بہاولپور کی شہزادی
ازقلم: سعدیہ ناز
14 اپریل 1999 کی شام جب وہ
لڑکی اس دنیا میں آئی۔ اس کی پیدائش پر خوش تو کوئی نہیں ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ
افسوس بهی کسی کو نہیں ہوا۔ یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کی ہے جو اپنی ہی دنیا میں مگن
رہتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جو منہ پر تو سب کی ہے لیکن اندر سے انسان کے وجود کو کها جاتی
ہے۔ بچپن سے ہی وہ شرمیلی کسی سے نا ملنے والی اب زندگی کی ایک ایسی جنگ لڑ رہی ہے
کہ ہر انسان کا اس جنگ میں جیتنا مشکل نہیں ہے۔ وہ لڑکی اتنی معصوم تهی کہ بچپن میں
اپنی ہی پلکیں کاٹ ڈالی یہ سوچ کر کہ وہ پیاری لگے گی۔ مگر اس معصوم کو کیا پتہ کہ
جب وہ بڑی ہو گی تو لوگ اس کی آنکھوں میں جو خواب ہیں وہ نوچ ڈالیں گے لوگ اس کی آنکهیں
نوچ ڈالیں گے۔ جب وہ چهوٹی تهی تو اس کا خواب
تها کہ وہ پائلٹ بنے اور دنیا کو اپنی مٹهی میں لے۔ سکول میں اس کی بہت اچهی کارکردگی
رہی۔ وہ لڑکی ہر کلاس میں فرسٹ آتی تهی۔ آخر کار وہ دن بهی آ پہنچا یعنی کہ 2014 کا
سال جب اس نے میٹرک کی۔ پهر اس لڑکی نے کالج میں ایف ایس سی کی۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ دو سالوں میں اس نے ایف ایس کی تعلیم بهی مکمل کر لی۔ مگر اب یونیورسٹی کا سفر
اس کے مقدر میں تها۔ کیونکہ اس لڑکی نے اس سے پہلے انجینئرنگ کا امتحان دیا اور اس
نے وہ امتحان پاس کر لیا۔ مگر لا علمی کے باعث
تاریخ گزر گئی اور اس لڑکی کو پتہ نا چلا وہ سب یونیورسٹی کے داخلے ہو گئے پهر اس لڑکی
نے نسٹ کا امتحان دیا۔ مگر قدرت کو شاید اور ہی منظور تها اور اس لڑکی نے بی ایس فزکس
میں داخلہ لے لیا۔ جب اس نے فرسٹ سمسٹر میں داخلہ لیا تو وہ بہت معصوم تهی کیونکہ اس
سے پہلے وہ کبهی کو ایجوکیشن میں نہیں پڑهی تهی۔ اس نے میٹرک اور ایف ایس سی گرلز والے
ادارے سے کیا تها۔ مگر اب اسے کو ایجوکیشن والے ادارے میں پڑهنا تها۔ وہ لڑکی دنیا
کے رسم و رواج سے نا آشنا تهی۔ ہر ایک کو اپنا بنا لینے کا ہنر اس میں تها۔ جیسا کہ
جب اس نے فرسٹ سمسٹر میں داخلہ لیا تو ایک فی میل استاد کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ وہ
جس سے بهی بات کرتی تهی اس کو اپنا بنا لیتی تهی اور باقی لوگ یہ سمجھتے تھے کہ شاید
اس نے کوئی جادو کیا ہے اس پر۔ مگر لوگ یہ کبهی نا جان سکے کہ وہ اپنے کردار کے بل
بوتے ساری دنیا کو اپنی مٹهی میں لے لیتی۔ وہ ایک اچهے اور پاکیزہ کردار کی مالک تهی۔اس
نے ہر انسان کو وہ محبت اور عزت دی جس کے وہ قابل نہیں تهے۔ وہ عبایا میں ہونے
کے باوجود اپنے آپ کو دنیا کی نظر سے بہت بچا کے رکهتی تهی۔ کیونکہ وہ یونیورسٹی میں
آ کروہ لڑکی اس معاشرہ اور معاشرے کے لوگوں
کو اچهی طرح جان چکی تهی۔ ایک دن وہ لایبریری میں کتاب اٹهانے کے لیے پیچھے مڑی تو
ایک ہاتھ اس کی جانب تها وہ یہ دیکھ کر گهبرا گئی۔ وہ کوئی اور نہیں اس کی سہیلیاں
تهی۔ وہ ہر اس شخص سے بیزار تهی جو اس پر طنز کرتا اس کو طرح طرح کی باتیں کرتا۔ وہ
تو اپنا درد کسی سے بیان ہی نہیں کر سکتی تهی سواے اپنے خدا کے۔ کیونکہ اسے یقین ہوتا
تها کہ اللّٰہ تعالٰی ایک دن اس کی دعاؤں پر کن ضرور کہے گا۔ وہ لڑکی دن رات خدا سے
دنیا والوں کے رویئے کو لے کر اپنے اللّٰہ سے شکایت کرتی کہ کیوں اس کے ساتھ ہی ایسا
کیوں ہوتا ہے۔ لوگ کیوں اس کے ساتھ برا کر جاتے ہیں۔ آخر وہ دن بهی آ پہنچا جب اس نے اپنی سولہ سالہ
تعلیم مکمل کر لی۔ پهر اس نے بی ایڈ میں داخلہ لیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایم فل
فزکس بهی کرتی رہی۔ اس کا شوق تها کہ وہ دنیا کو بہت قریب سے دیکهے۔ کیونکہ وہ دنیا
کے لوگوں سے بیزار ہو چکی تهی۔ وہ راتوں کو اپنے اللّٰہ سے بس ایک ہی سوال کرتی کہ
کب اسے بیرون ملک میں داخلہ ملے گا۔ وہ مختلف ممالک میں جانے کا شوق رکهتی تهی۔ وہ
بائیسویں سال میں تهی۔ اس کے پاس ایک سائیکل تهی۔ اس کا بهی دل چاہتا تھا کہ وہ لڑکوں
کی طرح سائیکل پر آوارہ گردی کرے۔ وہ اپنے حسن کے مراحل میں ڈهل رہی تهی کسی کی بهی
ہمت نا ہوئی کہ کوئی اس سے بات کرے۔ وہ بلا کی حسین اور خوبصورت تهی کہ چاند بهی دیکھ
کر شرما جاتا۔ ایک عرصہ تک اس نے انتظار کیا کہ کب اس کے اچهے رن آئیں گے کب وہ اپنی
زندگی سے لطف اندوز ہو گی۔ وہ بلا کی حسین ہونے کے ساتھ ساتھ ضدی بھی تهی۔ وہ لڑکی
ہواؤں سے باتیں کرتی تهی۔ وہ لوگوں کو اپنا دل کا حال سنانے کے بجائے اللّٰہ تعالٰی
سے ساری باتیں کرتی تهی۔ ہاے میں کیا کہوں؟؟ وہ لڑکی کون ہے؟ اور میری کیا لگتی ہے؟
کیا رشتہ ہے میرا اس سے۔ میں اتنا ضرور بتاؤں
گی کہ وہ لڑکی میری آئیڈیل ہے۔ وہ مجھے دل و جان سے پیاری ہے۔ ہاں وہ میری پیاری ہے۔
وہ میری سہیلی، میری بہن، میرا سب کچھ ہے۔ ہاں وہ ایک ایسی لڑکی ہے کہ جس کی ساری خواہشات
اب ختم ہو چکی ہیں۔ جو اپنے لیے جینا بهول چکی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب قسمت کا تهپڑ لگتا
ہے تو انسان زندگی کی ساری رنگینیوں کو بهول جاتا ہے۔ عورت کو کبھی غمگین نا کرو ورنہ
تم بھی ساری عمر سکون تلاش کرتے پهرو گے مگر تمہیں کبھی سکون نہیں ملے گا۔ تم ساری
عمر عورت سے بس یہی پوچهتے رہ جاؤ گے کہ آخر میرا کیا قصور ہے؟؟ میں نے کیا کیا ہے؟؟
کمال کرتے ہو تم بهی عورت کو رلا کر عورت سے ہی ہمدردی کا ڈرامہ کرتے ہو؟؟ اگر تم ایسا
کرتے ہو تو سن لو تم سے بڑا کوئی بے وقوف ہے ہی نہیں۔ ایسی ہی بات اس لڑکی میں تهی۔
آنا اس کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بهری ہوئی تھی جیسا کہ مرد کی فطرت میں آنا ہوتی ہے۔
اسے اس بات سے شدید نفرت ہوتی تهی کہ کوئی اس کو اپنا کہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ اگر تم
چاہتے ہو کہ تم کسی کو زلیل کرو تو تم اس سے محبت کا ڈرامہ کرو۔ وہ لڑکی اپنے دشمنوں
کے ساتھ بڑے پیار اور محبت سے پیش آتی تهی تا کہ وقت آنے پر وہ سب کو ان کی اوقات دکھا
سکے۔ مگر تم یہ بهی نہیں جانتے کہ عورت محبت کی استاد ہے۔ عورت عشق کی استاد ہے۔ وہ
جس کو بهی نظر بهر کے دیکھ لے اس کو اپنا بنا لیتی ہے۔ وہ ایک پل میں ایک مرد کو پاگل
کرنے کا فن جانتی ہے۔ مگر اسی ایک ہی پل میں مرد کو سکون دینا بهی جانتی ہے۔ عورت یہ
بھی جانتی ہے کہ مرد کو اپنی اداؤں سے کیسے پاگل بنانا ہے۔ ہاں یہ وہ عورت ہی ہے۔ جو
سب کچھ کرنے کا ہنر جانتی ہے۔ مگر ان سب کے باوجود عورت کو ہی ہمت اور صبر کرنا پڑتا
ہے۔ عورت کو اپنی جنگ خود ہی لڑنی پڑتی ہے۔ ایک ایسی جنگ جس میں وہ عورت اکیلی ہوتی
ہے۔ کوئی اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ میں نے یہ بهی سنا ہے کہ مرد اتنا وفادار نہیں ہوتا
جتنا کہ عورت۔ پهر بهی آخر عورت ہی کیوں ساری زندگی بس جنگ ہی لڑتی رہتی ہے۔ کبهی وہ
کس رشتے کی جنگ لڑ رہی ہے۔ تو کبھی کس رشتے کی۔ مگر ان سب کے باوجود میں نے عورت کو
ہمیشہ منافق ہی پایا ہے۔ ہاں عورت منافق ہی ہے۔ وہ اپنے آس پاس رہنے والے سب رشتوں
سے منافقت کر جاتی ہے۔ مگر مرد مرد تو عورت سے کبھی محبت کرتا ہی نہیں۔ اگر وہ ایک
سے محبت کر لے تو دس اور عورتوں کی خواہش اس کے دل میں باقی ہی رہے گی۔ کاش مرد کبهی
جان پاتا کہ عورت کیا چاہتی ہے۔ عورت کا حقیقی مطلب کیا ہے؟؟ مگر جس عمر میں مرد کو
عورت کا مطلب سمجھ میں آتا ہے تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ تب عورت پتهر بن چکی ہوتی
ہے۔ مگر کوئی یہ نہیں جانتا کہ یہ دنیا ایک مکافات عمل ہے۔
Comments
Post a Comment