کچھ الفاظ غلام نبی آفریدی کے نام
سدرہ اختر راجپوت
پولیس
ڈیپارٹمنٹ جس کے بارے میں کافی لوگوں کا نظریہ بہت غلط ہے جہاں دوسری طرف یہ ہمارے
محافظ ہیں اپنی جان کی بازی لگا کر ہمیں درندوں جیسے انسانوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔
کچھ
غلط آفیسرز کی وجہ سے پوری ڈیپارٹمنٹ بدنام ہوتی ہے آج کی میری تحریر غلام نبی آفریدی
کے نام ہے جو رضویا سوسائٹی میں ایس-ایچ-او ہیں حالی میں کریمینل موسٹ وانٹڈ میں بھی
انکو شو کروایا گیا۔اور ان کو صراحا بھی گیا تھا۔کٹی پہاڑی پر پوسٹنگ کے دوران انہوں
نے کار چوروں کے بہت بڑے گینگ کو پکڑا تھا جو کار چوری کر کے کار کے انر پارٹس کو سیل
کرتے تھے اس کے بعد سے انہوں نے اپنی بھرپور محنت سے منشیات فروشوں کا نام و نشان ختم
کردیا اپنا ایسا نام قائم کیا کہ انکا نام سنتے ہی چوروں کے چھکے اڑ جاتے ہیں انہوں
نے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ہی نہیں بلکہ لوگوں کی نظروں میں بھی اپنا ایک الگ مقام قائم
کیا۔میں غلام نبی آفریدی صاحب اور انکی پوری ٹیم کو سلام پیش کرتی ہوں ان کی اس کارگردگی
پر۔
دن
رات محنت کر کے کس طرح محفوظ رکھتے ہیں ہمیں۔یہ ہر کسی کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہیں
سب کی عزت کا خیال رکھتے ہیں ان کے ہوتے ہوئے کوئی بھی خود کو غیر محفوظ نہیں سمجھتا
پھر چاہے وہ فیمیل کانسٹیبل ہی کیوں نہ ہو۔
پولیس
کو بدنام کیا جاتا ہے کچھ غلیظ انسانوں کی وجہ سے سب کی محنت پر پانی پھیر دیا جاتا
ہے۔یہ حقیقت ہے کہ لوگ کہتے ہیں آرمی کی وجہ سے وطن محفوظ ہے سچائی بس اتنی سی ہے آرمی
والے بارڈر پر رہ کر وطن کی حفاظت کرتے ہیں لیکن پولیس والے وطن کے اندر رہ کر گلیوں
کوچوں میں سخت گرمیوں میں رہ کر ہمیں ہماری سیفٹی کا احساس دلاتے ہیں۔آرمی والے آپ
کی ایک فون کال پر آپکی مدد کرنے نہیں پہنچ جاتے یہ کام صرف پولیس والے ہی کرتے ہیں۔
آخری
بات پولیس ڈیپارٹمنٹ کو رشوت خور کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ایک کانسٹیبل کی سیلری
35000 ہوتی ہے جس میں ان کا کھانا پینا پیٹرول ہر چیز اپنی ہوتی ہے تو ان سب کو جو
پولیس والوں کو رشوت خور کہتے ہیں ان کے لیے میرا ایک ہی پیغام ہے پولیس کو بدنام کرنے
سے پہلے ایک نظر اپنے حکمرانوں پر بھی ڈالیں جنہوں نے مہنگائی کو سر کا تاج بنا رکھا
ہے وہ تاج جو غریب بندہ نہیں خرید سکتا بس پیسوں میں کھیلنے والے ہی پہن سکتے ہیں۔
آللہ
نگہبان۔
*****************
Comments
Post a Comment