بت
از قلم :طیبہ ابراہیم محمدی
میں
اکثر سوچتی تھی کے بت کیا ہوتے ہیں ؟
بت
کہتے ہیں کسی کے سامنے مبہوت ہو کر کھڑے ہونے کو کسی کے آگے خود کو بے بس محسوس کرنے
کو ۔ بت وہ ہے جس کی عبادت کی جاۓ۔
ایک
بت تو وہ ہے جو ہمیں مادی شکل میں نظر آتے ہیں۔ ہندو اپنے مذہب کی بنیاد انہیں بتوں
پے اکھتے ہیں۔ جب بھی ہم بت لفظ سنتے ہیں یا کہیں پڑہتے ہیں تو فوراً سے ہمارے دماغ
میں انہیں بتوں کا خیال آتا ہے۔
لیکن
کیا آپ جانتے ہیں کے بتوں کی اور بھی کئی اقسام ہیں جن سے آج کا انسان نا واقف ہے۔
ہم
اپنے دین کی تاریخ سے ۔
عام
باشندگان عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں دین ابراہیمی
کے پیرو تھے اس لیے صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے اور توحید پر کاربند تھے' لیکن وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے خدائی درس کا ایک حصہ بھلا دیا۔ پھر بھی ان کے اندر توحید
اور کچھ دین ابراہیمی کے شعائر باقی رہے، تا آنکہ بنو خزاعہ کا سردار عمرو بن لحی منظر
عام پر آیا ۔
اس
کی نشونما بڑی نیکوکاری، صدقہ و خیرات اور دینی امورسے گہری دلچسپی پر ہوئی تھی ،اس
لے لوگوں نے اسے محبت کی نظر سے دیکھا اور اسے اکابر علماء اور افاضل اولیاء میں سے
سمجھ کر اس کی پیروی کی۔ پھر اس شخص نے ملک شام کا سفر کیا۔ دیکھا تو وہاں بتوں کی
پوجا کی جارہی تھی۔ اس نے سمجھا یہ بھی بہتر اور برحق ہے کیونکہ ملک شام پیغمبروں کی
سرزمین اور آسمانی کتابوں کی نزول گاہ تھی ۔چناچہ وہ اپنے ساتھ ہبل بت بھی لے آیا۔اور
اسے خانہ کعبہ کے اندر نصب کردیا اور اہل مکہ کو اللہ کے ساتھ شرک کی دعوت دی۔
اہل
مکہ نے اس پر لبیک کہا۔ اس کے بعد بہت جلد باشندگان حجاز بھی اہل مکہ کے نقش قدم پر
چلے پڑے کیونکہ وہ بیت اللہ کے والی اور حرم کے باشندے تھے۔ اس طرح عرب میں بت پرستی
کا آغاز ہوا۔
ہبل
کے علاوہ عرب کے قدیم ترین بتوں میں سے مناۃ ہے۔اس کے بعد طائف میں لات نامی بت وجود
میں آیا۔پھر وادئ نخلہ میں عزی کی تنصیب عمل میں آئی۔ یہ تینوں عرب کے سب سے بڑے بت
تھے۔ پھر مشرقین نے مسجد الحرام کو بھی بتوں سے بھر دیا۔چناچہ جب مکہ فتح کیا گیا تو
بیت اللہ کے گرداگرد تین سو ساٹھ بت تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے اپنے
دست مبارک سے توڑا۔آپ ہر ایک کو چھڑی سے ٹھوکر مارتے جاتے تھے اور وہ گرتا جاتا تھا۔پھر
آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے حکم دیا اور ان سارے بتوں کو مسجد الحرام سے باہر نکال کر
جلا دیا گیا۔
لیکن
کیا صرف بت یہی ہوتا ہے ؟
میں
نے نمرا احمد کے قرآن کورس سے سیکھا کے بت اور بھی بہت طرح کے ہیں۔
ہماری
اندھی خواہشات ہمارا بت ہیں۔ ہماری انا ہمارا بت ہے ۔
ہر
وہ چیز ہمارا بت ہے جو ہمیں اللہ کے راستے سے روکے ۔
ہم
ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں ہم بیک وقت بہت سے بت رکھے ہوۓ
ہیں۔ ہر انسان نے اپنے الگ بت بنا کر اسکی پوجا شروع کردی ہے۔ کبھی یہ بت ہماری انا
کی صورت ہوتے ، کبھی خوف کی مانند ، ہر انسان متعدد بتوں کی پوجا میں مصروف ہے۔
کیا
آپ نے اقبال کا وہ شعر سنا ہے
یہ
دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم
کدہ ہے جہاں لاالہاالاللہ
میں
نے جب اس شعر کو پڑھا تھا تو مجھے سمجھ نہیں آیا تھا پھر میں نے اپنی ٹیچر سے اس کا
مطلب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس شعر میں اقبال کیا کہنا چاہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے
کہ اقبال نے اس ایک شعر میں ہم انسانوں کو بہت بڑا راز تھما دیا ہے۔اگر ایک پل کے لیۓ
سوچیں تو واقعی آج یہ دنیا اپنے ابراہیم کی تلاش کر رہی ہے ۔ہمیں کامیابی چاہیے لیکن
ہم اپنے کسی بت کو اس کے لیۓ
قربان نہیں کرنا چاہتے ۔ آخر ہم کب سمجھیں گے کے ہمیں صرف اپنے رب کے آگے جکھنا ہے
۔ ہمیں صرف اپنی انا، کے اپنے خوف کے، اپنے غصے کے، اپنی بری عادات کے، اپنی اندھی
خواحشات کے، اپنے غرور کے ان بتوں کو توڑنا ہوگا ۔ بلکل ویسے ہی جیسے حضرت ابراہیم
علیہ السلام نے سالوں پہلے بتوں کو توڑا تھا ۔ انہوں نے اس بات کا خیال نہیں کیا تھا
کا لوگ کیا کہیں گے ۔ آج کے دور کا انسان بہت سی باتوں کا اقرار صرف اسی خوف سے نہیں
کرتا کے لوگ کیا کہیں گے۔ ہم یہ کب سوچیں گے کہ ہمارا اللہ کیو سوچے گا۔ یہ کام کرتے
ہوۓ ہم اپنے رب کو کیسے لگیں
گے۔ ہم لوگوں کی فکر کرتے ہیں اللہ کی نہیں کرتے جو ہمیں ستر ماؤں سے بھی زیادہ چاہتا
ہے۔
ہر
وہ چیز جو آپکو آپ کے رب کے سامنے شرمندہ کرواتی ہے وہ آپکا بت ہے۔جو آپکے اور آپکے
رب کے درمیان آجاۓ،جس
میںلگ کے آپ اپنے رب کے احکامات سے غافل ہو جائیں وہ آپکا بت ہے۔
نمرہ
احمد کہتی ہے ہم ایک cycle میں پھنسے ہوۓ
ہیں۔
گناہ ،توبہ
،شرمندگی ، دوبارہ نا کرنے کا عہد اور پھر سے گناہ کر کے توبہ کرنا۔
یہ
دہراۓ
جانے والے گناہ بھی بت ہیں۔ ہمیں سنت ابراہیمی پر عمل کرنا ہے۔ہمیں اپنے بت نا صرف
ڈھونڈنے ہیں بلکہ انہیں توڑنا بھی ہے تاکہ وہ ہمارا اور ہمارے رب کے درمیان نہ آئیں۔
*********
Comments
Post a Comment