Bohat bari tabdeeli article by Bint e Abdul Haq

💫بہت بڑی تبدیلی💫

ازقلم بنت عبدالحق

آج اُسے شرعی لحاظ سے پورا پردہ  کیے دو سال ہونے کو تھے۔ وہ خود کو آئینے میں دیکھ کر اپنے ماضی میں چلی گئی جب وہ پوری طرح تیار ہو کر کالج جایا کرتی تھی۔ آگے سے بال کٹے ہوئے، اونچی پونی بنائے سر پہ دوپٹہ لے کر کریم لگا کر دوسروں کی نظروں میں خود کو ابھارنے والی لڑکی،  وہ نادان یہ نہیں جانتی تھی کہ باقی سب کو تو وہ ان سب میں بہت پیاری لگتی ہے لیکن جس ربّ سے وہ ہدایت مانگتی ہے اپنی دعاؤں میں، اُسے تو اسکا یہ انداز پسند ہی نہیں۔ وقت گزرتا گیا اور وہ کالج سے مدرسے پڑھنے چلی گئی۔ تھوڑی سی تبدیلی آئی لیکن اسکے ربّ نے اُسے اس سے بھی بڑھ کر عطا کرنے کا سوچا ہوا تھا۔

 

پھر یوں ہوا کہ اسکی زندگی  نے ایک دم سے کروٹ لی اور وہاں اُسے معلوم ہوا کہ وہ تو خسارے میں زندگی بسر کرتی آئی ہے۔ وہ جس طرزِ زندگی کو جی رہی تھی وہ تو اسکے ربّ کو ناپسند تھا۔ وہاں اُسے پتہ چلا کہ پردہ کیسے کیا جاتا ہے ۔ اُسنے یہ بات جاننے میں اپنی زندگی کے انیس سال ضائع کر دیے۔

 

 پھر اُس پر شیطان اپنے وار کرتا رہا کہ اب اتنے سال تک تمہیں سب نے دیکھا ہے تو اب کس سے پردہ کرو گی۔ لیکن جسے اللّٰہ تعالٰی نے چُن لیا ہو وہ پھر زمانے کی پرواہ نہیں کرتے۔ اُسنے شرعی لحاظ سے پردہ شروع کر دیا لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ اپنے نفس کو ختم کرنا اور لوگوں کی باتیں برداشت کرنا۔ وه لڑکی جو اونچی آواز تک سے کانپ جاتی تھی وہ لوگوں کی بڑی بڑی باتوں کو ہنس کر ٹال دیتی اور اگر شادی بیاہ میں کسی کی کوئی بات جو اسکے دِل کو چیر دیتی، وہ یہ کہہ کر خود کو حوصلہ دیتی کہ دیکھو تم چاہے کسی کو بھی اچھی نہ لگو لیکن اپنے ربّ کو تو سب سے پیاری تم ہی لگ رہی ہو نا۔ اور پھر سر اٹھا کر اپنے ربّ کا شکر ادا کرتی جس نے اُسے ہدایت جیسی نعمت سے نوازنے کے ساتھ ہمت بھی عطا فرمائی۔

 

 وہ ابھی اپنے ماضی میں ہی کھوئی ہوئی تھی کہ امی جی کی آواز نے اُسے ماضی سے نکالا۔ صائمہ رکشہ آ گیا ہے یونیورسٹی نہیں جانا۔۔ آج وہ یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ تھی کتنا فرق تھا دینی اور دنیاوی تعلیم میں وہ اسے آج سمجھ میں آگیا تھا اور وہ خود کو پوری طرح ڈھکی چھپی دیکھ کر مسکرائی اور اپنے ربّ کا شکر ادا کرتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ کر بولی

"اللہ جی بہت پیاری لگ رہی ہوں نا۔ مجھے پتہ آپ بھی مجھے دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔"

 

 اپنے ربّ سے باتیں کرتی ہوئی وہ باہر چلی گئی۔ آج اسکی آنکھوں میں آنسو تو تھے لیکن وہ آنسو خوشی، سکون اور اطمینان کے آنسو تھے جنھیں وہ صاف کرتی ہوئی جا رہی تھی۔۔۔

 

ازقلم بنت عبدالحق

***************

Comments