عنوان:-
عورتوں کے حقوق مرد کے مساوی ہیں
لیکن یکساں نہیں
حصہ
اول
اولاد
آدم کی دو اصناف ہیں مرد و عورت ۔اگر چہ انکی شکل و شباہت حقوق و فرائض میں بہت فرق
ہے ان فرائض کا تعین کرتے ہوئے دونوں کو مساوی اہمیت دی گئی ہے پر یاد رہے مساوی حقوق تو دیتا ہے لیکن یکساں نہیں ۔اگر مرد و عورت
قائم کردہ حدود میں رہتے ہوئے عائد کردہ حقوق و فرائض کو احسن طریقے سے سر انجام دیں تو نہ تو ان میں رقابت ہے اور نہ ہی
مخالفت جیسے رب تعالیٰ فرماتا ہے
اور
جو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور انکی ذرا برابر
حق تلفی نہ کی جائے گی مشینی دور اور سرمایہ
داری کی دھکم پیل میں الجھ کر مسلم اور غیر
مسلم مرد و عورت اسلامی تعلیمات کی مصادر و ماخذات کے بارے میں عام طور پر غلط فہمی
اور نا فہمی کا شکار ہو کر ایک رویہ کی۔ صورت اختیار کر چکی ہے اب وضح
رہے کہ افعال واعمال میں مرد و عورت مساوی تو ہیں لیکن یکساں نہیں ہیں
سورت
نساء آ یت نمبر۳۴
مرد عورتوں پر حاکماور مسلط ہیں اس لئے کہ اللہ نے بعض
کو بعض پر فضیلت قرار دی چوں کہ دوسرا وجود پہلے وجود سے کچھ کم تر اور عام انسانی
وجود سے بلند تر طریقے سے پیدا فرمایا
میں
نے جب بھی لکھا عورت کو صنف نازک لکھا اور عورت کا رتبہ چوں کہ مرد سے ایک درجہ کم ہے .
قر
آ نی آ یت۲۰۲۸۲
کے مطابق ایک مرد
کی گواہی دو عورتوں کے برابر ہوتی ہے
سورہٴ بقرہ آ یت ۲۲۸ جسکا
مفہوم
عورتوں
کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ ہاں مردوں کو عورتوں
پر فضیلت ہے اور اللّه غالب حکمت والا ہے ۔
سورہٴ
نسا ء میں رب تعالیٰ فرماتا ہے مرد
عورتوں پر اقوام ہیں اس بنا پر کہ اللّه نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا
پر کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔اب اگر کوئی یہ کہے کہ عورت آزاد ہے مخالف جنس سے
تو وہ سرا سر گمراہی میں ہے ۔میں عورت کی آزادی
کے خلاف هرگز نہیں ہوں عورت کاشکم چونکہ مرد و عورت کی جنس سے مبرم ہوتا ہے ۔اور عورت
کو اتنے حقوق ملنے چاہیے کہ وہ آ زادانہ طور پر اپنے اخلاقی ,سماجی اور معاشی, معاشرتی امور کو خوش اسلوبی سے سر انجام
دیتے ہوئے ترقی اور کامیابی کی منزلیں طے کر سکے نظام معاشرت میں وہ اپنی فطری
صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ترقی کر سکے
۔لیکن یہ ترقی عورت ہونے کی حیثیت سے ہو ۔مرد
بننا نہ تو اسکا حق ہے نہ ہی اسکے تمدن کیلیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے ۔ جو تعلق
رب نے تابع و مطبوع کا بنایا اسکا نا جائز فائدہ نہ اٹھایا جائے میں عورت کے
استحصال کے خلاف ہوں۔ لیکن بتاتی چلوں دنیاوی
رنگینیوں میں کھو کر اسلامی تعلیمات کے مصادر وما خذات سے رو گر دانی کر کے انکی ممانعت کر کے ترقی و تنزلی کی منزلیں طے کر کے مرد سے آزادی حاصل کرنا چاہتی
ہے تو میں اس کے خلاف ہوں ۔مغربی تہذیب کا رہن سہن اپنا کر خود کو ترقی یافتہ سمجھ
کر مرد کو حقیر جانے تو میں اس کے خلاف ہوں
۔
اسلام
عورت کو بلند مقام عطاء کرتا ہے طاقت کے نشے
میں چور لوگوں کی ظلم و بر بریت سے نکال کر اونچے منصب پر بیٹھا دیا۔ اور اس پے محافظ
اور نگہبان مقرر کر دیا ۔
اور
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عورت آزاد ہے ۔لبرلزم
کا خوشنما ڈھول پیٹا جاتا ہے اور کہا جاتا
ہے کہ اسلام عورت کو قید کرتا ہے ۔قدامت پسند بناتا ہے یہ تو دقیانوسی باتیں
ہیں ۔تو انکی یہ غلط فہمی دور کرتی چلوں کہ اس خوشنما ڈ ھول کے پیچھے اصل وجہ عورت
کی نسوانیت کو خراب کرنا ہے ۔
عورت
کے آزاد ہونے سے مرد آزاد ہو جاتا ہے ۔
اہل
شیطان اور شیطان صفت لوگ آپکو کبھی بھی یہ نہیں کہے گے کہ زنا کرو چوری کرو بلکہ وہ
اپکی ذھن سازی ایسی کرے گے کہ آپکو وہ باتیں معیوب لگنا ہی بند ہو جایئں گی ۔اگر چہ
یہ باتیں بری خوشنما لگتی ہیں ۔مگر در حقیقت یہ برائیوں کی طرف راستہ ہموار کرتی ہیں
۔ اہل فساد و شر اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ عورت نازک ذہن کی مالک ہوتی ہے جلد بہل جاتی
ہے باتوں سے رویوں سے پگھل جاتی ہے تبھی تو انکا مہرہ عورت ہوتی ہے ۔
صحیح
بخاری کی حدیث ۲۰۲۴۵۴۱
جس کے مفہوم کے مطابق حضرت محمّد نے فرمایا کہ عورت عقلی
اور مذہبی طور پر ناقص ہے ۔عورتوں نے جب پوچھا کہ کیا کمی ہے ہمارے مذہب اور عقل میں
تو نبی کریم نے فرمایا ایک مرد کی گواہی دو عورتوں کی گواہی کے برابر ہے یہ ذہنی ناقصی ہے ۔اور حیض کے اوقات میں نماز روزہ نہیں رکھ سکتی یہ مذہبی
ناقصی ہے ۔۔۔۔
بنت
صدیق ۔۔
______________
تحریر
کے لمبا ہو جانے پہ معذرت کرتی ہوں۔ ادنی سی کوشش کی ہے کہ وہ لوگ جو اعتراضات بلند
کرتے ہیں انکے اعتراضات کا جواب دے سکوں۔ جو
لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن کو عربی میں پڑھیں تو عربی میری زبان نہ ہونے کی وجہ سے میری عقل ناقص سمجھنے سے قاصر ہے کہ رب تعالیٰ کیا فرما رہا ہے اسی لئے سب اسی زبان میں پڑھیں گے نا جس میں سمجھ سکیں ۔
**********
عنوان:-
عورتوں کے حقوق مرد کے مساوی ہیں
لیکن یکساں نہیں
حصہ
دوم
سید
ابوالاعلی مودودی لکھتے ہیں
سب
سے اہم اور ضروری چیز جسکی بدولت انسان کی منزلت قائم ہوتی ہے جس کے زریعے سے وہ اپنی
منزلت کو برقرار رکھتا ہے ۔وہ اسکی معاشی حیثیت
کی مظبوطی ہے ۔اسلام کے سوا تمام مذاہب نے عورت کو معاشی حیثیت سے کمزور کیا ہے ۔اور
یہی معاشی بے بسی عورت کی۔ غلامی کی سب سے
بڑا سبب بنی ہے ۔عورت کو ایک کمانے والا فرد بنا دیا ہے ۔اسلام تو بیچ کا راستہ اختیار
کرتا ہے ۔عورت کا نوکری کرنا مرد کی طرح سخت رویے برداشت کرنا بهانت بهانت کے لوگوں
کی نظروں کو نظر انداز کرنا شائد اب اتنا معیوب خیال نہیں کیا جاتا ہے ۔
حضرت
خدیجہ جو اسلام کی پہلی تاجر خاتون تھیں ۔حضرت صفیہ کا میدان جنگ میں دشمنوں کا قلع
کم کر کے کامیابی کے جھنڈے گھاڑنا اس بات
کا ثبوت ہے کہ عورت کا نوکری کرنا معیوب نہیں ہے ۔مگر لباس کی تمیز کو نہ بھولاتے ہوۓ
قائم کردہ اصولوں پر عمل درآمد کرتے ہوۓ
اجازت دی گئی ہے ۔
سوره
احذاب آ یت ۳۳ :" اپنے
گھروں میں بیٹھی رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح
بناؤ سنگھار نہ کرتی پھیرو"
عورت کا خود کو چھپانا اتنا ہی
اہم ہے جتنا زندہ رہنے کیلئے سانس ۔مگر افسوس آج کا انسان اس واضح غلط فہمی کا شکار ہے کہ پردہ داری ایک غیر ضروری امر ہے دنیاوی
مسائل پردہ داری سے کئی زیادہ توجہ کے طلب گار ہیں ۔اور کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ
یہ صرف مولویوں تک محدود ہے اور انہی کی دقیانوسی باتیں ہیں ۔ یہ باتیں تو ناولز میں ہی اچھی لگتی ہیں مگر بتاتی چلوں کہ قرآن پاک
میں بیشتر مقامات میں پردے کا بیان اس بات
کا ثبوت ہے کہ یہ کسی انسان کی ایجاد نہیں ہے۔چوں کہ خالق کا حکم ہے اس لئے غیر ضروری
هرگز هرگز نہیں ہے ۔جب کوئی فن کار اپنے فن
پارے کو اپنی مرضی کے بغیر ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دیتا تو وہ رب اپنے تخلیق کیے ہوۓ
بندوں کے بارے میں۔ کیسے یہ پسند کر سکتا ہے ۔خوش رہیں حدود کو عبور نہ کرتے ہوئے بھی
ہم زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔خدا آپکا حامی و ناصر ہو ۔
بنت
صدیق
***********
Comments
Post a Comment