Ek jaiza (zinda logon ka qabaristan) article by Hira Shaheen

ایک جائزہ (زندہ لوگوں کا قبرستان)

ازقلم: حرا شاہین 

 

کیا ہے یہ زندہ لوگوں کا قبرستان ؟

 یقیناً آپ کے زہن میں کوئی حقیقی قبرستان آیا ہو گا، لیکن یہ بھی کسی قبرستان سے کم ہولناک نہیں ۔

 زندہ لوگوں کا قبرستان ہے "قید" ، "جیل"۔

 ایسا قبریں جس میں زندہ لوگ درگور ہوں ۔ اگر تو کوئی اپنے کئے کی سزا پانے کیلئے یہاں تک پہنچا ہے تو پھر میں میں کہوں گی کہ وہ ان قبروں کے مستحق ہیں ان کیلئے یہ محض اک جیل ہے لیکن جب کوئی بے گناہ ، اک بے قصور ، عزت اور شرافت کے ساتھ زندگی گزارنے والا با وقار انسان  غیر منصفانہ نظام کی بدولت ان سلاخوں کے پیچھے چلا جائے تو اس کیلئے یہ زندہ درگور ہونے کے مترادف ہے ۔

   ہماری پولیس کا یہ حال ہے کہ جائے وقوع سے مجرم کو نہ حراست میں لے سکیں تو پاس سے گزرنے والے مسافر کو ، کام کرنے والے  مزدور  کو  ، مالی کو  غرض جس پر نظر پڑے اٹھاتے اور  کچھ گھنٹے تھانے میں رکھنے کے بعد ایف -آئی -آر کاٹتے ، کچھ اور نہ بن سکے تو دہشتگرد کا دھبہ لگاتے ہوئے بند کر ڈالتے ہیں  ہائی سکیورٹی جیل میں۔۔۔۔ لیکن مجرم کہاں ہے؟ وہ باہر سے ہی پولیس کی جیبیں بھاری کر کے عبوری ضمانت منظور کرواتے اور اپنے گھروں میں۔۔۔۔ اور بے قصور سلاخوں کو ٹکریں مار رہا ہوتا کہ بتاؤ میرا قصور کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔

 ایک تو ہماری عدلیہ میں عدل ہی نہیں، دوسرا جج صاحب کی سستی ۔۔۔۔ جو ضمانت عدالت میں دائر کی جائے اس کی منظوی کی تاریخ سے بھی چار دن آگے نکل جاتے مگر ضمانت منظور نہیں ہو رہی یا تو جج صاحب مصروف بہت ہیں یا وہ چھٹی پر ہیں ۔۔۔۔۔۔مگر کیا فرق پڑتا ہے وہ تو آزاد ہیں ۔

 بے قصور مجرم روز یہی سوچتا ہے میں تو بے قصور ہوں آج گھر چلا جاؤں گا ،اسی سوچ کے ساتھ کئی دن گزر جاتے ہیں ۔۔۔۔ آیک تو قید ، دوسرا بے قصور ۔ دوسرے قیدیوں کی کہانیاں سن سن کر دن پورے ہوتے ،  اور کھانا ایسا کہ دیکھ کر کلیجہ منہ کو آئے ، چائے اور سالن میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو قصوروار اور بے قصور کیلئے یکساں ہیں ۔

  اصل مجرم بے قصور مجرم کو یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہاں آنا ہی تھا تو کہیں بڑا کارنامہ انجام دے کر ہی آتے شریفوں کا یہاں کیا کام ۔۔۔۔۔۔ اور بے قصور سوچتا ہے کہ شریف بھی اپنی زندگی سکون سے نہیں گزار سکتا ، یہ جیل زندہ لوگوں کا قبرستان ہے ۔۔۔۔۔۔

 صاحب  کہتے ہیں کہ ایک دن جیل کی کی دیوار سے لگا بیٹھا تھا کہ میری نظر میرے جوتوں پر پڑی اور  یہ سوچ کر آنکھیں چھلک پڑیں کہ انہی جوتوں کے ساتھ دنیا کی اعلیٰ جگہ ،سب سے اعلیٰ مقام ، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی پاک گلیوں کی سیر کی اور آج یہی جوتے دنیا کی بدترین جگہ پر بھی لے آئے ہیں ، اللّٰہ کیسے آزمائش میں ڈالتا ہے کہ عرش سے اُٹھا کر فرش پر لے آتا ہے ، انسان کی سوچ دنگ رہ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ آزمائش میں ثابت قدم رہنے والوں کو اللّٰہ جلد تمام مشکلات سے نکال دیتا ہے۔

   ہماری پولیس اور ہماری عدالتوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ، جہاں سے لکشمی آئے ان کے پجاری ۔۔۔۔ کتنے ہی بے قصور کئی سالوں تک قید میں رہتے ہیں اور انہوں اتنے سال یہی ثابت کرنے میں گزر جاتے ہیں کہ میں بے قصور ہوں ۔۔۔۔۔۔ اور اصل قصوروار آزادی سے گھوم پھر رہا ہوتا ہے۔ آخر یہاں تبدیلی کب آئے گی ۔۔۔۔؟

***************

Comments