا وہ وجود دنیا کا قیمتی وجود بن جاتا ہے وہ دل دنیا کا قیمتی خزانہ بن جاتا ہے۔ نہ اس محبت سے پہلے کوئی محبت وجود پاسکتی ہے نہ اس محبت کے بعد کوئی باقی رہ سکتی ہے ۔ یہ محبت تمام امراض کی شفا ہے ۔ اللّٰہ تعالٰی سے محبت کسی بھی مومن دل کا انتہائی قیمتی سرمایہ ہے اور جب مومن ہر قول و فعل میں حب اللّٰہ کا طلب گار بن جاتا ہے نا اللّٰہ سبحانہ وتعالی کامیابیوں اور کامرانیوں کو اس کے قدموں میں پہنچا دیتے ہیں ۔ اور اس شخص کو دنیا اور آخرت میں کامیابیوں کی خوشخبریاں دی جاتی ہیں

اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں نا:

کہ اے میرے بندے چاہت دو طرح کی ہے ایک میری چاہت ہے اور ایک تیری چاہت ہے اگر تو وہ کرے گا جو میری چاہت ہے تو میں وہ کروں گا جو تیری چاہت ہے اور اگر تو وہ کرے گا جو تیری چاہت ہے تو ہو گا وہ جو میری چاہت ہے

اور ایمان والے تو اللّٰہ سبحانہ وتعالی کی چاہت کو ترجیح دیتے ہیں تو کامیابیاں انکا مقدر ہو جاتی ہیں اور پھر ان پر اللّٰہ سبحانہ کی محبت کا رنگ نظر آنے لگتا ہے جسے صبغتہ اللّٰہ کہا جاتا ہے

(حافظہ تحریم شہزادی)

*****************

Comments