(Aqsa falak) وفافروش
*بلاشبہ یہ ایک ناول تھا جس
نے مجھے بہت متاثر کیا . تو اس میں ایسا کیا تھا کے میں اس موضوع پر تحریر لکھنے پر مجبور ہوگئ . یہ کہانی
تھی ایک ایسے نوجوان پر جو کہ وفا فروش تھا . آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ میری اس
"وفا فروش " لفظ سے کیا مراد ھے ؟ اگر نہیں تو آئیے میں سمجھا دیتی ہوں
. "وفا فروش " یعنی وفاووں کو بیچنے والا . آپ کہیں گے کہ بھلا وفاوؤں کو
کون بیچتا ھے ؟ لیکن وہ شخص تو بیچتا تھا . اور لوگ اس کو منہ مانگی قیمت ادا کرکے
اسکی وفاوؤں کو خرید لیتے تھے . کاش کہ ریلر لائف میں بھی ایسا ہوسکتا ہم لوگوں کو
منہ مانگی قیمت دیکر ان سے انکی ساری وفاوؤں کو خرید لیتے . وہ شخص کون تھا ؟ کیوں
وفاوؤں کو بیچتا تھا ؟؟ اسکا جواب تو میں یہاں
نہیں دے سکتی لیکن یہاں اہم بات وہ
نتائج ہیں جو اس انمول شخص کی وفاوؤں کے ذریعے
سے نکلے . اس کا کام دراصل ان لوگوں کو زندگی
کی طرف لانا تھا جو کہ اپنی زندگی سے نا امید
ہو بیٹھے تھے . جنہوں نے اپنی زندگی کیلیے خوشیوں کے سب دروازے خود پر بند کر لیے تھے
. وہ ان مایوس لوگوں کو زندگی کی طرف لاتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کی دی
گئ بے وفائیوں کے جو کانسیپٹ لوگوں کے ذہن پر قائم ہوچکے تھے انہیں مٹاتا کے دنیا میں
اب بھی وفا نام کی کوئی چیز موجود ھے . تو سوچیں کیا اسکا سودا براتھا ؟
میرے خیال میں میں وہ ایک بہت نیک شخص تھا . دراصل کہانی میں وہ شخص وفا فروش کی ویب سائیٹ پر
ایولیبل تھا , زندگی سے مایاس لوگ اس کو کچھ عرصے کے پیسے دیکر ہائر کرلیتے . پھر وہ شخص انکی زندگی کا مطالعہ
کرتا کہ دراصل اس ناامیدی کے پیچھے ایسے کون
سے اثرات موجود ہیں . ان کو وقت دیکر , الفاظ دیکر , محبت دیکر وہ ان سے وفا کرتا
, اورجب وہ لوگ پہلے کی طرح نارمل زندگی گزارنے لگتے , تو اس کے بعد وہ دوبارہ ان لوگوں
کیلیےاجنبی بن جاتا , انکے رازوں کی پردہ پوشی کرتا ,تو چیں چلتے ہیں اب ہم ریلاٹی
کی طرف ہوتا کیا ھے , ہم چلتے پھرتے لوگوں
کے منہ پر الفاظ کے تماچے مار جاتے ہیں , کیا ہمیں معلوم بھی ھے کہ ہمارا کہے حرف دوسرے
کی زندگی پر کیسے اثرات مرتب کرسکتے ہیں . ہم تو بات کہہ کر بھول جاتے ہیں لیکن دوسرا
شخص اسے ہمیشہ یاد رکھتا . جبکہ دوسری طرف اگر کوئی کسی کو سہارا دیتا ھے , کسی کو
اس وقت ان کریج کرتا ھے کے جب زندگی کی تمام امیدوں کے دروازے اس شخص پر بند ہوگئے
ہوں , تو اس شخص پر جو اس کا پوزیٹو اثر قائم
ہوگا وہ الگ ھے وہ شخص زندگی کے ہر موڑ پر
آپکے ان الفاظ کو یاد رکھے گا وہ الگ ھے وہ کے دل سے پھر جو دعائیں نکلیں گی وہ الگ
ھے , اور اسکی دعائیں جب عراش کا مالک قبول کرے گا وہ الگ ھے , اور جب وہ دعائیں آپکے
حق میں قبول ہوںّ گی اور آپکی زندگی میں خوشیوں کےاور معجزوں کے رنگ بھریں گی وہ الگ
ھے . وفا فروش کی بات کرتے ہیں , کیوں نہ. ہم بھی وفا فروش بن جائیں جو اپنی وفاوؤں
کے ذریعے سے ٹوٹے دل پر مرہم کا کام دے , کیوں نہ وہ وفائیں ہم بھی اپنے اندر پیدا
کریں کہ ہمارے جانے کے بعد ہماری وہ وفائیں باقی رہ جائیں جب ہم باقی نہیں رہیں گے
, وہ جو اداس اور مرجھائےچہرے پر مسکراہٹ کا سبب بن جائے , وہ جو ہماری وفاوؤں کو دیکھ
کر ہمارے سامنے موجود شخص کی زندگی کو حیرت میں ڈال دے , کیوں نہ ہم اس وقت وفا کا
پیکر بن جائیں جب ہر جانب بے وفائیوں کے اثرات قائم ہوں , کیوں نہ خود کو بے مول کرکے
اپنی وفاوؤں کو لٹا کر ہم انمول بن جائیں . کیونکہ ہم تو باقی نہیں رہیں گے لیکن ہماری
یادیں باقی رہ جائیں گی . کیوں نا آج سے عہد کیا جائے کہ کبھی بھی اپنے الفاظ کے ذریعے
سے کسی کا دل نہیں چیریں گے , کیوں نا آج سے یہ نیت کی جائے کہ لوگ ہم پر جتنے بھی
ستم ڈھا دیں ہم ان کے ستم کا جواب معافی کی
صورت میں ہی دیں گے . کیوں نا یہ ارادہ کیا جائے کہ ہمارا کردار ایسا ہو , کے جس سے
لوگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں . بڑوں کا احترام , چھوٹوں سے پیار محبت , ایک ایسا
کردار کہ جس کے بارے میں روز قیامت لوگ گواہی دیں کے یا ربی دنیا میں جس وقت میں محتاجی
میں مبتلا ہوگیا تھا تو سب لوگوں نے مجھ اپنے دروازوں کو بند کردیا , لیکن اس تیرے
بندے نے یاربی مجھ پر دروازہ بند نہ کیا , بلکہ اس نے میری مدد کی , جب میں رو رہا
تھا تو اس نے اچھے الفاظ کے ذریعے سے میرے دل پر مرہم رکھا , جب میں غصہ میں تھا ,
تو اس شخص کی وجہ سے میرا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئ . تو آئیے
ایک ایسا کردار بننے کی نیت کرتے ہیں کہ جس
کیلیے روز قیامت فرشتے بھی گواہی دیں , اور ہمارا کردار اور خوبصورت دل روز قیامت ہماری
بخشش کا ذریعہ بن جائے .کیونکہ رب تعالی اپنے حقوق تو معاف کردیں گے لیکن بندوں کے
حقوق یا ان پر کیے گئے ظلم و ستم تب تک معاف نہیں کریں گے جب تک کہ بندے خود نا معاف
کردیں . *
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment